تعمیر پاکستان کے گمنام معمار

میسور ----- شیروں کی سرزمین ---- بہادروں کی دھرتی ---- جہاں ٹیپو سلطان اور حیدر علی جیسے انسان پیدا ہوئے -- بلاشبہ میسور آزادی کے متوالوں کا شہر ہے - یہ پاکستان کے متوالوں کا شہر بھی تھا --- "اسی شہر کی غیرت مند مٹی سے پاکستان سے محبت کر نے والا ایک عظیم انسان بشیر احمد جنم لیتا ہے - جس کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا “ پاکستان کا مطلب کیا -- لا الہ ا لا اللہ “ پاکستان کا یہ شیدائی جس کے خون میں پاکستان کی محبت رچ بس گئی تھی اس نئے ملک کی خاطر اپنا گھر بار ، اپنا وطن ، اپنے عزیز و اقارب چھوڑ کر پاکستان چلا آتا ہے اور کوئٹہ سے کئی کوس کے فاصلے پر واقع ایک دور افتادہ قصبے نوشکی کے ایک گاؤں کلی بادینی میں بچوں کو مستقبل کے پاکستان کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل بنانے کے لئے ٹیچر کا پیشہ اختیار کر لیتا ہے - تنگی ترشی میں گزارہ کیا لیکن ملک کلے نظریہ سے وفاداری نہیں چھوڑی - اپنی اولاد کو رزق حلال کی تلقین کرتا ہے لیکن مکان حاصل کر نے کے لئے جائز کلیم بھی داخل نہیں کرتا - معاشی مسائل بھی آتے ہیں لیکن اس پاکستان کی مٹی سے کسی قسم کا دھوکا نہیں کرتا - نظریہ پاکستان کے ایسے گمنام سپاہی اپنی زندگی ایک مقصد کے لئے گزار دیتے ہیں - نہ جانے کتنے ایسے بشیر احمد اس پاک دھرتی میں دفن ہوگئے لیکن انہوں نے پاکستان کے مقصد سے منہ نہیں موڑا - ایسے لوگ نئی نسل کے لئے ایک مثا ل ہیں - ایک روشن شمع ہیں جو آج کل کے نوجوانوں اور نو نہالوں کو آواز دیتی ہے کہ اے لوگو دیکھو ‘ ہم نے اس ملک کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا - ہم نے یہ ملک اسلام کا قلعہ بنانے کے لئے حاصل کیا تھا - آج تم کیوں گروہوں میں بٹ گئے ہو - کیا پاکستان اسی لئے حاصل کیا تھا

بشیر احمد --- عہد شباب اور تعمیر پاکستان کا عہد

 15 جون 1994 کی شب تھی جب دو بجے ہمارے اباجان کا سایہ ہمارے سر سے ہمیشہ کے لئے ہٹ گیا - یہ ہم سب کے لئے اندوہناک سانحہ تھا- اس وقت سب بہن بھائیوں نے اپنے اپنے انداز میں اس غم کو برداشت کر نے کی سعی کی - لیکن ایسے لگ رہا تھا کہ بھائی جان اس کمی کو کسی اور انداز سے محسوس کر رہے ہیں -کیا یہ میں سمجھ نہیں رہا تھا - پھر تین چار دن بعد بھابی کا فون آیا کہ رات کو جب سب طرف سنا ٹا چھا گیا --خاموشی پھیل گئی تو وہ خود بخود رونے لگ گئے تھے - ہم دو تین دن بعد بھائی جان کے گھر گئے تو بھائی جان نے بتایا کہ انہوں نے اپنے جذبات ‘خیالات اور احساسات ایک ٹوٹی پھوٹی تحریر کے قالب میں ڈھال دئے ہیں - اس تحریر کی مختلف احبا ب نے قطع و برید کی - یہی تحریر میں آج یہاں پیش کر رہا ہوں - اس طرح سے یہ تحریر میرے والد معظم کی داستان حیات کا خلاصہ ہے اور تدفین کے دوران ہماری دلی کیفیت کا ایک بیان بھی ہے
--------------------------------------
الکھ نگری کے ممتاز مفتی کی طرح میری طبعی ساخت بھی کچھ ایسی ہے کہ کسی غمناک واقعہ پر مجھے ایک دم صدمہ نہیں ہوتا بلکہ واقعہ کے بیت جانے کے بعد اداسی اور غم کے گہرے بادل دل و دماغ پر چھاجاتے ہیں۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا ہو جاتا ہے اور اگلے چند روز میں آنکھوں سے غم کی بارش ہونے لگتی ہے۔ یوں محسوس ہو تا ہے کہ ایک طوفان اٹھا اور سر سے گزر گیا ۔ میں اس طوفان کی تباہ کاریوں سے اپنے دل و دماغ میں جو ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے ان کی مرمت میں مصروف ہو جاتا ہوں- لیکن دل و دماغ کی دنیا میں کچھ ٹوٹ پھوٹ ایسی بھی ہوتی ہے، جس کی میں دوبارہ مرمت نہیں کر سکتا اور یہی اس ' غمناک واقعہ کی' یادیں بن کر ساری عمرمیرے سا تھ رہتی ہیں -

- اس سے پہلے بھی دو مرتبہ بھی ایسی کیفیت سے گزرا تھا - ایک اپنے محسن ماموں سید عبدالحمید صاحب کی رحلت کے موقع پر دوسرا اپنے محبی سسر کرنل نظام الدین صاحب کے انتقال کے وقت -

والد محترم کی وفات پر یہی حالت ہوئی لیکن بعینہ ایسے نہیں -

ذہن پر اداسی اور غم کے بادل چھائے ، گھٹا ٹوپ اندھیرا ہوا - گرج چمک کے ساتھ بجلی کوندی اور سوئم کے بعد چوتھے روز شام پانچ بجے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے - ساون بھادوں کے بادلوں کی طرح غم کے بادل برس پڑے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی صورت میں غم کی بارش جاری ہو گئی - بارش کو تھمنا ہوتا ہی ہے چاہے وہ طوفان نوح ہی کی بارش کیوں نہ ہو - چنانچہ یہاں بھی آخر کار یہ غم و یاس کی بارش رک گئی- دل و دماغ کی اس دنیا میں ٹوٹ پھوٹ جو ہوئی میں اس کی توٹ پھوٹ کی مرمت میں لگ گیا - والد مرحوم کے انتقال کے بعد یوں محسوس ہوتا تھا کہ طوفان تو سر سے گزر گیا ہے لیکن ایک بے نام اداسی کے بادل ابھی تک دل و دماغ میں چھائے ہوئے ہیں - ان سے ملال اور رنجیدگی ، بوند بوند ٹپک کر ، میری رگوں کے اندر بہتے ہوئے خون میں شامل ہو رہی ہیں -
ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ؟ اب کیوں ہو رہا ہے ؟

انتقال پر ملا ل
---------------
15 جون 1994 کی صبح چار بج کر پچپن منٹ پر میری آنکھ اچانک کھل جاتی ہے - میں بستر سے اٹھ کر بیٹھ جاتا ہوں - آنکھ ایسے اچانک کھلنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی البتہ دوبارہ آنکھ بند کر کے لیٹنے کی خواہش بھی نہیں ہوتی - پھر خیال آتا ہے کہ اب اگر آنکھ کھل ہی گئی ہے تو آج صبح کی نماز پڑھ لی جائے - میں باتھ روم میں وضو کے ارادے داخل ہوا- ابھی باتھ روم میں داخل ہوئے چند ہی منٹ ہوئے تھے کہ بیڈ روم کے ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے - جو باتھ روم میں بھی صاف سنائی دیتی ہے۔میں ہمیشہ بے وقت کے فون کالز سے خوفزدہ ہو جاتا ہوں کیونکہ ایسے بے وقت کے فون ہمیشہ کسی ایمر جنسی کے ہوتے ہیں - ابھی میں باتھ روم میں ہی ہوں فون کی مسلسل گھنٹی سے میری بیگم عذرا کی آنکھ کھل جاتی ہے - وہ فون اٹینڈ کرتی ہیں ۔ پھر جلد ہی باتھ روم کے دروازہ پر دستک دیتی ہیں اورکہتی ہیں -
اسٹیل ٹاؤن سے منیرا حمد (یعنی میرے چھوٹے بھائی ) کا فون ہے -
اچھا میں آرہا ہوں -- میں کہتا ہوں
میں باتھ روم سے باہر آتا ہوں ، اسٹڈی کرسی پر بیٹھتا ہوں اور فون پر بات کرتا ہوں -دوسری جانب سے آواز آتی ہے
میں منیر احمد بول رہا ہوں - رات ڈیڑھ بجے ابا جان کی طبعیت خراب ہوگئی تھی -میں انہیں لیکر الحدید میں واقع پولی کلینک گیا - وہاں پر ڈیوٹی ڈاکٹر نے ابا جان کو انجیکشن لگا یا اور گھر لیجانے کی اجازت دے دی ۔ واپسی پر ابا جان کو خور شید باجی کے گھر لے گیا وہاں دلیہ بنوایا تاکہ اپنے گھر واپس پہنچنے کے بعد انہیں کھلا سکوں - میں ابا جان کو اپنے گھر لے آیا - دلیہ کھلانے کی کوشش کی لیکن دلیہ ابا جان کے منہ سے باہر نکل نکل آتا تھا - اس کے بعد طبیعت مزید خراب ہوگئی اور وہ صبح کے تقریباً تین بجکر بیس منٹ پر اس جہاں فانی سے رخصت ہوگئے -
میں نے پوچھا اس وقت آپ کے پاس کوئی موجود ہے -
ہاں ، سردار (یعنی میرے بہنوئی ) میرے پاس ہیں
منیر احمد ، ہم دس منٹ کے بعد دوبارہ بات کریں گے - میں نے کہا - ذرا میری بات سردار سے کروانا -
پھر ٹیلی فون پر سردار کی آواز آئی - ہیلو
سر دار کیا خورشید ( میری بہن ) کو ابا جان کے انتقال کی خبر ہے ؟ میں نے پوچھا
جی نہیں - میں سوچ رہا ہوں کہ آپ اور عذرا بھابھی آکر انہیں یہ خبر دیں - ورنہ وہ مجھ سے نہیں سنبھالی جائیں گی -
اچھا - اب ہم آپ کے یہاں آنے کی تیاری کرتے ہیں - دس منٹ بعد دوبارہ فون کروں گا -
میں فون بند کرتے ہوئے ، کرسی کی پشت کی جانب سے پیچھے عذرا کو دیکھا جو بیڈ پر پاؤں لٹکائے ، چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامے بیٹھی ہیں -
میں نے کہا -- ابا جان کا انتقال ہو گیا ہے -
ہاں ، وہ آہستہ سے بولیں
میں سمجھ گیا کہ میرے باتھ روم سے باہر آنے تک منیر احمد نے عذرا کو ابا جان کے انتقال کی خبر دے دی تھی لیکن وہ چاہتی تھیں کہ میں خود یہ خبر اپنے بھائی کی زبانی سنوں -
منیر احمد نے جب مجھے یہ خبر فون پر سنائی اس وقت صبح کے تقریباً پانچ بجے تھے - شاید اسی لئے اللہ تعالیٰ نے چار بجکر پچپن منٹ پر مجھے نیند سے بیدار کر دیا تھا کہ میں پورے ہوش و حواس میں اپنے والد محترم کے انتقال کی خبر سنوں - میں نے عذرا سے کہا کہ آپ بچوں کو جگائیں اور انہیں انکے دادا کے انتقال کی خبر دیں - وہ اٹھ کر بچوں کے بیڈ رومز کی جانب جاتی ہیں -

پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔۔۔۔۔ لاالہ الا اللہ
---------------------------------------------
میں اپنے بیڈ روم میں تنہار ہ گیا - بیڈ روم میں ٹائم پیس کی"ٹک ٹک "اور ایر کنڈیشزسے نکلتی ہوا کی مسلسل "سائیں سائیں" کے سوائے اور کوئی آواز نہیں ہے۔ اچانک مجھے یو ں لگا کہ میں اپنی اسٹڈی کرسی پر نہیں بلکہ ایچ جی ویلز کی ٹائم مشین میں بیٹھا ہوا ٹائم پیس کی ــ"ٹک ٹک "اور ایر کنڈیشزکی "سائیں سائیں" کے ساتھ ماضی کی سمت محو سفرہوں اور بالآخر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک خاص زمان و مکان میں پہنچ کر رک جاتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ تو دیکھتا ہوں کہ جنو ری 1949 کا زمان ہے - ہندوستان کے شہر میسور کا ایک مکان ہے - ایک شخص اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ پاکستان کے لئے رخت سفر باندھ رہا ہے - یہ شخص میرے والد بشیر احمد ہیں - بیوی اور دو بچے میری والدہ ، میں اور میری چھوٹی بہن خورشید سلطا نہ ہیں -
میرے والد سے ان کی والدہ ‘ بھائی اور بہنیں کہہ رہے ہیں کہ تمہیں یہاں کیا تکلیف ہے کہ تم پاکستان جارہے ہو ؟ وہاں تمہیں کوئی جانتا تک نہیں کہاں ٹھہروگے؟ کیا کروگے ؟ نہ تمہارے پاس کوئی خاص تعلیم ہے اور نہ تمہا رے پاس پیسہ ہے کہ تم وہاں جا کر کوئی چھوٹا موٹا سا کاروبار کر سکو -
میں کاروبار کے لئے نہیں بلکہ تعمیر وطن کے لئے جارہا ہوں -
تم اور تعمیر وطن !
ہاں میں اور تعمیر وطن -
کیسے؟
اللہ تعالیٰ میری رہنمائی کرے گا - میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مملکت خداداد کی آزاد فضا میں جینا چاہتا ہوں ---- اور ہاں -- اب جبکہ میں پاکستان جارہاہوں میں دوبارہ ہندوستان کی زمین پر قدم نہیں رکھوں گا - اب میں ایک آزاد فضا میں جیوں گا - ایک آزاد فضا میں مروں گا اور ایک آزاد زمین میں دفنا یا جا ؤں گا - ۔پاکستان کے باشندے ہی میرے سب کچھ ہوں گے - ان کے ساتھ ہی میرا جینا اور مرنا ہوگا -

بچپن سے لیکر ہوش سنبھالنے تک والد محترم نے ہمیں یہی ذہن نشین کرایا کہ
مذہب تمہارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام
قومیت تمہاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستانی
ذات تمہاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمان

اس طرح انہوں نے "پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ" کے نعرہ کو حقیقت کا رنگ دے دیا - ۔نتیجتاً آج میرا یہ ایمان ہے کہ میں صرف ایک مسلمان ہوں اور ایک پاکستانی - نہ سنی، نہ شیعہ، نہ بریلوی، نہ دیو بندی، نہ مہاجر ،نہ پنجابی، نہ سندھی، نہ بلوچ، نہ پٹھان -
کاش ! پاکستان کے ہر باپ نے اپنے بچوں کو یہی سبق دیا ہوتا تو آج پاکستان میں سندھی ، پنجابی ، پٹھان بلوچ یا مہاجر نہیں ہوتے صرف پاکستانی ہوتے-
میسور (انڈیا) کے باسی ہونے کے ناطے والد مرحوم کے شعور میں ٹیپو سلطان کا مقولہ "شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی صدسالہ زندگی سے بہتر ہے" خوب رچ بس گیا تھا - وہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی دل سے پاکستانی ہوگئے اور اس کو ترجیح دی کہ پاکستان کی آزاد فضا ؤں میں تنگی ترشی ہندوستان کی فضاؤں میں آرام و آسائش سے لاکھ گنا بہتر ہے - ہجرت کی ابتداء بمبئی سے بذریعہ بحری جہاز کراچی آمد کی صورت میں ہوتی ہے - پاکستان کی آزاد فضاء تو ضرور ہے لیکن کسی سے جان پہچان نہیں - سب نا آشنا - ہجرت کا سفر جاری ہے کراچی سے لاڑکانہ، شکارپور ، کوئٹہ اور آخر کار اسکول ٹیچر کا پیشہ اختیار کرتے ہوئے ایک دور افتادہ قصبہ نوشکی پہنچتے ہیں اور اس طرح ہجرت کا ایک طویل سفر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
والد محترم کو پاکستان کی فضاؤں میں کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی - سب اپنے لگتے ہیں - سب محبت و خلوص کے پیکر - اس وقت سب پاکستانی تھے اور مسلمان تھے - ٹیپو سلطان کے دیس کا باسی ‘ مملکت پاکستان کو ٹیپوسلطان کی خواہش کی تکمیل دیکھتا ہے اور اپنے دل و جان کی گہرائیوں سے وطن عزیز کی تعمیر میں لگ جاتا ہے ۔ یعنی اپنے اور وطن کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں -


استاد کا مقدس پیشہ
------------------------
والد محترم نے اپنے ذاتی رویہ سے استاد کے مقدس پیشے کا وقار کبھی مجروح نہیں ہونے دیا - ہمیشہ اس مقدس پیشے کے تقدس کو پیش نگاہ رکھا - انتہائی تنگی ترشی کی حالت میں بھی کبھی بچوں کو ٹیوشن ، معاوضہ کے عوض نہیں پڑھائی - اسکول کی اسٹیشنری گھر نہیں لائے - اپنے بچوں کی تعلیم کا سامان ہمیشہ اپنی تنخواہ سے خریدا - اپنے شاگردوں یا ان کے والدین سے کبھی کوئی تحفہ قبول نہیں کیا حالانکہ ایسا وقت بھی آیا جب گھر میں روٹی کے لئے آٹا میسر نہیں ہوتا تھا - امریکن امداد میں اسکول کے بچوں کے لئے خشک دودھ کے ڈبے ملا کرتے تھے - لوگوں نے والد محترم کو یہ دودھ کے ڈبے فروخت کرنے کی بہت ترغیب دی ، لیکن اس کے باوجود کہ مالی حالالت ابتر تھے انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا - حالانکہ اسی عرصہ میں والدہ صاحبہ ٹی بی کی مریضہ ہوگئیں - مالی حالات حد درجہ گر گئے تب بھی بھی والد محترم ہمیشہ اﷲ تعالیٰ کے شکر گزار رہے اور صبر و قناعت کی ایک زندہ مثال پیش کی -

تعمیر پاکستان
----------------
میری والدہ صاحبہ کو ٹی بی ہو جاتی ہے اور انہیں فاطمہ جناح ٹی بی سینی ٹور یم کوئٹہ میں داخل کر دیا جاتا ہے - والد محترم کی درخواست منظور ہوتی ہے اور محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر صاحب، والد محترم کا تبادلہ “ کلی بادینی --- نوشکی “ سے کوئٹہ کے ایک پرائمری اسکول میں کر دیتے ہیں تاکہ وہ کوئٹہ میں مقیم رہ کرسینی ٹوریم میں والدہ صاحبہ کی دیکھ بھال کر سکیں - میں نے آٹھویں جماعت کے بورڈ کے امتحان کی وجہ سے نوشکی میں اپنے ماموں سید عبد الحمید (مرحوم) کے پاس قیام کیا - یہ 1958 کا زمانہ ہے۔ ایوب خان کا مارشل لاء لگا ہوا ہے اور ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں کے لئے’’ کلیم‘‘ جمع کرانے کا اعلان ہوتا ہے - میں نے نوشکی میں ہفت روزہ اخبار "میزان" میں یہ خبر پڑھی اور دل میں بہت خوش ہوا کہ والد محترم نے بھی انڈیا میں اپنی چھوڑی ہوئی پراپرٹی’’کلیم‘‘ضرور داخل کرایا ہوگا - میں آٹھویں جماعت کا امتحان دینے کے بعد بذریعہ بس ‘ دن بھر کے سفر کے بعد شام کو کوئٹہ پہنچتا ہوں - ۔بس اسٹاپ پر والد صاحب محترم مجھے لینے کے لئے تشریف لائے - میں نے بس سے اترنے کے بعد ان سے پہلا سوال یہ کیا کہ ’’آپ نے کلیم تو ضرور داخل کرا دیا ہوگا‘‘
“ کون سا کلیم ؟ نہیں بیٹا میں نے داخل نہیں کرایا “
“کیوں؟ “
کیوں؟ “
’’بیٹا - ہم پاکستان اس لئے نہیں آئے کہ ہم پاکستان سے کچھ کلیم کریں‘‘
ہم پاکستان کی تعمیر میں حصہ لینے آئے ہیں - آپ اپنی پوری توجہ اپنی تعلیم پر دیں - انشاء اﷲ وقت آنے پر آپ پاکستان میں ہی صاحب جائیداد ہوں گے - اس وقت یہ سن کر میرا یہ خواب کہ پاکستان میں اپنا بھی کوئی مکان ہوگا ٹوٹ گیا - لیکن الحمد اﷲ آج میں صاحب مکان ہوں -
جب میں کالج پہنچا تو معلوم ہوا کہ نوشکی جانے سے پہلے ‘ ایک سال ہم کوئٹہ میں رہے تھے ‘ تو محکمہ کسٹوڈین سے ایک مکان شراکت کی بنیاد پر الاٹ ہوا تھا اور جب نوشکی کے لئے روانہ ہورہے تھے تومکان میں اپنی شراکت والا حصہ پیچھے رہنے والے شریک مکان کو بلا کسی معاوضہ کے دے دیا تھا - جب اس بات کا علم مجھے ہوا تو اس وقت مجھے والد محترم کا یہ فعل اچھا نہیں لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن آج مجھے ان کے اس فعل پر بہت بڑا فخر ہے -

کئی سالوں کے بعد میں نے سنا اور پڑھا کہ امریکہ کے صدر جان ایف کینیڈی نے اپنی عوام سے کہاتھا۔ " یہ مت پوچھو کہ امریکہ تمہیں کیا دے رہا ہے بلکہ یہ پوچھوکہ تم امریکہ کو کیا دے رہے ہو"۔ تب اچانک میرے دماغ میں فلیش ہوتا ہے کہ والد محترم نے بھی تو کچھ اسی قسم کی بات کی تھی - ’’بیٹا‘ ہم پاکستان اس لئے نہیں آئے کہ ہم پاکستان سے کچھ کلیم کریں ‘ ہم تعمیر پاکستان میں حصہ لینے آئے ہیں - اگر وہ ایک عظیم ملک کے ایک عظیم صدر کا اپنی عوام سے خطاب تھا تو پھر یہ عظیم پاکستان کے ایک عظیم باپ کا اپنے کم سن بچے سے خطاب تھا - واہ رے میرے عظیم پاکستانی باپ! کاش! ہر پاکستانی باپ اپنے بچوں کو ایسی نصحیت کرتا تو آج ہم پاکستانیوں کا یہ برا حال نہ ہوتا -
“سنئے! سنئے “ کی آواز مجھے ٹائم ٹنل سے باہر لے آتی ہے ۔ میں یہ دیکھتاہوں کہ میں اپنی اسٹڈی کرسی پر بیٹھا ہوا ہوں اور میری اہلیہ عذرا مجھے یاد دلا رہی ہیں “"دس منٹ ہو چکے ہیں ۔ آپ نے منیر احمد سے کہا تھا کہ دس منٹ کے بعد دوبارہ فون کروں گا‘‘
اوہ ! اچھا کیا آپنے مجھے یاد دلا دیا۔ منیر احمد انتظار کر رہے ہوں گے۔"

یہ کیا کہ والد محترم کی زندگی کے یہ روشن پہلو مجھ پر اسی وقت عیاں ہوئے جب میں ٹائم ٹنل میں گیاتھا یا پھر ان کی موت نے میری آنکھوں کے سامنے سے وہ دنیاوی پردے ہٹا دئیے اور میرے ذہن میں عرصہ سے جس آئیڈیل پاکستانی مسلمان باپ کا تصور تھا وہ آئیڈیل مجھے اپنے والد مرحوم کی شخصیت میں نظر آیا - میری فون پر دوبارہ منیر احمد سے بات ہوتی ہے - نماز جنازہ تدفین کا وقت اورتدفین کے مقام کا تعین ہوتا ہے - تمام متعلقہ لوگوں کو فون کرنے کے بعد ہم الحدید کے لئے روانہ ہوتے ہیں اورپچّیس کلو میٹر کا سفر طے کرتے ہوئے’’ الحدید‘‘ منیر احمد کے گھر پہنچ جاتے ہیں -

پاکستان کے لوگ ہی میرے سب کچھ ہیں
------------------------------------------------
میں ‘ عذرا ا ور بچے سیدھے ڈرائنگ روم میں والد محترم کے جسد خاکی کے پاس پہنچتے ہیں اور وہیں بیٹھ جاتے ہیں - میری نگاہیں والد محترم کے چہرے پر ٹک جاتی ہیں - ٹائم ٹنل میں جس عظیم باپ کو دیکھا وہ آج زندگی کا ایک طویل اور بامقصد سفر طے کرنے کے بعد ایک گہری میٹھی نیند سو چکا ہے - اس عظیم باپ نے سینتالیس سال پہلے جو کہا تھا وہ کر دکھایا - ہجرت کے بعد وہ پاکستان کی آزاد فضا میں آخری سانس تک رہا - سفر کے لئے مالی استطاعت رکھنے کے باوجود اس نے دوبارہ ہندوستان کی زمین پر قدم نہیں رکھا اور پاکستان کی آزاد فضا میں ‘ اپنی جان ‘ جان آفرین کے سپرد کر دی - اس عظیم باپ نے اپنے گزرے ہوئے کل کو ہمارے آج کے لئے قربان کیا - تمام رشتے ناطے اور تعلقات اس ارض مقدس کے لئے قربان کئے - اچانک یہ خیال آتا ہے کہ آج مجھے جو باعزت مقام حاصل ہے وہ میرے والد محترم کی بہترین تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے - الحمداﷲ انہوں نے اگر ایک طرف مجھے دین کی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا تو دوسری جانب مجھے دنیامیں سلیقہ سے زندگی گزارنے کے عمدہ شعائر سے بھی روشناس کرایا - روز قیا مت اﷲ کی بارگاہ میں مجھے یہ شکایت ہرگز نہیں ہوگی کہ میرے والد نے میری دینی و دنیاوی تعلیم و تربیت میں کوئی کوتاہی کی - مجھے یقین کامل ہے کہ انشاء ا ﷲ اس اعتبار سے بھی وہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں سرخرو ہوں گے-

یہ کیا؟ ایک طرف ذہن میں ان افکار کا جوار بھاٹا اور دوسری طرف آنکھوں سے آنسوؤں کا خاموش تلا طم ‘ نہ کوئی سسکی!نہ کوئی آہ !

کیا یہ والد محترم کی وفات کا غم ہے؟ یا روح کی گہرائیوں سے عقیدت کا نذرانہ - اس باپ کے لئے جو ’’پاکستان‘‘ کا مطلب ۔۔۔۔۔۔۔لااﷲالااﷲ ‘‘کا مجسم نمونہ تھا -
میری اور منیر احمد کی موجودگی میں والد محترم کے جسد خاکی کو غسل ‘ ان کے پوتے ‘ حماد اور جہاں زیب احمد دو معزز حضرات کی زیر ہدایت دیتے ہیں - ان دونوں معزز حضرات نے والد محترم کی میت کو غسل دینے کی رضاکارانہ پیشکش کی تھی۔ ظہر کی نماز کے کے بعد نماز جنازہ پڑھائی جاتی ہے - قبرستان میں والد محترم کے جسد خاکی کو لحد میں ان کے بڑے پوتے جہا ں زیب احمد اتارتے ہیں - اس میں ان کے چھوٹے پوتے حماد احمد ‘ جہاں زیب احمد کی مدد کرتے ہیں - لحد میں میت اتارنے کے بعد سیمنٹ کے سلیب رکھے جاتے ہیں تو میں دیکھتا ہوں کہ میت گاڑی کے باریش ڈرائیور صاحب اپنے ہاتھوں سے مٹی کا گارا بنا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ سمینٹ کے سلیب میں گارے کی بھرائی بھی کر رہے ہیں - میں نے ایسا پہلے کبھی کسی اور کی تدفین میں نہیں دیکھا - عام طور پر گارے کا یہ کام توگور کن ہی کرتا دیکھا گیا ہے - قبر پر سلیب رکھنے اور گارے سے بھرائی کا کام مکمل ہوتا ہے - اکثر ہوتا تو یوں ہے کہ تدفین میں شامل تمام حضرات فرداََ فرداََ اپنے ہاتھوں سے قبر پر مٹی ڈالتے ہیں اور قبر سے ہٹ جاتے ہیں تاکہ باقی مٹی عام طریقہ کار کے مطابق گور کن اپنے بیلچہ سے قبر پر ڈال سکے - لیکن یہاں پر ایسا نہیں ہوتا بلکہ تدفین کے شرکاء میں سے چند معززین آگے بڑھتے ہیں اور گورکن سے بیلچے مانگ کر ماہ جون کی چلچلاتی دھوپ میں ‘ پسینہ سے شرابور ہونے کے باوجود قبر پر خود بیلچے سے مٹی ڈالتے ہیں - ان معززین کا پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق ہے اور یہ مختلف مادری زبانیں بولتے ہیں - والد مرحوم کے ساتھ ان کی کوئی غرض وابستہ نہیں تھی ما سوائے اس کے کہ انہوں نے والد مرحوم کے اچھے کردار اور شخصیت کو ملحوظ خاطر رکھا - ان کی تد فین میں شرکت کی اور عقیدت سے انہیں اپنے ہاتھوں سے مٹی دی - دراصل اﷲ اس موقع پر لوگوں کہ یہ دکھا رہا تھا کہ والد مرحوم نے ہندوستان سے ہجرت کے وقت درست ہی کہا تھا کہ پاکستان کے باشندے ہی ان کا سب کچھ ہوں گے - اب وہ انہی کے ساتھ جئیں گے اور انہیں کے ساتھ مریں گے - دفنانے کے بعد قبر پر پانی چھڑکا ؤ کیا جاتا ہے اور پھول ڈالے جاتے ہیں - والد مرحوم نے پاکستان ہجرت کرتے وقت پاکستان کی آزاد سرزمین میں دفن ہونے کی جس خواہش کا اظہار کیا تھا آج ان کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر آتی ہے اور میں ان کی یادوں کو ہمیشہ کے لئے اپنے دل میں بسا لیتا ہوں -

راہ سلوک کا ایک گمنام سالک
----------------------------------
تد فین کے بعد ‘ شرکاء میں سے دو معزز حضرات قران کی تلاوت کر ہی رہے ہوتے ہیں کہ میں ان مولوی صاحب کو جنہوں نے والد مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی تھی قبرستان میں اپنی جانب آتے ہوئے دیکھتا ہوں

مولوی صاحب کے قبر پر پہنچنے سے ذرا پہلے تلاوت ختم ہو جاتی تی ہے۔ اس موقع پر مولوی صاحب والد مرحوم کی قبر کی جانب اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں۔

’’میں آپ سب حضرات کو ان بزرگ کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ مرحوم ایک نہایت نیک نمازی اور پرہیزگار شخص تھے۔چھوٹے بڑوں کو سلام کرنے میں پہل کرتے تھے۔ وہ ایک سچے پاکستانی اور پکے مسلمان تھے۔بس یہی بتانا مقصود تھا‘‘
’’آئیے اب ان بزرگ کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں‘‘ مولوی صاحب جو مسجد کے امام بھی ہیں کہتے ہیں - لوگ دوبارہ اپنے ہاتھ دعا کے لئے بلند کر دیتے ہیں -

شرکائے تدفین میں سے زیادہ شرکاء کا تعلق اسٹیل ٹاؤن اور الحدید سے تھا - بعد میں بہت شرکاء نے ہمیں بتایاکہ محترم امام صاحب کو ہم نے آج تک قبرستان میں آکر کسی کے بارے میں اس طرح کے خصوصی کلمات کہتے نہیں سنا جیسے کہ آج انہوں نے آپ کے والد مرحوم کے لئے کہے - منیر احمد نے والد مرحوم کی تدفین کے چوتھے روز مجھے بتایا کہ جناب مولوی صاحب تدفین کی شام اپنے استاد محترم کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لائے اور مرحوم کے حق میں مغفرت کی دعا اپنے استاد محترم سے بھی کرائی -

میں نے اب تک پچاسیوں تدفینوں میں شرکت کی ہوگی لیکن کبھی اس قسم کے واقعات میرے مشاہدے میں نہیں آئے جیسے کہ والدمحترم کی تدفین کے وقت مثلاََ
-- غسل کے موقع پر ایک بزرگ کا اپنے طور پر خدمات پیش کرنا
-- میت گاڑی کے باریش ڈرائیور صاحب کا بذات خود والد مرحوم کی قبر کے لئے ہاتھوں سے ’’گارا‘‘ بنانا۔اس گارے کو اپنے ہاتھوں سے اٹھاکر قبرتک لے جانا اور قبر پر رکھے ہوئے سیلیوں پر لگانا
-- وہ لوگ جو کہ نہ تو رشتہ دار تھے اور نہ احباب لیکن پھر بھی سخت گرمی کے موسم میں والد مرحوم کی قبر پر بیلچوں سے مٹی ڈالنا - ان کی مجھ سے یا منیر احمد سے کوئی دنیاوی غرض بھی نہیں تھی
-- مسجد کے محترم امام صاحب کا بلا کسی دنیاوی غرض کے بذات خود جون کے مہینے کی چلچلاتی دھوپ میںموٹر سائیکل والے سے لفٹ لیکر قبرستان پہنچنا اور والد مرحوم کے لئے نیک کلمات کا ادا کرنا - -- جناب امام صاحب کا اپنے استاد محترم کو لیکر منیر احمد کے گھر آنا اور ان سے والد مرحوم کے حق میں مغفرت کی دعا کروانا-

یہ سب کیا تھا؟

کیا ان سب لوگوں نے یہ سب کچھ دیناداری کے لئے کیا؟ نہیں ہرگز نہیں -
اگر یہ دنیا داری نہیں تھی تو اﷲ نے اپنی خلق کو نقارہ خدا بنا دیا کہ وہ جو دنیاو ی طور پر ایک سچے پاکستانی‘ا یک آئیڈیل باپ تھے - دینی طور پر راہ سلوک کے ایک گمنام سالک تھے - انہوں نے راہ سلوک کی کتنی منزلیں طے کیں اس کا علم تو اﷲ کو ہی ہوگا - البتہ اتنا یقین ہے کہ والد مرحوم اﷲ تعالیٰ کے ہاں بھی سرخرو ہوں گے -

نذرانہ سلام
-------------
-- میں سلام کرتا ہوں کہ اس شخص کو کہ جو ’’پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاالہ الااﷲ‘‘کا عملی نمونہ تھا - میں سلام کرتا ہوں اس شخص کو جس نے کبھی نہ پوچھا کہ پاکستان نے اسے کیا دیا بلکہ ہمیشہ دیکھا کہ اس نے پاکستان کے لئے کیا کیا -
-- میں سلام کرتا ہوں اس شخص کو کہ جو تمام عمر سادگی‘ایمانداری، قناعت‘ صبر اور شکرکا پیکر رہا -
-- میں سلام کرتا ہوں اس شخص کو کہ جس نے وطن عزیز کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی -
-- میں سلام کرتا ہوں اپنے عظیم باپ کو کہ جس نے مجھے سب کچھ دیا لیکن مجھ سے لیا کچھ بھی نہیں
-- میں اپنی والدہ محترمہ کو بھی سلام کرتا ہوں جو ہمیشہ والد محترم کے قدموں کے ساتھ قدم ملا کر چلتی رہیں اور کسی بھی موقع پر شکایت کا ایک حرف زبان پر نہیں لائیں اور نہ ہی کسی ناحق کام کے لئے اکسایا -
-----------------------------------------
بھائی جان کے ان تاثرات اور اباجان کی ہجرت کے واقعات اور پاکستان میں رہنے کے انداز فکر کو کو مختلف اخبارات اور جرائد نے اپنے صفحات میں جگہ دی تھی اور اپنی آراء کا اظہار بھی کیا - میری نظر میں یہ آراء ایک قوم کو اپنی منزل کی راہوں کا تعین کرنے میں مددگار و معاون ثابت ہو سکتے ہیں - اس لئے انہیں بھی ایک امانت سمجھ کر پیش کر رہا ہوں

" پاکستان سے محبت کر نے والا ایک عظیم انسان -- بشیر احمد - ایسے لوگ نئی نسل کے لئے ایک مثا ل ہیں ‘ سرمایہ حیات ہیں ‘ جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کر دیا “
ماہنامہ نوائے حق - اکتوبر 1994

"مرحوم ایک نہایت نیک ‘ نمازی ‘ اور پرہیز گار شخص تھے - چھوٹے بڑوں کو سلام کرنے میں پہل کرتے تھے - وہ ایک سچے پاکستانی اور پکے مسلمان تھے "
امام مسجد اور سابق رکن صوبائی اسمبلی
جون 1994
" جس نے پاکستان سے لیا کچھ نہیں مگر اپنی زندگی کا ایک ایک سانس اس کی تعمیر کے لئے وقف کئے رکھا "
ماہنامہ - اردو ڈائجسٹ - اگست 1995
" ہمیں فخر ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں ایسے بلند کردار کے لوگ بستے ہیں - آپ کی ذات روشنی کے مینار کی طرح سے تھی "
ایڈیٹر ماہنامہ -رابطہ - لندن - 19 اکتوبر
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 331175 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More