نماز سے استعانت

مصائب و آلام سے کوئی شخص مبرّا نہیں۔ ہر کسی کو کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں رنج و غم، تکالیف، پریشانیوں کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ مصائب ہمارا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں، شیطان ہمارے قدموں کو ڈگمگانے پر کمربستہ ہو جاتا ہے۔ جب ظاہری اسباب معدوم ہو جاتے ہیں اور آزمائشوں سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تو ابلیس ملعون ہمیں رضا بالقضا اور توکل الی اللہ سے محروم کر کے مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ایسے موقع پر اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی فرمائی ہے اور استعانت کے لیے دو ہتھیار عطا فرماتے ہیں ہیں جو نا صرف اُسے ان مشکلات سے بچ نکلنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ اُس کے دشمن شیطان سے مقابلے کی ہمت اور استقامت بھی مہیا کرتے ہیں اور اُس کے دل کو سکون و اطمینان کی ایسی روشنی سے منور کرتے ہیں کہ مایوسی کے اندھیرے دور ہو جاتے ہیں۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَاسْتَعِیْنُوْ ا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ وَاِنَّھَالَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ ﴿سورہ بقرہ: ۵۴﴾
ترجمہ: اور ﴿رنج وتکلیف میں﴾ صبر اور نماز سے مدد لیا کرو اور بے شک نماز گراں ہے، مگر ان لوگوں پر ﴿گراں نہیں﴾ جو عجز کرنے والے ہیں۔

جہاں تمام گناہوں کی بنیاد حب مال، حب جاہ اور غرور و تکبر ہے وہاں دنیا میں پیش آنے والے مصائب و مشکلات پر بے جا رنج و غم اور مایوس کن رویہ بھی بعض اوقات حب مال و حب جاہ کا نتیجہ ہوتا ہے اور کبھی کبھی دل میں چھپا ہوا تکبر ایسے حالات انسان کو انتقامی جذبے کے تحت ظلم کی طرف لے جاتا ہے۔ اور یہ راستہ نا صرف انسان کو اللہ تعالیٰ کی رضا سے دور کرنے والا ہے بلکہ اُس کے ایمان کے لیے بھی مضر ہے۔

صبر سے حبّ مال گھٹ جاتی ہے کیونکہ مال اسی وجہ سے مطلوب و محبوب ہوتا ہے کہ وہ ذریعہ ہے لذت و شہوات کے پورا کرنے کا جب صبر کے ذریعے ان لذات و شہوات کو ہی ترک کردیا جائے تو پھر مال کی فراوانی کی ضرورت نہیں رہتی۔ اور نماز سے حب جاہ کم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ نماز ظاہر اور باطنی ہر طرح سے پستی اور عاجزی پیدا کرتی ہے جس سے تکبر و غرور کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ جب نماز کو صحیح صحیح ادا کرنے کی عادت ہو جائے تو حبِ جاہ و منصب اور تکبر و غرور گھٹے گا۔ صبر تو صرف غیر ضروری خواہشات اور شہوات کا ترک کرنا ہے اور نماز میں بہت سے افعال کا واقع کرنا بھی ہے اور بہت سی جائز خواہشات کو بھی وقتی طور پر ترک کرنا ہے مثلاً کھانا، پینا، کلام کرنا، چلنا پھرنا، اور دوسری انسانی ضروریات جو شرعاً جائز و مباح ہیں ان کو بھی نماز کے وقت ترک کرنا ہے اور وہ بھی پابندی کے ساتھ دن رات میں پانچ مرتبہ اور خود ایک دشوار چیز ہے اس لیے ارشاد فرمایا کہ بیشک نماز دشوار ضرور ہے مگر جن کے قلوب میں خشوع ہو ان پر کچھ بھی دشوار نہیں۔ خشوع کے معنی سکونِ قلب کے ہیں اور سکون سے نماز میں آسانی ہو کر اس پر مداومت اور پابندی نصیب ہو جاتی ہے اور اس پابندی سے کبر و غرور اور حب جاہ کم ہو جاتا ہے اور ایمان کے راستہ میں جو کچھ حائل ہے و ہ دور ہو کر ایمان کامل ہو جاتا ہے۔ ایمان کامل ہو گا تو رضا بالقضا بھی حاصل ہوگی اور توکل الی اللہ بھی، مایوسی انسان سے کوسوں دور چلی جائے گی۔

ایک اور مقام پر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ﴿سورہ بقرہ: ۳۵۱﴾
ترجمہ: اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

یعنی ہر مشکل، پریشانی اور تکلیف میں اپنا غم ہلکا کرنے کے بارے میں صبر اور نماز سے سہارا اور مدد حاصل کیا کرو اور اللہ تعالیٰ ہر حال میں صبر کرے والوں کے ساتھ رہتے ہیں اور نماز پڑھنے والوں کے ساتھ تو بدرجۂ اولیٰ۔ کیونکہ نماز سب سے بڑی عبادت ہے جب صبر میں یہ وعدہ ہے تو نماز جو اسے بڑھ کر ہے اس میں تو بدرجۂ اولیٰ یہ بشارت ہوگی۔

مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع(رح) اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ، اس آیت میں یہ ہدایت ہے کہ انسان کی تمام حوائج و ضروریات کے پورا کرنے اور تمام آفات و مصائب اور تکالیف کو دور کرنے کا نسخۂ اکسیر دو جز سے مرکب ہے ایک صبر، دوسرے نماز، اور اس نسخہ کے تمام حوائج اور تمام مصائب کے لیے عام ہونے کی طرف قرآن عطیم نے اس طرح اشارہ کر دیا ہے کہ اسْتَعِیْنُوْا کو عام چھوڑا ہے، کوئی خاص چیز ذکر نہیں فرمائی کہ فلاں کام میں ان دونوں چیزوں سے مدد حاصل کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ ان سے انسان کی ہر ضرورت میں مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔‘‘

آگے جا کر تحریر فرماتے ہیں:
’’درحقیقت نماز اور تمام عبادات صبر ہی کے جزئیات ہیں، مگر نماز کو جداگانہ بیان اس لیے کر دیا کہ تمام عبادات میں سے نماز ایک ایسی عبادت ہے جو صبر کا مکمل نمونہ ہے، کیونکہ نماز کی حالت میں نفس کو عبادت و طاعت پر محبوس بھی کیا جاتا ہے، اور تمام معاصی و مکروہات سے بلکہ بہت سے مباحات سے بھی نفس کو بحالتِ نماز روکا جاتا ہے، اس لیے صبر جس کے معنی نفس کو اپنے قابو میں رکھ کر تمام طاعات کا پیرو اور تمام معاصی سے مجتنب و بیزار بنانا ہے، نماز اس کی ایک عملی تمثیل ہے۔

اس کے علاوہ نماز کو انسان کی تمام حاجات کے پورا کرنے اور تمام آفتوں مصیبتوں سے نجات دلانے میں ایک خاص تاثیر بھی ہے، گو اس کی وجہ اور سبب معلوم نہ ہو، جیسے دواؤں میں بہت سی ادویات کو مؤثر بالخاصہ تسلیم کیا جاتا ہے، یعنی کیفیات حرارت و برودت کے حساب سے جیسے کسی خاص مرض کے ازالہ کے لیے بعض دوائیں بالخاصہ مؤثر ہوتی ہیں، جیسے دردِ گردہ کے لیے فرنگی دانہ کو ہاتھ یا منہ میں رکھنا،. لوہے کو کھینچنے میں مقناطیس مؤثر بالخاصہ ہے، وجہ معلوم نہیں، اسی طرح نماز تمام انسانی ضروریات کی کفالت اور تمام مصائب سے نجات دلانے میں مؤثر بالخاصہ ہے بشرطیکہ نماز کو نماز کی طرح آداب اور خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھا جائے۔ ہماری جو نمازیں غیر مؤثر نظر آتی ہیں، اس کا سبب ہمارا قصور ہے کہ نماز کے آداب اور خشوع و خضوع میں کوتاہی ہوتی ہے ورنہ رسول اللہ ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب کوئی مہم پیش آتی تو نماز کی طرف رجوع فرماتے تھے، اور اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس مہم کو پورا فرما دیتے تھے۔ حدیث میں ہے:
اذا حزبہ امر فزع الی الصلوٰۃ
یعنی رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی ضرورت پیش آتی تو نماز کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے۔‘‘ ﴿معارف القرآن﴾

حضرت عبداللہ بن سلام(رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ کے گھر والوں پر کسی قسم کی تنگی پیش آتی تو اُن کو نماز کا حکم فرمایا کرتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے :
وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا ط لَانَسْئَلُکَ رِزْقًا ﴿طٰہٰ: ۲۳۱﴾
ترجمہ: اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرتے رہیے اور خود بھی اس کا اہتمام کیجئے ہم آپ سے روزی کے خواستگار نہیں بلکہ روزی تو آپ کو ہم دیں گے۔

حضرت نضر(رض) کہتے ہیں کہ دن میں ایک مرتبہ سخت اندھیرا ہوگیا، میں دوڑتا ہوا حضرت انس(رض) کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دریافت کیا کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں بھی کبھی ایسی نوبت آئی۔ انہوں نے فرمایا خدا کی پناہ حضور ﷺ کے زمانہ میں تو ذرا بھی تیز ہوا چلتی تھی تو ہم سب مسجدوں کو دوڑ جاتے تھے کہ کہیں قیامت تو نہیں آگئی ۔ ﴿در منشور﴾

وہب بن منبہ(رح) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے حاجتیں نماز کے ذریعہ طلب کی جاتی ہیں اور پہلے لوگوں کو جب کوئی حادثہ پیش آتا تھا وہ نماز ہی کی طرف متوجہ ہوتے تھے جس پر بھی کوئی حادثہ گزرتا وہ جلدی سے نماز کی طرف رجوع کرتا۔ کہتے ہیں کوفہ میں ایک قلی تھا جس پر لوگوں کو بہت اعتماد تھا۔ امن ہونے کی وجہ سے تاجروں کا سامان روپیہ وغیرہ بھی لے جاتا ایک مرتبہ وہ سفر میں جارہا تھا کہ راستہ میں اس کو ایک شخص ملا، پوچھا کہاں کا ارادہ ہے، قلی نے کہا کہ فُلاں شہر کا وہ کہنے لگا کہ مجھے بھی جانا ہے۔ میں پاؤں چل سکتا تو تیرے ساتھ ہی چلتا کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دینار کرایہ پر مجھے خچر پر سوار کرلے۔ قلی نے اس کو منظور کر لیا وہ سوار ہو گیا۔ راستہ میں ایک دوراہا ملا، سوار نے پوچھا کدھر کو چلنا چاہیے۔ قلی نے شارع عام کا راستہ بتایا۔ سوار نے کہا یہ دوسرا راستہ قریب کا ہے اور جانور کے لیے بھی سہولت کا ہے کہ سبزہ اس پر خوب ہے۔ قلی نے کہا میں نے یہ راستہ دیکھا نہیں۔ سوار نے کہا میں بارہا اس راستہ پر چلا ہوں۔ قلی نے کہا اچھی بات ہے اسی راستہ کو چلیے۔ تھوڑی دور چل کر وہ راستہ ایک وحشت ناک جنگل پر ختم ہو گیا جہاں بہت سے مُردے پڑے تھے وہ شخص سواری سے اُترا اور کمر سے خنجر نکال کر قلی کے قتل کرنے کا ارادہ کیا، قلی نے کہا کہ ایسا نہ کر یہ خچر اور سامان سب کچھ لے لے یہی تیرا مقصود ہے مجھے قتل نہ کر۔ اس نے نہ مانا اور قسم کھا لی کہ پہلے تجھے ماروں گا پھر یہ سب کچھ لوں گا۔ اس نے بہت عاجزی کی مگر اس ظالم نے ایک نہ مانی۔ قلی نے کہا اچھا مجھے دو رکعت نماز پڑھنے دے، اس نے قبول کیا اور ہنس کر کہا کہ جلدی سے پڑھ لے، ان مُردوں نے بھی یہی درخواست کی تھی مگر ان کی نماز نے کچھ بھی کام نہ دیا۔ اُس قلی نے نماز شروع کی، الحمدشریف پڑھ کر سورت بھی یاد نہ آئی۔ اُدھر وہ ظالم کھڑا تقاضا کر رہا تھا کہ جلدی ختم کر۔ بے اختیار اس کی زبان پر یہ آیت جاری ہوئی۔ امّن یّجیب المضطرّ اذا دعاہ یہ پڑھ رہا تھا اور رو رہا تھا کہ ایک سوار نمودار ہوا جس کے سر پر چمکتا ہوا خود ﴿لوہے کی ٹوپی﴾ تھا اس نے نیزہ مار کر اس ظالم کو ہلاک کر دیا۔ جس جگہ وہ ظالم مر کر گرا آگ کے شعلے اس جگہ سے اُٹھنے لگے۔ یہ نمازی بے اختیار سجدہ میں گر گیا، اللہ کا شکر ادا کیا۔ نماز کے بعد اس سوار کی طرف دوڑا، اس سے پوچھا کہ خدا کے واسطے اتنا بتا دو کہ تم کون ہو کیسے آئے۔ اس نے کہا کہ میں امّن یّجیب المضطرّ کا غلام ہوں، اب تم مامون ہو جہاں چاہے جاؤ۔ یہ کہہ کر چلا گیا۔ ﴿نزہتہ المجالس﴾

درحقیقت نماز ایسی ہی بڑی دولت ہے کہ اللہ کی رضا کے علاوہ دنیا کے مصائب سے بھی اکثر نجات کا سبب ہوتی ہے اور سکونِ قلب تو حاصل ہوتا ہی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی ہر ضرورت اور ہر مشکل کے وقت فوراً نماز میں مشغول ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں تاکہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی معیّت نصیب ہو ﴿آمین﴾۔ اور یہ ظاہر ہے کہ جس شخص کے ساتھ اللہ رب العزت کی طاقت ہو اس کا کونسا کام رک سکتا ہے اور کون سی مصیبت اس کو عاجز کر سکتی ہے۔
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 194861 views A Simple Person, Nothing Special.. View More