قسمت کا لکھا ہی ملتا ہے اور کچھ نہیں: (حصہ دوئم)

چہارم : چوتھی قسم کا وہ آدمی نفع اُٹھاتا ہے جو خوش الحان ہو۔ اس لحن داؤدی جیسی نعمت ملی ہو ، جس کی آواز پر بہتا پانی رُک جائے اور اُڑتے پرندے اپنی روک بند کر لیں ۔ پس اس خوبی و وصف کی بنا پر وہ بڑے بڑے لو گوں کے دل کو موہ لیتا ہے ۔ صاحب ِ باطن بھی اس کی ہم نشینی میں رغبت کرتے اور اس کی ناز برداری و تکریم پر برضا روغبت گرِ پڑتے ہیں ان کے دل موہ لینے والی آواز میرے لیے نغمہ ہیں۔

گویا ان کی آواز سے ستار کی سریلی آواز نکلتی معلوم ہوتی ہے۔ کسی صاحب حال نے اس دلربا آواز کو یوں پیش کیا ہیکہ یہ آواز غمناک دل کا مرہم اور سرور ہے ۔ جیسے صبح کی شراب کسی کو زیادہ مست و مدہوش بنا دیتی ہے۔ حسین آواز ، حسین چہرے سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ یہ تو نفس کی لذت ہے اور وہ روح کی غذا ہے۔

پنجم : پانچویں قسم کا وہ آدمی فائدہ اُٹھاتا ہے ۔ جو اپنے زورِ بازو سے کمائی کرتا ہو ، تاکہ اس کی کمائی سے اس کے ماتھے پر نہ بل آئے اور نہ اس کی عزت و آبرو برباد ہو۔ اس ضمن میں بزرگوں نے کہا ہے کہ اگر روئی دھننے والا اپنے شہر سے دوسرے شہر میں چلا جائے تو وہ وہاں مصیبت و تکلیف نہ دیکھے گا اور اگر ملک سیتان کا بادشاہ غیر ملک چلا جائے اور وہ کسی مصیبت اور خرابی کا شکار ہو جائے تو یقینا اسے بھو کا ہی سونا پڑے گا۔

ازیں بعد باپ نے بیٹے سے کہا کہ اے بیٹے جو کچھ میں نے کہا ہے ، یہ سب سفر میں دل جمعی کا سبب ہیں ، یہ زندگی کے لطف کا موجب ہیں اور جو ان باتوں سے خالی ہو گا وہ ایک باطل خیالی لے کر جاتا ہے۔ وہ جہاں بھی جاتا ہے اس کی کوئی بھی نہیں سنتا ہے۔ گویا جس کسی کے حال پر زمانہ گردش ڈال دے دنیامیں ہر کام کہ مصلحت اس کے خلاف ہو جائے گی۔ جیسا کہ ایک کبوتر جس کو قضا دا نہ اور جال کی طرف لے جائے وہ پھر کبھی اپنے گھونسلا کو نہ دیکھ سکے گا۔

بیٹے نے باپ کی بات سن کر کہا ابا جان ۔۔۔!میں عقل والوں کے قول کی کیسے مخالفت کر سکتا ہوں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ رزق اگر چہ قسمت میں لکھا ہے لیکن اس کے حصول کے لیے طریقوں سے تعلق ووابستگی ضروری ہے اور مصیبت اگرچہ نصیب میں ہے لیکن اس کی آمد یا دخول کے دروازہ سے احتیاط ضروری ہے۔ یعنی رزق اگرچہ بلاشبہ ملتا ہے ۔ لیکن عقل کے نزدیک یہ ہے کہ اس کے دروزاوں سے اس کی تلاش شرط ہے اور اگرچہ کوئی موت آئے بغیر نہیں مرتا مگر اژدھا کے منہ پر جانے سے رک جا۔ بیٹے نے مزید کہاکہ ابا جان ۔۔۔! میں تو ایک مست ہاتھی کی مثل ہوں ہاتھی سے لڑ سکتا ہوں، شیر سے مقابلہ کر سکتا ہوں، پھر میرے لے یہ مناسب ہے کہ میں سفر پر جاؤں اس لیے کہ میں سخت بے سرو سامانی کی کیفیت سے دوچار ہوں اور میں صبر سے نہیں رک سکتا ہوں۔ جب انسان اپنے مرتبہ و مقام سے گر جاتا ہے ۔ تو پھر وہ کیسے اور کیوں غم دنیا کرے۔ ہر امیر تو شام کو اپنے گھر واپس آجاتا ہے مگر درویش کو جہاں رات ہوئی سو گیا۔ یہ کہہ کر باپ سے دعا لی ۔ مصافحہ کہا اور روانہ ہو گیا جاتے جاتے گنگنا رہا تھا:"جب کسی ہنر مند کا نصیب اس کا ساتھ نہ دے تو اگر وہ کہیں بھی جائے اسے کوئی نہ جانے گا۔"

چلتے چلتے دریا پر پہنچا جس کی روانی طوفانی تھی ، جو بھاری پتھر بھی بہا کر لے جاتی تھی اور اس کی لہروں میں بڑا شور تھا اور وہ رستہ کی چھوٹی موٹی چیز کو اپنے ساتھ بہا کر لے جا رہا تھا، کناروں پر لوگوں کو مجمع تھا جو پار جانا چاہتے تھے۔ وہ لوگ ایک ایک سکہ ملاح کو دے کر سوار ہوتے تھے اور اپنا سامان بھی لاد رہے تھے۔لیکن زہے نصیب اس جوان کے پاس کوئی دام نہ تھے۔ کشتی کے قریب پہنچا، ملاح کی خوشامد کی تاکہ وہ اس کو بھی پار لے جائے مگر جس قدر بھی منت سماجت کی ، اس نے بے مروتی کا اظہار کیا اور کوئی بات بھی نہ سنی بلکہ بے پیسہ کے تو کسی پر زور نہیں کر سکتا۔ دس مردوں کی طاقت کی ضرورت نہیں صرف ایک آدمی کا کرایہ لا۔۔۔

ملاح کی طعنہ آمیز گفتگو سے جوان کے دل پر ٹھیس لگی۔ چاہا کہ اس کی گفتگو پر بدلہ لے ، لیکن کشتی روانہ ہو گئی، اس نے ملاح کو بلند آواز میں بلایا کہ میرے جسم پر جو لباس ہے اس پر قناعت کر کے مجھے بھی لے چل۔ ملاح لالچ میں آیا ۔۔۔کشتی کو لوٹایا۔۔۔اور اس کو سوار کر لیا۔
(جاری۔۔۔۔حصہ سوئم)

Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 182260 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More