گوریاں نوں پرے کرو

ایک اماوس کی رات جب ہر سو گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔ دور کہیں کتوں کے بھونکنے کی آوازیں یوں محسوس ہوتی تھیں گویا بھوت مل کر بین کر رہے ہوں۔ اچانک تڑ ڑ ڑ ڑ کی آواز کے ساتھ زوردار بجلی چمکی اور کہیں چمگاڈریں پھر ر ر ر ر کی آواز کے ساتھ اڑ گئیں ۔ ۔ ایسے میں ایک ننھے معصوم بچے کے رونے کی آواز ہواؤں میں گونجی۔ ۔ ۔اور ر ر ر ر ر ہم پیدا ہو گئے۔ ۔

ویسے ہم جس دائی کا کرشمہ ہیں نام تو انکا بائی والا تھا لیکن کام دائی والا۔ ۔ "خانم جان" بزرگوں سے سنتے ہیں کہ کچھ ایسی بھی ہوش مند خاتون نہ تھیں کہ اکثر قمیض الٹی پہن کر گھوما کرتی تھیں اور بوقت ضرورت دوپٹہ نہ ملتا تو کوئی شلوار ہی اٹھا کر ایک پائنچا کندھے کے ادھر اور ایک ادھر۔

بس اسی بےہوشی و مدہوشی کے عالم میں ہمیں زمانے کے سپرد کر کے چل دیں۔ لوگوں کی مائیں پیدا کرنے سے پہلے اسپتال کا چکر لگاتی ہیں اور ہماری والدہ ہمیں پیدا کر کے اسپتال جا پہنچیں اور پھر مہینہ بھر وہیں قیام کیا۔ سو پیدائش کا پہلا مہینہ ہم نے اپنی پھوپھی کی ممتا بھری گود میں گزارا اور اس کا خمیازہ آج تک ہم پھوپھو کی بیٹی سے طعنے سنتے بھگتتے ہیں کہ ہم نے اس وقت جو دل چرایا تو پھوپھو پھر سگی اولاد کو بھی وہ ممتا نہ دے سکیں جو ہم لوٹ لے گئے۔ اور ہم شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ آج بھی پھوپھی کے ہاتھوں اسکی جو درگت بنوا سکتے ہیں بنواتے ہیں۔ :-

واپس آتے ہیں اپنی پیدائش کی جانب تو جناب جب ہم پیدا ہوئے اور ساتھ ہی ماں سے الگ بھی تو تصویریں گواہی دیتی ہیں کہ کالی سیاہ رنگت تھی ہماری ۔ ۔ یا شاید گہری سانولی۔ اس پر دادی حضور نے مارے خوشی کے سب سے بڑی پوتی کی پیدائش پر جو پیلے لڈو تقسیم کیے تو ساتھ ہی ہمیں بھی پیلے رنگ کا لباس پہنا دیا۔ ۔ ۔ اور ہماری قسمت کے تصویر بھی کھینچ ڈالی ۔ ۔ جس میں ہم کچھ یوں نظر آتے ہیں گویا ایک پیاری سی گوری بڑی بڑی آنکھوں والی عمر رسیدہ خاتون نے ایک سورج مکھی کا پھول اٹھا رکھا ہے۔ ہم نے لاکھ چھپائی وہ تصویر مگر آج بھی کسی کزن کے پاس اس نیت سے محفوظ ہے کہ جب ہم الٹی سیدھی سیلفیاں لے کر دنیا کو اپنے حسن کا یقین دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے تب ہماری اصلیت کا پردہ اس تصویر کو سرعام کر کے فاش کیا جائے گا :-

ہمیں تو یہاں تک بلیک میل کر کے رکھا گیا کہ ہمارے الٹے سیدھے فیشن اور جوانی کا رنگ روپ کسی کام نہ آئیں گے جب ہمارے ہونے والے شوہر کو وہ تصویر دکھا دی جائے گی۔اسی پریشر کے تحت ہم نے شادی سے پہلے ہی "ان" کو بتا دیا تھا کہ جی ہم بچپن میں پورے چھ مہینے تک اتنے کالے تھے کہ کوئلے بھی کالے رنگ کے لیے ہماری مثال دیتے تھے۔ اور اسکا ثبوت بھی تصویری صورت میں موجود ہے۔یہ سچ بعد میں ہمارے 'دشمنانِ حسن ' سے پتہ چلنے کے بعد انکو شاک میں نہ لے جائے سو خود ہی بتائے دیتے ہیں اب انہوں نے قبول کرنا ہے تو ٹھیک ورنہ انکی مرضی۔ اور انہوں نے یہ سوچ کر قبول کر لیا ہو گا کہ دنیا ک واحد خاتون ہیں جو اتنا دیدہ دلیری سے اپنا 'کالا سچ' قبول کر لیا۔ورنہ تو سفید جھوٹ سے کام چلا لیا جاتا ہے :

سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ ہمارے حسن کے چرچے دور دور تک پھیل گئے تھے۔جبھی لوگ امڈے آتے انسان کے گھر چمگادڑ پیدا ہونے کا کرشمہ دیکھنے۔ اور ہماری والدہ ہمارا منہ ڈھانپ کر رکھتی تھیں۔ مکھیوں کا بہانہ کر کے۔ حالانکہ مکھی کو چمگادڑ پر بیٹھے ہم نے کم ہی دیکھا ہے۔

ہمیں پورا یقین ہے کہ اگر ہماری قسمت ساتھ نہ دیتی اور ہم مارے پیچیدگیوں کے گھر میں ہی نہ پیدا ہو جاتے تو سو فیصد ہم پر اسپتال میں بدل جانے کا گمان گزرتا اور ہم اپنی ہوتے ہوئے بھی پرائی اولاد ہی سمجھے جاتے۔ بعد میں یہ طعنہ ہم ساری عمر اپنے چھوٹے بھائی کو دیتے آئے حالانکہ اس کے سرخ و سفید رنگ کے آگے ہمارا بچپن تو ایسا ہی تھا جیسے سفید تتلی اور کالا 'پونڈ'

پہلے زمانے میں یہی کوئی ہمارے بچپن تک یہ رواج تھا کہ شادی بیاہ کے موقع پر کام کرنے والے حضرات پوری فیملی کے ساتھ آیا کرتے تھے۔مثلا عورت کچن کا کام سنبھالے گی تو بیٹی صفائی کا۔ آدمی باہر کے انتظامات دیکھے گا تو لڑکا مدد کروائے گا۔شادی کے بعد انکو پیسے اور شگون وغیرہ دے دلا کر رخصت کر دیا جاتا ہے ۔یہ رسم آج بھی ماڈرن طریقوں سے رائج ہے۔ ہمارے ہاں جو لڑکا آتا تھا اس کا نام تھا انوار اور بدل کر 'انوارا' ہو گیا تھا۔ رنگ اس کا ایسا کالا سیاہ کہ دن میں بھینس کے آگے کھڑے ہو کر تصویر کھنچوائے تو پتہ نہ چلے کہ لڑکا بھینس کے آگے کہاں کھڑا ہے اور رات میں اگر ہنستے ہوئے سامنے سے آ رہا ہو تو لگے گا ہوا میں معلق کوئی پیلی سی روشنی چلی آ رہی ہے۔ بات یہاں تک جا پہنچی کہ اگر کالے رنگ کی مثال دینی ہو تو سیدھا انوارا ہی کہہ دیتے تھے مثلاً ذرا الماری سے انوارے رنگ کا دوپٹہ تو لے آنا، ارے یہ کیا سفید بال انوارے رنگ میں ڈائی کر لیے تم نے، وہ دیکھو کتنی انواری لڑکی جا رہی ہے وغیرہ اور کسی کو لعن طعن کرنی ہوتی تو سیدھا کہہ دیاجاتا ۔ ۔ توبہ ہے انوارے لگ رہے ہو اور سامنے والا سمجھ جاتا کہ وہ کیسا لگ رہا ہو گا۔

بچپن کی اس تصویر کو لے کر ساری کزن قوم نے یہ طے کر رکھا تھا کہ ہمارا پرفیکٹ میچ وہ انوارا ہی ہے۔ اور دور نوجوانی تک ہمیں یہ کہہ کہہ کر چڑاتے اور دھمکاتے رہے کہ اب ہمیں انوارے کے سنگ ہی جانا ہے۔

خیر ان تمام ننھی منی شرارتوں کے باوجود دوستو ہمیں آج اس بات پر ذرا ملال نہیں کہ بچپن کے حسین چند ماہ ہمارے کالے رنگ کی نظر ہو گئے ۔ہم ہر حال میں خود کو پسند کرتے ہیں اور جب لڑکیوں کو آج بھی طرح طرح کی کریموں کی پیچھے بھاگتے دیکھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں کہ جب آپ خدا کی دی ہوئی چیز سے خوش نہیں تو انسان کی بنائی ان چیزوں سے آپ کو راحت کیسے ملے گی؟ خود کی قدر کیجیے۔ اگر کوئی آپ سے آپ کی خدا کی عطا کردہ چمڑی کے وجہ سے آپ سے بات دوستی یا شادی نہیں کرتا تو یقین مانیے کہ وہ آپ کے قابل ہی نہیں کہ جب ہیرے جیسے دل کی قدر نہیں تو سونے سی رنگت کا کیا کرنا۔

اپنے بیٹوں کے لیے بھی ایسی خواتین جو کئی بچیاں اس لیے رد کر دیتی ہیں کہ انکا رنگ گورا نہیں براہ مہربانی اپنی آنکھیں کھولیے۔ ہر بچی کو اپنی بچی کی جگہ رکھ کر دیکھیئے۔گورا رنگ اچھی سیرت اور اچھے نصیب کی گارنٹی نہیں ہوتا۔ ایک گوری لڑکی سے کہیں بہتر ہے کہ آپ کا معیار ایک سمجھدار لڑکی ہو کہ یہ صرف آپ کے بیٹے کا نہیں ایک نسل کا معاملہ ہے۔
fatima imran
About the Author: fatima imran Read More Articles by fatima imran: 2 Articles with 2100 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.