معذور افرادکے ساتھ ایک اور زیادتی کیوں ؟

حکومتوں کی نالائقی اور غلط پالیسیوں کا خمیازہ بے چاری عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے پاکستان میں شرح تعلیم خوفناک حد تک گرتی جا رہی ہے جس کی ذمہ داری سو فیصد حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جن کی لاپرواہی کی وجہ سے لوگ تعلیم سے دور ہی ہوتے چلے جا رہے ہیں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد ملک میں پہلے ہی کم ہے اوپر سے جب خواندہ افراد بے روزگاری کے میدان میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں
اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو کچھ جسمانی معذوری کی آزمائش میں مبتلا کیا ہے تو اسے اضافی طور پر کئی ذہنی صلاحیتیں بھی عطا فرمائی ہیں مغربی ممالک اس کا بھرپور ادراک ہے چنانچہ وہ معذور افراد کو ہر ممکن سہولیات مہیا کر رہے ہیں جس کی بدولت ان کے معذور افراد نارمل افراد کی سی زندگی گزار رہے ہیں برطانیہ اور امریکا کے علاوہ بیشمار مغربی ممالک میں معذور افراد کو نجی، سرکاری اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں فخر کے ساتھ ایڈجسٹ کیا جاتا ہے کیونکہ معذور افراد ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں جو بعض اوقات لاتعداد صحتمند افراد کے بس کا روگ بھی نہیں ہے جیسا کہ دو ایسے کوہ پیماؤں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کی جن میں ایک ٹانگ اور دوسرا بازو سے معذور ہے مختلف ادوار میں آنے والی حکومتوں کی نالائقی اور غلط پالیسیوں کا خمیازہ بے چاری عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے پاکستان میں شرح تعلیم خوفناک حد تک گرتی جا رہی ہے جس کی ذمہ داری سو فیصد حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جن کی لاپرواہی کی وجہ سے لوگ تعلیم سے دور ہی ہوتے چلے جا رہے ہیں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد ملک میں پہلے ہی کم ہے اوپر سے جب خواندہ افراد بے روزگاری کے میدان میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں تو دیگر لوگ اسے اپنے لئے سبق مان کر بچوں کو کام پر لگا دیتے ہیں عوام اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے ہیں حصول علم کے لیے جو غریب ہے جسے علم حاصل کرنے کی چاہ نے اس جانب کھینچا ہے علم کی جستجو نوجوانوں میں موجودگی اس بات کی واضح دلیل ہے لیکن جیسے تیسے ملازمت اور بہتر مستقبل کی امید ہر تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر تعلیم کے حصول کے بعد بھی ان نوجوانوں کی مشکلات ختم نہیں ہوتیں جس طرح نیشنل ٹیسٹنگ سروس نے ہر امیدوار سے فی فارم ایک ہزارروپے وصول کرتے ہے اسے طرح معذور افرا د سے بھی فی فارم ایک ہزارروپے وصول کرتے ہے مگربڑی غورطلب بات یہ ہے کہ معذور افرا دپہلے ہی اپنی معزوری کے باعث مایوس ہو تے ہیں اوپرسے نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے امتحان کی فیس انہیں مزید پریشانی میں مبتلا کر دیتی ہے ا ور معذور بیروزگار نوجوانوں سے کروڑوں روپے کمائے جاتے ہیں اسی طرح نیشنل ٹیسٹنگ سروس کو منافع بخش ادارہ بنانے کا ایک ذریعہ ہے موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے دو برس پورے کر چکی ہے اس پیچیدہ طریقہ کار نے معذور بیروزگار نوجوانوں کو مزید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے نیشنل ٹیسٹنگ سروس معذور افرا د کی فیس اور فارم جمع کرانے کے طریقہ کار میں نرمی پیدا کرے یہ کیسے ممکن ہے ایک معذورنوجوان جو بیروزگار ہو وہ ملازمت کے حصول کے لیے مزید رقم خرچ کرے اور یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سرکاری اداروں کا خسارہ پورا کرنے کے لیے ملازمتوں کے نام پر اس کا خون نچوڑا جائے، لگتا ہے ریاست پاکستان کے حکمران بھی ان افراد کی ذمے داری اٹھانے سے انکاری کرتے نظر آتے ہیں کاغذات کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کے لیے 2 فیصد کوٹہ مختص تو ہے لیکن یہ بھی غصب کیا جا رہا ہے یہ کوٹہ نجی و سرکاری ملازمتوں کے لیے مخصوص ہے جن میں سول سروسز بھی شامل ہیں معذور مگر تعلیم یافتہ افراد کے لیے جب عام سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہیں تو سول سروسز والے انہیں کیسے برداشت کر سکتے ہیں سپیریئر سروس کو یہ کیسے گوارا ہوگا کہ کوئی اعلیٰ سرکاری افسر بیساکھیوں کے سہارے چل کر اپنے دفتر میں آئے یا اسے کوئی جسمانی معذوری لاحق ہو معذوروں کے لیے پاکستان عالمی تناظر اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک جامع قانون سازی کرتا لیکن حقائق انتہائی شرمناک اور بھیانک صورتحال پیش کرتے نظر آتے ہیں، حکمرانوں کی بے حسی کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 69 برسوں کے دوران پاکستان میں معذور افراد کے حوالے سے صرف ایک قانون ڈس ایبل پرسنز ایمپلائنمنٹ اینڈ ری ہیبلی ٹیشن ارڈیننس 1981 میں بنایا گیا اور ماہرین اس آرڈیننس کو بھی معذور ارڈیننس قرار دے کر رد کر چکے ہیں کیونکہ اس آرڈیننس میں خاصی معذوریاں، کمزوریاں اور خامیاں ہیں جنہیں رفع کرنے کی اشد اور فوری ضرورت ہے حکومتوں کو عوامی مفادات کی پالیسیاں اور مستقبل کا ٹریک مرتب کرنے کے لیے راہنمائی میسر آسکے بیشتر ممالک میں جسمانی معذوری کو بوجھ نہیں سمجھا جاتا ان ممالک میں کمزور جثہ افراد کو روزگار کے تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق روزگار کے انتخاب کی مکمل آزادی ملتی ہے سرکاری و سوشل ویلفیئر کے ادارے بھی ان افراد کی معاونت میں بھر پورکردار ادا کرتے ہیں چنانچہ وہاں کے معذور افراد خود کو کبھی کم تر نہیں سمجھتے اور زندگی کی مسابقت میں عام صحتمند افراد سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں رہتے حکومت ان کے تمام حقوق دینے کے وعدے تو کرتی ہیں لیکن ان وعدوں کو وفا کرنے کا عملی مظاہرہ کسی بھی سطح پر نظر نہیں آتا یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں غربت اور بے روزگاری نے عوام کی اکثریت کو جکڑ رکھا ہے وہاں ملازمت کے حصول کے لئے این ٹی ایس جیسے امتحانات لینا کیا درست اقدام ہے اول تو دنیا بھر میں ملازمتوں کی فراہمی کے لئے ایسے امتحانات کی شرط نہیں لگائی جاتی اور اگر لگائی بھی جاتی ہے تو ہمیں وہاں کے اور اپنے معروضی حالات کا جائزہ لینا ہوگا وطن عزیز میں غریب والدین اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو صرف اس لئے تعلیم دلواتے ہیں تاکہ وہ ایک باشعور شہری بننے کے ساتھ بڑھاپے میں ان کا سہارا بن سکیں، لیکن ماسٹر ڈگری ہولڈر لاکھوں معذورنوجوان نوکری کے حصول کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں نیشنل ٹیسٹنگ پیچیدہ طریقہ کار پر بے جا اخراجات کے باعث بہت سے طلبہ کے لیے درخواست دینا یا ملازمت کی اہلیت جانچنے کے امتحان کی تیاری کرنا ممکن نہیں امید ہے کہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس صوبائی اور وفاقی حکومت اس جانب توجہ دیں گے وگرنہ معذو ر نوجوان بے روزگار رہ جائیں گے اور معذو ر افراد سے اظہار ہمدردی ، محبت اور شفقت کیلئے جذبے کو پروان چڑھانے کیلئے مثبت اقدامات فی الفور بروئے کار لائے جائیں تاکہ وہ بھی سکون کی زندگی گزار سکیں

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Mian Naseer Ahmad
About the Author: Mian Naseer Ahmad Read More Articles by Mian Naseer Ahmad: 32 Articles with 26108 views I am writer, Journalist, Editor i always try to explore the truth of society and never involve in notorious activities.. View More