اردو ادب اور یتیمی کے زخم

حد نگاہ تک پھیلا ہوا آسمان اور پھیلے ہوئے آسمان پر پھیلے چاند،سورج اور ستارے دراصل روشنی کے استعارے ہیں جو انسان کو تاریکی میں روشنی پھیلانے پر اُکساتے ہیں انسان پیدایشی تاریکی کا مجسمہ ہے اس کے اندر کی تاریکی کو روشن خاص لوگ ہی کیا کرتے ہیں یہ روشنی پھیلاتا ہوا بیان ہے محترمہ فاطمہ ثریا بجیا کا جس نے کسی مکتب سے تعلیم حاصل نہیں کی اور نہ ہی کوئی سند حاصل کی ایک ایسی خاتون جو تعلیم یافتہ نہیں تھیں لیکن تعلیم و تربیت کے میدان میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے والی بجیا نے اپنے اقدار،تہذیب،تمدن کو اجاگر کیا ِ انسان کی سوچوں سے بہت چھوٹا ہے یہ حد نگاہ تک پھیلا ہوا آسمان کیونکہ خالقِ دوجہاں نے انسان کے سینے میں علم وحکمت کے خزانے بھرے اور یہ ثابت کیا ہے فاطمہ ثریا بجیا نے ۔انھوں نے والدہ کے انتقال کے بعد اپنے خاندا ن کے موتیوں کو ایک مالا میں پرو کر رکھا ان کی تربیت میں تہذیب کا اعلیٰ میعار پایا جاتا ہے اسی لئے انکے خاندان میں انکا لقب بجیا پڑ گیا تھا اور اب دنیا انھیں بجیا کے نام سے پہچانتی ہے ۔1ستمبر 1930میں حیدرآباد دکن بھارت میں پیدا ہونے والی بجیا نے 5لاکھ سے زائد صفحا ت تحریر کئے ناول نگاری ،ڈرامہ نگاری میں بجیا معروف شخصیات کی فہرست میں شمار کی جاتی ہیں، انھوں نے ٹیلی ویژن ،ریڈیو اوراسٹیج پر بھی کام کیا سماجی اور فلاحی کام کے حوالے سے بھی ان کو قابل قدر نگا ہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔1997میں انکو حکومت پاکستان نے تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا،2012میں انکو صدر پاکستان نے ہلال امتیاز سے نوازا،انکے کام کو سہراتے ہوئے جاپان نے بھی اعلیٰ سول ایوارڈ سے نوازا۔فاطمہ ثریا بجیا نے اس دنیا سے پردہ پوشی سے قبل ایک اور پیغام دیا بجیا نے وصیت کی تھی کہ میرے جنازے میں کوئی کیمرہ آن نہیں ہونا چاہیئے لہذا انکے بھائی انور مقصود نے میڈیا والوں سے کہا کہ بجیا کی وصیت کا احترام کیا جائے اور پس پردہ کام کرنے والی بجیا نے اس دنیا سے ہی پردہ کر لیا ۔

یوں تو ماہ فروری کے آغاز نے اردو ادب کے سینے پر سانحات کے بوجھ ڈالنا شروع کر دئیے تھے ،جناب انتظار حسین ،محی الدین نواب،ندا فاضلی،اور اب فاطمہ ثریا بجیا،اردو ادب یتیمی کے زخموں کو یکے بعد دیگرے سہہ رہا ہے آہ بکا کے اس معاشرے سے روشنی کی کرنیں بھی دور ہوتی جا رہی ہیں ۔اپنے خالق حقیقی سے جا ملنے والے ان کرشمہ ساز شخصیات نے جہاں ہمارے معاشرے میں روشنی کی کرنوں کو پھیلایا وہیں انکی رحلت سے پیدا ہونے والے خلاء نے مایوسی اور تاریکی کو جنم دیا ایسے موقع پر ایک پاکستانی فلم کے گانے کے بول میرے دل و دماغ میں پھیلی مایوسی اور تاریکی کو مزید گہرا کر رہے ہیں ۔
کیسا اُجڑا ہے اُمیدوں کا چمن زیر باغ
پھول مرجھائے بہاروں پہ خزاں چھائی ہے

فخر ہمیشہ ایسی ہی صلاحیتوں پر ہوا کرتا ہے کہ جب وہ صلاحیتیں لاکھوں میں سے ایک انسان کو نمایاں مقام پر لا کر کھڑا کر دے درج بالا عہد سازاور ان سے قبل رحلت فرما جانے والی شخصیات میں وہ تمام صلاحیتں موجود تھیں جنکے پیغامات و تعلیمات ہمیں سیدھا راستہ استوار کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں گر چہ ہم انکے پیغامات و تعلیمات کو سنجیدگی سے لیں ایسی شخصیات کا دور اب ختم ہورہا ہے ، چند گنے چنے لوگ رہ گئے ہیں اﷲ انکی عمر دراز کرے لیکن موجودہ دور میں ایسی شخصیات نا پید ہوتی جا رہی ہے کیونکہ ہماری تعلیم و تربیت کا محور صرف دولت کمانا رہ گیا ہے ہم اپنے بچوں کو سند یافتہ تو بنا رہے ہیں لیکن انسان بنانے کے پہلووں سے غافل ہیں ،ہمارے بچے شاہ رخ خان ،سلمان خان،اکشے کھنہ سے تو اچھی طرح واقف ہیں لیکن ادب ان سے کوسوں دور ہوتا جا رہاہے۔

Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 91165 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More