کراچی کی ترقی میں حکومت کی عدم دلچسپی نمائیاں

ایل ڈی اے کی ہاکس بے اسکیم اور ہلکانی ٹاؤن اسکیم 30سالوں سے حکمرانوں کی عدم توجہ کے باعث شہر کی ترقی میں رکاوٹ بن گئی ہے شہریوں کے کم ازکم 30ارب روپے ہاکس بے کے پلاٹوں کی مد میں حکومت کے خزانے میں ہے مگر ایل ڈی اے کو موٹیشن تک نہیں دی جاسکی ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت عوامی مسائل حل کرنے کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر کیاکرتی ہے اور کررہی ہے۔ویسے تو بے تحاشہ منصوبوں کا اعلان ہر سال ہی یہ حکومت کرتی رہتی ہے لیکن بعض ایسے منصوبے یااسکیمیں ہیں جو سالوں سے حکومت کی عدم توجہ کے باعث مکمل نہیں ہو پارہی ہے ۔ ان میں لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی ہاکس ہاؤسنگ اسکیم 42 اور ہلکانی ٹاؤن اسکیم 43بھی شامل ہے ۔ یہ اسکیمیں سابق کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے )کے دور میں 1985میں شروع کی گئی تھی ۔ اگر ان اسکیمیوں پر عالمی اصولوں کے مطابق عمل درآمد کیا جاتا تو کراچی نہ صرف مزید وسیع ہوتا بلکہ غیر معوملی ترقی بھی کرتا۔

اتھارٹی کی ہاکس بے اسکیم کے لیے محکمہ بورڈ آف ریونیو نے گیارہ ہزار چار سو پچاس ایکڑ اراضی کے ڈی اے کے سپرد کردی تھی جس پر کے ڈی اے نے ہاکس بے ہاؤسنگ شروع کرکے 71بلاکس پر مشتمل 80،120،240 اور 400 مربع گز کے رہائشی پلاٹوں تخلیق کیے ۔ 54 ہزار 380کو قرعہ اندازی کے ذریعے الاٹ کیا گیا۔ بعدازاں اس پوری اسکیم کو دس جنوری 1996لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سپرد کردیا گیا۔ اس تھارٹی کا قیام ایل ڈی اے ایکٹ 1993کے تحت عمل میں لایا گیا تھا۔ ہاکس بے اسکیم لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے حوالے کیے جانے کے بعد حکومت نے اراضی کی قیمت کا تعین نہیں کرسکی جس کے باعث اراضی کی موٹیشن کا عمل مکمل نہیں ہوا نتیجے میں پلاٹوں کی لیز کا اختیار ادارے کو نہیں مل سکا ۔ جس کی وجہ سے تاحال لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو جملہ ترقیاتی کاموں اور پلاٹوں کی نیلامی اور الاٹمنٹ کے اختیار کے باوجود اس اراضی کی ملکیت کے حقوق نہیں مل سکے ۔ اس ضمن میں لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ۔ ادارے کے سابق ڈائریکٹر جنرل آغامْقصود نے اس حوالے سے فرائیڈے اسپیشل کو بتایا ہے کہ سپریم کورٹ نے معاملے کا جائزہ لیکر حکم دیا کہ حکومت اور ایل ڈی اے عدالت سے باہر یہ معاملہ حل کرے۔ انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر انہوں نے سمری حکومت کو ارسال کی جو کارروائی کے بعد حتمی فیصلے کے لیے گزشتہ چار سال سے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی میزپر ان کی توجہ کے لیے رکھی ہوئی ہے ۔
اسکیم کے پلاٹوں کی لیز نہیں ہونے کی وجہ سے پلاٹوں پر تعمیرات اور ان کی خرید و فروخت بھی معطل ہے یا وہ کوڑیوں کے دام فروخت ہورہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کرنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت ان پلاٹوں پر مکانات کی تعمیر ات کے لیے کیوں قانونی مشکلات کو حل نہیں کررہی ؟ اہم بات یہ ہے کہ لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ان پلاٹوں کی قیمتوں کی مد میں کم از کم 27ارب روپے برسوں سے سرکارکے اکاؤنٹس میں موجود ہیں اور اس پر یقینا سود بھی حکومت وصول کررہی ہوگی اس کے باوجود پلاٹوں کی لیز اور قبضہ دیئے جانے کا عمل شروع نہیں کیا جاسکا۔کیا حکومت اس مد میں حسابات پیش کرسکتی ہے یا کوئی ادارہ ان سے یہ حساب لے سکتا ہے ؟
کسی اور معاشرے میں لوگوں کی مجموعی رقم روک کر اس کی مد میں طے ہونے والے سودے پورے نہیں کرنے کا تصور بھی نہیں ہے ۔ایسی صورت میں کوئی بھی الاٹی عدالت سے رجوع کرنے کا حق بھی رکھتا ہے ۔
تقریبا تیس سال کا عرصہ بیت جانے کے باوجود چون ہزار سے زائد شہریوں کو ان کا حق نہیں دیا جاسکا اور ان کی جمع شدہ رقوم کی مد میں مسلسل حکومت سود بھی وصول کررہی ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے آؤٹر ڈیولپمنٹ اور دیگر کام اس عرصے میں نہیں کرائے جاسکے جس کی وجہ حکومت کا مالی بحران بتایا جاتا ہے ۔

جبکہ دوسری طرف حکومت نے کے معزول ڈی اے کی اسکیم 43 ہلکانی ٹاؤن بھی ایک نوٹیفیکشن کے ذریعے لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سپرد کرچکی ہے ۔یہ اسکیم 38ہزار 467ایکٹر رقبے اور نو دیہہ ، ہلکانی ، منگھوپیر ، جام جو چاکرو ، بند مراد ، حب ، مائی گڑھی ، گونڈ پاس ، میتان ، اور موچکو پر مشتمل ہے ۔ حکومت نے اس بڑی اراضی کو بھی ایل ڈی اے کے سپرد کیا ہے لیکن قانونی طور پر اس کا موٹیشن بھی نہیں کرایا گیا ۔ اس لیے ایل ڈی اے نے یہاں تاحال کوئی اسکیم کا اعلان نہیں کیا۔حالانکہ 27ستمبر کو 1986کو مذکورہ اراضی سابق کے ڈی اے کے حوالے کی گئی تھی جہاں سے بعد میں اسے ایل ڈی اے کے حوالے کیا گیا۔

کمشنر کراچی نے 11نومبر 1986کو کے ڈی اے اسکیم 42،43،اور 45تیسر ٹاؤن کو کے ڈی اے کے حوالے کرنے کے بعد متعلقہ تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کردی گئی تھی کہ ان علاقوں میں مزید کوئی لیز جاری نہ کی جائے ۔ اس کے باوجود اسکیم 43میں موجود علاقوں میں قبضہ اور پرانی تاریخوں میں لیزوں کا جراء جاری رہا ۔ مذکورہ اسکیموں کا لینڈ کنٹرول تاحال حکومت کی طرف سے ایل ڈی اے کو نہیں دیے جانے کی وجوہات کی بناء پر ہلکانی ٹاؤن کا بڑا علاقہ قبضہ ہوچکا ہے جبکہ مزید علاقے میں لینڈ گریپر ز سرگرم ہیں۔

اگر حکومت ایل ڈی اے کے معاملات اور کراچی کو ترقی دینے میں سنجیدہ ہوتی تو آج صورتحال ایسی نہیں ہوتی اور ہاکس اسکیم کے ہزاروں الاٹیز اپنے پلاٹوں کو مکانات میں تبدیل کرچکے ہوتے ۔جبکہ کراچی نئے کراچی میں تبدیل ہوچکا ہوتا۔

صحافیوں کی اسکیم
ہاکس بے اسکیم میں کراچی پریس کلب کے ممبرز صحافیوں کو بھی حکومت نے پلاٹ الاٹ کیے ہیں۔ جن صحافیوں کو 1996میں یا اس کے بعد یہاں پلاٹ ملے ہیں ان میں سے بہت سے قبضہ ملنے کی آس لیکر اس جہاں سے ہی کوچ کرگئے ہیں ۔جبکہ متعدد ملازمتوں سے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔آٹھ سال سے وزیر اعلیٰ کی سیٹ پر برجمان قائم علی شاہ نے کم از کم آٹھویں مرتبہ پریس کلب کی نومنتخب قیادت کو گزشتہ پیر کو ایک بار پھرر یقین دلایا ہے کہ صحافیوں کے پلاٹوں کا مسلہ جلد حل کردیا جائے گا۔ قائم علی شاہ کی جلد کب آئے گی اس کا انتظار سینکڑوں صحافیوں کو ہے۔

پلاٹوں کی موٹیشن کا اختیار کیوں نہیں دیا جاتا؟
یہ سوال جب سرکاری افسران کے سامنے رکھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر موٹیشن کردی گئی تو پھر حکومت کو اراضی پر براہ راست کنٹرول ختم ہوجائے گا ۔ اس طرح حکومت متعلقہ اتھارٹی کی محتاج ہوجائے گی ۔ جمہوری حکومتوں کو سیاسی فوائد بھی مد نظر رکھنا ہوتے ہیں اسی وجہ سے لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی دونوں اسکیمیوں کو موٹیشن دینے سے حکومت گریزاں ہے ۔ اگر یہ وجہ نہیں ہوتی تو حکومت کو اس کی موٹیشن کرکے حق داروں کو حق دینے پر زیادہ آسانی ہے۔

ایل ڈی اے کا مؤقف
ایل ڈی اے کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ لینڈ کنٹرول مکمل طور پر ملنے کے بعد اسکیم 43ہلکانی ٹاؤن میں کم قیمتیں گھر بناکر دینے کا بھی ارادہ ہے تاہم یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب لینڈ کنٹرول کے تمام معاملات ادارے کے پاس آجائیں ۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 151527 views I'm Journalist. .. View More