ایک فارسی شاعرہ کا فکری سفر

’’منزل لا‘‘ سے ’’منزلِ الا ﷲ‘‘ تک
فدا حسین بالہامی
مختصر زندگی نا مہ :۔
خانم فروغ فُرخزادؔ۱۹۳۵کوتہران میں پیدا ہوئی۔ فروغؔ کی بہارِ زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ شباب پر تھی کہ اچانک آکر خزانِ مرگ نے گلشنِ حیات کو اُجاڑ دیا۔فروغ ؔایک آزاد خیال خاتون کی حیثیت سے زندگی کے مختلف نشیب و فراز سے ہو کر گزری۔مروجہ تعلیم کا سلسلہ ابتدائی مدارج میں ہی منقطع ہوا لیکن خدا داد صلاحیت سے اس نے بہت سے فنون پر دست رس حاصل کی جنمیں شاعری ،خیاطی ، مصوری ، نقاشی اور فلم سازی قابل ذکر ہیں۔ اور ہر فن میں اپنی ذہانت کو لوہا منوایا۔مادر پدر آزادی کے تصور سے اس جواں سال شاعرہ نے بیک وقت شہرت بھی پائی اور بد نامی بھی۔بلکہ اسی تصور کے ہاتھوں اس نے اپنی زندگی کو بھی اجیرن کر دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ عنفوان شباب میں ہی ازدواجی زندگی کا آغاز کرنے والی فروغ ؔ بہت ہی قلیل عرصہ میں ہی ایک اہم نسوانی کردار(بحیثیت شریک حیات) نبھانے میں ناکام ہو جاتی ہے۔فروغ ؔسولہ سال کی عمر میں پرویز شہپور نامی ایک شخص کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھ گئی لیکن چند سال بعد ہی یہ ازدواجی رشتہ طلاق پرمنتج ہوا ۔ شاید فروغؔ کو نسوانی کردار کا سب سے مقدس و محترم پہلو یعنی ماں کا پہلو بھی راس نہ آیا ۔ ۱۹۵۴؁ء میں ایک بچے کی ماں ہونے کے ساتھ ہی اس نے اپنے گلے سے عائلی زندگی کا (بقول اسکے) طوقِ گراں اپنی گردن سے اتار پھینکا ۔اس کے بعد اس کی زندگی کا آوارہ پن اسے چندعیاش طبعیت مردوں سے آشنا کراتا ہے۔اور وہ بے ہدف بے مقصد کبھی ایک رخ پر تو کبھی دوسرے رخ پر رواں دواں رہی اسے خود بھی اس بات کا شدید احساس تھا کہ وہ ایک نا آشنا راہ پر ایک نامعلوم منزل کی جانب بڑی سرعت کے ساتھ محو ِ سفر ہے
میروم، اما نمی پرسم زخویش رہ کجا،منزل کجا،مقصود چیست؟
ترجمہ:میں اپنے آپ سے یہ استفسار کئے بغیر ہی محو ِ سفر ہوں کہ راہ کون سی ہے، منزل کہاں ہے اورسفر کی غرض وغایت کیا ہے؟
۱۹۵۸؁ ء میں فروغ ؔیورپ چلی گئی اور وہا ں سے واپسی پر اس کی ملاقات طہران میں ابراھیم گلشنؔ سے ہو جاتی ہے پیشہ کے اعتبار سے گلشن ؔایک سینما فوٹو گرافرتھااورنظریاتی اعتبار سے مادر پدر آزادی کاداعی! گلشنؔ نے فروغ کو اس بات کے لئے ابھارا کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کا اظہار تمام تر اخلاقی پردہ داریوں سے بے نیاز ہو کر کرے ۔یہ شخص اس شاعرہ کا ایک لحاظ سے فکری مربی بن گیا فروغ نے بھی اس کے نظریہ پر بھر پور عمل کر کے اپنے دو شعری مجموعے (زندان اور دیوار) منظر عام پر لائے۔اس کے بعد فروغ نے تمام اخلاقی ، سماجی ،مذہبی اصولوں کو خاطر میں نہ لایا اوراپنی تخلیقی صلایت کو شاعرانہ آوارہ گردی کے نذر کر دیا ۔ اور بالآخر ۱۹۶۷؁ء میں ایک سڑک حادثہ میں اس باصلاحیت شاعرہ کی زندگی کا المناک خاتمہ ہوا
فروغ ؔکا فکر و فن:۔
باوجود اس کے کہ فروغ ؔ ملکی سطح پر ایران کے اس وقت کے غیر اخلاقی ماحول اور عالمی سطح پر یورپ کے غیر انسانی تہذیب کا شکار ہو گئی اس کے فکرو فن کو آن ِ واحد میں رد نہیں کیا جا سکتا ہے ادبی دنیا پر فروغؔکی شاعری کے اثرات واضع ہیں جن سے صرفِ نظر کرنا ایک معتدل تنقیدی روش کے منافی ہے۔فروغؔ نے عشقیہ شاعری میں ایک نیا لب و لہجہ اختیار کیا۔ فروغ فرخزادؔ کے ابتدائی خیالات سے مختلف مذہبی ،ثقافتی ، معاشرتی اور ادبی حلقوں میں سنسنی پھیل گئی۔ فروغ نے اظہارِ خیال کے لئے بے ساختہ لہجہ اپنایا۔اس نے کبھی بھی اپنا تصور پیش کرتے ہوئے جھجک یا احتیا ط سے کام نہیں لیا۔ فروغؔ کی بیباکی اور شوخی اُن کی شاعری کی خاص پہچان ہے۔ اُس نے شاعرانہ لگی لپٹی سے اکثر و بیشتر اعراض کیا۔ موضوع چاہئے کس قدر نازک اور حساس کیوں نہ ہو فروغؔ نے اپنے حقیقت پسندانہ لب و لہجہ کوترک نہیں ہے۔ ابتدائی دور کی شاعری میں فروغؔ حقیقت پسند نظر آتی ہے۔ اس کے دل میں جس احساس نے بھی سر اُٹھایا اُس کو شاعری کے اپنے مخصوص اور دبیز(Transparent) لباس میں یوں پیش کیا۔ کہ اس احساس کا انگ انگ عریاں نظر آتا ہے۔ فروغ ؔکا بے باکانہ اور بے حجابانہ طرز سخن ان کی فنی خوبیوں اور فکری خامیوں کی بیک وقت غمازی کرتا ہے جہاں مغرب زدہ مفکرین اور نقاد اس بے باک شاعرہ کو ایک نئے انقلاب کی نقیب سمجھتے تھے وہاں مذہبی عقائد پر یقین رکھنے والے اور مشرقی روایات کے دلدادہ افراداسے ایک باغی اور فحش گو شاعرہ کی حیثیت سے پہچاننے لگے فروغ فُرخزادؔ نے حقوقِ نسواں کی بازیابی کیلئے(بزعم ِ خود) اپنے سماج سے ٹکر لی ہے۔ اس فارسی شاعرہ نے صرف ۳۲سالہ زندگی کا نصف حصہ فارسی شاعری کی نذر کردیا۔ پندرہ سالہ ادبی سفر میں فروغ فرخزاد نے اپنی مرنجانِ مرنج طینت سے مجبور ہو کر متضاد نظریات کو شعری پیکر میں پیش کیا ۔اُس نے ان فطری خواہشات کو شاعری کی زبان بخشی، جس کا اظہار ایک مشرقی خاتوں کو شرم و حیاء کے حدود قیود توڑنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ فروغؔ نے بہت سے اخلاقی و مذہبی اصول اپنی باغیانہ فکر سے ٹھکرادیئے۔ ان کے اظہار خیال کی جرأت داد طلب ہے۔ جن رموز کو ایک عورت (خصوصاً نوجوانی میں) فطرت کے شبستان میں بھی شرم و حیاء کے ہزار ہا غیر مرئی پردوں میں چھپاکررکھتی ہے، فروغ نے اُن رموز کی حقیقت و ماہیت ببانگِ دہل عریاں کر دی۔
وحشی و داغ و پرعطش و لرزان

1چوں شعلہ ہای سرکش بازیگر
1درگیردم، بہ ہمہمہ درگیرد

+خاکسترم بماند در بستر
'ترجمہ’’:میں سرکش بازیگر کی طرح وحشی، پرسوز، تشنہ لیٹی ہوں۔ وہ ہماہمی کے ساتھ لیٹا ہے۔ خاکستر ہوکر بستر پر پڑی ہوں ‘‘
کج فکری کے چند ایک عوامل :۔
۱۱:۔احساس محرومی اور انتقامی جزبہ ٔ
فروغؔ کی اس سرکش طرز نگارش کے پیچھے احساسِ محرومی کا بھی عمل دخل ہے۔ کیونکہ اس حساس طبیعت خاتون کو اجتماعی اور سماجی سطح پر نسوانی کردار کے تئیں کوئی خاص وقعت دکھائی نہیں دی۔ اس پر مستزاد یہ کہ ذاتی زندگی کے تلخ تجربوں نے بھی ان کے کلام میں تلخی اور تندی کا عنصر شامل کردیا۔ جس دور میں فروغؔ کے شعور نے آنکھیں کھولی۔ ایرانی عورت روزبروزمردوں کے ہاتھوں کھلونا بنتی جارہی تھی۔ تانا شاہی دور میں مغربی تمدن و تہذیب کے اثرات بہت حد تک ایرانی معاشرے میں سرائیت کرچکے تھے۔ جسکی وجہ سے عیش پرست اور بدکردارمردوں نے ہوس پرستی کا بازار گرم کرکے رکھا تھا۔ فروغ کی طائرانہ نگاہ نے مردوں کی ہوس پرستی اور صنف نازک کی پاک و طاہر الفت طلبی کا یوں موازنہ کیا۔
من صفائی عشق میخواہم ازو


/تافدا سازم وجود خویش را
5اوتنی میخواہد از من آتشیں


3تابہ سوازند درونِ خویش را
žترجمہ: ’’میں اُس سے پاکیزگئی عشق کی طالب ہوں تاکہ اپنا وجود اُس پر نچھاور کردوں۔
لیکن وہ میرے جلتے بدن کا خواستگار ہے تاکہ وہ اپنے باطن کو سلگا دے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ اس صورت حال پر فروغؔ برہم ہوئی۔ تو اپنی برہمی کا اِظہار شاعری کے توسط سے برملا کیا۔ اپنے ذاتی تجربے اور جزوی مشاہدے کو بنیاد بنا کر اجماعی اور کلی نظریہ قائم کرنا شوریدہ طبیعت انسان کا شیوہ رہا ہے۔ فروغؔ نے بھی اپنی ذات کے ساتھ ہوئی زیادتی کو اجتماعی رنگ دیا۔ اور جزوکوکل پیش کرکے اسی روش کو فروغ دیا۔ وہ کچھ مردوں کی خودپسندی، شہوت پرستی، مطلب پرستی اور جسم طلبی کو بنیاد بناکر عورت کو کلی طور پر مرد ذات سے متنفر کرنا چاہتی ہے۔
ای زن کی دلی پر از صفا داری

3از مرد وفا مجو، مجو، ہرگز
/او معنیٔ عشق رانمی داند

/رازِ دل خود او مگو ہرگز
ترجمہ: اے پاک و پاکیزہ دل رکھنے والی عورت! مرد سے ہر گز ہرگز وفا کی امید نہ رکھ۔
وہ عشق کی معنویت سے ناآشنا ہے۔ اُس کے سامنے دل کے بھید مت کھول۔
انتقامی جذبہ کے آنسووں سے لبریز آنکھیں تمیزِ خوب و زشت کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہیں۔آتشِ انتقام اپنے مخالفین کے پورے اثاثہ کو خاکستر کردیتی ہے، یہ دیکھے بغیرکہ اس اثاثہ میں کون سی شئے محترم ہے اور کون سی شئے واقعی نام و نشان مٹانے کی حقدار ۔ فروغؔ انتقامی جذبے سے مجبور ہوکر اسی کیفیت کا شکار ہوئی۔ اسکے دل میں اُٹھنے والاانتقامی جذبہ، ایک تجربہ کار، متحمل اور منصوبہ ساز دماغ کی رہنمائی نہ ملنے کے سبب فکری لااُبالی پن کی صورت اختیار کرگیا۔ یہی وجہ ہے کہ غیر فطری وغیر اخلاقی بندشوں سے ایک عورت کو آزادی دلانے کی کوشش میں ان مذہبی و اخلاقی حد بندیوں سے بھی متجاوز ہوئی جن کی بدولت وجودِ زن ہزار ہاروحانی و فکری آلودگیوں سے مبرہ رہتی ہے۔ اپنی نظم ’’سرودپیکار‘‘ میں فروغ’ ایرانی عورت کو مردوں سے کسی قسم کی نیک توقعات رکھنے سے پرہیز کی تلقین کرتی ہے۔ اور اپنی انفرادی حیثیت کو منوانے کی بس ایک حتمی اور لازمی حل ’’پیکار بامرد‘‘ کے نظریہ میں پاتی ہے اس طرح ایرانی عورت کو نظریۂ ’’پیکار بامرد‘‘ پر عمل در آمد کرنے پر اُکساتی ہے۔
تنہا توماندی ای زنِ ایرانی

3دربند ظلم و نکبت و بدبختی
5کو مرد پر غرور، بگو بر خیز

9کہ اینجا زنی بجنگ تو می خیزد
’ترجمہ: اے ایرانی خاتون! تم ہی ظلم و ذلت اور ناگفتہ بہ حالت میں گرفتار ہو۔
کہہ دو اُس مرد پُر غرور سے کہ اپنا راستہ ناپے کیونکہ (اب) یہاں تمہارے(مردکے) خلاف صنفِ نازک جنگ آمادہ ہے۔
۲:۔علمی فرومائیگی
فروغ کا تعلیمی سفر خاصا مختصر تھا نویں درجے تک پہچنے کے فوراً بعد ہی اس نے مروجہ تعلیم سے ہاتھ کھینچ لیا اس طرح وہ حیات و کائنات کے متعلق اہم نظریات کے مطالعے سے محروم ہو گئی جس کا منطتقی نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے یہاں فکری مطالعے کے بجائے سماجی مشاہدہ ہی شاعری کے واسطے خام مواد فراہم کا بنیادی ماخذ قرار پایا۔ یہی وجہ ہے کہ اُنکی ابتدائی شاعری میں فکری پختگی کا دیوالیہ پن صاف نظر آتا ہے۔ اس فکری دیوالیہ پن نے عدلِ الہٰی کومورد تنقید ٹھرانے والے لا مذہب فلاسفہ سے افکارِ مستعار کو ہی غنیمت جانا۔ ان ہی افکار میں چند کا انتخاب کرکے اپنی شاعری میں جگہ دی۔ جن میں خصوصی طور ’’انسان کی مطلق آزادی‘‘ اور ’’آفرینشِ ابلیس کی غرض و غایت‘‘ کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے شعور ی یا غیر شعوری طور فروغ مغرب کے مشہور ماہرِ نفسیات اور فلسفی سگمنڈ فرائیڈ کے نظریہ’’ جنسی آزادی‘‘ سے بھی متاثر ہے۔ اس قسم کے منفی افکار فروغؔ کو یہاں تک گستاخ بنادیتے ہیں کہ وہ نظامِ خداوندی کو بھی ہدفِ تنقید بنانے میں کسی بھی قوم کی کوئی عار محسوس نہیں کرتی ہے ۔
آفریدی خود تو ایں شیطان ملعون را

9عاصیش کردی او را سوی ماراندی
Gایں تو بودی ایں تو بودی، کزیکی شعلہ

?دیوی اینسان ساخت در راہ بنشاندی
ðترجمہ: اے خدا! تو نے خود ہی شیطانِ ملعون کو پیدا کرکے ہم پر مسلط کردیا حالانکہ اُس نے تیرے حضور معصیت کا ارتکاب کیا تھا۔
تو ہی تھا ہاں!یہ تو ہی تھا کہ آگ کے شعلے سے ایسا دیو خلق کیا اور پھر اُسے ہمارے لئے سنگِ راہ بنا ڈالا۔
مہلتش دادی کہ تا دنیا بجا باشد

=باسیاہ انگشتان شومش آتش افروز
7لذتی وحشی شود دربستری خاموش

;بوسہ گردد برلبانی کز عطش سوزد
Òترجمہ: اُس (ابلیس) کوتاقیام قیامت مہلت و فرصت دے دی کہ کالی اور منحوس انگلیوں سے معصیت کی آگ جلاتا رہے۔
خاموش بستر میں وحشی لذت بن جاتا ہے ان تشنگی سے جلے ہوئے ہونٹوں کیلئے بوسہ بن جاتا ہے۔
اس شاعرہ کو مطلق آزادی کی حصول کے سلسلے میں ایک عبرت انگیز راہ سجھاتی ہے کہ جامۂ عبدیت کوتار تار کرکے خلعتِ معبودیت کی آرزو کی جائے۔ تاکہ نہ صرف زندگی کو اپنی خواہشات کے تحت گزارا جائے۔ بلکہ پوری کائنات کو بھی از سرِ نو اپنے من مرضی کے مطابق تعمیر کیا جائے۔ فروغؔ کے شعری مجموعے ’’عصیان‘‘ میں ایک نظم بعنوان ’’خدائی ‘‘ شامل ہے۔ جس میں فروغ الہٰی اصول و قوانین کو انسان کی آزادی کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتی ہے۔ وہ اس بات کا برملا اظہار کرتی ہے کہ نظامِ کائنات کی زمام اگر اسکے ہاتھ میں آجائے۔ تو وہ انسان کو تمام قسم کی ضروری یا غیر ضروری بندشوں اور پابندیوں سے رہائی دے گی۔ نظم ’’خدائی‘‘ کا لفظ لفظ فروغؔ کی گستاخیوں کا آئینہ دار ہے۔ کہتی ہے کہ اگر میں خدا ہوتی تو۔
وحشت از من سایہ دردلہا نمی افگند

;عاصیاں را، وعدہ دوزخ نمی دادم
7یا رہ باغ ارم کو تاہ میکردم

Aیا در این دنیا بہشتی تازہ میزادم
Øترجمہ: میرا خوف گنہگاروں کے دلوں پر سایۂ فگن نہ ہوتا اور نہ ہی جہنم کے عذاب کی وعید سناکر اُنہیں میں ڈراتی۔
یا تو میں اسی دنیا میں ایک نئی جنت پیدا کرکے رکھ چھوڑتی ۔ یا جنت تک لے جانے والے راستے کو مختصر اورآسان بنادیتی۔
خانہ میکردم میان مردم خاکی

3خود میکردم میان مردم خاکی
9می نشستم باگروہ بادہ پیمایان

=شب میان کوچہ ہا آواز میخواندم
šترجمہ: میں خاک پیکر انسانوں کے درمیان گھر بناکر اپنے آپ کو انہی میں بسالیتی۔
راتوں کو انبوہِ بادہ خواران کے ساتھ گلیوں میں ہلڑ ہنگامہ مچا دیتی۔
من رہا میکردم این خلق پریشان را

9تادمی از وحشتِ دوزخ بیاسایند
?جرعی ای از بادۂ ہستی بیا شامند

9خود را بازینت مستی بیا رایند
Ðترجمہ: میں پریشانی میں گرفتار لوگوں کو خوفِ جہنم سے رہائی دلادیتی تاکہ(وہ) لمحہ بھر چین کی سانس لے لیتے۔
شراب زندگی کی ایک گھونٹ پی جاتی۔ خود کو مستی کی زینت سے آراستہ کردیتی۔
۳:۔سماجی اثر پزیری
ابتدائی دور میں شاعر اپنے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور معاشی حالات سے بہت حد تک متاثر ہوا کرتا ہے اس کی فکرسماجی افکار پر غلبہ حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اولین دور میں شاعراثر انداز ہونے کے بجائے اثر پذیر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ فروغ فرخزاد ؔکو بھی اپنے شعری سفر کے دوران اس مرحلے سے گذرنا پڑا اور یوں اپنے ماحول و حالات سے اثر پذیری کا عمل اس کے روح و قلب میں جنسی جذبات کو مہمیز دے گیا۔ فروغ کی شاعری کے ابتدائی دور کے حالات بہت حد تک مغربی تمدن و تہذیب کے زیر اثر تھے خصوصاً مغرب سے در آمد شدہ جنسی برانگیختگی کا سازوسامان ایران میں اس وقت بڑے پیمانے پرمہیا تھا ۔ حقوق نسواں اور آزادیٔ نسواں کے شعلہ زن نعرے جو مغرب کی سرزمین میں گونج رہے تھے ان شعلوں کی آگ سے مشرق کی حساس طبیعت خواتین کے جذبات میں اُبال آگیا۔ فروغ فرخزاد کے جذبات کی سرشاری کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے مغربی عورتوں کی آزادانہ معاشرتی کردار کو زیر مطالعہ رکھا اور پھر اس کردار کو مشرقی عورتوں کی بندشوں کو توڑنے کے سلسلے میں طاقت کا منبع قرار دیا۔ ابتدائی شاعری کے بے حجابانہ طرز سخن سے پتہ چلتا ہے کہ فروغ فرخزادؔ اپنے سماجی راہ و رسم سے متنفر ہے ایک طرف سماجی بے راہ روی نے اس کے جنسی شعلوں کو تیزترکردیا اور دوسری طرف مذہبی وروایتی جھکڑبندیوں نے اسکے سامنے طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ اس کشمکش نے فروغ فرخزاد کے اندرون میں نفسیاتی جنگ کی صورتِ حال پیدا کردی۔ یہی وجہ ہے اس نے ان جھکڑبندیوں کے خلاف اپنے میانِ دل سے چمکتی ہوئی شعری تلوار نکال دی اور علم بغاوت لے کر ان خواتین کی نمایندگی کرنے لگی ،جو اپنے مخصوص نظریات کے مطابق مشرقی عورت کی حالتِ زار پر نالاں تھیں۔
ذاتی میلانات سے گریز:۔
فروغ نے اپنی باغی طینت کے زیر اثر شعری سفر کا آغاز ’’منزل ِ لا‘‘ سے کیا یعنی وہ تمام ٹھونسے ہوئے افکار سے گریزاں ہوئی اور بغیر کسی سماجی خوف کے اپنی راہ آپ ہی متعین کرگئی یہی وجہ ہے کہ اس کا اسلوب نگارش کسی قسم کی رعایت سے ماورأ دکھائی دیتا ہے۔فروغ کے شعری مجموعے اسیر، عصیان اور دیوار میں افکار کی روش نمایاں ہے جس کے تحت وہ ایک الگ جہاں آباد کرنے کی درپے نظر آتی ہے یہاں تک کہ نظامِ خداوندی پر بھی تنقیدی نگاہ ڈال دیتی ہے۔
گر خدا بودم و گراین شعلۂ عصیان

=کی مرا تنہا، سروپای مرامی سوخت
¸ فکر و خیال کی کٹھن وادیوں میں ’’منزلِ لا‘‘ سے آغاز کرکے ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی آخر کار فروغ فرخزاد ’’منزل الااﷲ‘‘ تک رسائی حاصل کرہی لیتی ہے۔ ابتدائی دور میں فطری میلانات کے زیر اثر مکڑی کی طرح فروغ نے اپنی ذات کے ارد گرد نظریات کا جال بُنا تھا۔ ارتقایِ عمل سے رفتہ رفتہ تغیر پذیر سوچ نے ان کو (فروغ کو) اس جال سے نجات دلادی اور یوں وہ اپنی جنسی و ذاتی میلانات سے اوپر اُٹھ کر اجتماعی، معاشرتی، انسانی اور آفاقی موضوعات کی طرف بھی متوجہ ہوئی۔ اس دور کی بہترین نظیر فروغ کا شعری مجموعہ ’’تولدی دیگر‘‘ ہے اس شعری مجموعہ کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا حقیقت پر مبنی ہوگا کہ ’’تولدی دیگر‘‘ میں ایک نئی فروغ ؔنئے آب و تاب کے ساتھ منشہہ شہود پر آ گئی۔ ذات کو چھوڑ کر اجتماع کی فکر نے پرواز ِ تخیل کو ایک نئی وسعت سے آشنا کیا۔
اجتماعی ہمدردی نے اس بے مثال شاعرہ کو دربارِ خداوندی میں لاکھڑا کیا۔ یہ وہ منزل ہے جب فروغ کانسلی مسلمان پیکر کسبی ایمان کی روشنی سے جگمگا اُٹھا اس روشنی کی بدولت اسے چندایک حقائق دکھائی دیئے جو عبد کو معبود کی معرفت کا ذریعہ بن جاتے۔ اور یوں ابتدأ میں صرف لفظ ’’لا‘‘ کی رٹ لگانے والی شاعرہ کے دل میں بے ساختہ ’’الاﷲ‘‘ کے نغمے گونجتے ہیں۔ اپنی تمام فکری صلاحیتوں اور خودی کے جذبات سمیت بارگاہِ خداوندی میں سر تسلیم خم کرتی ہے اور اپنے انکار کو اقرار میں تبدیل کرتے ہی اپنے معبود حقیقی سے جاملتی ہے۔
اپنی گذشتہ شاعری میں مذہبی عقائد سے روگرداں شاعرہ معرفتِ الہٰی کے ذرائع تلاشتی پھررہی ہے اور تمام وجدانی کیفیات کو اپنے افکار سے جلا بخشتی ہے جو مخلوقِ باشعور یعنی انسان کو اپنے خالق کے سامنے تائب بنادیتی ہیں۔
یکدم زگرد پیکر من بشگاف

/بشکاف ایں حجاب سیاہی را
/شاید درون سینۂ من بینی

3ایں مایۂ گناہ و تباہی را
7دل نیست این ولی کہ بمن دادی

7در خون طپیدہ، آہ رہایش کن
5یا خالی از ہویٰ و ہوس دارش

1یا پای بند مہرو وفایش کن
1تنہا تو آگہی و تومیدانی

/اسرار آن خطای تحسین را
1تنہا تو قادری کہ بخشائی

5بہ روحِ من صفائی نخستین را
3آہ، ای خدا چگونہ تراگویم

5کز جسم خویش خستہ و بین ارم
/ہر شب بر آستان جلال تو

1گوئی اُمید جسم و گر دارم
ªترجمہ: اے میرے پروردگار! ایک بار میرے وجود کا خول توڑ دے اور اس سیاہ پردے کو چاک کر۔
شاید تو میرے سینے کے اندر گناہ اور بربادی کا خمیردرک کرے گا۔
یہ دل جو تونے مجھے سونپا ہے اصل میں دل نہیں ہے بلکہ آتش خون میں سوزاں و تپاں ایک شے ہے۔
آہ! اے خدا ۔ اسے رہائی دلادے
یا اسے ہوا و ہوس سے پاک رکھ یا اسے مہرو وفا کا پابند بنا۔
توہی اے میرے پروردگار واقف ہے توہی جانتا ہے اس پہلی غلطی کے بھیدکو۔ میری روح کو وہ پہلی سی پاکیزگی عطا کرنے پر صرف اور صرف توہی قدرت رکھتا ہے۔
آہ! اے میرے پروردگار۔ تجھے کیسے بتاؤں کہ شکستہ بدن کے حامل ہوتے ہوئے بھی امیدِ کرم سے لبریز ہوں۔
ہر شب تیری جلالت کی دہلیز پر ایک دوسرے پیکر کی امیدوار ہوں
 
Fida Hussain
About the Author: Fida Hussain Read More Articles by Fida Hussain: 55 Articles with 54405 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.