اُلو آخر اتنے اُلو کیوں ہوتے ہیں؟

الو رات بھر جاگتے ہیں اور دن میں آرام کرتے ہیں اسی لیے پاکستان میں صبح کے وقت کاروبار ویران دکھائی دیتے ہیں.
الو کو الو کیوں کہا جاتا ہے؟ یہ بات آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آسکی۔ شاید کسی الو کو یہ بات پتہ ہو لیکن ہمیں پتہ نہیں۔ الو اتنے الو نہیں ہوتے جتنے دکھائی دیتے ہیں، پھر بھی ہم الو کو الو ہی کہتے ہیں۔ اس کے باوجود اکثر الو کو الو کہا جائے تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔ اب اگر الو کو الو نہ کہیں تو پھر کیا کہیں؟ الو ہوتے تو بالکل سیدھے ہیں لیکن پھر بھی ہم پتہ نہیں کیوں ہر وقت الو سیدھا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔

الو کو مغرب میں عقلمندی کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن مشرق میں آتے ہی یہی الو بے وقوف بن جاتے ہیں، یا سمجھے جاتے ہیں۔ اسی لئے اکثر مشرق کے الو مغرب میں جا کر عقلمند بن جاتے ہیں اور پھر وہ مشرق والوں کو ایسے وعظ و نصیحت کرتے ہیں جیسے خود الو نہ ہوں۔ مغرب والے الوؤں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور خاص کر ایسے الوؤں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں جو ان کے کام کا ہو باقیوں کو وہ یہ کہہ کر واپس بھیج دیتے ہیں کہ یہ تو بالکل الو ہیں۔ میرے خیال میں تو یہ مغرب کا کھلا تضاد ہے کہ وہ مغربی الوؤں کو عقلمند سمجھتے ہیں اور مشرقی الوؤں کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔

الوؤں کی تعداد میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ہر شاخ پر الو بیٹھا نظر آتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ الو کو بھی یہ بات پتہ نہیں ہوتی کہ وہ الو ہے۔ اسی لیے جب کسی کو الو کہا جائے تو وہ سخت ناراض ہوجاتا ہے۔ الو کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اُسے کچھ سمجھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ وہ آپ کی بات نہیں سمجھتے اور آپ ان کی بات نہیں سمجھ سکتے۔

الو رات بھر جاگتے ہیں اور دن میں آرام کرتے ہیں اسی لیے پاکستان میں صبح کے وقت کاروبار ویران دکھائی دیتے ہیں۔ بجلی کے بحران کے باوجود یہ الو راتوں کو بجلی استعمال کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں اور صبح کی روشنی میں یہی الو سوئے نظر آتے ہیں۔ ان الوؤں کو سمجھانا بہت مشکل ہے اسی لیے کسی الو نے مغربی الو کی دیکھا دیکھی یہاں بھی خود بدلنے کے بجائے وقت کو بدلنے کی تجویز پر عمل درآمد کرانے کی کوشش کی لیکن نتیجہ بے سود ہی ثابت ہوا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مشرقی الو اتنے زیادہ الو ہوتے ہیں کہ انہیں مزید الو نہیں بنایا جاسکتا۔

پاکستان میں چونکہ الو بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں اسی لیے حکومت بھی الوؤں ہی کی بنتی ہے۔ یہ حکومت عوام کو الو بنانے کی کوشش کرتی رہتی ہے لیکن جو پہلے سے الو ہو، اُسے کیسے مزید الو بنایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الو احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اپنی ہی بسیں، گاڑیاں اور املاک کو جلا کر خوش ہوتے ہیں۔

کسی الو سے پوچھا گیا کہ دہشت گردی بہت بڑھ گئی ہے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے کچھ تجاویز دیں۔ انہوں نے کہا دہشت گردی میں موٹر سائیکل استعمال ہوتی ہے، اس لیے ڈبل سواری پر پابندی لگائی جائے اور اگر اس سے بھی معاملہ قابو میں نہ آئے تو موٹر سائیکل پر ہی پابندی لگا دی جائے۔ دہشت گردی میں موبائل استعمال ہوتے ہیں اس لیے موبائل سروس بند کردی جائے۔ دہشت گرد مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اس لیے مدرسوں کو فی الفور بند کردیا جائے۔ کسی الو نے اس موقع پر سوال کیا کہ اگر اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں ہو تو کیا ان پر بھی پابندی لگا دی جائے؟۔

اس سوال پر الو فرمانے لگے مانا کہ ہم الو ہیں لیکن اتنے بھی الو نہیں ہیں۔ آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم نے گاڑیوں پر پابندی عائد نہیں کی ہے۔ آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم نے انٹرنیٹ پر پابندی عائد نہیں کی ہے۔ آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم نے میڈیا پر پابندی عائد نہیں کی ہے۔ یہ سب کام تو ہم دکھانے کے لیے کرتے ہیں تاکہ ہمارے الو بھائی سمجھیں کہ ہم کچھ کررہے ہیں اور اس طرح ہم اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ اُلو بنانا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنی آسانی سے یہ سیاستدان عوام کو بناتے ہیں۔ مجھے اسکول میں ایک بار الو بنانے کے لیے کہا گیا لیکن مجھے الو بنانا ہی نہیں آتا تو کیسے بناتا۔ جب مجھ سے نہ بنا تو غصے سے کہا گیا

’’کبھی الو دیکھا ہے؟‘‘

میں شرم سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

پھر کہا گیا، ’’شرم سے اِدھر اُدھر کیا دیکھ رہے ہو؟ اِدھر دیکھو‘‘۔

ڈرائنگ میں ہمیشہ استاد سے مار پڑتی اور الو نہ بنانے پر مرغا بننا پڑتا۔ تب سے میری سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ اسکول میں بچوں کو مرغا ہی کیوں بنایا جاتا ہے، الو کیوں نہیں بنایا جاتا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پڑھنے لکھنے والے الو نہیں بن سکتے۔

ہمارے الو اتنے مشہور نہیں ہوسکے جتنا، الو کے پٹھے مشہور ہوئے ہیں۔ ہر الو دوسرے کو الو کا پٹھا کہہ کر مخاطب کرنا پسند کرتا ہے۔ اگر ان سے اس کا مطلب پوچھو تو کہتے ہیں ہم الو تو نہیں جو ہمیں اس کا مطلب بھی پتہ ہو۔ شاید اس کا مطلب کسی الو کے پٹھے کو ہی پتہ ہو کیونکہ وہ خود الو کا پٹھا جو ہوتا ہے۔ الو کے بچے کو الو کا پٹھا کہا جاتا ہے لیکن میں نے آج تک کسی الو کو اپنے بچے کو الو کا پٹھا کہتے نہیں سنا۔

الو پر مزاح نگاروں نے بہت کچھ لکھا ہے اور بہت خوب لکھا ہے لیکن جب تک اسے الو پڑھیں گے نہیں، الو ہی رہیں گے اور ہمیں الو بننا بہت پسند ہے۔ اگر آپ کی ملاقات بھی کسی الو سے ہو تو اُسے یہ مضمون ضرور پڑھوائیے گا اسے ضرور پسند آئے گا۔ا
Mir Shahid Hussain
About the Author: Mir Shahid Hussain Read More Articles by Mir Shahid Hussain: 49 Articles with 38919 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.