ریحان___ تلسی ___ نیازبو (Ocimum Basilicum)

تعارف : اسے عربی، فارسی میں "ریحان "، اردو میں"ریحان" اور "تلسی" اور ہندی میں "تلسی" کہا جاتا ہے۔پنجابی میں" نیاز بو" اور پبری بھی کہتے ہیں۔ریحان ایسا پودا جس کا تذکرہ قران مجید اور احادیث نبوی ﷺ دونوں میں موجود ہے ۔ اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔قران مجید میں اس کا ذکر سورہ الرحمن(آیت نمبر12) اور سورہ الواقعہ میں ہواہےحضور نبی کریم ﷺ اسے پسند فرمایا ہے ۔کئی احادیث میں ریحان کا ذکر موجود ہے ۔ ترمذی کی ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ سے ارشاد فرمایا کہ "جب تم میں سے کسی کو ریحان دیا جائےتولینے سے انکار نہ کرو کیونکہ یہ پودا جنت سے آیا ہے"۔بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث کے مطابق نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ"جس کسی کو ریحان پیش کیا جائے وہ اس کو لینے سے انکار نہ کرےکیونکہ یہ اپنی خوشبو میں نہایت عمدہ اور وزن میں ہلکا ہوتا ہے ۔
ریحان یا تلسی یا نیازبو، خاندان پودینہ (Mint Family- Labiatae) کا پودا ہے ۔یہ برصغیر کا مقامی پودا ہے اور برصغیر میں تقریبا ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ باغوں اور گھروں میں یہ بکثرت لگایا جاتاہے اور خودرو بھی ہوتا ہے ۔یہ برصغیر میں 5000 سال سے زائد عرصہ سے کاشت کیا جا رہا ہے ۔ہندوؤں کے ہاں تلسی متبرک اس کی دو اقسام متبرک خیال جاتی ہیں ۔اور گھروں میں اسے برکت کے لئے لگایا جاتا ہے بلکہ اس کی پوجا کی جاتی ہے۔ یونانی بھی صدیوں پیشتر اس سے خوب واقف تھے۔ یہ پودے دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ جس طرح ایک ہی خطے میں ایک ہی پودے کے مقامی زبانوں میں مختلف نام ہوتے ہیں بالکل اسی طرح دنیا کے دیگر خطوں میں بھی یہ پودے مختلف ناموں سے جانے جاتے ہيں ۔ اس کے علاوہ ان خطوں کی آب وہوا اورماحول کی وجہ سے ان پودوں کی شکل وشباہت اور خوشبو وغیرہ میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے ۔ ریحان یا تلسی کا پودا ،انڈونیشیا ، ملائشیا ،تھائی لینڈ ، ویت نام ، لاؤس ، کمبوڈیا اور تائیوان میں بھی بڑا مقبول ہے ۔ یورپ میں بھی اس کی مقبولیت کچھ کم نہیں ۔ اسے قدرتی دواؤں کی ماں اور جڑی بوٹیوں کی ملکہ کا خطاب بھی دیا جاتا ہے۔
ہرعلاقے میں اس کا استعمال مختلف مقاصد کے لئے ہوتا ہے ۔ کہیں یہ پکوانوں میں استعمال ہوتی ہے تو کہیں اسے بطور دوا استعمال کرتے ہیں ۔کہیں ذائقہ کو دوبالا کرنے کےلئے اور کہیں اسے بطور کا سمیٹک استعمال کیا جاتا ہے۔برصغیر میں یہ زیادہ تر ادویات میں جبکہ دیگر ممالک میں اس کا استعمال کھانوں میں بہت زیادہ ہوتا ہے ۔کھانوں میں اسے زیادہ تر تازہ حالت میں استعمال کرتے ہیں ۔ اسے عموما کھانا پکاتے ہوئے آخر میں ڈالا جاتا ہے ۔ مختصر عرصہ کے لئے اس کی تازگی کو محفوظ کرنے کے لئے اسےپلاسٹک کے تھیلوں میں ڈال کر ریفریجریٹر میں رکھا جاتا ہے ۔ لمبے عرصے کے لئے اسے فریزر میں رکھتے ہیں ۔ خشک حالت میں اس کی خوشبو اور ذائقہ بہت حد تک ضائع ہو جاتے ہیں۔زیادہ تر استعمال ہونے والی تلسیاں، تلسی کلاں (Mammoth Basil) دارچینی تلسی (Cinnamon basil) ۔ لیمونی تلسی (Lemon Basil) ، چھوٹی تلسی (Dwarf basil -Globe basil) اور افریقی نیلی تلسی (African blue basil) ہیں ۔ چینی اپنے کھانوں اور سوپ میں اسے تازہ اور خشک حالت میں استعمال کرتے ہیں۔تائیوان میں لوگ اسے سوپ کو گاڑا کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ تلے ہوئے مرغ کے ساتھ تلی ہوئی تلسی بھی استعمال کی جاتی ہے ۔ تھائی تلسی دودھ اور کریم میں ڈالی جاتی ہے اس سے بننے والی آئس کریم کا ذائقہ دوبالا ہوجاتا ہے۔ اس کے پتے ہی نہیں بلکہ غنچے بھی کھانوں میں استعمال ہوتے ہیں ۔یہ "ویت نام" میں نوڈل سوپ کا اہم جزو ہے۔اس کے بیج تخم بالنگو کی طرح فالودہ اور شربتوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

تلسی کی 160 سے زیادہ اقسام ہیں جو دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں جیسا کہ اوپربیان کیاگیاہے کہ ان میں سے بہت سی اقسام آپس میں ملتی جلتی ہیں لیکن مختلف علاقوں اور آب وہوا کے باعث ان شکل وشباہت اور رنگ وبو میں کچھ نہ کچھ اختلاف بھی پایا جا تا ہے ۔اسی اختلاف کے باعث انہیں کے مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ایشیا کے بہت سے حصوں میں بھی کئی قسم کی تلسیاں میں اگتی ہیں ۔ ایشیا میں پائی جانے والی زیادہ تر تلسیوں کا ذائقہ لونگ سا ہوتا ہے۔ان کا ذائقہ بحیرہ روم کے ممالک میں پائی جانے والی تلسیوں سے زیادہ تیزہوتا ہے۔خصوصا برصغیر میں پائی جانے والی متبرک تلسی کا ذائقہ کافی تیز ہوتا ہے ۔براعظم امریکہ میں بھی تلسی کی ایک قسم ایمیزونی تلسی کے نام سے پائی جاتی ہیں ۔اس کا سائنسی نام (Ocimum campechianum) ہے ۔یہ میکسیکو ، مرکزی امریکہ ،جنوبی امریکہ، جزائرغرب الہند اور فلوریڈا بکثرت پائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ تلسی کی بہت سی انواع دوغلی ہیں ۔ اس دوغلے پن کی وجہ سے ان کی شکل وشباہت اور رنگ وبو میں بہت سی نئی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں اور یہ نئے ناموں سے پکاری جاتی ہیں ۔
تلسیوں میں بہت سے کیمیائی مرکبات پائے جاتے ہیں ان میں الفا اور بیٹا پنین a&b-pinene ، کیمفین camphene ، مائرسین myrcene ، لیمونین limonene ، سس اوسمین cis-ocimene ، کافور camphor ، لینالول linalool ، میتھائل چیوول methyl chavicol ، وائی ٹرپائنول y-terpineol,،سٹرونیلول citronellol ،جرینیول geraniol ،میتھائل سنامیٹmethyl cinnamate ، اور ایوگینول eugenol شامل ہیں ۔یہ تمام مرکبات ایک ہی قسم کی تلسی میں بیک وقت نہیں پائے جاتے بلکہ کچھ اجزا ایک تلسی میں موجود ہوتے تو دوسرے کسی دوسری تلسی میں پائے جاتے ہیں اور ان کا تناسب بھی مختلف تلسیوں میں مختلف ہوتا ہے ۔
کیمیائی اجزاء کے لحاظ سے ریحان یا تلسی کو چار اقسام میں بانٹا جا سکتا ہے ۔یورپ میں پائی جانے والی تلسیوں میں لینولول (linalool)اور چےویکول(chavicol) پایا جاتا ہے ۔دوغلی تلسیوں اور کپورتلسی میں چےویکول اور کافور پایا جاتا ہے ۔ ان میں لینولول (linalool)نہیں ہوتا ۔ دارچینی کے ذائقے والی تلسی میں میتھائل سینامیٹ(methyl cinnamate)، میتھائل چےویکول (methyl chavicol)اور لینولول پایا جاتاہے ۔تلسی کی چوتھی قسم میں ایوگینول (eugenol)پایا جاتا ہے۔برصغیر میں پائی جانی والی زیادہ تر تلسیاں چوتھی قسم سے تعلق رکھتی ہیں ۔ان تلسیوں میں ایوگینول (eugenol)ایک بڑے جزو کے طور پر پایا جاتا ہے ۔جو انہیں ادویاتی طورپر استعمال کے قابل بناتا ہے۔
تلسی کے پتے، سامنا اور پچھلا رخ-دائیں سے بائیں تلسی کلاں–تھائی تلسی (سیامی ملکہ)- سپائس تلسی –لیمونی تلسی-افریقی نیلی تلسی-بحرومی شیریں تلسی

یہاں تمام تلسیوں کا ذکر ممکن نہیں البتہ یہاں صرف برصغیر میں پائی جانے والی تلسیوں کا ذکر ہوگا اور ان کے ساتھ ضمنا دیگرممالک کی تلسیوں کا بھی مختصربیان ہوگا۔

ریحان یا تلسی یا نیازبو (Ocimum Basilicum)
عام تلسی جسے عرف عام میں نیازبو کہتے ہیں۔اسے "بابوئی تلسی" بھی کہا جاتا ہے ۔ عربی اور فارسی میں اسے ریحان کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ اس کا سائنسی نام (Ocimum Basilicum) ہے ۔اس کے بیج چھوٹے چھوٹے ، خوشبودار اور سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں ۔انہیں نیازبو کے بیج یا تخم ریحان کہا جاتاہے ۔پانی میں کچھ دیر پڑا رہنے سے ، تخم بالنگو کی طرح لیسدار ہوجاتے ہیں۔
مر طو ب آ ب وہوا اس پو د ے کیلئے زیا د ہ موزوں ہے ا س لیے یہ پو د ا پا کستان و بھارت سری لنکا ، نیپال اور بنگلہ دیش کے تما م علاقوں میں کا شت کیا جاتا ہے ۔کلر ا ٹھی اور سیلابہ ز مینوں کے سوا ہر طرح کی ز مین میں ریحان یا تلسی کو کا شت کی جا سکتا ہے۔یہ پنجاب کی زیریں پہاڑی علاقوں میں خودرو بھی ہوتا ہے ۔یہ سال میں ایک دفعہ اگتا ہے البتہ اس کی کچھ اقسام گرم موسم اور گرم علاقوں میں سدابہار بھی ہوتی ہیں۔مثلا متبرک تلسی (Holy Basil) اور افریقی نیلی تلسی۔
ریحان ، تلسی یا نیازبو کا پودا تقریبا ایک میٹر تک بلند ہوتا ہے۔ اس کے پتےخوشبودار اور سبزیا سرخی مائل ہوتے ہیں ۔ پتے چھوٹےان کا کنارہ صاف ہوتا ہے اس کے پھول سیاہی مائل سرخ ہوتے ہیں ۔ یہ پھول نہایت ہی خوشبودار ہوتے ہیں بلکہ پودے کے تمام حصے ہی خوشبودار ہوتے ہیں ۔ اسی سے ملتے جلتے پودے دیگر ممالک میں تھائی تلسی ، شیریں تلسی اور افریقی نیلی تلسی کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔
شکل اور خوشبو کے اختلاف کے ساتھ ریحان یا نیازبو یا بابوئی تلسی (اوسی مم بیسیکم ) کی ہی بہت سی اقسام دنیا بھر میں موجود ہیں ۔ یہ اقسام مختلف ذائقوں اور خوشبو کی حامل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں مختلف قسم کے فراری روغن essential oils پائے جاتے ہیں جن کی مختلف تراکیب کے باعث ذائقوں اور خوشبو میں اختلاف پیدا ہوتا ہے۔مثلا شیریں تلسی Sweet Basil میں لونگ سی خوشبو ایگیونول eugenol کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ریحان یا نیازبویا عام تلسی کی چند معروف اقسام درج ذیل ہیں ۔یہ عموما دوغلی ہوتی ہیں ۔
انیسون یا سوسی تلسی(Anise Basil or Licorice Basil) اس کا سائنسی نام
O. basilicum 'Licorice'، اسے "فارسی تلسی" بھی کہا جاتا ہے۔سوسی تلسی میں انیتھول anethole نامی کیمیائی مادے کی وجہ سے ملٹھی جیسی خوشبو آتی ہے۔ یہی کیمیائی مادہ انیسوں جیسی خوشبو بھی پیدا کرتا ہے اسی وجہ سے سوسی تلسی کو انیسون تلسی بھی کہا جاتا ہے۔

دارچینی تلسی(Cinnamon basil) اس کا سائنسی نام Ocimum basilicum 'Cinnamon' ہے۔اس کے پتوں میں سے دارچینی جیسی بو آتی ہے ۔ یہ ایک کیمیائی مادے میتھائل سنامیٹ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔اس کے پتے گہرے سبز ہوتے ہیں اور ان میں سرخی مائل بنفشی رنگ کی رگیں ہوتی ہیں۔اس کا تنا بھی سرخی مائل بنفشی رنگ کا ہوتا ہے۔
اودی تلسی (Purple Basil) اس کا سائنسی نام Ocimum basilicum 'Purpurescens' ہے ۔ یہ سدا بہا ر پودا ہے جودھوپ میں خوب پھلتا پھولتا ہے ۔اس کے پتے کافی خوشبو دار ہوتے ہیں ۔پتوں کا رنگ کچھ اقسام میں سبز ہوتا ہے جن پر جامنی دھبے ہوتے ہیں جو بعض اقسام میں کم اور کچھ میں زیادہ مقدار میں ہوتے ہیں ۔بعض میں آدھے سےزیادہ پتہ جامنی رنگ کا ہوتا ہے ۔ اس کی ایک قسم میں تمام پتے ، تنا اور ڈنٹھیا ں یعنی پورا پودا ہی جامنی رنگ میں رنگا ہوا ہوتا ہے۔ ۔اس کا قد 16 سے 18 انچ تک ہوتا ہے ۔اسے بطور سلاد استعمال کیا جاتا ہے ، سینڈوچیز میں بھی اسے استعمال کیا جاتاہے۔ ان میں بہت سی اقسام دوغلی ہوتی ہیں۔

سلاد تلسی (Lettuce Basil) اس کا سائنسی نام Ocimum basilicum 'Crispum' ہے۔اس کے پتے سلاد کے پتوں جیسےبڑے بڑے ہوتے ہیں ۔


رابن تلسی (Robin Basil) اس کا سائنسی نام Ocimum basilicum 'Rubin' ہے۔
اس کی اونچائی تین فٹ تک ہوسکتی ہے ۔اس کے پتے بنفشی رنگ کے ہوتے ہیں اور تنا گہرا بنفشی ہوتا ہے۔ اس کے پتوں کی لمبائی 3 انچ تک ہوسکتی ہے۔اس کے پھول گلابی رنگ کے ہوتے ہیں ۔اس کا ذائقہ سبز تلسی کی طرح ہوتا ہے ۔اگر اس کے پتوں کو اگرپکایا جائے تو اس کا بنفشی رنگ اڑ جاتا ہے اور یہ پتے سبز رنگ کے ہو جاتے ہیں ۔یہ بطور سلاد اور پیزا میں استعمال ہوتی ہے۔

دودھیا تلسی (Dark opal basil) اس کا سائنسی نام Ocimum basilicum 'Dark Opal' ' ہے۔ یہ تلسی کی دوغلی قسم ہے۔اس کے گہرے جامنی بعض اوقات دھبےدار پتے ہوتے ہیں ۔ تلسی کی یہ قسم آرائشی طورلگائی جاتی ہے ۔اس کے علاوہ مختلف پکوان میں بھی اس کا استعمال کافی ہے ۔اس کا گہرا جامنی رنگ anthocyanins کی وجہ سے ہوتاہے ۔دودھیا تلسی میں دیگر جامنی رنگ کی تلسیوں کی طرح anthocyanins کافی زیادہ مقدار ہوتی ہے۔یہ کیمیائی مرکب فوڈ انڈسٹری کے لئے سرخ رنگ کے حصول کا اہم ذریعہ ہے۔یہ کیمیائی مرکب 100گرام تازہ پتوں میں تقریبا 18 ملی گرام تک ہوتا ہے۔
افریقی نیلی تلسی (African Blue basil) :
یہ تلسی کی دوغلی قسم ہے ۔ یہ کپور تلی اور دودھیا تلسی کے ملاپ سے وجود میں آتی ہے۔یہ ایک سدابہار پودا ہے جو کینیا ، تنزانیہ ، سوڈان اور ایتھوپیا میں عام پایا جاتا ہے۔اس میں کافور کی تیز خوشبو پائی جاتی ہے ۔یہ اسےکپور تلسی ملتی ہے ۔اس میں کافور کی مقدارکپور تلسی کی نسبت کم ہوتی ہے یعنی 61 فیصد کی مقابلے میں 22 فیصدہوتی ہے ۔اس میں دیگر اہم کیمیائی مرکبات لینالول 55 فیصداور سینیول 15 فیصد پایا جاتا ہے۔یہ تھائی تلسی اور شریں تلسی سے مشابہت رکھتی ہے لیکن اس کا ذائقہ باقی تلسیوں سے منفرد ہوتا ہے۔اس کے پھول لمبے گلابی رنگ کے ہوتے ہیں اور کافی خوبصورت نظر آتے ہیں ۔اس کے پتے سبز رنگ کے ہوتے ہیں جن میں نیلی رگیں ہوتی ہیں-  
برصغیر میں مندرجہ بالا" عام تلسی" یعنی "نیاز بو" کے علاوہ درج ذیل قسمیں پائی جاتی ہیں۔
متبرک تلسی (Holy Basil): یہی تلسی ہندوؤں کے ہاں متبرک خیال کی جاتی ہے لیکن متبرک تلسی کی اصطلاح میں بہت زیادہ الجھاؤ پایا جاتا ہے ۔اس کا اطلاق تلسی کے بہت سے پودوں پر کیا جاتا ہے۔ حکیم صفی الدین نے اس کا طبی نام شاہسفرم لکھا ہے ۔انٹرنیٹ پرموجود آرٹیکل دیکھیں تو ان میں رام تلسی ، شیام تلسی اور بن تلسی کو متبرک تلسی کہا گیا ہے ۔اس کے برعکس حکیم صفی الدین نے رام تلسی کو متبرک تلسی سے علیحدہ شمار کرتے ہوئے اس کا نام فرنجمشک لکھا ہے اور اس کا سائنسی نام Ocimum Gratissumum درج کیا ہے ۔جسے انگریزی میں Shrubby Basil (جھاڑی نما تلسی) اور Tree Basil (شجر تلسی)کہتے ہیں ۔ انڈین میڈیکل پلانٹ ميں بھی رام تلسی انگریزی نام Shrubby Basil اور سائنسی نام Ocimum Gratissumum ہی درج ہے ۔اسی طرح صوفی لچھمن پرشاد نےبھی اپنی کتاب پاک وہند کی جڑی بوٹیاں میں رام تلسی کا سائنسی نام Ocimum Gratissumum ہی لکھا ہے ۔اسی طرح ریحان دشتی یا بن تلسی کوحکیم صفی الدین نے بادروج کے طبی نام سے ذکر کرتے ہوئےاس کا انگریزی نام Sweet Basil لکھا ہے جبکہ بن تلسی کو انڈین میڈیکل پلانٹ میں عام تلسی یعنی Ocimum Basilicum کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔اس مضمون میں متبرک تلسی کو Ocimum Tenuiflor کے سائنسی نام کے ساتھ رام اور شیام تلسی کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ بن تلسی کو متبرک تلسی سے علیحدہ اور اسی طرح Ocimum Gratissumum کو تلسی کلاں کے نام سے ایک الگ قسم شمار کیا گیا ہے ۔ان چار کے علاوہ برصغیر کے حوالے سے دو اور تلسیاں کپور تلسی اور بھوئیں تلسی کے نام سےدرج کی گئی ہیں۔
متبرک تلسی کا سائنسی نامOcimum Tenuiflor ہے ۔اس کا مترادف نام Ocimum Sanctum ہے ۔

اس کی عام طور پردرج ذیل دو اقسام بیان کی جاتی ہیں ۔
رام تلسی :یہ ایک ایستادہ اور خوشبودار پودا ہے جو کہ 30 سے 60 سینٹی میٹر لمبا ہوتا ہے ۔اس کا تنا روئیں دار ہوتا ہے ۔ پتے بیضوی، ہلکے دندانہ دار5سینٹی میٹرتک لمبےاور سبز رنگ کے ، نہایت خوشبودار ہوتے ہیں ۔یہ پتے ٹہنیوں پر ایک دوسرے کےمخالف آراستہ ہوتے ہیں ۔ اس کے پھول جامنی رنگ کے لمبائی میں مرغولہ نما خوشوں کی شکل میں ہوتے ہیں ۔یہ ذائقے میں زیادہ تیز نہيں ہوتی ۔اس کا ذائقہ نرم اور ٹھنڈا ہوتا ہے ۔یہ پودامشرقی ممالک میں کے گرم علاقوں میں وسیع پیمانے پر خودرو اگتا ہے اور کا شت بھی کیا جاتا ہے ۔پورے جنوبی ایشیامیں یہ اپنی ادویاتی خصوصیات کی بنا پر جانا جاتا ہے۔برصغیر میں یہ بنگال ،بہار ،مشرقی نیپال ، دکن اور لنکا میں بکثرت پایا جاتا ہے ۔ البتہ پنجاب میں یہ بہت کم ہوتا ہے۔اس کے علاوہ یہ چین اور برازیل میں بھی موجود ہے ۔ تھائی کھانوں میں پکانے کے دوران اس کا استعمال کافی زیادہ ہے اور دوسری تلسیوں کے برعکس اسےبغیرپکائے یعنی کچا استعمال نہیں کیا جاتا۔ وہاں یہ کیفراؤ (Kaphrao)(تھائی ہولی بیسلThai holy basil-) کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یاد رہے کہ یہ تھائی بیسل(Thai basil) سے علیحدہ پودا ہے۔امریکی ریاست کیلیفورنیا میں یہ Hot basil اور Humong Basil کے نام سے فروخت ہوتا ہے۔
شیام تلسی : اس کی جسامت رام تلسی کی طرح ہوتی ہے پتیاں گہرے سبز رنگ کی ،جن پر چھوٹے چھوٹے ارغوانی دھبے ہوتے ہیں ۔ان پتیوں کی رگیں، ڈنڈی اور تنا ارغوانی مائل سیاہ رنگ کی ہوتا ہے ۔ اس کی خوشبو نہایت تیز ہوتی ہے ۔ ذائقہ چرپرا اورتیکھا ہوتاہے ۔یہ تلسی رام تلسی سے زیادہ قوی ہوتی ہے ۔ شیام کے معنی کالے کے ہیں ۔ہندو اسے کرشنا تلسی کہتے ہیں ۔یہ سبز پتوں والی تلسی (رام تلسی) کی نسبت کم دستیاب ہے ۔ برصغیر میں یہ زیادہ تر ادویات جبکہ تھائی لینڈ میں یہ کھانوں میں کثرت سے استعمال ہوتی ہے ۔یہ گلے کی سوزش، تنفسی امراض اور جلد کی بیماریوں میں اس کا استعمال ہوتی ہے۔
ریحان کافور یا کپور تلسی :
یہ دراصل مشرقی افریقہ کا پودا ہے ۔لیکن اب یہ برصغیر میں بھی کاشت کیا جاتا ہے۔یہ تھائی لینڈ میں بھی پایا جاتا ہے ۔شجر تلسی (ٹری بیسل )کی طرح یہ بھی ایک بڑا پودا ہے ۔اس کا سائنسی نام 'Ocimum Kilimandscharicum' ہے ۔کافور کا خفیف جزو ریحان کی تمام اقسام میں پایا جاتاہے لیکن اس پودے میں یہ خصوصیت سے بڑی مقدار (تقریبا 61 فیصد)میں موجود ہوتا ہے ۔بھارت میں ڈیرہ دون کے علاقے میں اس کی کاشت کی جاتی ہے اور اس سےاعلی قسم کا کافور نکالا جاتاہے۔یہ ایک سدا بہار جھاڑی نما پودا ہے اورایک موسم میں اس کی اونچائی5 فٹ تک پہنچ سکتی ہے ۔اس کے پتےخاکستری مائل سبز ہوتے ہیں۔ان کی خوشبو کافی تیز ہوتی ہے ۔ان خوشبودار پتوں کو اونی کپڑوں کو محفوظ رکھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ ان پتوں کی چائے امراض معدہ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اس کے پھولوں سے شہد کی مکھیا ں خوب رس چوستی ہیں ۔اس کی خوشبو سے مچھر بھاگتے ہیں اس لئے مچھروں سے بچاؤ کے لئے اس باغیچوں وغیرہ میں لگایا جاتا ہے۔کپورتلسی کے پتے پیس کر نہارمنہ کھانے سے پیٹ کے بڑے کیڑے مرجاتے ہیں۔

تلسی کلاں : انگریزی میں اسے Shrubby Basil (جھاڑی نما تلسی) اور Tree Basil (شجر تلسی)کہتے ہیں ۔ اس پودے کا آبائی وطن مشرقی ایشیا ، افریقہ اور مڈاسگر ہے ۔پورے برصغیر میں اس کا پودا عام طور پر موجود ہے ۔لیکن پنجاب میں کم بنگال ، نیپال ، دکن اور لنکا میں بکثرت پایا جاتا ہے ۔تمام اقسام میں اس کا پودا سب سے اونچا اور جھاڑی نما ہوتا ہے ۔ یہ ایک سے تین میٹر لمبا ہوتا ہے ۔اس کے پتے سبز، بیضوی ، کھردرے ، اور کافی بڑے شہتوت کے پتوں کی طرح ہوتے ہیں پتوں کا حاشیہ دندانہ دار ہوتا ہے۔ اس کی خوشبو تیز اورلونگ کی طرح ہوتی ہے ۔ اس کی ڈنڈیاں اور تنا بھی سبز اور روئیں دارہوتا ہے۔اس کے پھول سبزی مائل سفید سے سبزی مائل زرد ہوتے ہیں ۔ بیج بھورے سرخی مائل اورمثل خاکسی چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں ۔ سنسکرت میں اسے پھنجک کہا جاتا ہے۔اس کا سائنسی نام (Ocimum Gratissumum) ہے ۔Ocimum suave ، Ocimum viride اور Ocimum viridiflorum اس کے مترادف نام ہیں ۔ اس کو لونگ تلسی ، ہمالیائی تلسی ، شجر تلسی بھی کہا جاتا ہے۔اس کی کئی اقسام ہیں جو دیگر ممالک میں قدرے اختلاف کے ساتھ پائی جاتی ہیں اور مختلف ناموں سے موسوم ہيں ۔ مثلا ایسٹ انڈین ٹری بیسل ، افریقن ٹری بیسل وغیرہ ۔ایشیا اور افریقہ کے علاوہ یہ جزائر ہوائی ، جزائر غرب الہند ، پولی نیشیا ، میکسیکو ، پانامہ ، برازیل اور بولیویا میں بھی پایا جاتا ہے ۔جزائرہوائی میں یہ جنگلی تلی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ایوگینول (Eugenol) اس کے فراری روغن کا جزو اعظم ہے ۔یہ دافع تعفن،دافع ذیابیطس،دافع سرطان، دافع سلعات (رسولیاں)، مسکن اور معدہ وامعاء (آنتیں )کے عواضات میں مفید ہونے کے ساتھ ساتھ محافظ جگر بھی ہے۔
نوٹ : بعض ماہرین اسے بن تلسی یا جنگلی تلسی بھی کہتے ہیں اور اوپر دئیے گئے سائنسی ناموں سے اسے موسوم کرتے ہیں ۔ رام تلسی اور شیام تلسی دونوں کے لئے یہ ماہرین Ocimum tenuiflor یا Ocimum sanctum کے سائنسی نام سے یاد کرتے ہیں ۔لیکن زیادہ تر جنگلی تلسی کو علیحدہ قسم شمار کرتے ہیں ۔اس کے پتوں کا جوشاندہ نزلہ زکام اور بخار میں استعمال کیا جاتا ہے ۔یہی جوشاندہ گلے کی خرابی میں بطور غرغرہ بھی فائدہ مند ہے ۔اس خشک پتوں کی دھونی مچھربھگانے کے لئے استعمال جاتی ہے۔اس میں پایا جانے والا جزو تھائیمول اسے زخموں ،آشوب چشم کے لئے مفید بناتا ہے ۔
بن تلسی یا ریحان دشتی: بعض رام تلسی کو بن تلسی یعنی جنگلی تلسی بھی کہتے ہیں جبکہ کچھ اسے رام تلسی سے علیحدہ شمار کرتے ہیں ------ بن تلسی یا جنگلی تلسی یا ریحان دشتی یا کوہی ، یہ کھیتوں ، جنگلوں اور میدانی علاقوں میں خودرو ہوتی ہے ۔ اس کا تنا سبزرنگ کا اور پھول سفید یا بینگنی رنگ کے ہوتے ہیں اس کے پتے سبز رنگ کے لمبوترے اور بیضوی ہوتے ہیں۔ اس کے بیچ سیاہ رنگ کے گول ہوتے ہیں ۔اس کی خوشبو سنگترہ یا لیمن گراس سے ملتی ہے اور نہایت تیز ہوتی ہے۔بیج چھوٹے چھوٹے اور لمبوترے ہوتے ہیں۔ حکیم صفی الدین نے ریحان دشتی یا بن تلسی کا طبی نام "بادروج"تحریر کیا ہے ۔ اسی کے بیج "تخم شربتی"کے نام سے مشہور ہیں ۔جنگلی تلسی زیادہ تر جلدی امراض خصوصا پھلبہری میں استعمال ہوتی ہے۔
دیگر ممالک میں اس جیسی خوشبو اور ذائقہ رکھنے والی تلسی کو لیمونی تلسی(Lemon Basil) کہا جاتا ہے۔ اس کی خوشبوکافی تیز ہوتی ہے اور ذائقہ بھی دوسری تلسیوں سے مختلف ہوتا ہے۔یہ خوشبو اور ذائقہ اس میں موجود ایک کیمیائی مادے سٹرال (Citral) کی وجہ سے ہوتا ہے ۔اسی کیمیائی مادے کی وجہ سے ۔ لیمونی تلسی کا پرانا سائنسی نام citriodorumتھا ۔ اب اسے Ocimum americanumکے سائنسی نام سے پکارا جاتا ہے ۔اس کے نام" امریکانم" سے کنفیوز نہ ہوں۔یہ برصغیر ، جنوب مشرقی ایشیا ،چین اور افریقہ کا مقامی پودا ہے ۔اب یہ کوئین لینڈ، کرسمس آئی لینڈ اور امریکہ کے گرم علاقوں کا مقامی پودا بھی ہے۔اس انگریزی میں Hoary basil بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ انڈونیشیا میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔اسے سلاد کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے وہاں اسے کیمانجی کہا جاتا ہے۔لائم بیسل (Lime Basil) بھی لیمونی تلسی کی طرح ہوتی ہے لیکن اس کے پتوں کا رنگ نسبتا گہرا ہوتا ہے اور ذائقہ قدرے تلخ ہوتا ہے ۔ سیامی ملکہ نامی تلسی جس کا سائنسی نام (Ocimum basilicum citriodorum) ہے ، وہ بھی اسی طرح کی خوشبو اور ذائقہ کی حامل ہوتی ہے ۔
بھوئیں تلسی :تلسی کی چھوٹی قسم ہے جو قد میں چھوٹی ہوتی ہے ۔اس کا پرانا نباتی نام (Ocimum Canum)تھا ۔اس کا سائنسی نام Ocimum basilicum 'Minimum' ہے ۔اس کا مترادف نباتی نام Ocimum americanum بھی ہے ۔ چھوٹی تلسی کی ایک اور قسم جسے بونی تلسی (Dwarf Basil) یا فرانسیسی تلسی (French Basil) یاGlobe Basil کہا جاتا ہے۔
ریحان یا تلسی سے ملتے جلتے پودے
حکیم صفی الدین علی نے اپنی کتاب "یونانی ادویہ مفردہ " میں دیگر اقسام کے کچھ پودوں کو بھی ریحان کی قسم میں شمار کرتے ہوئے ان کا ذکر کیا ہے ۔مثلا
ریحان الشیوخ (مرو : اس کا سائنسی نام(Salvia Spinosa Linn) انہوں نے لکھا ہے ۔ اس کے تخم کنوچہ کے نام سے مشہور ہیں ۔ ان پودوں کا تعلق بنیادی طورپر بلوچستان سے ہے ۔یہ پودے پنجاب میں بکثرت پائے جاتے ہیں ۔
مرزنجوش : اس کا سائنسی نام (Origanum Majorana) کہا جاتا ہے ۔ اسے انگریزی میں (Common Marjoram) کہتے ہیں ۔اسے اوریگانو بھی کہا جاتا ہے ۔اس کے پتے لمبےاور خوشبودار ہوتے ہیں ۔ خوشہ گل پتوں کے درمیان سے نکلتا ہے ۔ اس کےبیج چھوٹے سیاہی مائل اور گول ہوتے ہیں۔یہ وٹامن کے کا بہترین ذریعہ ہے جو ہڈیاں مضبوط کرنے کے کام آتا ہے۔ اس کی قلیل سی مقدار سوڈے یا سکنجین میں ملانے سے آپ کی سکنجین ایک انرجی ڈرنک میں بدل جائے گی۔
بالنگو : اس کا سائنسی نام (Lallamentia Raylana) کہا جاتا ہے ۔ اس کے بیجوں کو " تخم بالنگو" عرف عام میں تخملنگاں کہا جاتاہے ۔ بیج سیاہ رنگ کے چھوٹے چھوٹے بیضوی ہوتے ہیں۔پانی میں بھگونے پرریحان کے دیگرتمام اقسام کی طرح لعاب پیدا کرتے ہیں اور انہیں گرمیوں میں پیاس کو تسکین دینے والے شربتوں میں کا فی استعمال کیا جاتا ہے ۔اس کے پتے خوشبودار ہوتے ہیں۔
تلسی میں بہت سے مفید اجزا ء پائے جاتے ہیں یہ جسم میں ہارمون اور معدنی اجزاء )منرل(کے توازن برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں ۔ان اجزاء میں وٹا من "کے" وٹامن "سی"، مینگانیز، تانبا ، اومیگا تھری ،فیٹی ایسڈ، لوہا )آئرن(، میگنشیئم اور فولیٹ کی بڑی مقدار ہے ۔
تازہ ریحان یا تلسی یا نیازبو کے غذائی اجزاء کی قدر100گرام میں

غذائی اجزاء قدر تقریباً :
پانی 92.06 گرام
توانائی 23 کیلوری
لحمیات (پروٹین) 3.15 گرام
کل فیٹ (چربی) 0.645 گرام
کاربوہائیڈریٹ 2.65 گرام
غذائی فائبر 1.60 گرام
شوگر 302.38 ملی گرام
وٹامنز قدر تقریباً :
وٹامن "اے" 5275 IU
رائبوفلیون 0.076 ملی گرام
نیاسین 0.91 ملی گرام
تھیامن 0.033 ملی گرام
وٹامن "بی-6" 0.157 ملی گرام
پائری ڈوکسن 0.155 ملی گرام
فولیٹ 0.69 ملی گرام
پینٹوتھینک ایسڈ 0.212 ملی گرام
کولائن 11.43 ملی گرام
بیٹائن 0.40 ملی گرام
وٹامن "سی" 18 ملی گرام
وٹامن" ای" 0.81 ملی گرام
وٹامن "کے" 0.419 ملی گرام
معدنیات قدر تقریباً :
کیلشیم 179 ملی گرام
لوہا (آئرن) 3.10 ملی گرام
میگنیشیم 64.29 ملی گرام
فاسفورس 57 ملی گرام
جست (زنک) 0.82 ملی گرام
تانبا(کاپر) 0.388 ملی گرام
مینگانیز 1.16 ملی گرام
سلینیم 0.31 مائیکرو گرام

الیکٹرولائیٹ :
پوٹاشیم 298 ملی گرام
سوڈیم 4 ملی گرام
فائٹو نیوٹرینٹ :
کیرٹین بیٹا 3142 مائیکرو گرام
کریپٹو زینتھین بیٹا 46 مائیکروگرام
لیوٹیان زی زینتھین 5650 مائیکرو گرام
اومیگا تھری فیٹی ایسڈ 319 ملی گرام
اومیگا سیکس فیٹی ایسڈ 74 ملی گرام

ریحان یا تلسی کے طبی خواص :
اطباء اسے مقوی قلب ، مفرح قلب ، منفث بلغم (بلغم خارج کرنے والا)،آنتوں کی خشکی دور کرنے والا ، دافع عفونت دافع بخار، اور ہاضم بتایا ہے ۔اس لئے اسے دل کی گھبراہٹ ،نزلہ زکام اور کھانسی ، تیزابیت معدہ پیٹ درد ، بھوک کی کمی ، اسہال اور بخاورں میں استعمال کرتے ہیں ۔ایورویدک میں اسے اکسیر کہا جاتا ہے ۔اس کے پتے او ر بیج دونوں بطور دوا استعمال ہوتے ہیں ۔ اس کے بیج بہت سے خمیروں جزو اعظم ہیں اور انہیں شربتوں میں بھی پیاس کی تسکین کے لئے ڈالا جاتا ہے ۔جدید تحقیقات بھی مندربالا خواص کی تصدیق کرتی ہیں اوراس کے کچھ نئے فوائد بھی سامنے آئے ہیں ۔
ریحان یا تلسی یا نیاز بو مرکزی اعصابی نظام (سی این ایس )پُر سکون اثرات ڈال کر نہ صرف ڈیپریشن، کھچاؤ، تناؤ ، بے چینی ،خفگی دور کرنے میں مفید ہےبلکہ ان امراض سے تحفط کا اہم ذریعہ بھی ہے ۔ یہ تھکاوٹ دور کرتی ہے ۔ سر درد خصوصا درد شقیقہ میں اس کا استعمال مفید ہے ۔یہ اعصاب کوتقویت دے کر یاداشت کو بہتر بناتی ہے۔بعض اطباء کے رائے میں تخم ریحان (تلسی کے بیج) ایک چائے کا چمچ ایک پیالی پانی میں جوش دے کرایک چمچ شہد ملا کررات کو پینے سے بڑی پرسکون اورگہری نیند آتی ہے ۔اچھی نیند ڈیپریشن اور بہت سے نفسیاتی امراض کا علاج ہے۔
تلسی خون میں کولیسٹرال کی سطح کوکم کرتی ہے اور دل کے مرض میں ہونے والی کمزوری کو بھی رفع کرتی ہے ۔اس میں موجود پوٹاشیم بلڈپریشر کوکم کرتا ہے ۔ جبکہ اس میں پایا جانے والا میگنشیئم قلبی صحت کو فروغ دینے کیلئے جانا جاتا ہے۔ یہ دل کی شریانوں کی حفاظت کرتے ہوئے خون کی بے قاعدہ روانی کو ختم کرکے آزاد بہاؤ کی اجازت دیتا ہے۔اس مقصد کے لئے تلسی کے تقریبا 12 پتے دن میں دو بار چبانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ اس کی خوشبو سے گھبراہٹ رفع ہوتی ہے اس کو سونگھنا دل کو طاقت دیتا ہے۔
تلسی بیٹا کیروٹین سے لبالب بھری ہوئی ہے جو طاقتور دافع تکسید (اینٹی آکسی ڈینٹ)یعنی جسمانی ٹوٹ پھوٹ کو روکنے والا ہے۔اس کے استعمال سے جسمانی ٹوٹ پھوٹ میں کمی واقع ہوتی ہے ۔ایک مطالعہ سے ظاہر ہوا ہے کہ تلسی بڑھتی عمر کے اثرات کو روکنے(اینٹی ایجنگ) اور انہیں کسی حد تک زائل کر نے کی خصوصیات بھی رکھتی ہے یہ خصوصیت اس میں موجود فلیونائیڈ ز کی وجہ سے ہے۔
تلسی نزلہ زکام ، سانس کی تنگی (دمہ) ، انفلوئنزا اور کھانسی کا مؤثر علاج ہے ۔ بلغم کو خارج کرتی ہے ۔ زکام سردی اور بند ناک میں اس کا استعمال حیران کن فوائد کا حامل ہے ۔ اس کے لیے اس کے رس کے چند قطرے کسی مشروب میں ڈال کر پئیں یا اس کے پتے چبائیں ، آپ کو فوری آرام ملے گا۔اس مقصد کے لئے تلسی او ر ادرک اچھی طرح ابال کر ، شہد ملا کرجوشاندہ کی طرح استعمال کرنے سے نظام تنفس کی اکثر بیماریوں سے نجات ملتی ہے۔
بچوں کی بیماریوں مثلا بخار، اسہال اور قے میں فائدہ مند ہیں۔ تلسی معدے کو تقویت دیتی ہے اور آنتوں کے سوزش کو رفع کرتی ہے ۔ہیضہ روکنے کے لئے تلسی کے پتوں کا چبانا مفید ہے۔یہ ہضم کو بہتر بنا کر ریاح ، تیزابیت کا خاتمہ کرکے نظام انہضام کے بہت سی بیماریوں مثلا قے ،متلی ، گیس، عدم اشتہا(بھوک کی کمی)بے حد مفید ہے ۔ ہرروز کھانے کے بعداس کے پانچ چھ پتے چبانے سے بدہضمی ، قے ، متلی وغیرہ ختم ہوجاتے ہیں۔تلسی خصوصا کپورتلسی کے سبز پتوں کا رس نہارمنہ پلانے سے پیٹ کے کیڑے ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ معدہ کے السر کے لئے بہت فائدہ مند ہے ۔تخم ریحان (تلسی کے بیج)معدہ کی تیزابیت اور اس کے زخموں (السر) کا بہترین علاج ہیں ۔معدہ میں السر کی وجہ سے درد کو سکون دینے کے لئے تخم ریحان ایک چائے کا چمچ پانی میں بھگو کر پلانے سے درد کو سکون ملتاہے ، تیزابیت کم ہوجاتی ہے اور زخموں کے اندمال میں مدد ملتی ہے ۔اس کی پتیاں بھی معدہ ےکے السر میں مفید ہیں ۔
تلسی میں پائے جانے والے جراثیم کش اور درد کش اثرات حیرت ناک نتائج کے حامل ہیں۔تلسی کی پتیاں گنٹھیا،جوڑوں کی سوزش(ورم)، سوجن اور درد میں مفید ہیں ۔
تلسی کے بیج خون کی کمی اور دل کی کمزوری اور اس کی وجہ سے سانس کا پھولنا ، ، خون کا گاڑھا ہونا،بلند فشارخون کے لئے بھی مفید ہیں ۔ اس کی پتیوں میں موجود لوہا اورتانبا خون کے سرخ خلیات کی پیدائش میں اہم کردار ادا کرتاہے۔ اس کے علاوہ اس کے پتوں کے استعمال سے یرقان، ہاتھ پاؤں کا جلنا، وائرل ہیپاٹائٹس کی علامات بھی اس کے استعمال سے کم ہوجاتی ہیں ۔ایچ آئی وی ایڈز میں بھی تلسی کی پتیا ں مؤثر پائی گئی ہیں۔
ریحان یا تلسی(نیاز بو)پسینہ آور ہیں اس لئےشدید بخار خصوصا بچوں میں، بخار کا درجہ حرارت نیچے لانے میں مؤثر ہے۔ تلسی کے بیج، ہراس بخار کا نہایت مؤثر علاج ہےجو ہٹیلا ہو ،کسی علاج سے ٹھیک نہ ہو ۔اس کے لئے تلسی یا نیازبوکے بیج ایک بڑا چمچ ، گائے یا بھینس کے نیم گرم دودھ میں گھول کر خالی پیٹ یا کھانے کے دو گھنٹے بعد دن میں دو دفعہ چسکی چسکی پینے سے ہرقسم کا عاجز کردینے والا بخار حتی کہ پرانا بگڑا ہوا ٹائیفائڈ ، تپ دق (ٹی بی)، ملیریا اور ڈینگی کے ایسے خطرناک مریض جن کی نبضیں ڈوب رہیں ہوں ، اللہ تعالی کے فضل وکرم سے نہ صرف تندرست ہوتے ہیں بلکہ طاقتور اور تروتازہ ہوجاتے ہیں۔انہیں جسم میں ایک نئی تازگی اور فرحت کا احساس ہوتا ہے ۔ہفتہ بھر یا اگرضرورت ہوتو دو یا تین ہفتے تک استعمال کریں ۔ باالفاظ دیگر تلسی کے بیجوں کے استعمال سے نہ صرف بخاراترتا ہے بلکہ بخار کی وجہ سے ہونے والی جسمانی توڑپھوڑ اور کمزوری اور نقاہت کا خاتمہ بھی ہوتا ہے ۔جسم کوطاقت اور قوت حاصل ہوتی ہے تھکاوٹ نزدیک نہیں آتی ۔تلسی کے بیج ایڈرینل گلینڈز (کلاہ گردہ)کی تھکاوٹ میں مفیدہیں ۔بیجوں کے علاوہ تلسی کے پتوں کا جوشاندہ الائچی سبزکے ساتھ(ہربل ٹی)ڈینگی اور ملیریا کے علاج اور موسم برسات میں اس سے تحفط کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے یا اس کی پتیوں کا رس (جوس)بھی پانی میں ملاکر ہر دو سے تین گھنٹے بعد استعمال کرسکتے ہیں ۔
تلسی دافع تعفن (اینٹی سیپٹک) ہے یہ بہت سے جراثیم کے پھیلاؤ کو روکتی ہے ۔اس کی دافع تعفن خصوصیات اس میں موجود فراری روغنوں (volatile oils) مثلا ایوگونول (eugenol) ، سینیول (cineole) ، ایسٹراگول (estragole) ، لیمونین (limonene) ، لینالول (linalool) ، مائرسین (myrcene) ،سیبی نیین (sabinene) وغیرہ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔تلسی کے پتے ایک بہت اچھا ماؤتھ فریشنرکے طور پر کا م کرتے ہیں ۔ یہ منہ میں موجود 99 فیصد جراثیم کا خاتمہ کردیتے ہیں ۔اس لئے اس کے پتے چبانے سے دانتوں کے امراض ،مسوڑوں کی سوزش ، منہ کی بدبو، پائیوریا حتی کہ منہ کے السر میں بھی بہت فائدہ ہوتا ہے ۔اس کی دھوپ میں خشک پتیوں کا سفوف کسی بھی منجن میں ملا کریا سرسوں کے تیل میں ملا کراستعمال کرنے سے دانتوں اور مسوڑوں کی بہت سی بیماریوں سے نجات ملتی ہے۔اس کی پتیوں کے جوشاندہ سےغرغرے کرنے سے گلے کی سوزش رفع ہوتی ہے۔کان میں اس کے پتوں کا رس کچھ گرم کرکے ٹپکانے سے کان کا درد اور ورم دور ہوجاتا ہے۔دانت درد میں اس کی پتیوں کو چبائیں اور انہیں اس دانت کے نیچے رکھیں جس میں درد ہو ۔
تلسی مصفی خون ہے ، یہ خون کو صاف کرتی ہے اس لئے جلدی امراض مثلا داد ، دھدر ، چھائیاں حتٰی کہ پھلبہری میں بھی اس کا اندرونی اور بیرونی استعمال بہت نفع بخش ہے۔ بیرونی طور پر اس کی پتیوں کا پلٹس بنا کر استعمال کریں ۔تلسی کی پتیوں کا تازہ رس کیڑے کے کاٹنے کی جگہ پر لگانے سے درد اور کاٹنے کا اثرختم ہو جاتا ہے۔کیل مہاسوں (ایکنی) تلسی کے پتے آدھ گھنٹے تک پانی میں پکائیں اور ٹھنڈا ہونے پر اس میں روئی بھگو کر کیل مہاسوں(ایکنی)والی جگہوں پر مساج کریں۔وٹامن "اے "کی موجودگی کی وجہ سے یہ جلد اور لعابی جھلیوں کے صحت کے لئے بہت مفید ہے۔اس کے بیجوں کو کوٹ کر کسی روغن یا سرکہ میں ملاکر لیپ کے طورپر بھی استعمال کرسکتے ہیں ۔ یہ لیپ پھوڑے ، پھنسیوں ، ایگزیما اور خارش میں مفید ہے۔اندرونی طور پر اس کے پتوں کا رس نکال کرشہدملاکر نہارمنہ استعمال کریں ۔اس کے پینے سے چہرے کی رنگت نکھرتی ہے ۔طویل عرصہ استعمال کرنے سے اکثر داغ اتر جاتے ہیں۔
تلسی دافع تکسید اور دافع سرطان (اینٹی کارسینوجن)خصوصیات کی حامل ہے۔یہ سرطانی رسولیوں کی دموی عروق پرحملہ آور ہوکر ان کی طرف خون کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالتی ہے اس لئے یہ سرطان خصوصا یہ منہ اور پھیپھڑوں کے سرطان سے تحفظ اور ان کے علاج میں بھی فائدہ مند ہے۔
تمباکو نوشی کی بری عادت ترک کرنے کےلئےتلسی سے مدد لی جاسکتی ہے ۔کیونکہ اس میں موجود اینٹی ڈیپریشن مرکب ، تمباکو نوشی ترک کرنے کے دوران تمباکو پینے کی خواہش کوکم کرتا ہے ۔اس کے علاوہ یہ ست پودینہ کی طرح گلے پر ٹھنڈا اثر بھی ڈالتا ہے۔ اس کی یہ صلاحیت بھی تمباکو نوشی کی خواہش کو قابو میں رکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ایورویدک میں اسےتمباکو چھڑانے والی بوٹی سمجھا جاتا ہے۔ تمباکو نوش حضرات تلسی کے پتے اپنے پاس رکھیں اور جب تمباکو پینے کی خواہش بیدار ہو تو تلسی کی چند پتیاں چبائیں ۔ اس کا مزید فائدہ یہ ہے کہا اس میں موجود دافع تکسید مرکبات ، سالوں سے بدن پر مرتب ہونے والے تمباکو نوشی کے برے اثرات اور نقصانات کے ازالہ میں بھی معاون ہوتے ہيں۔
تلسی میں وٹامن "کے" کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے اس لئے ہڈیوں کی مضبوطی میں اس کا اہم کردار ہے کیونکہ وٹامن "کے"ہڈیوں میں معدنی اجزاء کے جمع ہونے میں معاون ہے۔
تلسی میں چونکہ وٹامن "اے" کثیرمقدار میں پایا جاتا ہے۔وٹامن "اے"اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت کے لئے ضروری ہے ۔اس لئے یہ امراض چشم خصوصا اندھراتا (شب کوری) میں بھی اس کا نفع بہت زیادہ ہے ۔
تلسی خون میں شوگر کی سطح کو کم کرتی ہے ۔ مرض ذیابیطس میں مفید ہے۔اس میں موجود ایوگینول (eugenol) ، میتھائل ایوگینول (methyl eugenol) اور کیریوفائلین (caryophyllene) اجتماعی طور پر لبلبہ )پینکریاس(کے بیٹا خلیات )ایسے خلیات جو انسولین کو جمع کرتے اور اسے خارج کرتے ہیں(پرمثبت اثرات مرتب کرتے ہیں جس کی وجہ سے لبلبہ کا فعل خوش اسلوبی سے انجام پاتا ہےاور بدن کی انسولین کے لئے حساسیت )سینسٹیوٹی(میں بھی اضافہ میں ہوتا ہے۔
تلسی ، خون میں موجود یورک ایسڈ(جس کی خون میں بلند سطح پتھری بننے کا سبب ہے)کی سطح کوکم کرتی ہے ۔اس سے گردوں کی صفائی ہوتی ہے اور پتھری کی پیدائش میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے ۔ مزید یہ کہ اس کے فراری روغنوں میں موجود ایسیٹک ایسڈ(تیزاب سرکہ) اور دیگر کئی مرکبات گردوں کی پتھری کوتوڑتے ہیں ۔ یہ گردے کے درد میں بھی نافع ہے۔اس طرح تلسی گردوں میں پتھری سے تحفظ اور اس کے اخراج کے لئے کافی اہمیت رکھتی ہے ۔گردوں سے پتھری کے اخراج کے لئے اس کا عرق)جوس(شہد میں ملا کر مسلسل 6 ماہ تک استعمال کریں ۔ یہ مرکب پتھری کے اخراج کے ساتھ گردوں کو تقویت بھی دیتا ہے۔تلسی کے بیج پیشاب کی جلن اور سوزاک میں بھی مفید ہیں ۔ ان کے استعمال سے پیشاب کھل کر آتاہے اور یورک ایسڈ کا اخراج بھی ہوتا ہے۔
تلسی میں بہت سے ایسے اجزاءموجود ہیں جوبھنگ اور اوریگانو (مرزنجوش)میں پائے جاتے ہیں اس لئے طبی طور پر جہاں بھنگ کے مرکبات استعمال کئے جاتے ہیں وہاں تلسی کا ایکسٹریکٹ استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ کسی طرح کے ضمنمی اثرات سے بھی پاک ہے ۔تابکاری کے مضر اثرات بھی اس کے استعمال سے ختم ہوجاتے ہیں۔
تلسی میں موجود فراری روغن جلد اور بالوں کی خشکی دور کرکے ان کی چمک اور رونق میں اضافہ کرتے ہیں۔تلسی کے بیجوں کو پانی میں ابال کرسر دھونے سے بال لمبے، سیاہ اور چمک دار ہوجاتے ہیں ۔ سرکی پھنسیاں اور خشکی (بفہ)بھی دور ہوجاتی ہے ۔

مزاج : معتدل مائل بہ حرارت
نوٹ : تلسی کے پتے زیادہ تر تازہ حالت میں استعمال کئے جاتے ہیں ۔انہیں بشکل جوشاندہ یا ان کا رس نکال کر استعمال کیا جاتاہے ۔چٹنی میں بھی یہ تازہ حالت میں ڈالے جاتے ہیں ۔البتہ اس کے بیج بہت سے خمیروں کا جزو اعظم ہیں اور انہیں شربتوں میں بھی پیاس کی تسکین کے لئے ڈالا جاتا ہے۔
انتباہ :تلسی چونکہ خون کو پتلا کرتی ہے اس لئے خون پتلا کرنے والی ایلوپیتھی ادویا ت کے اسے استعمال نہ کیا جائے ۔ایسے افراد جن کے خون میں شوگر کی سطح کم ہوتی ہے وہ بھی اسے استعمال نہ کریں کیونکہ اس کے استعمال سے یہ سطح مزید کم ہوسکتی ہے ۔ اسی طرح ایسی خواتین جو حاملہ ہونے کی خواہش رکھتی ہیں وہ بھی اسے استعمال سے گریز کریں کیونکہ یہ زرخیزی (اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت)کو عارضی طور پر کم کرتی ہے ۔ حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی مائیں بھی اسے استعمال نہ کریں ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

حکیم عبدالستا ر
About the Author: حکیم عبدالستا ر Read More Articles by حکیم عبدالستا ر: 10 Articles with 142763 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.