فرشتے یا ملک الموت‎‎

ڈاکٹر صاحب کو جب ہم نے بہت ہی کم وقتوں میں امیر بنتے دیکھا تو ہم نے ڈاکٹر صاحب سے ان کی ترقی کا راز پوچھا تو مسکراکر مولویوں کی طرح فتوے کے انداز میں گویا ہوئے "محبت ،جنگ اور کاروبارمیں سب کچھ جائز ہے" ڈاکٹر صاحب مسکرا رہے تھے اور ہم انھیں ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہے تھے اس ایک محاورے نے ہمارے سامنے ان کی شخصیت کو برہنہ کر دیا تھا ہمیں اس ڈاکٹری فتوے نے سناٹے میں لا کر کھڑا کر دیا ہر سو ویرانی دکھائی دینے لگی اس محاورے کو سننے سے قبل ہمارے تحت ُالشعور میں ڈاکٹر کا روپ ایک مسیحا جیسا تھا زندگی بچانے والے تمام شعبے کے لوگ ہمیں سفید کوٹ میں ملبوس فرشتے کے ہیولے دکھائی دیتے تھے ہم اس شعبے سے جڑے افراد کی تعظیم میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے رہے لیکن اس ایک محاورے نے ہماری سوچوں کو منتشر کر دیا ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے جن ڈاکٹر صاحب کو میرے رب نے زندگی بچانے والے فرشتے کے روپ میں ایک ذمہ داری سونپی ہے وہ صرف چند سکوں کے خاطراس ذمہ داری کو کاروبار میں منتقل کر چکے ہیں تب ہم پر اُن کی ترقی کے راز آشکار ہونے شروع ہوئے۔ ہم نے مزید کھوج لگانے کی کوشش کی کہ ڈاکٹر صاحب کے کاروبار میں اتنی برکت کیسے پیدا ہو گئی کہ اتنے کم وقتوں میں یہ امیروں کی صفوں میں کھڑے ہو گئے ؟ تو ایسے ایسے انکشافات نے جنم لئے کہ ہمارے پیروں تلے زمین نکلنا شروع ہو گئی۔ اس وقت دوائیوں کی ملٹی نیشنل اور نیشنل کمپنیاں سب سے زیادہ نا جائز منافع کما رہی ہیں جس کا سب سے زیادہ فائدہ وہ ڈاکٹروں کو فراہم کر رہی ہیں سیمنارکے نام پر ڈاکٹروں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ ہماری کمپنی کی جتنی زیادہ دوائی لکھیں گے اُتنا زیادہ کمیشن کمائیں گے اس کے علاوہ تحائف جس میں الیکٹرونک اشیاء سے لیکر کار ،بچوں کی تعلیمی فیسیں ،اور دنیا بھر کا دورہ بھی شامل ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ عمرہ کا ٹکٹ بھی دیا جاتا ہے اب واﷲ ا علم بصوا ب کہ اس صورت میں عمرہ جائز ہے کہ نہیں یا محبت، جنگ اور کاروبار میں مذہبی فرائض بھی جائز قرار ہو گیا ہو ؟آپ حیران ہو ں گے کہ ضمیر سے عاری ڈاکٹر حضرات دل کے عارضے میں مبتلا مریض کو دل کی ادویات کے ہمراہ معدے کی دوائی بھی شامل کر دیتے ہیں تاکہ دوائی لکھنے کی مد میں کمیشن دستیاب ہو سکے اسی تجویز کردہ دوائی کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہوتی ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ معدے میں گیس کے سبب درد کی شکایت میں مبتلا مریض جب ڈاکٹرز کے پاس آتے ہیں تو انھیں کہا جاتا ہے کہ یہ درد، دل کی دھڑکن درست نہ چلنے کے باعث ہے، ECGکروایا جاتا ہے جو کہ دل کی دھڑکن کو درست ثابت کرتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ دھڑکن کی رفتار اس وقت تو درست ہے لیکن یہ مرض آپکو لاحق ہے اب آپ کو میری تجویز کردہ دوائی تمام عمر کھانی ہے ورنہ ملک عدم سدھار جاؤ گے۔ مریض کے پاس ڈاکٹر کی بات ماننے کے سواکوئی چارہ بھی نہیں ہوتا، پاکستان میں موجود 240 نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے منسلک کوٹ ، پینٹ،ٹائی میں ملبوس نوجوان لڑکوں کا تانتا ڈاکٹر ز کے کلینک اور ہسپتال کے پاس بندھا رہتا ہے ایک گائناکولوجسٹ لیڈی ڈاکٹر کو ان بیگ تھامے لڑکے سے ہم نے ببانگ دہل یہ کہتے سُنا ہے کہ آپکی کمپنی کی اس میڈیسن کے علاوہ میں نے کوئی دوسری میڈیسن نہیں لکھنی سوال یہ ہے کہ آپ کی کمپنی مجھے کتنا کمیشن دے گی؟کمیشن کے عوض ان لالچی دیوتاوں کویہ بھی جانچنے کی ضرورت نہیں کہ اس کمپنی کی میڈیسن کا میعار کیا ہے اس قسم کے لوگ ڈاکٹروں کے روپ میں ملک الموت بن چکے ہیں ۔ ہسپتال،ڈاکٹرز،میڈیسن کمپنیاں زندگی بچانے کی ضمانت سمجھے جاتے تھے لیکن اب یہ ڈاکوؤں کا روپ دھار چکے ہیں ہسپتالوں میں طبی امداد دیکر گھر رخصت کرنے کا تصور بھی مند مل ہوتا جا رہا ہے غریب کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوتی جارہی ہے پاکستان کا محکمہ صحت نہ جانے کن ہواؤں کے دوش پر اُڑ رہا ہے اس کا وجود ہے بھی کہ نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے پیٹرولیم مصنوعات میں کمی ہوئی لیکن ادویات کی قیمتوں کے اضافے نے ہوش اُڑا کر رکھ دیا ،نادار و بے سہارا افراد کے پاس موت کو گلے لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں، پاکستان کے وزیر اعظم اور انصاف کے رکھوالے غریبوں کا درد ضرور رکھتے ہیں اسی لئے تو وہ بے چارے اپنی ہر تقریروں میں غریبوں کے مستقبل کو روشن رکھتے ہیں ۔لیکن جو کچھ طب کے پیشے سے منسلک افراد غریبوں کے ساتھ کررہے ہیں یہ دیکھ کر تو اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران حیران ہو رہے ہوتے ہیں کہ اتنے غریب اب تک کیوں زندہ ہیں۔
Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 91047 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More