"اٹھی اک چنگاری کہ سارا گلشن جلا گئی"

ہنستی کھیلتی بستی میں نہ جانے کہاں سے چنگاری نکلی جو شعلہ بن کر کتنے بے گناہ لاکھوں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے گئی کتنے بچوں کے سروں سے ماں باپ کا سایہ چھن گیا کتنی مائیں اپنےلاڈلوں سے محروم ہوگئیں کتنی عورتیں بیوہ ہوگئیں- میں ایسے ہی ایک کہانی اپنے والد محترم صبغت اللہ خان کی زبانی سنانے جا رہا ہوں. ہم چھ بھائی اور ایک بہن تھے ہم ہنسی خوشی اپنی زندگی بسر کر رہےتھے. .میری عمر اس وقت چاربرس تھی جب ہندو ومسلم کش فسادات ہورہے تھے اور ہندؤں نے مسلمانوں کو اپنے ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا ہوا تھا آخر وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہو گئے۔ہمیں اپنا گھر,زمین و کاروبار سب کچھ چھوڑنا پڑا اور ایک رات اپنےچچا سخاوت و کفایت کے گھرسکون سے قیام کیا اور دوسرے ہی دن صبح پاکستان کے وجود میں آنے کی خبر آگئ سب نے اللّٰہ کا شکر ادا کیا۔ میرے والد سعادت اللہ خان نے یہ خبر سن کر کہا میں پاکستان جاؤنگا اور نئے سرے سے اپنا گھر بناؤنگا کیونکہ ہندوستان کےحالات سامنے تھے اور مسلمانوں کا ان حالات میں رہناانتھائی مشکل تھا-والد صاحب اور میری والدہ اپنے چھے بیٹوں دو بہو اور ایک بیٹی کے ہمراہ پاکستان آنے والی ٹرین میں سوار ہوگئے ایک عجب خوف کا سماء تھا باہر فائرنگ ہو رہی تھیں اور فسادات برپا تھے۔ اچانک ایک گولی ہمارے ڈبے میں داخل ہو کر بھابھی کے پاؤں پر لگی اور ٹخنہ چیرتے ہوئے گزرگئی یہ سب دیکھ کر پریشںانیاں بڑھتی گئیں لیکن کسی نے ہمت نہیں ہاری اورسب نے اپنا عزم پختہ رکھا- اچانک ٹرین رک گئی اور خبر آئی کے ہندو اور سکھوں نے ٹرین میں آکر مسلمانوں پرحملہ کرنا شروع کردیا ہے شور کی آواز سن کر میرےمنجھلے بھائی سلامت اللہ برتھ سے نیچے اتررہے تھے کے اچانک کسی نے انکےسر پر حملہ کردیا اورسر تن سے جدا گردیا وہ تڑپتے ہوئے نیچے گر کر شھید ہو گئے۔ یہاں بڑے بھائی نعامت اللہ بھی کسی سے گتھم گتھہ تھے. میں والدہ کی گود میں تھا اور میرےدیڑھ سالہ چھوٹے بھائی عنایت اللہ پر ظالموں نے حملہ کر نا چاہاجو کہ والدصاحب کی گود میں تھے والد صاحب نے کہا "تم ہمیں ماردو لیکن ہمارے بچوں کو نہ مارو" ظالموں نے کہا "ہم تیرے سامنے تیرے بچوں کو مارینگے پھر تجھے" اچانک ان ظالموں نے چھوٹے بھائی عنایت اللہ پر حملہ کرکے دونوں کلّے لٹکا دیے اور شدید زخمی کردیا والد صاحب طیش میں آکر ظالموں سے مقابلہ کرنا چاہا مگر بچوں کی جان بچانے میں والد صاحب کے دونوں ہاتھ زخمی ہوگئےتھے اور کوئی ہتھیا ر نہ ہونے کے سبب بھرپور مقابلہ نہ کر سکے اور ظالموں نےوالد صاحب کو بےدردی سے شھید کردیا-بڑے بھائی نعامت اللہ یہ دیکھ کر اپنےآپے میں نارہے اور ظالموں سے تلوار چھین لی اور اس ظالم کاسرتن سے جدا کردیا بھائی نعامت شیر کی طرح ظالموں پر ٹوٹ پڑے ان کے دل میں انتقام کی آگ لگی ہوئی تھی ان کے ہاتھوں سے کتنے ظالم جھنم رسید ہوئے اور کتنےخوف سے ہی بھاگ گئے۔اب ہمارے ڈبے میں کوئی نہیں تھا بھائی سکون سے کھڑے ہوئے تھے- میں خون سے تَر تھا لیکن وہ خون میرا نہیں بلکہ میرے اوپر لاشیں گر رہی تھیں اور میں لاشوں کو دکھیل کر ان کے اوپر بیٹھ رہاتھا میں ابھی تک سہی سلامت تھا- پھر اچانک سکھوں کا ریلا دوبارہ ہمارے ڈبے کی طرف آرہا تھا بھائی نعامت اُللہ انکو دیکھ کر چھپ گئے لیکن بھائی کو کیا پتہ تھا کہ ان ظالموں نے انہیں دیکھ لیا ہے اور انہی کی تلاش میں وہ آئے ہیں بھائی نعامت اُللہ کو چونکہ تلوار بازی کا فن حاصل تھا اور دہلی میں تلوار بازی کے استاد مانےجاتےتھےاسلیئے سکھ تلوار سے حملہ کرنےمیں نا کام رہے اور دور سے ہی نمک کا تیزاب پھینک کر انہیں اتنا نڈھال کردیا کہ وہ تلوار اٹھانے کی بھی طاقت نہیں رکھ پائے ظالموں نے موقع پا کر بھائی نعامت اُللہ کو تلوار سے وار کرکے شھید کردیا۔ میں یہ سارا منظر کچھ ہی فاصلے پر بیٹھا دیکھ رھا تھا کے اچا نک کسی نے میری کمر اور گردن پر بھالے سے وار کیا اور میں لاشوں پر گر پڑا سکھوں نے دوسرے لوگوں پر حملہ کر کے انہیں بھی شھید کردیا اور میں ان لوگوں کی لاشوں کے نیچے کئی گھنٹوں دبارھا میرے ساتھ میرے بھائی حشمت اللہ, عظمت اللہ, عنایت اللہ اور بہن جمیلہ بھی لاشوں کے ڈھیر میں دبے ہوئے تھےاورمیرے خالہ ذات بھائی ظفر لاشوں کے ڈھیر میں سب زخمی اور شھید احباب کو تلاش کر رہے تھے. یہاں میری والدہ کو بھی ظالموں نے حملہ کر کے شدید زخمی کردیا تھا بھائی ظفر میری والدہ کے لئے پانی لینے گئے پانی کی ٹنکی کے قریب لاشوں کا ڈھیر لگا ہواتھا جس میں سے ایک زخمی عورت نے بتایا کہ پانی میں زہر ملادیا گیا ہے بھائی ظفر واپس آئے تو میری والدہ شھید ہو چکی تھیں اور والدہ کا سر بھائی حشمت کی گود میں تھا اور بھائی کہ رہے تھے "بھائی امّاں سو رہی ہیں" بھائی ظفر نے انتھائی شفقت سے کہا ہاں بیٹا پرے ہوجاؤ اماں کو سونے دو اتنے میں ہندو اور سکھ شرپسندوں نے اپنی تسلی کے لئے لاشیں ٹرین سے باہر پھیکنا شروع کردیں اور جو زخمی زندہ تھے انھیں شھید کرنا شروع کردیا وہ ظالم ہم تک پہنچنے ہی والے تھے کہ مسلمان فوج آگئی اور سکھوں پر حملہ کرکے انہیں مار بھگایا اور مسلمان فوج نے ہم پانچ بھائی بہنوں و دیگر لوگوں کو حفاظت سے منزل تک پہنچایا مگر چھوٹے بھائی عنایت اللہ جو کہ شدید زخمی تھے وہ زخموں کی تاب نہ لا سکے اور وہ بھی شھید ہو گئے.
Sufyan Ullah Khan
About the Author: Sufyan Ullah Khan Read More Articles by Sufyan Ullah Khan: 2 Articles with 5932 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.