نجکاری ،ہڑتالیں اور عدل و انصاف

 عدل و انصاف کو قائم کرنا اور زندہ رکھنا مہذب قوموں کا شعار ہوتا ہے جس ملک میں بھی عدل و انصاف پر توجہ نہ دی وہاں بسنے والی عوام لاقانونیت کو اپنا حق سمجھتی ہے ایسے ممالک کی سلامتی اور استحکام یقینا خطرے میں ہوتا ہے اندرونی و بیرونی خطرات زہریلے ناگوں کی طرح پھن پھلائے انکی سرھدون پر مندلاتے رہتے ہیں عوام میں بے چینی اور افراتفری سی کفیت پائی جاتی ہے اسلام کے نطام کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ اسلام بھائی چارے،امن،مل جل کر رہنے اور انصاف کرنے کا درس دیتا ہے جس سے غیر مذہب قوموں نے بہت کچھ سیکھا اسلام کی ہسٹری ہے کہ عدل کرنے والے حکمرانوں نے اپنے عزیز و اقارب ،باپ،بیٹے ،بھائی کے خلاف بھی وقت آنے پر انصاف کی روشنی میں فیصلے کیے اور وہ فیصلے نہ صرف تاریخی حثیت اختیار کر گئے بلکہ غیر مذہب اقوام نے ان فیصلوں کی رو سے اپنے نظام میں تبدیلیاں کیں ۔محمد بن ابی عامر قرطبہ (سپین)کے گورنر تھے ان کے بیٹے نے اپنے باپ کے دور گورنری میں ایک بچے کو چند بید مار کر زخمی کر دیا یہ شکایت جب آپ کے پاس پہنچی تو آپ نے بھری عدالت میں اپنے بیٹے کو طلب کیا اور بید مارنے والے کو حکم دیا کہ انصاف کا تقاضہ ہے کہ میرے بیٹے کو بھی زور زور سے اتنے بید مارے جائیں تاکہ دوسرون کو عبرت ہو بید مارنے والے نے حکم کی تعمیل کی اور محمد بن ابی قرطبہ گورنر کا بیٹا وہیں دم توڑ گیا تو آپ نے اسکی میت گھر پہنچانے کو کہا اور عدالت سے فارغ ہو کر گھر گئے اور بیٹے کی لاش سے لپت کر خوب روئے اسکی ماں نے آپ کو روتے ہوئے دیکھ کر کہا کہ خود ہی سزا دی اور روتے کیوں ہو توآپ نے کہا کہ اس وقت میں نے سزا بحثیت حاکم دی وہ میرا فرض تھا اب باپ کی حثیت سے دکھ میں ہوں تم بھی صبر کرو حاکم کے لیے سب برابر ہوتے ہیں جو اپنے عزیز،رشتہ داروں،دوستوں کے ساتھ رعائت روا رکھے گا وہ خدا کے ہاں کیا منہ دکھائے گا ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سب کچھ اسکے برعکس ہو رہا ہے ،،جسکی لاٹھی اسکی بھینس،،والی مثال بنی ہوئی ہے پاکستان میں ہر مسلے کا حل ہڑتال ،دھونس،دھاندلی،گھراؤ،جلاؤ کو سمجھا جاتا ہے جس محکمے کا دل چاہتا ہے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہڑتال پر چلا جاتا ہے ۔پی آئی اے میں مسلسل خسارے کے بعد اگر حکومت نے دخل اندازی کی اوربلیک میل نہ ہونے کے لیے رویے میں سختی لائی تو پی آئی اے ملازمین ہرتال پر چلے گئے اور آج تک کا خسارہ،نقصان اربوں روپے کر چکے ہیں حکومت اور پی آئی اے دونوں ایک دوسرے کو بلیک میل کر رہے ہیں مگر لگتا ہے حکومت پختہ ارادہ کر چکی ہے کہ چاہے چاہے ڈرا دھمکا کر،چاہے چھتر پریڈ کرنی پڑے،یا پھر بند کمرے میں دونوں ہاتھ باندھ کر ہم خیال بنانا پڑے ہڑتال ختم کروا نا ہے اور لازمی سروس ایکٹ کا سہارا لیکر بوجھ بننے والوں کا بوجھ اتارنا ہے ساتھ ہی پی آئی اے کی نجکاری بھی کرنی ہے حالانکہ سابقہ ادوار میں ،بینکوں،پی ٹی سی ایل سمیت کئی اداروں کی نجکاری کی گئی ہاتھ کیا آیا صعف،،ٹھینگا،،کہتے ہیں جسم کا کوئی حصہ خراب ہو جائے تو اسے کاٹ کر نہیں پھینکا جا سکتا بلکہ اسکا علاج کیا جاتا ہے بدقسمتی سے حکومت میں علاج کرنے والے کم ہیں اور قیمہ کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے جنکا بس چلے تو وفاق اور صوبوں کی بھی نجکاری کر تے ہوئے نہ گھبرائیں مگر اس انا کی لڑائی میں نقصان نا قابل تلافی حد تک پہنچ چکا ہے جسکی تلافی کسی اور ادارے کو فروخت کر کے کرنا پڑے گی ویسے بھی پاکستان کے حکمرانوں کی عادات میں شامل ہے کہ قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں اور اب تو کشکول توڑنے والے بڑا کشکول لیکر اقتدار میں آئے ہیں ۔خیبر پختونخواہ مین ڈاکٹروں کی ہڑتال نے حکومت کی ناک میں دم کر رکھا ہے میڈیکل مسیحائی پیشہ ہے جس سے حکومت کم عوام زیادہ بلیک میل ہوتی ہے ڈاکٹروں کی ہڑتالیں انکے مفادات تو پورے کر جاتی ہیں مگر اس دوران کئی گھروں کے چراغ بھی گل ہو جاتے ہیں ،کسی کا بیٹا تو کسی کا باپ،کسی کی ماں تو کسی کی ہم سفر غرضیکہ اہم رشتے ڈاکٹروں کے مفادات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں جو کسی بھی دہشت گردی سے کم نہیں ہوتا ۔خیبر پختونخواہ حکومت نے وفاق کی مخالفت کرتے کرتے اچانک لازمی سروس ایکٹ کا نفاذ کر دیا ہے جس کے تحت آئندہ کوئی بھی ملازم اپنی ڈیوٹی سے روگردانی کرے گا تو سخت کاروائی عمل میں لا کر فارغ کر دیا جائے گا ساتھ ہی آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے اور آئندہ کے لیے صرف کنٹریکٹ پر ملازمین بھرتی کرنے کی بھی تجاویز دی جا رہی ہیں جسکا مقصد کہ آئندہ ہر سرکاری ملازم کو ملازمت لینے سے قبل حکومت سے معاہدہ کرنا ہو گا کہ کسی ہرتال وغیرہ میں شامل نہیں ہو گا اگر ایسا کرے گا تو سیدھا گھر کو جائے گا ان فیوچر دیکھا جائے تو سرکاری ملازمین ،سرکاری اداروں کی ہڑتالوں،بلیک میلنگ،دھونس سے جان چھڑانے کا یہی طریقہ ہے مگر یہ سب نقصانات،پریشانیاں،لوٹ مار،دھینگا مشتی،دست و گریبان ہونے کی پریکٹس صرف ،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہی کیوں ہے شاید صرف اس لیے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان ماضی کی طرح ہم آہنگی نہ ہونے کے برابر ہے سب اپنا اپنا صوبہ سنبھال کر بیٹھے ہیں سوائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور کیچڑ ڈالنے کے دوسرا کوئی کام نہیں کیا جا رہا ہے عدل و انصاف نام کی چیز پاکستان میں ناپید ہو چکی ہے کسی بھی ادارے میں میرٹ،انصاف کو ترجیح نہیں دی جاتی ،،آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے،،مقدس ایوان جسے پارلیمنٹ کہا جاتا ہے وہاں سب سے زیادہ،جھوٹ،فریب،دھوکہ،چلتا ہے اور انصاف کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔سب ،پیڈ لگاکر ہیلمنٹ پہنے،ہاتھوں میں ٹوکے چھریاں،لیے میدان سیاست اترے ہوئے ہیں اور پاکستان کی بوٹی بوٹی نوچ رہے ہیں ۔ہاں اسی لیے تو یہ مسائل،بحران،اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مقدر بن چکے ہیں جب تک ہم اور ہمارے حکمران عدل و انصاف کی فضاء قائم نہیں کریں گے ،سرکاری اداروں میں میرٹ اور انصاف کو مثال نہیں بنایا جائے گا تب تک ہڑتالیں ،افراتفری،بلیک میلنگ،نجکاریاں،لو اور دو ،لوٹو اور مارو ہماے لیے ہیں اور ہم ان پھن پھلائے زہریلے سانپوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بقاء کے لیے ضروری ہے کہ وفاق اور صوبے اپنا اپنا قبلہ درست کر کے ،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کی روشنی میں عدل و انصاف قائم کریں تب جا کر خوشحالی اور اقوام عالم میں عزت و وقار ہماری منتظر ہو گی ورنہ؟؟
Rana Zafar Iqbal
About the Author: Rana Zafar Iqbal Read More Articles by Rana Zafar Iqbal: 43 Articles with 31267 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.