ممتاز قادری تو پاگل تھا

ہم بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ واقعی ممتاز قادری ایک جنونی تھے۔ بھلا عشق اور عقل کبھی ایک ساتھ رہے ہیں۔ عشق تو ایک جنون ایک پاگل پن ہی کا تو نام ہے، ہاں ہم جیسے بزدل لوگ بھی ہیں جو دل پر عقل کو غالب رکھتے ہیں اور اپنی کم ہمتی اور بزدلی کو عقل مندی ، سمجھداری، مصلحت وغیرہ کے لبادے میں چھپا لیتے ہیں۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ آج کے دہریےاور کل کے دہریوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کل بھی یہ لوگ ہٹ دھرمی پر تھے، آج بھی یہ لوگ ہٹ دھرم ہیں۔
ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد مرکزی میڈیا پر تو نہیں لیکن سوشل میڈیا اور بلاگز پر ممتاز قادری کا ہی موضوع چھایا ہوا ہے۔ ممتاز قادری کی پھانسی سے بڑھ کر ان کے جنازے میں لاکھوں افراد کی شرکت نے ایک بحث کا دروازہ کھول دیا ہے۔ چونکہ کوئی بھی بحث جب شرع ہوتی ہے تو پھر وہ ایک مخصوص موضوع تک محدود نہیں رہتی، اسی طرح ممتاز شہید کی پھانسی سے شروع ہونے والی بحث ان کے جنازے کے شرکا کی تعداد سے لے کر پھر ایمانیات اور کفر واسلام کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے۔

سوشل میڈیا پر ممتاز قادری شہید کو پسند کرنے والے اور ان کو خراجِ تحسین پیش والوں کے ساتھ ساتھ ان کے عمل کو غلط کہنے والے بھی سرگرم ہیں۔ کئ لوگوںنے ممتاز قادری شہید کے عمل کو پاگل پن اور ان کو جنونی کہا ہے۔ یہی ہمارا موضوع ہے اور ہم بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ واقعی ممتاز قادری ایک جنونی تھے۔ بھلا عشق اور عقل کبھی ایک ساتھ رہے ہیں۔ عشق تو ایک جنون ایک پاگل پن ہی کا تو نام ہے، ہاں ہم جیسے بزدل لوگ بھی ہیں جو دل پر عقل کو غالب رکھتے ہیں اور اپنی کم ہمتی اور بزدلی کو عقل مندی ، سمجھداری، مصلحت وغیرہ کے لبادے میں چھپا لیتے ہیں۔
عقل عیار ہے ، سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم !

میں کوئی ایسا فردنہیں جو کہ عقل کے پیچھے لٹھ لے کر پڑا رہے۔ لیکن میرا محدود مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ جب کبھی جن و انس کو عشق اور عقل ، اطاعت اور عقل سے یا یوں کہہ لیں کہ دل اور دماغ کی کشمکش سے دو چار ہونا پڑا تو معلوم ہوا کہ جس نے عقل کی تقلید کی وہ خسارے میں رہا اور جس نے دل کی مانی وہ فائدے میں رہا اور تاریخ میں امر ہوگیا۔

رب العالمین نے انسان کو تخلیق کیا، اس کے اندر روح پھونکی اور پھر تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم ؑ کو سجدہ کریں، تمام فرشتے سجدے میں چلے گئے ماسوائے ابلیس کے اور وہ فرشتوں میں سے نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس سے پوچھا کہ تجھے کس چیز نے میرا حکم ماننے سے روکا؟ تو ابلیس نے اطاعت پر عقل کو ترجیح دی اور کہا میں اس سے برتر ہوں، اسے تونے مٹی سے بنایا ہے جب کہ میں آگ سے بنا ہوں۔ اور پھراللہ تعالیٰ نے عزازیل کو جو اللہ کا انتہائی مقرب تھا، جو فرشتوںکا سردار اور ان کا معلم تھا، اسے مقرب کے درجے سے ہٹا کر معتوب اور راندہ درگارہ قرار دیا اور عزازیل کے بجائے اب اس کا نام ابلیس قرار پایا۔ غور کیجیے کہ ابلیس عقل کی تقلید کرنے کے باعث راندہ درگاہ ہوا۔

ہزاروں برس گرزتے ہیں۔ عراق کے علاقے اُر میں ابراہیم نام کا ایک نوجوان ہے۔ یہ نوجوان اپنے ماحول پر غور کرتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ سارے معاشرے میں بت پرستی عام ہے، لوگ سورج کو بھی پوج رہے ہیں۔ ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کی بھی عبادت کررہے ہیں۔ عقل کا تقاضہ تو یہ ہے کہ جو چیز نظر آئے بس اسی کا وجود ہے اور جو نظر نہ آئے اس کا انکار کردو۔ لیکن یہ نوجوان سوچتا ہے کہ کوئی تو ایسی ہستی ہے جو ان تمام چیزوں کو چلا رہی ہے، اگر چہ وہ دکھائی نہیں دے رہی لیکن یہ نوجوان اسی نامعلوم اور نظر نہ آنے والی ہستی ( اللہ تعالیٰ ) کو اپنا رب مان لیتا ہے۔ چلیں مان لیا کوئی بات نہیں اب عقل یہ کہتی ہے کہ جس چیز کو تم نے دیکھا نہیں لوگوں کو اس کے بارے میں دعوت نہ دو، لیکن وہ پورے معاشرے کو چیلنج کردیتا ہے کہ یہ بت ، سورج ، چاند ستارے تمہارے خد ا نہیں ہیں، رب تو وہ ہے جو ان سب کا خالق ہے، اور یہ تمام کائنات اسی کے حکم کے تابع ہے۔

پورا معاشرہ اس کا مخالف، اس کا دشمن بن جاتا ہے، بادشاہ کے دربار میں پیشی ہوتی ہے اور وہاں بھی یہ توحید کا پیغام دیتا ہے۔ بادشاہ جو خود کو رب بھی کہلوانا پسند کرتا ہے، وہ اس نوجوان کو (جو کہ اللہ کے برگزیدہ نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں )عبرت کا نشان بنانے کے لیے صرف موت کی سزا دینے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ انہیں زندہ جلانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اب عقل اور مصلحت تو یہ کہتی ہے کہ وقتی طور پر ان لوگو ں کی بات مان لی جائے، عقل کا تقاضہ ہے کہ زندگی ایک بار ملتی ہے،جسے کبھی دیکھا تک نہیں اس کے لیے یہ زندگی کیوں برباد کی جائے، اس لیے ان کی بات مان لو۔ لیکن رب کا عشق کہتا ہے کہ ہرگز نہیں ! اب چاہے کچھ بھی ہوجائے حق بات کہہ دی تو کہہ دی ، اب چاہے سولی چڑھائو یا آگ میں ڈالو کوئی پروا نہیں۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ گلزار بن گئی۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشا لبِ بام ابھی

آئیے ایک اور منظر دیکھتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفرِ معراج سے آنے کے بعد مکے میں اپنے سفر کی روداد بیان کرتے ہیں۔ عقل یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اس دور میں جب کہ سواری کے لیے محض اونٹ اور گھوڑے دستیاب ہوں، کوئی فرد مکے سے اٹھ کر بیت المقدس، وہاں سے ساتوں آسمان، جنت دوزخ اور سدرۃ المنتہیٰ سے ہوکر واپس بھی آجائے۔ آسمانوں کی سیر تو بہت دور کی بات ہے عقل تو یہ ماننے کو بھی تیار نہیں ہوسکتی کہ اونٹ یا گھوڑے پر بیٹھ کر محض ایک رات میں ہی مکے سے بیت المقدس اور وہاں سے واپسی کا سفر مکمل ہوجائے۔ اس لیے مخالفین مذاق اڑاتے ہیں، ان کو تو ایک نیا موضوع مل گیا ہےنا۔ لوگ حضرت ابو بکر ؓ کے پاس جاتے ہیں اور طنز یہ لہجے اور تضحیک آمیز انداز میں انہیں بتاتے ہیں کہ تمہارے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو ایسی باتیں کررہے ہیں ، کیا تم اس پر یقین کرلوگے؟ انہوںنے صرف ایک بات پوچھی کہ کیا یہ باتیں تم لوگوں نے کسی سے سنی ہیں یا خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے؟ انہیں بتایا جاتا ہے ہاں یہ باتیں خود محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کہی ہیں۔ آپ ؓ بلاتوقف کہتے ہیں کہ تو پھر میں اس کی تصدیق کرتا ہوں کیوں کہ آپؐ کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ سوچیے اور غور کیجیے کہ عقل کا تقاضہ کیا ہے؟ ایسے موقع پر عقل کا مطالبہ کیا ہونا چاہیے؟ عقل تو یہ کہتی ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ لیکن عشق نے کہا کہ نہیں ایسا ہوسکتا ہے اور اس میں ذرّہ برابر بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ عقل کی بات کرنے خوا ر ہوئے جب کہ عشق کی پکار پر لبیک کہنے والے کو بارگاہ رسالت ؐ سے صدیق کا لقب عطا ہوا ، دنیا آج تک انہیں صدیقؓ اکبرکے نام سے یاد کرتی ہے۔

یہ کچھ مثالیں ہم نے پیش کی ہیں ۔ ان تمام مثالوں پر غور کیجیے ۔ یہ کوئی من گھڑت واقعات نہیں ہیں بلکہ ایک دنیا ان سے واقف ہے۔ ان تمام واقعات سے ہمیں یہی درس ملتا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں انسان کو سمجھداری سے اور عقل سے کام لینا چاہیے لیکن کچھ معاملات میں عقل کے بجائے عشق اور اطاعت کی دماغ کے بجائے دل کی بات ماننی چاہیے۔
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
ليکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

رہی بات مخالفین کی۔ رہی بات ان کی جو عقل کی بات کرتے ہیں، جو دلیل مانگتے ہیں تو ان کا حال بھی آپ کو بتاتے چلیں کہ آج کے دہریےاور کل کے دہریوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کل بھی یہ لوگ ہٹ دھرمی پر تھے، آج بھی یہ لوگ ہٹ دھرم ہیں۔ کل بھی یہ عقل ، دلیل اور منطق کی بات کرتے تھے لیکن جب ان کی خواہش کے مطابق ان کو قائل کرنے کی کوشش کی جائے تو کنی کترا جاتے تھے اور بحث برائے بحث شروع کردیتے تھے، آج بھی ان کا یہی حال ہے۔ انہی دہریوں کے آبا و اجدا د نے حضرت صالح علیہ السلام سے دلیل مانگی کہ اگر اللہ کے سچے نبی تو سامنے پہاڑ میں سے ایک ایسی اونٹنی برآمد کرکے دکھائو جو پورے دنوں کی حاملہ بھی ہو اور ہمارے سامنے بچہ جنے، اگر ایسا کردیا تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نےان کی خواہش کے مطابق ان کو اونٹنی والا معجزہ دکھا دیا تو یہ لوگ ایمان تو پھر بھی نہیں لائے۔

اسی قبیلے کے افراد نے اپنی آنکھوں سے یہ معجزہ دیکھا کہ آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے گلزار بن گئی، لیکن دلوں پر قفل لگے رہے۔آج کے ان ہی دہریوں کے آبائو اجدا د میں فرعون بھی شامل ہے کہ جس پر جب بھی کوئی مشکل وقت آتا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مدد مانگتا، ایمان لانے کا وعدہ کرتا لیکن بعد میں مکر جاتا حتیٰ کہ اس کو موت نے آلیا۔انہی دہریوں کے قبیلے کے افراد تھے جنہوںنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چاند کو دو ٹکڑے کرنے کا معجزہ طلب کیا، آقائے دوجہاں نے اپنی انگلی کے ایک اشارے سے چاند کو شق کردیا، سب سے یہ معجزہ دیکھا لیکن دلوں پر جو زنگ لگے ہوئے تھے، اس لیے وہ ایمان تو پھر بھی نہیں لائے۔اس لیے ان لوگوں کی مخالفت سے نہ گھبرائیں ۔ یہ کل بھی راندہ درگاہ تھے، یہ آج بھی راندہ درگارہ ہیں، یہ کل بھی گستاخ رسول تھے، یہ آج بھی گستاخ رسول ہیں، کل بھی ان کے دماغوں پر قفل اور دلوں پر مہر لگی ہوئی تھی آج بھی ان کا یہی حال ہے۔کل یہ انبیائے کرام کو بحث و مباحثے اور عقل و دلیل کی بحث میں الجھاتے تھے، آج یہ رسول کے امتیوں اور عاشقان رسول کو ان جالوں میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ممتاز قادری شہید ؒ کے درجات کو بلند فرمائے۔ آمین
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1448879 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More