میرا دوست ’سبطین رضوی‘ بھی چلا گیا

میرا ایک اور دوست دنیا سے چلا گیا
تھا خوب سیرت انسان بہت جلد چلا گیا
مغفرت ہو سبطین کی دعا گو ہے رئیسؔ
ہو جنت اُسے نصیب جو چھوڑ کر چلا گیا
زندگی اور موت اﷲ کے ہاتھ ہے وہ جب چاہے جس کو چاہے اپنے پاس بلالیتا ہے، ہفتہ 26مارچ کو میرے بچپن کا دوست ،جوانی کا ساتھی ،آگرہ تاج کالونی میں میرا طویل عرصے کا پڑوسی،ہمارا بچپن اور جوانی ایک ساتھ گزری، اس سے میری دوستی ہی نہ تھی بلکہ ہمارے گھریلو مراسم بھی تھے۔ محمد سبطین رضوی عمر میں مجھ سے چھوٹا ہی تھا لیکن موت یہ کب دیکھتی ہے۔ اس کاوقت پورا ہوچکا تھا، ایک موزی مرض نے آن دبوچا اور وہ اپنے مالک حقیقی سے جاملا، بچے تو بڑے ہیں لیکن ماں یا باپ کی کمی کوئی پوری نہیں کرسکتا۔ میرا یہ دوست سیلف میڈ تھا، اس کے باپ کا سایہ اس کے سر سے اس وقت ہی اٹھ گیا تھا جب اس نے میٹرک بھی پاس نہیں کیا تھا، میں نے اپنے اس دوست کے والد کی تدفین میں بھی شرکت کی ان کا انتقال ایک حادثہ میں ہوگیا تھا۔ میٹرک کرکے اِسے اپنے والد کی جگہ کے ای ایس سی میں نوکری مل گئی اور پھر اس کی زندگی کی طویل جدوجہد آغاز ہوا جو مارچ 2016کو اختتام کو پہنچا۔نوکری کے ساتھ ساتھ پڑھا بھی ، اس وقت یہ اپنے گھر کا واحد کفیل بھی تھا۔ شادی ایک استاد سے ہوئی ، دونوں نے مل کر اپنے بچوں کی پرورش اچھے انداز سے کی، بچوں کو پڑھا یا لکھا یا، بڑا بیٹا امریکہ میں ، ایک بیٹی جدہ میں باقی پاکستان میں ہیں۔ بچوں کے حوالے سے اس کی مثال حمایت علی شاعر ؔ کے اس شعر کی سی ہے ؂
بس ایک کام کیا میں نے زندگی بھر میں
کہ سارے بچے ہیں تعلیم یافتہ گھر میں

سبطین کے ساتھ بچپن اور جوانی کے بیتے دنوں کی تفصیل میں سرِ دست میں نہیں جارہا اس لیے کہ یہ ایک طویل کہانی ہے جو پچیس سے تیس سالوں پر محیط ہے ، زندگی نے وفا کی تو پھر کسی اور وقت اس کا احاطہ کروں گا۔ آگرہ تاج کالونی ، لیاری کی کچی آبادیوں میں سے ایک ہے جس کے مکینوں کی اکثریت اردو بولنے والوں پر مشتمل تھی جو اب نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے آنے والوں کے لیے لیاری میں بہار کالونی اور پھر آگرہ تاج کالونی کے نام سے یہ آبادیاں قائم ہوئیں ، ہم انہی بستیوں کے مکین رہے۔ 80ء کی دیہائی میں ہم نے اس بستی کو خیر باد کہا اور ہم دوست تتر بتر ہوگئے ۔ اب ہماری ملاقاتیں خوشی اور غمی کے موقعوں پرہوکر رہ گئی تھیں لیکن سالوں کی محبت ، انسیت ، چاہت کا یہ عالم کہ جب کبھی ایک دوسرے سے ملے تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ڈھیروں خون بڑھ گیا ہے۔وہاں کے دوست ایک دوسرے کے لیے بہت عزیز اور اچھوتے ہیں ۔کسی شاعر نے کہا ہے ؂
دوستی عام ہے لیکن اے دوست
دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے

گلستان جوہر، پہلوان گوٹھ کے قبروستان میں اتوار کی شب بعد نماز عشاء میرے اس دوست کو عزیزوں، رشتہ داروں ،پڑوسیوں اور دوستوں کی موجودگی میں قبر کی گود کے سپرد کیا جارہا تھا۔ اس کے بیٹے کو امریکہ سے آنا تھا اس کے باعث میرے دوست نے ایک شب اور ایک دن ایدھی سینٹر کے سرد خانے میں بسر کیا۔ قبر کے چاروں جانب لوگ اپنا منہ قبر میں ڈالے ہوئے تھے ، بعض بعض کا تو بس نہیں چلتا کہ وہ مجسم مردے کے ساتھ لحد میں کود جائیں۔میرا یہ دوست نہا دھوکر ، نئے کپڑے ذیب تن کیے ہوئے تھا، چند لمحو میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لحد میں اتاردیا جائے گا۔مَیں بے بسی کی تصویر بنا آخر میں کھڑا اس منظر کو دیکھ رہا تھا ۔ عمرِ عزیز کی کرشمہ سازی کہیے کہ اب ہم اپنے پیاروں کو لحد میں اتارنی کی رسم میں بھی عملی طور پر حصہ لینے سے قاصر ہوچکے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ایسے کاموں میں پیش پیش ہوا کرتے تھے۔ یہ بھی کیا کم شکر ہے کہ پروردگار نے اس قدر ہمت دی کہ اپنے دوست کے سفر آخر میں شریک ہوگئے اور اس وقت اپنے دوست کو قبر کی گود میں جاتا دیکھ رہا ہوں۔ سبطین کے ساتھ بیتے شب و روز کی فلم تھی جو قبرستان میں چل رہی تھی، نظروں کے سامنے ابدی نیند سوئے ہوئے بے شمار انسانوں کی آخری آرام گاہیں تھے لیکن میں ماضی کی یادوں میں گم تھا۔ کوئی ایک بات ، ایک واقعہ ، کوئی ایک واردات ہو تو اس کا ذکر کروں، طویل عرصہ ساتھ رہا۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہوتا تھا کہ ہماری ملاقات نہ ہوتی ہو۔ میرے بچپن کے ان دوستوں میں اس وقت ظفر اور احمد حسین بھی موجود تھے، بعض دوست جیسے ارشاد قاضی اس وقت موجود نہیں جس کی وجہ اس کی بیماری ہے۔ کچھ ملک اور کچھ شہر کراچی سے باہر اپنی دنیا آباد کرچکے ہیں، بعض دوست ہم میں عمرسے بڑے بھی تھے وہ بھی اس وقت نظر نہیں آئے جن میں سید ممتاز زیدی، چودھری اشرف، مغیث احمد صمدانی ، سید حیدر رضاء ، عا بد زیدی شامل ہیں یہ ہمارے سینئر دوستوں میں سے تھے، اب ان کی صحت بھی انہیں اجازت نہیں دے رہی ہوگی، بعض اﷲ کو پیارے ہوچکے، سید جمال احمد سبطین کے بہنوئی بھی ہیں ان کا غم یقینا زیادہ شدیدہے، انہوں نے تو سبطین کی پرورش اور دیکھ بھال اپنے بچوں کی طرح کی۔ لیکن کیا کیا جائے ۔ انسان زندگی میں کیا کیا منصوبے بنا تا ہے اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اصل منصوبہ وہ ہے جو ہمارے مالک نے ہمارے لیے بنا یا ہوا ہے۔ جرأت الہ آبادی کا شعر ؂
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پَل کی خبر نہیں

سبطین کچھ عرصے سے بیمار تھا مجھے معلوم ہوا تو میں اسے دیکھنے اس کے گھر گیا، ملاقات کر کے تشویش ہوئی لیکن اس کا اظہار نہیں کیا، بعد میں معلوم ہوا کہ اسے ایک ایسی بیماری نے آلیا ہے جو کم ہی جاتی ہے، اگر جاتی ہے تو اپنے مریض کو ساتھ لے کرجاتی ہے۔کافی دیر اس کے پاس بیٹھا، بہت سی باتیں کیں، ماضی کے قصے یاد دلائے، ماضی کے دوستوں کا ذکر ہوا، اس کی آواز بھی صاف نہیں تھی، کچھ کچھ سمجھ میں آتا کچھ نہیں، اس کی نگاہ بھی متاثر ہوچکی تھی۔ رخصتی چاہی تو وہ مجھے اپنے گھر کے دروازے تک چھوڑنے آیا، اس کی چال ایک عام انسان کی چال نہیں تھی بلکہ اس کی چال بتا رہی تھی کہ اسے اپنے اوپر قابو نہیں ہے، ہمت کر کے چل رہاہے۔ نظر سے نظر ملی ، اس نے مجھے اور میں نے اسے خدا حافظ کہا۔ یہی میری اور اس کی آخری ملاقات تھی۔ اس سے قبل جب وہ تنددرست تھا تو پروفیسرڈاکٹر فرمان فتح پوری کے انتقال پر اس سے ملاقات ہوئی تھی،جامعہ کراچی کے قبرستان میں وہ اورمیں بہت دیر گفتگو کرتے رہے۔ سبطین فرمان صاحب کے عزیزوں میں سے ہے، واپسی پر میں نے ہی اُسے اس کے گھر ڈراپ کیا تھا۔ ایک ملاقات کراچی ائر پورٹ پر ہوئی، اس نے بتا یا کہ وہ اپنی بیگم کو جدہ کے لیے رخصت کرنے آیا ہے، سبطین کی ایک بیٹی جدہ میں ہے۔ میں اپنی بیگم کے ہمراہ جدہ میں کچھ وقت گزار کر واپس آیاتھا۔اس کا بڑا بیٹا امریکہ میں مقیم ہے ، مالی پریشانی دور دور نہیں تھی، خوش حالی تھی، اب جب کہ باغ باں کے لگائے ہوئے پودے تناور درخت بننے جارہے تھے اور باغ باں کو آرام و سکون میسر آتا، بے فکر ہوکربقیہ زندگی گزتی ، تقدیر میں کچھ اورہی لکھا تھا، باغ باں کو یہ گوارہ نہ ہوا کہ وہ اپنے لگائے ہوئے پودوں سے فیض حاصل کر تا۔ اس نے اپنی دنیا وہاں بسانے کا فیصلہ کر لیا تھا جہاں سے کوئی لوٹ کر واپس نہیں آتا۔
مرنے والے مرتو جاتے ہیں فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ احباب مردے کو قبر میں اتارنے کی رسم احتیاط کے ساتھ ساتھ جلد بازی بھی کیاکرتے ہیں، اتارنے والے لحد میں اتار رہے ہوتے ہیں ، چاروجانب کھڑے جن کی نظریں قبر کے اندر گڑی ہوتی ہیں مختلف قسم کی آوازیں اس موقع پر سنائی دیتی ہیں۔ ان جملوں سے وہ قبر میں اتارنے والوں کو ہدایات دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ بھی تدفین کے عمل کا حصہ ہوتا ہے۔تیزی اور جلد بازی نے اس وقت مجھے متاثر کیا اور اس قسم کی شعری کیفیت ہوئی ، جب واپسی ہوئی تو یہ احساس پیدا ہوا جسے اس شعر میں بیان ہوا ہے ؂
دم تو لو چلے جانا جلدی کیا ہے
لحدمیں اتارنے کا انتظار تو کرلو

زندگی کے آخری سفر میں ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس سفر میں شرکت کر کے ثواب حاصل کرے۔ ان میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو زندگی میں دور دور ہی ہوتے ہیں لیکن آخری وقت میں ساتھ نظر آتے ہیں ۔ اس کیفیت کا ذکر کچھ اس طرح سے ہوا۔
لحد تک آج جو میرے ساتھ آئے ہو
زندگی میں تو کبھی دو قدم ساتھ نہ دیا

اﷲ تعالیٰ میرے اس دوست کی مغفرت فرمائے آمین۔ میں نے پیشگی اپنے ان احباب کا شکریہ ادا کردیا ہے جو مجھے لحد کے سپرد کرتے وقت قبرستان میں موجود ہوں گے لیکن یہاں میں یہ شکریہ اپنے دوست کی جانب سے ان احباب کا ادا کررہا ہوں جنہوں نے اس کی تدفین میں شرکت کی۔
مرَقدَتک میرے ساتھ آنے والو تمہارا شکریہ
میری خاطر زحمت اٹھا نے والو تمہارا شکریہ
ہے اب جوسفر باقی کرلیں گے وہ تنہا ہی ہم
حوصلہ بڑھا کرلحد تک پہنچانے والو تمہار ا شکریہ
اگلا پَڑاؤ ہے کٹھن اوررستہ بھی ہے اڑچن اڑچن
مغفرت کی دعا دینے والو تمہارا شکریہ
بنا تھا جس خاک سے ر ئیسؔ آپہنچی ہے منزل پہ وہ
مٹھی بھر خاک نجھاور کرنے والو تمہارا شکریہ
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1279308 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More