مسجد میں عورت

جامع مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی تھی کہ کہیں سے ایک عورت کے بولنے کی آواز کانوں پر اپنا دباؤ بڑھانے لگی۔شاید کوئی عورت اپنے بچے کی شکایت لے کر آئی تھی کہ وہ صحیح طریقے سے پڑھ نہیں رہا۔ ایسی شکایت یا بچوں کی باہمی لڑائی کی شکایت قاری صاحب یامسجد کی انتظامیہ سے اکثر کی جاتی ہیں ،کیوں کہ جہاں بچے ہوتے ہیں وہاں شکایت ضرور ہوتی ہے ۔ شاید وہ عورت کوئی ایسا مسئلہ قدرے اونچی آواز میں کسی ذمہ دار شخص سے ڈسکس کر رہی تھی۔

نمازی اپنی اپنی نماز میں مصروف رہے۔ اور آہستہ آہستہ نماز ادا کرتے ہوئے گھروں کی راہ لینے لگے۔

میں بھی اپنی نماز کی ادائیگی سے فارغ ہوا لیکن وہ آواز مسلسل آرہی تھی۔ شام کا گہرا ہوتا اندھیرا اس آواز کو خاموش یا کم از کم کم کرنے میں ناکام ہو چکا تھا۔ اس آواز کے مسلسل آنے نے مجھے بھی تجسس میں ڈال دیا کہ آخر یہ ہے کون جو بولے ہی جا رہی ، چپ ہی نہیں کر رہی۔ میں نے آخراپنی نظروں کو اس طرف جانے کو کہا جدھر سے آواز میرے کانوں کو ڈسٹرب کئے جا رہی تھی۔ جب میں نے باہر دیکھا تو میری نظر مسجد کے مرکزی گیٹ پر کھڑی دو نوجوان لڑکیوں پر پڑی۔ آج تک اتنی نوعمر لڑکیاں مسجد کے دروازے پے میں نے کھڑی نہیں دیکھی تھیں۔ بوڑھی ، ضعیف عورتیں تو ہر طرف ہی مانگ رہی ہوتی ہیں۔ اور خانہ بدوشوں کی نوجوان لڑکیاں تو اپنے روٹ کا ایک چکر لگا کر دیہاڑی پوری کر لیتی ہیں۔ لیکن وہ مسجد کے دروازے پے نہیں آتیں۔ زیادہ تر بازار اور سڑک پر موجود دکانوں پر سے ہی اپنا حصہ طلب کرتی ہیں اور ایک جھونکے کی طرح گزر جاتی ہیں۔ لیکن یہ دوشیزائیں تو شام کا اندھیرا گہرا ہونے کے باوجود کھڑی تھیں اور مانگے جا رہی تھیں۔ ان کی آواز سے لگتا تھا کہ وہ کوئی پیشہ ور مانگت نہیں ہیں۔ ایسے بھی لگتا تھا جیسے وہ آج پہلے ہی دن گھر سے نکلی ہوں اور مسجد کے دروازے سے اپنے کیریئر کا آغاز کر رہی ہوں۔

ان میں ایک لڑکی پندرہ سال کے قریب لگتی تھی جبکہ دوسری بیس سال کے لگ بھگ تھی۔بیس سال والی نے برقعہ پہنا ہوا تھا اوراچھی طرح نقاب بھی کیا ہوا تھا ،جبکہ پندرہ سال والی نے صرف سر پر چادر رکھی تھی ۔وہ مسلسل بولے جا رہی تھی۔ یہ پندرہ سال والی ہی تھی جس کی آواز ساری مسجد میں گونج رہی تھی۔ وہ اپنی زبان کے ساتھ ساتھ اپنے دونوں ہاتھ اور کلائیاں بھی مسلسل ہلائے جا رہی تھی۔ وہ کچھ کہہ رہی تھی ، جیسے کہ مانگنے والے کہتے ہیں لیکن اس سے پیشہ ورانہ لوگوں جیسا سر تال نہیں بن رہا تھا ۔وہ اس شعبے میں بالکل نووارد لگتی تھیں۔

نمازی مسجد سے باہرجا رہے تھے، وہ مانگ رہی تھی، لوگ کچھ کچھ مدد کر رہے تھے۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر مسئلہ کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے۔ یہ لڑکیاں محلے ہی سے لگ رہی تھیں لیکن وہ مانگ کیوں رہی تھیں، شاید وہ محلے کی نہیں تھیں۔ میرے اندر کئی ایک سوال سر اٹھانے لگے تھے۔میں چاہتا تھا کہ ان سے پوچھوں کہ ان کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ وہ کہاں کی رہنے والی ہیں، ان کے ماں باپ، گھر والے وغیرہ بہت سے سوال ان سے پوچھے جا سکتے تھے۔لیکن نوجوان لڑکیوں کے پاس کھڑے ہونا اور ان سے باتیں کرنا مناسب نہ تھا؟ کبھی کبھی تو یہ خیال ذہن کی دیواروں سے ٹکرا جاتا کہ ان کو اپنے گھر لے جاؤں اور تفصیل سے ان کا مسئلہ پوچھوں ، ان کی امکان بھر مدد بھی کروں۔

لیکن ایک بہت بڑے لیکن نے میرا رستہ روک لیا ، لیکن اگر میں ان کے زخموں پر مرہم نہ رکھ سکا ، اگر ان کے اندر کوئی فراڈ ہو ، یا مجھے دینے کے لینے نہ پڑ جائیں۔ اس طرح کے بہت سے لیکن اور بہت سے اگر، مگر میرے ارادوں کو منجمد کرنے لگے تھے۔

میں مسجد سے باہر کو چل پڑا ، جیب میں ہاتیھ ڈالا اور پچاس روپے کا ایک پرانہ سا نوٹ نکال کر اس پندرہ سال والی دوشیزہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ وہ کچھ الفاظ بولے جا رہی تھی۔اس کی بڑی بہن اپنے نقاب کو پکڑ کر مذید کس رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں کچھ تہہ کئے نوٹ تھے، جنہیں وہ اپنے ہاتھ کی ہتھیلی میں مذید دبا رہی تھی۔ میں ان سے بات کرنے کی جرائت نہ کر سکا اور مسجد سے باہر آگیا ، گھر کی طرف چل پڑا لیکن اندر سے ابھی آواز کا سلسلہ جاری تھا اور پندرہ سال کی دوشیزہ ابھی مانگنے کے انداز میں بولے جا رہی تھی۔ ادھر میرے سوالات میرے ذہن میں ایک بار پھر سے دہرائے جانے لگے تھے اور میرا شعور ایک بار پھر ان کو اسی تدبر سے چپ کرا رہا تھا جیسا اس نے پہلے کیا تھا۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 283380 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More