غم،خوشی،زندگی اور ہم: (حصہ چہارم)

بوڑھے نے کہا دوستوں ۔۔۔! اگریہ جوان بھی چوروں میں سے ہو اور ہوشیاری سے ہم میں شامل ہو گیا ہو ، تاکہ موقع پاکر قافلے کے حال کی خبر اپنے دوستوں کو کر دے۔ مناسب یہی ہے کہ اسے سوتا چھوڑ کر ہم آگے چلے جائیں ۔ چنانچہ انہوں نے سامان باندھا اور چپکے سے روانہ ہو گئے ۔ جوان کئی دنوں سے پریشان اور نڈھا ل تھا ۔ بس ایسا سویا کہ اگلی دوپہر کو آنکھ کھلی۔ دیکھا تو حیران ہوا کہ قافلہ تو چلا گیا۔ ادھر ادھر دوڑا مگر قافلہ کا نشان نہ پایا۔ پھوک پیاس نے دوبارہ ستایا تو اداس ہو کر ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا۔ ایسا مایوس ہوا کہ موت کا منتظر ہو گیا۔ اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا کہ اچانک ایک شہزادہ ایک شکار کے پیچھے بھاگتا وہاں آگیا۔ شہزادے کے ملازم اور ساتھی بہت پیچھے رہ گئے۔ جوان آنکھیں بند کئے پڑا تھا، شہزادہ اس کے سر کے پاس آکھڑا ہو ا اس کی ساری باتیں اور حالِ زار کو سن لیا۔اب اس نے جواں کو اُٹھایا۔ پانی پلایا اور اس کے پاس بیٹھ گیا، اس کا حال معلوم کیا۔ اس کی داستان سن کر ترس کھایا، کچھ دیر بعد شہزادے کے ملازمین بھی پہنچ گئے۔ اسے کھانا دیا اس سے اس کا پتہ دریافت کیا، پس اسے خلعت اور کافی رقم عطا کی ۔ اس کے ہمراہ ایک خاص مصاحب کو روانہ کیا۔ تاکہ اسے بے خوف و خطر اس کے شہر میں پہنچا آئے ، چنانچہ اس مصاحب نے اسے اس کے شہر میں باپ کے پاس پہنچایا۔ باپ بیٹے سے مل کر بہت خوش ہوا۔ اور اس کے زندہ بچنے پر اﷲ کا شکر ادا کیا۔ رات کے وقت بیٹے نے سفر کی ساری کہانی سنائی۔ طویل داستان سن کر باپ نے بیٹے سے کہا ۔۔۔! اے بیٹا ۔۔۔! روانگی کے وقت کیا میں نے تجھ سے نہیں کہہ دیا تھا کہ خالی ہاتھ والوں کا دلیری کا ہاتھ بندھا ہو اہے اور بہادری کا پنجہ ٹوٹا ہو ا ہے سن لے کہ جو کے برابر سونا ستر من زور سے بہتر ہے۔ پھر باپ نے بیٹے سے کہا اس مرتبہ آسمان نے تیری مدد کر دی اور بخت میں رہبری کی ایک دولت مند تیر ے پاس آگیا۔ اسے تیرے حال پر ترس آیا ، اس نے تجھے زادِ راہ و انعام سے نوازا مگر ایسا اتفاق کم ہوتا ہے اور نادرباتوں پر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔

پھر باپ نے کہا کہ ملک ایران کے ایک بادشاہ کے پاس نہایت قیمتی انگوٹھی تھی۔ ایک مرتبہ وہ چند مصاحبوں کے ہمراہ شیراز کی عید گاہ میں سیر کے لیے گیا۔ بیٹھے بیٹھے شغل یاد آیا۔ حکم دیاکہ یہ انگوٹھی عید گا ہ کے گنبد پر کھڑی کر دیں اور تیر انداز آئیں اور تیر چلائیں ، جس کا تیر انگوٹھی کے حلقہ سے پار ہو گا۔ اسے نہ صرف یہ قیمتی انگوٹھی بلکہ بڑا نعام و اکرام بھی دیا جائے گا۔ تقریباََ چار سو تیر اندازوں کے تیر خطا ہوئے۔ مگر قریب ہی ایک بچہ مکان کی چھت پر تیروں سے کھیل رہا تھا۔ اتفا قاََ اس کا تیر انگوٹھی سے پار چلا گیا۔ شہزادے نے اسے بلا کر انگوٹھی اور بڑا انعام دیا۔ انعام پاکر لڑکا خوش ہوا ، بیان کرتے ہیں کہ اس لڑکے نے اپنا تیر کمان جلا دیئے۔ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا ہے تو اس نے کہا کہ پہلی عزت برقرار رکھنے کو یہ مشغولیت ختم کر دی۔

یہ سچ ہے کہ کبھی ایسا ہو تا ہے کہ روشن رائے عقل مند سے کوئی درست تدبیر نہیں ہوتی اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نادان بچہ غلطی سے نشانہ پر تیر مار دیتا ہے۔ اس حکایت سے ملنے والے سبق کا مختصر خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ مفلسی و بے رزگاری بڑی پریشانی کا سبب اور عذاب ہوتے ہیں، اور ان سے نجات کی فکر کرنا انتہائی لازم ہے، اور دولت کوشش کرنے سے نہیں بلکہ تدابیر کرنے سے حاصل ہوتی ہے ، اور اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ رزق مقدر کے مطابق ملتا ہے البتہ کوشش اور تلاش ہماری ذمہ داریوں میں سے ہے اور رزق کمانے میں سستی کبھی نہ کرے نہیں تو بدبختی اس کے گلے کا ہار بھی بن سکتی ہے۔

تاجر کے لیے ضروری ہے کہ وہ حسین ، عالم باکردار،کامل پیشہ اور خوش الحان ہو ، خوش الحانی حسن سے برتر درجہ رکھتی ہے کیونکہ خوش الحانی روح کی غذا ہے اور اسکے ساتھ لازمی عمل کہ لڑائی جھگڑے سے جہاں تک ممکن ہو بچا جائے اور دوسروں کے لڑائی جھگڑوں سے بھی خود کو دور رکھنے کی حتی المکان کوشش کی جائے ساتھ میں جو سب سے اہم بات کہ سفر ِ زندگی میں کسی کا دل نہ دکھایا جائے اور زندگی کی مشکلات ، مصائب اور تکالیف کو بڑے صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کر کے حکمت ، دانش مندی، جفاکشی، حسن خلق اور عقل کے ذریعہ دولت مند بنا جا سکتا ہے مگر ادھر پھر وہی بات ملتا وہی ہے جو نصیب و مقدر میں ہو۔۔۔!!!

Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 182012 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More