بات قادری کی نہیں ناموس رسالت کی ہے

گستاخ رسول آسیہ بی بی کو تحفظ دینے والے، ناموس رسالت کو کالا قانون قرار دینے والے اور آسیہ بی بی کے سزائے موت کو ظلم قرار دینے والے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو کیفر کردار تک پہنچانے والے ملک ممتاز قادری کو 29 فروری 2016ء بروز پیر پھانسی دے دی گئی۔ ممتاز قادری سلمان تاثیر کے ذاتی محافظ دستہ میں شامل تھا۔ جب سلمان تاثیر کی ناموس رسالت پر نیگیٹیو سٹیٹمنٹ سامنے آگئے تو ممتاز قادری نے اس کا کام تمام کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ تا ہم وہ موقع کے انتظار میں ہے۔ ا س نے گورنر کو جنوری 2011ء میں اسلام آباد میں ایسے وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب سلمان تاثیر ایک ریسٹورنٹ سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔

پنجاب کے ا س وقت کے گورنر سلمان تاثیر نے 2010ء میں ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے ایک مقدمے میں سزا سنائے جانے کے بعد، ا س خاتون سے جیل میں ملاقات کی تھی اور موجودہ قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔ ممتاز قادری نے گرفتاری کے بعد اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ ا س نے سلمان تاثیر کو اس لیے قتل کیا کیوں کہ ا نھوں نے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کی حمایت کی تھی۔اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے 2011ء میں ممتاز قادری کو دو بار سزائے موت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ممتاز قادری نے اس سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس پر عدالت عالیہ نے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ممتاز قادری کو سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ تاہم فوجداری قانون کی دفعہ 302 کے تحت اُس کی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا۔

پھانسی کی خبر عام ہونے کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج ہوا۔راولپنڈی میں مظاہرین نے شہر کو دارالحکومت اسلام آباد سے ملانے والی بڑی شاہرہ اسلام آباد ایکسپریس وے اور فیض آباد پل کو بند کر دیا ہے اور گاڑیوں پر پتھراو کیا ہے۔ لاہور میں احتجاج کے باعث میٹرو بس سروس معطل کر دی گئی ہے جبکہ شہر میں دفعہ 144 نافذ کر کے جلسے اور جلوسوں کے انعقاد پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد ایسے متعدد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے جو ملک میں ممتاز قادری بچاؤ مہم چلا رہے تھے۔ اسلام آباد بارایسوسی ایشن نے ممتازقادری کی پھانسی کو جوڈیشل قتل قراردیتے ہوئے اس کے خلاف ہڑتال کردی ہے اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں پھانسی کو جوڈیشل قتل قراردیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے وکلاء اس کے خلاف مکمل ہڑتال کریں گے اور کوئی بھی وکیل عدالتوں میں پیش نہیں ہوگا۔

سلمان تاثیر اور ملک ممتاز قادری میں کون حق پر تھا اور کون ناحق، اس سے در کنار جگہ جگہ دہرا معیار نظر آتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو بے گناہ کے قتل کے باوجود رہا کر دیا گیا جبکہ ناموس رسالت کا پاس رکھنے والا باوجود ایک معقول وجہ کے پھانسی کے تختہ سے نہ بچ سکے۔ بات ممتاز قادری کی نہیں ناموس رسالت کی ہے۔ پاکستان میں پھانسی کو بحال کرنے کے بعد انسانی حقوق کے بین الاقوامی ٹھیکداروں نے واویلا شروع کر دیا تھا کہ پھانسی کے قانون پر نظر ثانی کی جائے۔ ممتاز قادری کے پھانسی پر بے ضمیر مغربی مافیا خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔

توہین رسالت کے بیسیوں قیدیوں کو جو سزائے موت کا فیصلہ سنا یا جا چکا ہے انہیں کب تختہ دار پر لٹکا یا جائے گا؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کو ہوش و حواس کو بحال کرکے سوچنا چاہئے کہ جو ملک اسلام کے نام پر آزاد ہوا ہے کیا اس میں اسلامی اقدار کی حفاظت ممکن نہیں۔ اگر یہی روش جاری رہے تو پتہ نہیں کتنے لوگ رسول اکرم ﷺ کے شان میں گستاخی کرتے رہیں اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے کتنے ہی غازی علم دین، عامر چیمہ اور ممتاز قادری پیدا ہوتے رہیں گے۔
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 75921 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.