شہید کا بیٹا

افضل گورو کی برسی پر ہونے والی ہڑتال نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ کسی بھی قوم کو جبر وطاقت کے بل بوتے پر غلام نہیں بنایا جا سکتا بلکہ ان کے جذبہ حریت کو اس فعل سے جلا ملتی ہے۔ کس کس کو تختہ دار پر لٹکاتے رہیں گے لیکن ہر روز ، ہر لمحہ ایک نیا اٖفضل گورو جنم لیتا رہے گا، ریاستی جبرو تششدد کی فضا میں افضل گورو کی بیوی اور اس کے دیگر اہل خانہ نے ہمت نہیں ہاری آزادی کی جنگ آج بھی جاری ہے لیکن اس نے اپنی ہیئت تبدیل کر لی ہے۔نسلیں اپنے آباؤ اجداد کے قرض ادا کرنے پر کمر بستہ ہو چکی ہیں غالب گرو جو ابھی 10 ماہ کا تھاکہ اس کے باپ افضل گورو کو 2001 میں پارلیمنٹ حملہ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ۔معصوم فرشتے کو علم نہیں تھا کہ اس کے خاند ان پر کیا گزر رہی ہے اس کی والدہ تبسم گرو نے بڑی محنت اور جاں فشانی سے شوہر کا کیس بھی لڑا اور بیٹے کو تعلیم بھی دی باپ کی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا بڑا ہو کر اسلامی سکالر بنے لیکن والدہ کی خواہش ہے کہ وہ ڈاکٹر بن کر دکھی عوام کیلئے مرہم بنے۔ آج بیٹے نے ثابت کر دیا کہ غیرت مند نسلوں کو شرف حاصل ہوتا ہے کہ اپنوں کا سر فخر سے بلند کریں ۔غالب گورو نے اس جبرو استعداد اور گھٹن کی فضا میں جہاں اسے ہر طرف سے انڈین کمیونٹی کے طعنوں اور توہین آمیز کلمات کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھاکہ، جیسے دہشت گرد کی اولاد؛ اس کے باوجود میٹرک کے امتحان میں 95 فیصد نمبر کے ساتھ اول پوزیشن حاصل کی اس کا کہنا ہے کہ مجھے 13 سال سے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا کہ
آخر میرے باپ کا قصور کیا تھا ؟

سوپور بارہ مولا کے قصبہ میں حبیب اﷲ کے گھر پیدا ہونے والے افضل گورو کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ بچہ شہادت جیسے عظیم رتبہ سے سرفراز ہو گااور خاندان کی بخشش کا وسیلہ بنے گا ،عائشہ بیگم کتنی خوش نصیب ماں تھی کہ اﷲ تعالی نے اس کی گود شہید کا رتبہ پانے والے سے بھری،افضل گورو شروع میں ہی پڑھائی کی طرف مائل تھا اور دیگر لڑکوں سے ذرا مختلف تھا ،ورق گردانی کا بہت شوق تھا اس نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سوپور میں ہی مکمل کی انٹرمیڈیٹ کرنے کیبعد ایم بی بی ایس کا پہلا سال بھی کامیابی سے مکمل کیااور دوسرے سال میں قدم رکھ دیا اس وقت کشمیر کی آزادی کی جنگ زوروں سے جاری تھی کہ 2001 میں انڈین پارلیمنٹ پر فدائی حملہ ہو گیا اور کئی جانیں اس کی نذر ہو گئیں کال ڈیٹا کی بنیاد پر افضل گورو کو 2001 میں گرفتار کرلیا گیا ، جیل میں اس پراور اس کے تین ساتھیوں پر ظلم کے وہ پہاڑ توڑے گئے کہ انسانیت بھی شرما جائے۔ جسم انسانی کے نازک ترین حصوں کو کرنٹ لگا لگا کر اذیتیں دیں گئیں،شدید جسمانی تششدد بھی کیا گیا، پوٹا ایکٹ کے تحت حملہ کا مرکزی کردار گردانتے ہوئے سزائے موت سنا دی گئی۔ سزائے موت کو دہلی ہائیکورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا لیکن 2003 میں کورٹ نے سزا کو کنفرم کر دیا، ورثاء نے ہمت نہ ہاری اور سپریم کورٹ میں سزا کے خلا ف اپیل کر دی لیکن 2005 میں وہ بھی خارج کر دی گئی افضل گورو کی بیوی تبسم گورنے سزا کے خلاف انڈین صدر کے سامنے رحم کی اپیل کر دی جسے 3 فروری 2013 کو مسترد کر دیا گیا اور 9 فروری 2013 کو تہاڑ جیل میں 8 بجے کے قریب پھانسی دے دی ۔افضل گورو کے جسد خاکی کو مقبول بٹ شہید کیطرح ورثاء کے حوالے نہ کیا گیا۔

افضل گورو کی تیسری برسی پر کشمیری قوم ایک بار پھر متحد نظر آئی اور انڈین آرمی کو ناکوں چنے چبوا دیئے، افضل گورو کی بیوہ تبسم گورو کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت تک اپنی جدو جہد کو جاری رکھیں گے جب تک میرے شہید شوہر کا جسد خاکی ہمارے حوالے نہیں کیا جاتا،سری نگر بارہ مولا، سوپور،اور دیگر علاقوں میں مکمل کاروباری مراکز بند رہے اگر کوئی چیز دکھائی دیتی تھی وہ انڈین آرمی تھی۔ یاسین ملک کو اپنے ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا جبکہ شبیر شاہ اور ایاز اکبر کے ساتھ درجنوں ساتھیوں کو نظر بند کر دیا گیا۔ فریدہ بہن جی اور مفتی اصغر کشمیری کا کہنا تھا کہ ہم انڈین فورسز کے سامنے کسی صورت سرنڈر نہہیں کریں گے اور ادھورے مشن کی تکمیل تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ انڈو پاک میں محبت کی پینگیں جھولانے والے آخر کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں انڈین نے نہ مسلم کو پہلے تسلیم کیا تھا اور نہ ہی اب کرتے ہیں دو قومی نظریہ برحق تھا اور ہمیشہ اپنی حقانیت کے ساتھ قائم ودائم رہے گا اس کو فضول سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔اب وہ دن دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر میں آزادی کا سورج کشمیریوں کی لاکھوں قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہوئے طلوع ہو گااور اس دن ہی افضل گورو کے اہل خانہ سر خرو ہونگے کہ جس وطن اور کازکیلئے اس کے آباؤ اجدا د نے ناحق سزائیں جھیلیں ،پھانسیوں پر لٹکے وہ الحمد اﷲ پور ا ہوا اور غالب گورو بھی اسی دن سر اٹھا کر چلے گا اور کوئی اسے یہ کہنے کی جرات نہیں کریگا کہ دہشت گرد کا بیٹا بلکہ ہر طرف سے صدائیں آئیں گی کہ وہ دیکھو شہید کا بیٹا۔
Dr Khalid Hussain
About the Author: Dr Khalid Hussain Read More Articles by Dr Khalid Hussain: 20 Articles with 11781 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.