سیاست کا روشن باب۔۔۔

ویسے تو اب تک ہیپاٹا ئیٹس کی بہت سی اقسام دریافت ہو چکی ہیں جن میں (A,B,C,D,E,F,G) وائرس شامل ہیں مگر ہمارے ملک میں ہیپاٹائٹیس ’’ سی‘‘ جسے حرف عام میں ’’کالایرقانـ‘‘ کہا جاتا ہے تیزی سے پھیل رہا ہے جسکی خاص وجہ کھانے پینے کی غیر معیاری اشیاء اور پینے کے صاف پانی کا فقدان ہے۔ پہلے پہل اس وائرس کو اے اور بی وائرس سے مختلف کرکے پیش کیا جاتا تھا مگر 1988 ء میں اس وائرس کو جدا کرکے اسکا نام ہیپاٹائیٹس سی رکھا گیا۔اس مرض میں مبتلا شخص کی علامات تقریباً چھ سے نو ہفتوں کے بعد ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر شروع میں اس مرض کے ظاہر ہوتے ہی اسکا علاج شروع کردیا جائے تو اس مرض کے ٹھیک ہونے کے امکانات کافی پر امید ہوتے ہیں۔

ہیپا ٹائیٹس ایک ایسا موزی مرض ہے جس کا وائرس ہمارے ملک میں رہنے والے ہر چوتھے فرد میں پایا جاتا ہے۔ یہ مرض اگر کسی کو ہو جائے تو معلوم ہونے پر فوراً اسکا علاج کسی ماہر معا لج سے کروا یا جانا بہت ضروری ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں رہنے والے لوگ اس مرض کی موجودگی میں لا پرواہی سے کام لیتے ہوئے یا پھر غربت کے ہاتھوں اسکا علاج کروانے سے قاصر ہوتے ہیں جو انتہائی خطرناک ہے ۔ یہ لوگ اکثر غربت اور اس مرض سے واقفیت نہ رکھنے کے باعث عطائیوں اور مختلف قسم کے ٹونے ٹوٹکے کرنے والوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور اسطرح جب یہ مرض اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں تو پھر مستند ڈاکٹروں کا رخ کرتے ہیں جب تک یہ مرض اتنا پھیل چکا ہوتا ہے کہ اسکا علاج کرنا نہ صرف مشکل ہوتا ہے بلکہ یہ ناممکنات میں ہو جاتا ہے اور مریض چند روز میں موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ہیپاٹائیٹس سی کا مرض ایک ایسے وائرس سے پھیلتا ہے جوگندگی میں پنپتا ہے اور اسطرح یہ انسان کے جسم میں گندے پانی، گندی چیزیں مثلاً ایسا گوشت جس میں گندا پانی لگا ہوا ہواسکے کھانے سے، گلے سڑے پھل اور کھانے پینے کی چیزوں پر مکھیوں اور دوسرے جراثیموں کے بیٹھنے سے ہو جاتا ہے۔ اکثر دوکانوں پر بکنے والی کھانے پینے کی کھلی اشیاء جنمیں خاص طور پر مشروبات شامل ہیں ۔ ایسے مشروب جو کمرشل بنیادوں پر تیار کئے جاتے ہیں اور جن میں کاربن ٹیٹرا کلورائیڈ پائے جاتے ہیں اور ان مشروبات کی بوتلیں اکثر غیر معیاری درجہ حرارت پر رکھی جاتی ہیں اور یہ بوتلیں کھلی اور ننگی دھوپ میں پڑی رہتی ہیں اسطرح انکے کیمیکل اندرونی عمل سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں جس سے انمیں پھپھوندی لگ جاتی ہے اور یہ انتہائی بد ذائقہ ہو جاتی ہیں پھر انہیں فریج میں رکھ دیا جاتا ہے اور انہیں فریز کرکے لوگوں کو پلا دیا جاتا ہے جب یہ جزو بدن ہونے کیلئے مادہ حیات میں شامل ہو کر رد عمل کے طور پر کام کرتی ہے تو یہ جگر کے خلیوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور اسطرح یہ جگر کو تباہ کرنے میں اپنا کردا کرتی ہے اور جگر کے فعل کو متاثر کرکے انسان کو بیمار کردیتی ہے اور اس قسم کے مشروبات اس مرض کو پھیلانے میں بہت بڑا کردا ادا کر رہے ہیں ۔ کھانے پینے کی دوکانوں میں اکثر صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا اور یہاں پر گندے پانی سے دھوئے جانے والے برتنوں میں جب کھانا کھایا جاتا ہے اور پانی پیا جاتا ہے تو یہ جراثیم انسانوں کے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں اسطرح یہ ہیپاٹاٹئیس جیسے جان لیوا موزی مرض پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ ہم یہاں پر ٹھیلوں پر بکنے والے گنے کے اس رس کا ذکر ضرور کرینگے جو خاص طور پر یرقان کے مریض پیتے ہیں گنے کے رس کے ان ٹھیلوں پر برتن دھونے کا انتظام اتنا ناقص ہوتا ہے کہ ان گلاسوں کو انتہائی گندے پانی سے کھنگالا جاتا ہے اور یرقان کے وہ مریض جو انمیں پانی پیتے ہیں یہ وائرس ان گندے گلاسوں اور اسمیں موجود رس کے ذریعے ان میں داخل ہوجاتا ہے اور اسطرح اچھے خاصے تندرست لوگ تیزی سے اس مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔ ان ٹھیلوں پر حفظان صحت کے اصولوں پر ہرگز عمل نہیں کیا جاتا اور یہ لوگ تندرست لوگوں کو مجرمانہ طور پر اس موزی اور جان لیوا مرض میں مبتلا کر کے لوگوں کو موت کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ ہم نے انتہائی قریب سے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ جب گنے کو مشین میں ڈال کر اسکا رس نکالا جاتا ہے تو اس گنے کو دھویا نہیں جاتا۔ اسی طرح جب گنے کا موسم نہیں ہوتا تواس گنے کو سوکھنے سے بچانے کیلئے اسے پانی کے حوض میں رکھتے ہیں تاکہ اسکا پانی نی سوکھ جائے اسطرح یہ پانی انتہائی گندہ ہوجاتا ہے اور اس میں مچھر،مکھیاں اور دوسرے جراثیم پنپنا اور پلنا شروع جاتے ہیں جو انسانی صحت کے سب سے بڑے دشمن ہیں مگریہ رس بیچنے والے حضرات انسانی صحت سے برابر کھیل رہے ہیں اور ان پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا جو ان انسانی قاتلوں کو اپنی گرفت میں لے سکے۔ یہ وائرس جو جگر کو تباہ کر دیتا ہے شراب نوشی سے، انتقال خون سے، انجکشن سے، شیو والے بلیڈ سے، نائی کے گندے استرے اور قینچی وغیر ہ سے، رفع حاجت کے بعد صابون سے ہاتھ نہ دھونے سے، متاثرہ مرد اور عورت کے ملاپ سے، متاثرہ انسان کے جسم سے نکلنے والے پسینے اور دوسرے اخراجی مادوں سے دوسرے انسانوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزین کا کہنا ہے کہ یہ مرض ایڈز کے مرض سے سو گنا ذیادہ خطرناک ہے کیونکہ ایڈز کا مرض صرف متاثرہ کے انتقال خون یا پھر متاثرہ عورت اور مرد کے ملاپ سے ہوتا ہے۔ ھیپاٹائٹس کا مرض جگرکو تباہ کر دیتا ہے اسطرح جگر خون بنانا بند کر دیتا ہے اور جگر کے بافتے متاثر ہو کر خون سے مفسد مادے صاف کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں اور انسانی جسم میں پروٹین اور خون بننا بھی بند ہو جاتے ہیں۔ اسطرح جگر جو کہ انسانی جسم میں ایک بہت بڑے پر زے کی حیثیت رکھتا ہے وہ اس بیماری سے نبرد آزما ہونے میں نا کام ہوجاتاہے اور زندگی کو قائم دائم رکھنے کی متاثرہ جگر کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور پھر انسانی موت واقع ہو جاتی ہے۔ہیپاٹائٹس میں مبتلا مریض اکثر کمزوری محسوس کرتے ہیں، آنکھیں اور جسم میں پیلا ہٹ محسوس ہوتی ہے اور بعض اوقات رنگت کالونس پر آجاتی ہے، بھوک ختم ہو جاتی ہے، اکثر پیٹ میں درد اور جگر میں جلن رہتی ہے، کھانا ہضم نہیں ہوتا، بخار رہتا ہے، رقت کی سی کیفیت طاری رہتی ہے،اکثر کھانے کے بعد قے آجاتی ہے،خون کے رقیق مادوں کی صفائی نہ ہونے کے باعث یہ مادے خون میں ہی رہتے ہیں اور انسانی خلیات میں توڑ پھوڑ کا باعث بنتے ہیں جس سے جسم لاغر ہو جاتا ہے اور اس متاثرہ شخص کا کسی بھی کام کرنے کو دل نہیں چاہتا اور اسطرح یہ مرض جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔اگر ایسی علامات ظاہر ہونا شروع ہوں تو متاثرہ شخص کو فوری طور پر معالج سے رابطہ کرنا چاہئے تاکہ اصل وجہ معلوم ہو سکے۔اس مرض سے بچاؤ کیلئے حفاظتی ویکسین کا لگوایا جانا بہت ضروری ہے ۔ اسی طرح جتنے بھی لوگ ایک سے دوسرے ممالک میں سفر کرتے ہیں انہیں اس ویکسین کا لگایا جانا بہت ضروری ہے تاکہ یہ مرض دوسرے لوگوں میں پھیلنے کا باعث نہ بنے۔ اسکے لئے حکومت کو چاہئے کہ ملکی سطح پر ہسپتالوں، ائر پورٹس اور اسکولوں میں اس مرض کی ویکیسین لگائے جانے کے انتظامات کئے جائیں، سینٹری سسٹم کو بہتر بناتے ہوئے لوگوں کو اس موزی مرض کے لاحق ہونے سے بچایا جائے، ہوٹلوں اور کھانے پینے کی جگہوں پر برتنوں کی صفائی کا خاص خیال رکھا جائے ۔ لوگوں میں اس مرض کی

جانکاری کیلئے مختلف پروگرام مرتب دئے جانے پہت ضروری ہیں تاکہ لوگوں کو اس مرض کے بارے میں مکمل معلومات ہو سکیں اور وہ جان سکیں کہ یہ مرض کتنا خطرناک ہے ۔ اسی طرح اس ہماری حکومت کو چاہئے کہ اس مرض کی ادویات کی قیمتیں انتہائی کم ہونی چاہئیں تاکہ ہر مریض کی پہنچ میں ہوں کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ مرض انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس وقت پاکستان میں اس موزی مرض میں مبتلا تقریباً ایک کروڑ انسان ہیں جو ادویات کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں سے بنرد آزما ہیں مگر حکومت اسطرف کوئی توجہ نہیں دے رہی اور اس مرض کی ادویات کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتیں مریضوں کیلئے انتہائی تشویش کا باعث ہیں اس مرض میں عمومی طور پر غریب لوگ مبتلا ہوتے ہیں جو آلودہ پانی اور گندی خوراک سے اس مرض کا شکار ہو جاتے ہیں اس تیزی سے بڑھتے ہوئے مرض پر فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔ جو معاشرے بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں انکی آنے والی نسلیں زہنی اور جسمانی طور پر معزور اور بیمار پیدا ہوتی ہیں۔ اگر حکومت نے اس پر فوری توجہ نہ دی تو آئیندہ سال ہیباٹا ٹئس کے مرض میں اضافہ ہونے کا خطرہ ہے۔ادویات کی قیمتوں میں کمی کرکے کافی حد تک اس موزی مرض سے بچا سکتا ہے۔
MALIK SALMAN
About the Author: MALIK SALMAN Read More Articles by MALIK SALMAN: 69 Articles with 48068 views Columnist at Daily "Nai Baat" & Cyber Security Expert .. View More