نئی آٹو پالیسی سے پاکستان کو حاصل ہونے والے ممکنہ فوائد

پاکستان میں کام کرنے والے تینوں کار ساز اداروں نے منظور شدہ نئی آٹو پالیسی پر شدید برہمی ظاہر کی ہے۔ ان اداروں کی جانب سے غم و غصے کا اظہار غیر متوقع نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ نئی آٹو پالیسی سے ان کی اجارہ داری کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس گاڑیوں کے صارفین کی بڑی اکثریت نئی آٹو پالیسی سے مطمئن نظر آتی ہے۔ اداروں کی جانب سے عدم اطمینان اور عام عوام کی جانب سے مثبت ردعمل نے کچھ لوگوں کو شش و پنج میں مبتلا کردیا ہے کہ آیا نئی آٹو پالیسی سے واقعی پاکستان کو فائدہ ہوگا؟ یا حکومت وقت دیگر فیصلوں کی طرح اس پر بھی ملکی مفاد کا محض لیبل لگا رہی ہے۔ تو ایسے ہی لوگوں کے لیے ہم یہ مضمون شایع کر رہے ہیں تاکہ گاڑیوں کے شوقین افراد بھی آٹو پالیسی کو بہتر طور پر سمجھ کر اس کے بارے میں اپنی رائے قائم کرسکیں۔
 

image


اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 15 مارچ 2016 کو پاکستان کی نئی آٹو پالیسی (2016 تا 2021) کی منظوری دی۔ اس آٹو پالیسی کا مقصد گاڑیوں کے شعبے بالخصوص ملک میں تیار ہونے والی گاڑیوں کی صنعت میں موجود خامیاں، نقائص اور مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں دور کرنے کے لیے مناسب اقدامات اٹھانا ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دی گئیں چند تجاویز درج ذیل ہیں:
1) گاڑیوں کے شعبے کی جدت سے ہم آہنگی
2) ملک میں تیار ہونے والی گاڑیوں کے معیار میں بہتری
3) صارفین کے لیے دستیاب سہولیات میں اضافہ
4) مقامی کار ساز اداروں کا تحفظ
5) مسابقت کی فضا قائم کرنے کے لیے نئے کار ساز اداروں کو راغب کرنا
6) بیرونی سرمایہ کاری کے لیے مزید مواقع پیدا کرنا
7) شعبے کو بین الاقوامی معیارات پر اسطوار کرنا

ماضی میں پیش کی جانے والی آٹو پالیسیوں پر صارفین کی جانب سے شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔ یہ تنقید بلاشبہ غلط نہیں کیوں کہ اس سے پاکستانی صارفین کو خاطر خواہ فوائد حاصل نہ ہوئے بلکہ کار ساز اداروں کو بنیادی حفاظتی سہولیات سے عاری غیر معیاری گاڑیوں کی فروخت دہائیوں تک جاری رکھنے کا موقع ملا۔ اس کی بہترین مثال سوزوکی مہران کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اسے اول روز جس شکل اور حالت میں پیش کیا گیا وہ آج 2 دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود جوں کی توں موجود ہے۔ تازہ مثال سوزوکی سوِفٹ ہی کی لے لیجیے کہ جسے سال 2010 میں جیسے پیش کیا گیا وہ آج بھی ویسی ہی فروخت ہورہی ہے۔ یہ معاملہ صرف پاک سوزوکی تک محدود نہیں بلکہ ہونڈا سِٹی کے ساتھ بھی یہی صورتحال درپیش ہے۔ پھر چوں کہ پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیوں کے ماڈلز بہت کم ہیں اس لیے لوگ مجبور ہیں کہ مہران ہی خریدیں کیوں کہ یہ سستی ترین نئی گاڑی ہے۔ منظور شدہ آٹو پالیسی کے بعد اس ضمن میں صورتحال بہتر ہونے کی امید رکھی جاسکتی ہے۔

اس کے علاوہ مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کا معیار بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں دستیاب گاڑیوں سے انتہائی ادنٰی ہے۔ جبکہ گزشتہ دہائی میں ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (R&D) کے نام پر محض خانہ پوری ہی دیکھی گئی۔ مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں کو علاقائی سطح پر ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے لیے استعمال کرنے کے بجائے مقامی مارکیٹ کے رجحانات جاپان میں دیکھے اور ترتیب دیئے جارہے ہیں۔ یوں گاڑیوں کے شعبے میں ذہین افراد کی شمولیت کا امکان ختم ہوجاتا ہے اور اب تک شعبے کو اسی طرح چلایا جاتا رہا ہے۔

نئی آٹو پالیسی پر نظر ڈالیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے حکومت، نئے کار ساز اداروں اور صارفین مستفید ہوں گے۔ آئیے ان تینوں فریقین کو حاصل ہونے والے چنیدہ فوائد پر نظر ڈالتے ہیں:

1) حکومت
• عوام دوست پالیسی کی منظوری سے حکومت کے بارے میں مثبت رائے قائم ہوگی
• حفاظتی سہولیات اور معیاری گاڑیوں کی دستیابی سے صارفین کو حفاظت ممکن ہوگی
• گاڑیوں کی تیاری اور فروخت میں اضافے سے حکومت کو ٹیکس کی مد میں اضافی آمدنی ہوگی
• بیرون ملک سے سرمایہ کاری اور نئے اداروں کی آمد سے شعبے میں مسابقت کی فضا قائم ہوگی
• یہ پالیسی گاڑیوں کے شعبے میں کام کرنے والوں کو ایک وژن فراہم کرے گی
• طویل المعیاد پالیسی کے اجرا سے شعبے میں استحکام برقرار رہے گا

2) نئے کار ساز ادارے
• نئے کار ساز اداروں کو درآمدی ڈیوٹی کے بغیر کارخانے اور مشینری منگوانے کی سہولت حاصل ہوگی
• یہ ادارے 100 گاڑیوں کو 50 فیصد ڈیوٹی پر درآمد کرسکیں گے تاکہ مارکیٹ میں جلد از جلد پیش کیا جاسکے
• یہ ادارے آئندہ 5 سال تک گاڑیوں کے پرزے منگوانے پر عائد درآمدی ڈیوٹی میں 50 فیصد رعایت حاصل کریں گے
 

image

3) صارفین
• گاڑیوں کے معیار میں بہتری اور قیمت میں کمی کا امکان ہوگا
• نئی اور جدید گاڑیوں کی آمد ممکن ہوسکے گی
• گاڑیوں کے پرزے پہلے سے زیادہ آسانی سے دستیاب ہوں گے
• چھوٹی گاڑیوں مثلاً 800cc وغیرہ کی آمد سے متوسط طبقے کے لیے گاڑیوں کا حصول اور بھی آسان ہوجائے گا
• قیمت میں کمی کے باعث موٹر سائیکل چلانے والے بھی گاڑی خرید سکیں گے

اس وقت پاکستان میں گاڑیوں کا شعبہ جن تین اداروں کی اجارہ داری میں کام کر رہا ہے، وہ یہ ہیں:
• انڈس موٹرز کمپنی لمیٹڈ (ٹویوٹا موٹرز)
• پاک سوزوکی موٹر کمپنی
• ہونڈا ایٹلس کارز (پاکستان) لمیٹڈ (ہونڈا موٹرز)

نئی آٹو پالیسی کی منظوری کے بعد جن غیر ملکی اداروں کی پاکستان آمد متوقع ہے، وہ یہ ہیں:
• فیات: اطالیہ کا سب سے بڑا اور مشہور ترین کار ساز ادارہ
• آڈی: جرمن کار ساز ادارہ
• ووکس ویگن: سب سے زیادہ فروخت ہونے والی جرمن گاڑیوں بنانے والا ادارہ جو دنیا کا دوسرا بڑا کار ساز ادارہ ہے
• فورڈ: مختلف طرز کی گاڑیاں بنانے والا امریکی ادارہ
• ہیونڈائی اور کِیا موٹرز: جنوبی کوریا سے متعلق رکھنے والے دو معروف کار ساز ادارے
• مزدا: جاپانی کار ساز ادارہ

اس فہرست سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بگ تھری نئی آٹو پالیسی کو تباہ کن کیوں قرار دے رہے ہیں۔ مستقبل میں ہم ان گاڑیوں سے متعلق اپنے قارئین کو آگاہ کریں گے جو پاکستان میں نئے کار ساز اداروں کی جانب سے پیش کی جاسکتی ہیں۔

(بشکریہ : میاں ندیم سرور- pakwheels)
YOU MAY ALSO LIKE:

All three automakers of Pakistan are hitting back hard on the new auto policy and while they have the direct numbers to our representatives in the government, to call or email to express their disappointment, the people of Pakistan don’t but they have strongly come out in support of the new auto policy.