ٹی 20 ورلڈ کپ 2016 کے کئی میچ فکس ہونے کی باز گشت

بدنامی کا سبب بننے والے عناصر نے پورے میچ کے نتائج فکس کرنے کی بجائے اپنی توجہ اسپاٹ فکسنگ پر مرکوز کر رکھی ہے، آئی سی سی
 آئی سی سی ٹی20ورلڈ کپ2016کے انعقاد سے قبل ہی ماضی کی طرح میچ فکسنگ اور سٹے بازی کی باز گشت سنائی دے رہی تھی تاہم آئی سی سی حکام کی کوششوں کے نتیجے میں برصغیر کے مقبول ترین کھیل کو بدنامی سے بچانے کی حتیٰ الامکان کوششیں کی گئیں۔بلا شبہ ٹورنامنٹ کے آغاز سے کھیلے گئے تقریباً نصف درجن مقابلوں میں میچ فکسنگ کے خاتمے کی کوششیں بارآور ہوتی دکھائی دے رہی تھیں مگر بھارت-بنگلہ دیش میچ کے اختتام کے فوری بعد ہی سے متعدد حلقوں کی جانب سے میچ فکس ہونے کے الزامات سامنے آنا شروع ہو گئے جوکہ محض چند گھنٹوں بعد ہی نہ صرف خود بھارتی بلکہ بین الاقوامی ذرائع و ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن گئے۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ انٹر نیشنل کرکٹ کونسل ( آئی سی سی) کے اینٹی کرپشن یونٹ کی جانب سے بین الاقوامی مقابلے کی ساکھ کو بچانے کی بھرپور کوششیں کی گئیں مگر بھارت میں سٹے بازی اور اسپاٹ فکسنگ کی جڑیں انتہائی گہری ہونے کے باعث بالاخر شکوک و شبہات حقیقت کی شکل میں سامنے آگئے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ مرحلے کے آغاز پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے خبردار کیا تھاکہ میچ فکسنگ کرنے والے، چھوٹی یا نئی ٹیموں کو استعمال کر سکتے ہیں ۔ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائنگ مرحلے میں پہلا میچ ہانگ کانگ کا زمبابوے کے ساتھ ہو ا۔ تاہم نئی ٹیم بدعنوانی کے اسکینڈل کا شکار ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں اس ٹیم کے آل راؤنڈر کھلاڑی عرفان احمد کو معطل کیا گیا ۔ چیف ایگزیکٹو ڈیوڈ رچرڈسن نے بھی گوکہ کسی انٹرنیشنل ٹیم کے کرپشن میں ملوث ہونے کی نشاندہی نہیں کی تاہم انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ ٹیسٹ میچ کھیلنے کا درجہ نہ رکھنے والے ممالک، جنہیں ایسوسی ایٹ ممبرز کہا جاتا ہے، بدعنوانی کا شکار ہونے کے زیادہ خطرات سے دو چار ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ”بدقسمتی سے یہ وہ دنیا ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ یہاں بدعنوان افراد موجود ہیں جو کھلاڑیوں کو قابو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

میچز کا آغاز ہونے کے فوری بعد آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ رونی فلیناگن تو یہاں تک کہنے پر مجبور ہوئے کہ کھیل کی بدنامی کا سبب بننے والے عناصر ہماری انتہائی کوششوں کے کے باوجود پورے میچ کے نتائج فکس کرنے کی بجائے اب اپنی توجہ اسپاٹ فکسنگ پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کرپٹ عناصر نہ صرف بالرز بلکہ بیٹسمینوں کو بھی اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کرکٹ کی عالمی باڈی کی کوششوں کی نیک نیتی ثابت کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آئی سی سی نے اس بار ایک کتابچہ شائع کیا ہے جسے پلیئرز اپنے والٹ میں رکھ سکتے ہیں۔کتابچہ میں پلیئرز کی رہنمائی کرتے ہوئے اینٹی کرپشن کوڈ ،رولز اور ذمہ داریوں کی مکمل تفصیل دی گئی ہے کہ انہیں میچز کو بدنامی سے بچانے کے لئے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔66سالہ فلیناگن کا کہنا تھا کہ اس مرحلہ پر بکیوں کے لئے پورے میچز کو فکس کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے تاہم انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ تسلیم کیا کہ جوئے اور سٹہ باز یہ کوشش ضرور کر سکتے ہیں کہ و ہ کسی بیٹسمین کو بھاری رشوت کے عوض دس رنز بنانے کا موقع ضائع کرنے یا کسی بالر یا بیٹسمین یا فیلڈر کو اس بات پر راضی کر سکتے ہیں کہ وہ کوئی کیچ ڈراپ کر دے یا پھر اپنی وکٹ گنوا دے۔انہوںنے ضمانت دی تھی کہ کسی میچ کے پورے نتائج کو فکس کرنامشکل بنا دیا گیا ہے مگر اسپاٹ فکسنگ روکنے کے لئے وہ آئی سی سی کی جانب سے کوئی ضمانت دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔

بنگلہ دیش کے خلاف میچ جیتنے کے بعد ای ایس پی این سے گفتگو کرتے ہوئے بھارتی کپتان دھونی نے اپنے بیٹسمینوںکو اس فتح کا حقدار قرار دیا جبکہ بنگلہ دیشی کپتان نے آخری تین گیندوں کو فیصلہ کن قرار دیتے ہوئے اپنی ٹیم کی شکست قبول کر لی مگر کرکٹ حلقوں میں تواتر کے ساتھ یہ میچ فکس ہونے سے متعلق دلائل پیش کئے جا رہے ہیں۔ اس میچ کے تناظر میں کرکٹ حلقوں نے بھارت پاکستان میچ کو بھی فکس قرار دے دیا ہے۔ دلچسپ امر یہ کہ بھارتی کپتان مہندر سنگھ دھونی اپنے ٹھنڈے مزاج ہونے کی حیثیت سے مشہور ہونے کے باوجوداس میچ کے اختتام پرجذبات میں آگئے۔بنگلہ دیش کے خلاف میچ جیتنے کے بعد ایک صحافی کے طنز پر مہندر سنگھ دھونی برہم ہوگئے، پوسٹ میچ کانفرنس میں صحافی نے بنگلہ دیش کے خلاف بھارت کے رن ریٹ پر طنز کیا تھا۔ دھونی کا کہنا تھا کہ آپ کا انداز، آپ کے الفاظ اور لہجہ بتا رہا ہے آپ کو زیادہ خوشی نہیں ہوئی، کرکٹ میں کوئی طے شدہ اسکرپٹ نہیں ہوتا، سب حالات کے مطابق چلتا ہے، باہر بیٹھ کر تجزیہ کرنا آسان کام ہے مگر حالات موافق نا ہوں تو منصوبے سے چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔

آئی سی سی ٹی20ورلڈ کپ2016 کے نتائج میں کرپشن کا دخل کس حد تک ہے اس کی حقیقی تصویر تو فائنل کے اختتام پر واضح ہو گی مگر اسپاٹ فکسنگ اور سٹے بازی کے نتیجے میں نتائج تبدیل نہ کئے جانے پر کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ رونی فلیناگن نے پہلے ہی یہ کہ دیا تھا کہ بعض کھلاڑیوں نے سٹہ بازوں کو سہولت دینے کیلیے میچز میں گڑ بڑ کی پلاننگ کی ہوئی ہے۔ انہوںنے انکشاف کیا کہ ایک انٹرنیشنل ٹیم کرپشن کے حوالے سے تحقیقات کی زد میں ہے مگر ہمارے لیے مخصوص تفصیلات کو ظاہرکرنا مشکل ہے اور میں یہ نہیں بتاسکتا کہ اس وقت کون سے کیس پر کام ہورہا ہے۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ پوری ٹیم کے بر عکس چند انفرادی کھلاڑی کرپٹ سرگرمیوں کا ارادہ رکھتے ہیں، ہم نے پولیس کی طرح ہی اس کیس میں کچھ اہم فیصلے کیے، جن کے تحت ہم نے فوری طور پر کارروائی کا فیصلہ کیا، ہماری توجہ ان انفرادی پلیئرز کی جانب ہے جن پر ہمیں شک ہے جبکہ ہم پورے اسکواڈ کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں گے، ہم نے اس مخصوص کیس میں ایک دو کھلاڑیوں کے خلاف ایکشن لیا اور مزید کارروائی بھی کریں گے۔

پہلی بارکرکٹ میں سٹہ بازی کا تنازع اس وقت منظر عام پر آیا جب دہلی پولیس نے سال2000 میں سٹہ بازی پر تحقیقات کا آغاز کیا۔ پولیس نے ملنے والے شواہد کی روشنی میں جنوبی افریقہ کے اس وقت کے کپتان ہنسی کرونیئے اور ان کے تین ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ یہ مقدمہ کرونیئے اور جنوبی افریقہ کے تین دیگر کھلاڑیوں کی ایک سٹہ باز سے ٹیپ شدہ گفتگو کی بنیاد پر قائم کیا گیا۔ ہنسی کرونیئے نے بعد ازاںجنوبی افریقہ کے کنگز کمیشن میں اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے پچ اور ٹیم سے متعلق معلومات فراہم کرنے کے عوض سٹہ بازوں سے ہزاروں ڈالر رشوت وصول کی ہے۔ تاہم انہوں نے میچ فکسنگ کے الزام کی تردید کی۔اس اعتراف کے نتیجے میںہنسی کرونیئے پر تاحیات کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگا دی گئی۔ وہ2002میں ایک فضائی حادثے میں جاںبحق ہو گئے اور میچ فکسنگ سے متعلق بہت سے حقائق پر پردہ پڑ گیا۔ کرکٹ میں سٹہ بازی سے متعلق دیگر معاملے ہنسی کرونئیے کیس کی طرح مشہور نہیں ہوئے مگر ایسے کیسز سے کرکٹ کا دامن آلودہ ہوتا رہا ہے ۔آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے شین وارن اور مارک وا پر1994 میں ایک سٹہ باز کو پچ اور موسم کی صورت حال بتانے کے الزام میں جرمانہ عائد کیا۔انڈیا کی وفاقی پولیس کی اکتوبر2000میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کئی کھلاڑیوں پر کرپشن میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا اور کہا گیا کہ سٹہ بازوں کے گروپوں کے انڈرورلڈ سے روابط ہو سکتے ہیں۔انڈین کرکٹ بورڈ کی تحقیقات کے نتیجے میں سابق کپتان محمد اظہرالدین اور کھلاڑی اجے شرما پر تاحیات جبکہ منوج پربھاکر اور اجے جڈیجہ پر پانچ سال تک کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگا دی گئی۔ سال2000 میںہی سابق پاکستانی کپتان سلیم ملک اور بالر عطاءالرحمان پر بھی میچ فکسنگ کے الزامات کے تحت کرکٹ کھیلنے پر تاحیات پابندی لگا ئی گئی۔

جنوبی افریقہ کرکٹ بورڈ نے بھی ڈومیسٹک کرکٹ میں کرپشن سے متعلق تحقیقات کیں ۔ یہ ، تحقیقات بین الاقوامی سنڈیکیٹ کے کرپشن میں ملوث ہونے کی اطلاعات کے بعد کی گئیں۔کرکٹ ساو ¿تھ افریقا کے چیف ایگزیکٹو ہارون لورگاٹ کا کہنا تھا کہ ہر سطح پر کرکٹ کی شفافیت قائم رکھنے کے لیے پرعزم ہیں اور تمام کھلاڑی اور اسپورٹ اسٹاف کرپشن کے بچاو ¿ کے اقدامات سے آگاہ ہیں اور کرپشن کا شکار ہونے کی صورت میں اس کے نتائج بھی بخوبی جانتے ہیں۔انٹرنیشنل کرکٹ کونسل(آئی سی سی) نے بھی لندن میں اسپاٹ فکسنگ کے شواہد ملنے کے بعد پاکستانی پلیئرز سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر پر باقاعدہ مقدمہ چلا کر پابندی عائد کر دی۔ محمد عامر کو بعد ازاں کم عمری کی رعائت دیتے ہوئے نظرثانی کا اعلان کیا گیا۔ پی سی بی کی کوششوں سے عامر مرحلہ وار ڈومیسٹک اور پھر انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آ چکے ہیں ۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی پر کبھی بھی کسی بھی جانب سے میچ فکسنگ کے حوالے سے انگلی نہیں اٹھائی گئی مگر ٹیم کے کئی دیگر کھلاڑی اب شکوک و شبہات کی زد میں ہیں۔ گو کہ پی سی بی نے شاہد آفریدی اور وقار یونس کو فارغ کرنے کا اعلان کر دیا ہے تاہم کرکٹ حلقوں کی رائے ہے کہ شاہر آفریدی کو قربانی کابکرا بنایا گیا ہے۔ بلا شبہ آفریدی پر بعض غلط فیصلوں کی ذمہ داری عائد کی جا سکتی ہے تاہم انہیں میچ کے نتائج تبدیل کرنے میں حصہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔میچ فکسنگ، اسپاٹ فکسنگ اور سٹے بازی یا جوئے بازی کے لئے میچ کے نتائج تبدیل ہونے کے بارے میں الزامات تو آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ کی تحقیقاتی رپورٹ ہی منظر عام پر آنے کی صورت میں ثابت ہو سکیں گے تاہم اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ کئی ٹیموں کے خراب کھیل کے باعث کر کٹ میں کرپشن کے شبہات کو تقویت ملی ہے۔


 
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 70970 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More