امی کی سلائی مشین

کمپیوٹر کی خرابی، بدلتے موسم میں کپڑوں کی ضرورت اور سب سے بڑھ کر سلائی کرنے والی خاتون کی محلے سے منتقلی نے اپنے ہنر کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کردیا۔جی ہاں سلائی!کپڑوں کی کٹنگ کے بعد سلائی مشین کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ چلنے سے انکاری ہے۔ سارے اٹکل آزمالیے مگر ٹس سے مس نہ ہوئی ۔ناراضگی اس کا حق بنتا ہے کہ ہم نے اس سے بالکل نا طہ توڑ لیا ہے۔کہیں آپ غلط نہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم نے سلائی مشین کو کباڑ خانہ میں ڈال رکھا ہے ! جی نہیں! یہ کمرے میں اسی طرح نمایا ں اورروشن جگہ رکھی ہے جیسے کہ امی کی زندگی میں رہتی تھی․․․․اس کی تفصیل بعد میں آ ئے گی ۔مختصر یہ کہ اس مشین کے لیے کسی ماہرکا انتظام کرنا پڑے گا!

چنانچہ گھر کے ہر فلورپر رہنے والے تمام با سیوں کو مسئلہ سے آگاہ کیا بلکہ متعلقہ افراد کو ٹیلی فون سے بھی مطلع کیا ۔حیرت انگیز بات یہ کہ نتیجہ فوراً سامنے آ گیا جب یوم مزدور کے اگلے دن چھوٹے بھائی نے مشین کی مرمت کا عندیہ دیا جس کے لیے ہمارا جانا ضروری ٹھہرا۔ ظاہر ہے جب سلائی گھروں کے بجائے کارخانوں میں کاریگروں کے ہاتھوں ہونے لگے تو اس کی معالجین بھی اتنے عام دستیاب نہیں ! چنانچہ پوچھتے پوچھتے اس جگہ پہنچے جہاں یہ سہولت میسر تھی۔ ایک بڑے سے تخت پر بیمار اور کچھ لا علاج سی مشینیں رکھی ہوئی تھیں ۔اس کاریگر نے جن نظروں سے ہماری مشین کو دیکھا اور جن ہاتھوں سے چھوا ،سچ پوچھیں تو ہم اس کی نیت کے بارے میں مشکوک ہو گئے۔اپنے اس شبے کا اظہار بھائی سے کرنے کا نہ موقع تھا اور نہ مہلت کیونکہ سب کچھ چشم زدن میں طے پا گیا۔ سروس کی اجرت پر ردوکد بھی سیر حاصل نہ ہوسکی تھی جس پر ہمارے تحفظات تھے۔خیر بہر حال مشین اس کے حوالے کر آئے۔واپسی اگلے دن کی طے ہوئی جبکہ اتوار ہونے کی وجہ سے ہر گز امید نہیں تھی کہ وقت پر مل سکے گی۔گھر آکر بھی ہم مشین کے بارے میں خدشات کا شکار رہے مگر اس کا اظہار ممکن نہ تھاکیونکہ یہ ہی سننا تھا کہ لوگوں پر اعتبار کیا کریں! وہ اس پرانی مشین کا کیا بگاڑ لے گا!مگر یہ محض ایک مشین نہیں ہے ایک پوری تاریخ ہے جس میں ہمار ابچپن مضمر ہے ․․․․ایک منظر!

بڑے بھائی کہتے ہیں جب امی ابا باہر ہوں گے اور دادی اپنے کاموں میں مصروف تو میں تمہاری گڑیا کے کپڑے سلوادوں گا۔ اب یہ اور بات ہے کہ انہیں ہماری دلجوئی سے زیادہ مشین چلانے کی تمنا تھی۔ خیر اس مبارک گھڑی کا اختتام سوئی کے ٹوٹنے، انگلی کے زخمی ہونے اور ابا کی ڈانٹ پر منتج ہوا ۔نتیجہ؟ بھائی کی دھمکی کہ آ ئندہ میں تمہیں کچھ کر کے نہیں دوں گا! ایک اور منظر منجھلے بھائی کے ساتھ ہے جنہیں میکانک سے روز اول سے دلچسپی ہے اور ہر چیز کی ماہیت تبدیل کرنے پر بڑا عبور! سلائی مشین کے حوالے سے انہوں نے بڑے کارنامے انجام دیے تھے ۔مثلاًمشین میں بجلی کی موٹر فٹ کر کے اس کی رفتار بڑھا دی تھی اورمشین کی میز میں پہیے لگا کر اسے موبائیل بنا دیا تھا۔مگر یہ تو بڑے ہوکر ہواتھابچپن میں انہوں نے مشین کو جام پاکر ہتھوڑے سے ٹھوک ڈالا تھا! نتیجے میں اگر تشدد کے بجائے شابا شی ملتی تو ہمیں یقین ہے کہ کوئی نئی چیز ایجاد ہوچکی ہوتی․․․․․!

ماضی سے حال میں آ تے ہیں ۔! اگلے دن مشین کے بارے میں سو چنے کاموقع ہی نہ ملا کہ اور بھی غم ہیں زمانے میں سلائی کے سوا!خیر بارہ بجے کے قریب ہمارے تیسرے بھائی تشریف لائے اور فرمانے لگے مشین ٹھیک کروانی ہے نا! میں ایک کھوکھا دیکھ کر آ یا ہوں ․․․․․․جب تفصیل پوچھی تو معلوم ہوا کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں ہم مشین دے کر آ ئے ہیں ․․․․․․مزے کی بات یہ کہ انہوں نے وہاں اپنی مشین دیکھ کر اس سے بہت بحث کی کہ یہ تو بالکل ہماری جیسی ہے․․․․․․․ اس لطیفے پر ہمیں اس کھوکھے پرجہاں ہم اس مکینک کا انتظار کر رہے تھے بہت ہنسی آرہی تھی۔

’’ ابھی دس منٹ پہلے تو اس کو یہیں چھوڑ کر گیا تھا․․․․․‘‘بھائی نے کہا۔ نیم کی چھاؤں تلے لگے تخت پر کوئی آدھ درجن مشینیں دھری تھیں ان میں ہماری مشین الگ سے چمک رہی تھی۔ اپنی جو ہوئی!!ارد گرد لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے مگر مطلوبہ فرد نہ آ رہا تھا ۔ خیر وہ تشریف لائے ۔پہچان کر ہماری مشین کی طرف لپکے اور ہاتھ رکھ کر چہکے ’’․․ بہت پیاری مشین ہے․․․․․اب ایسی بنتی کہاں ہے ؟․․․․‘‘ اس کی لفاظی سے قطع نظر ہم سوچنے لگے ’’ ․․․ہے بھی تو کس پیاری شخصیت کی !اب ایسے لوگ کہاں ملیں گے؟․․․․․․ اس مشین نے اپنی پچاس سالہ زندگی میں بلا مبالغہ سینکڑوں جہیز، بری اور دیگر تقریبات نپٹائی ہیں ․․․․․صرف اپنی مالکن کی نہیں بلکہ دوسروں کی بلامعاوضہ خد مت کی ہے اس مشین نے!مزے کی بات یہ کہ بہت سے ایسے افراد جنہوں نے اس مشین پر سیکھا، پریکٹس کی ،پھر اس کی مالکہ کے کپڑے بھی معاوضہ پر سیے ۔جی ہاں ! اب یہ تو اپنے اپنے ظرف کی بات ہے․․․! لمحے بھر میں درجنوں چہرے اور منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گئے․․․․
’’․․․ چیک تو کر لیں ․․․‘‘بھائی نے اس کی بات کاٹ کر کہا ․․․․․․’’․․․ہاں ! اس نے کپڑے کی ایک دھجی ہمارے حوالے کرتے ہوئے کہا’’․․․․ہاں ! گرمی ہے آجکل تو لان کے کپڑے ․․․․‘‘ ہم نے اس کی ادھوری بات کے ساتھ ہی مشین کی سوئی میں دھاگہ ڈالا ۔ہمارے اس ایکشن کو دیکھ کر اس کی زبان نے پٹری بدلی ’’․․․․ہاں آپ کو تو سلائی بہت اچھی آ تی ہے․․․․ورنہ خواتین آتی ہیں کہ ہماری مشین ٹھیک کرو مگر دھاگہ بھی ڈالنا نہیں آتا ڈھنگ سے․․․․․․‘‘

اور ہمیں اس لمحے مشہور دانشور اشفاق احمد صاحب یاد آ گئے․․․فر ماتے ہیں کہ ہماری خواتین سلائی سے نہ صرف کپڑوں کو جوڑتی ہیں بلکہ اس ہنر کے ذریعے رشتوں کو بھی جوڑے رکھتی ہیں ۔انسانیت کو خالق سے جوڑنا․․․․․․․! جب سوئی میں دھاگہ ڈالنا نہ آ ئے تو ․․․․․․․؟(جبھی تو گھر اور رشتے ،کنبے اور برادریاں سب کسمپرسی کی حالت میں ہیں ․․․․․!) اور ہمیں اپنے والدین پر بڑا فخر محسوس ہوا کہ انہوں نے ہمیں وہ بنیادی ہنر سکھا یا جو انسانی رشتوں کی بناوٹ کے لیے اس درجہ اہم ہے ۔ مشین کے بارے میں کاریگر کی ہدایات پر سر ہلاتے ہم نے واپسی کا راستہ پکڑا۔ایک عورت کی زندگی میں سلائی مشین کی کیا حیثیت ہے ؟ یہ تو علامت ہے جو ایک ماں کی ساری اولادوں کو آ پس میں جوڑے رکھتی ہے ! ہمیں اپنے نئے بلاگ کے لیے موضوع مل گیا۔

چھ سال پہلے امی کاانتقال ہوا تو باوجود اس کے کہ ہم تمام بہن بھائیوں کے پاس اپنی اپنی مشینیں ہیں اس کو صدقہ کرنے کے فیصلے کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ پھر یہ سوچ کر کہ کسی فرد یاانڈسٹریل ہوم کے لیے اس مشین سے کوئی جذباتی وابستگی نہیں ہوگی ۔ ہم نے جتنے گھر شفٹ کیے ان سب کے پتے اس مشین کے کسی نہ کسی حصے میں کھدے ہوئے ہیں !چنانچہ نسبتاً نئی ری کنڈیشن مشین کو صدقہ کر کے ہم نے اسے جوں کا توں رکھا ہواہے۔ جب بھی کسی کو ضرورت پڑے یا دل چاہے اسے استعمال کر لے۔

ایک دلچسپ بات یہ کہ امی کو بہت اچھی سلائی نہیں آ تی تھی بلکہ ان کا اصل ہنر بنائی ( (knitting تھا ۔دراصل سلائی کے لیے بیٹھنا پڑتا ہے جبکہ وہ ہر وقت حرکت میں رہتی تھیں توان کی اون سلائیاں ان کے ساتھ ساتھ سفر کرتی تھیں۔ مگر پھر بھی ہم نے ہمیشہ امی کو مشین استعمال کرتے دیکھا تو وہ کیا سیتی تھیں آخر! جو بات سمجھ میں آ تی ہے وہ یہ ہے کہ دراصل انہوں نے ہم دونوں بہنوں کو سلائی سکھانے پر بہت توجہ دی تھی تو ہماری حوصلہ افزائی کے لیے مشین کو ہر وقت آن رکھتی تھیں کہ اگر ماں نہ سیے تو بیٹی کہاں سے توجہ دے گی؟ بچے کو کچھ سکھانا چاہتے ہیں تواسے صرف ہدایات دینے کے بجائے کر کے دکھائیں والا فار مولا امی کے مد نظر رہا ہو گا!

پھر بعد میں جب اس مثال بننے کی چنداں ضرورت نہ رہی تو بھی مشین سے ان کا تعلق ختم نہ ہوا۔ ادھڑے ، پھٹے کپڑوں کی مر مت اور ردی ٹکڑوں کو جوڑ کر کسی شکل میں ڈھالنا ․․․․یہ امی کے مشاغل تھے! مشین تو ایک استعارہ ہے مگر عورت کا بنیادی کام یہ ہی ہے رشتوں کو جوڑنا اور ٹوٹنے، پھٹنے سے بچا نا !انسانیت کی پھٹی ہوئی قبا میں پیوند کاری کرنا ․․․․․․․․․امی کی سلائی مشین زندہ باد!

Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 74259 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.