سراج الامت ، امام اعظم ابوحنیفہ ؒ شخصیت و کردار

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

نبی کریم حضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے اگر علم ثریا ستارے پر بھی معلق ہوا تو اہل فارس میں سے ایک شخص اس کو حاصل کر لے گا۔(طبرانی)یہی روایت الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ صحیح بخاری و مسلم میں بھی نقل کی گئی ہے۔فارس سے مراد کوئی خاص شہر نہیں ہے بلکہ پورا عجم ہے ،ابن حجر الہیثمی ؒ خیرات الحسان میں لکھتے ہیں کہ جلال الدین سیوطی ؒ کے بعض تلامذہ اور ہمارے مشائخ کا اس بات پر اعتماد ہے کہ اس حدیث سے مراد بلا شک امام ابو حنیفہ ؒ ہیں۔

امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت بن نعمان بن مرزبان ذوالحجہ 30؁ھ بمطابق 655؁عیسوی کوفہ میں پیداہوئے،،حضرت علیؓ کی خدمت میں ایک دن ثابت بن نعمان اپنے بیٹے نعمان کے ساتھ حاضر خدمت ہوئے تو امیر المؤمنینؓ نے آپ کے لیے برکت کی دعا کی۔(تاریخ بغداد)

صحابہ کرام ؓ کی موجودگی اور کوفہ کے علمی ماحول کی وجہ سے آپ کوتحصیل علم کاشوق ہو جانا فطرتی امر تھا،تحصیل علم کے بعد تجارت کو ذریعہ معاش بنایا، امام شعبی کوفی ؒ نے آپ کی لیاقت و ذہانت کو دیکھتے ہوئے مشورہ دیا کہ آپ تمام مشغولیات کو ترک کرکے علم میں کمال پیدا کرنے کے لیے یکسو ہو جائیں ،امام کے مشورے کو قبول کرتے ہوئے تجارت چھوڑ دی اور علم کلام میں محنت کرکے کمال حاصل کیا اور شہرت حاصل کی۔پھر آپ نے علم حدیث کی طرف خصوصی توجہ کی اور 100؁ھ میں اخذ و طلب حدیث میں بہت زیادہ سعی وکوشش کی۔(سیر اعلام النبلاء)بصرہ اور حجاز کے بیسیوں اسفار کئے، اس زمانہ میں سفرحج ہی افادہ و استفادہ کا بڑا ذریعہ تھا،بلاد اسلامیہ کے گوشہ گوشہ سے ارباب فضل وکمال حرمین شریفین تشریف لاتے اور درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا تھا، امام ابو حنیفہ ؒ نے پچپن حج کئے جب کہ ابن ہبیرہ کے دور خلافت میں جلا وطنی کے 6سال مسلسل مکہ میں قیام کے دوران آپ نے مشائخ احادیث سے خوب استفادہ کیا ۔ حدیث اور دیگر علوم میں آپ کے اساتذہ اور مشائخ کی تعداد چار ہزار ہے ۔(مناقب ذہبی)

امام مسعر بن کدام اکابر حفاظ حدیث میں سے ہیں ،فرماتے ہیں کہ میں نے ابو حنیفہ کی رفاقت میں حدیث کا علم حا صل کیا وہ ہمیشہ ہم پر غالب رہے ، جب وہ زہد و پرہیز گاری میں مصروف ہوئے تو بھی فائق رہے اور جب فقہ کی تحصیل میں مشغول ہوئے تو تم دیکھتے ہو کہ اس فن میں کیسے کمالات دکھائے ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے آپ کو علم حدیث میں ایسا فضل و کمال عطا فرمایا اور آپ کا شمار کبار حفاظ حدیث میں کیا جاتا ہے ، امام احمد بن حنبل ؒ اور امام بخاریؒ کے استاذ حدیث اور امام ابو حنیفہ ؒ کے مایہ ناز شاگرد حافظ عبد الرحمن مقری جب امام صاحب سے کوئی حدیث روایت کرتے تو ان الفاظ میں کرتے تھے اخبرنا شاھنشاہ ہمیں علم حدیث کے شاھنشاہ نے خبر دی ،آپ نے امام صاحب سے نو سو احادیث سنی ۔(مناقب امام اعظم ازعلامہ کردیؒ)

محدث اعظم حافظ یزید بن ہارون فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ پاکیزہ سیرت،متقی ، پرہیز گار، صداقت شعار اور اپنے زمانے کے بہت بڑے محدث تھے۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ)امام بخاری ؒ کے استاذ اور محدث کبیرامام مکی بن ابراہیم ؒفرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ پرہیز گار ، عالم ، آخرت کی طرف راغب ہونے والے اور اپنے ہم عصروں میں سب سے بڑے حافظ حدیث تھے۔صدر الائمہ موفق بن احمد مکی ؒ محدث کبیر امام بکر بن محمد زرنجری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے کتاب الاثار کا انتخاب چالیس ہزار احادیث سے کیا ہے۔ (مناقب الامام الاعظمؒ)

امام ابو حنیفہؒنے علم فقہ امام حمادبن سلمان ؒ کی صحبت میں دس سال رہ کر حاصل کیا،استاد کی مجلس میں آپ کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی ،امام حماد فرماتے تھے کہ میری مجلس میں میرے بلکل سامنے ابو حنیفہ کے علاوہ کوئی نہ بیٹھا کرے۔امام حماد کو آپ پر اتنا زیادہ اعتماد تھا کہ ایک سفر پر جانے سے پہلے اپنی مسند تدریس امام ابو حنیفہ کے حوالے کی۔(تاریخ بغداد)علم فقہ میں آپ کو اﷲ تعالیٰ نے منفرد اور اعلیٰ مرتبہ عطا فرمایا تھا ، آپ کی مجلس سب سے زیادہ نفع بخش تھی،آپ کا خاصہ یہ تھا کہ آپ مسائل میں بہت زیادہ تحقیق کرتے تھے ،جو ایک دفعہ آپ کے حلقہ درس میں آتا وہیں کا ہو کر رہ جاتا تھا۔حضرت عبداﷲ بن مبارک ؒ فرماتے تھے کہ فقہ میں ہمارے امام ابوحنیفہؒ اور حدیث میں سفیان ثوری ؒہیں ۔(تاریخ بغداد)

حرملہ بن یحییٰؒ فرماتے ہیں کہ امام شافعیؒ کا قول ہے کی لوگ ان پانچ کے محتاج ہیں ،جو چاہے کہ وہ فقہ میں تبحر حاصل کرے وہ امام ابو حنیفہؒ کا محتاج ہے،جو چاہے کہ وہ شعر میں مہارت حاصل کرے وہ زہیر بن ابی سلمہؒ کا محتاج ہے،جو سیرت و تاریخ میں مہارت چاہتا ہو وہ علی بن محمد بن اسحاقؒ کا محتاج ہے، جو علم نحو میں مہارت کا طلب گا ر ہو وہ کسائی ؒکا محتاج ہے اور جو علم تفسیر میں گہری نظر رکھنا چاہتا ہو وہ مقاتل بن سلمانؒ کا محتاج ہے۔(تاریخ بغداد)

امام ابو حنیفہ ؒ تقویٰ ،پرہیز گاری اور عبادت گزاری میں بھی منفرد مقام رکھتے تھے،آپ نے چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی،اکثرراتوں میں ایک رکعت میں پورا قرآن پاک تلاوت فرماتے تھے،ابوبکر بن عیاش ؒ سے منقول ہے کہ جب آپ کا انتقال ہونے لگاتو آپ کی بہن رونے لگی ،امام صاحب نے اسے فرمایا کیوں روتی ہو ؟ اس کونے کی طرف دیکھو میں نے اس میں اٹھارہ ہزار مرتبہ قرآن پاک ختم کیا ہے۔(غایۃ النہایہ)اکثر رمضان المبارک میں ساٹھ قرآن پاک ختم کیا کرتے تھے۔تجارت میں حد درجہ احتیاط کرتے تھے ،ایک دفعہ بغیر عیب بتائے کپڑا فروخت کرنے پر ساری رقم صدقہ کردی ۔(تاریخ بغداد)

فضیل بن عیاض ؒفرماتے ہیں کہ ابو حنیفہؒ ایسے فقیہ تھے جو اپنی فقہ کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے،اپنے تقویٰ کی وجہ سے مشہور ہوئے،کثیر المال تھے ملنے والوں پر فضل و احسان کرتے،دن رات تعلیم دینے کی مشقت پرصبر کرتے، کثرت سے روزہ رکھتے،کم گو لیکن حق کو دلیل سے بیان کرتے تھے اور بادشاہوں کے ہدایا اور اموال سے دور رہتے تھے۔حکومتی عہدہ کو قبول کرنا اور بادشاہوں کے کار حکومت میں شریک ہونے کو دینی محنت کے لیے مضر سمجھتے تھے ،ابن ہبیرہ کے دور حکومت میں آپ کو دو مرتبہ سرکاری عہدہ کی پیش کش ہوئی ہر دفعہ انکار کی صورت میں عتاب کا سامنا کرنا پڑا،پہلی دفعہ بیت المال کے متولی کے عہدہ کا انکار کیا تو ایک سو دس کوڑوں کی سز ا دی گئی، دوسری مرتبہ کوفہ کے عہدہ قضاء سے انکار کی صورت میں قید کئے گے، رہائی کے بعد مکہ تشریف لے گے۔ عباسی خلیفہ منصورکے دور میں مکہ سے کوفہ واپس آئے،خلیفہ نے دس ہزار روپے وظیفہ مقرر کیا اورآکر لینے کا کہا ، آپ نے جواباً فرمایا کہ میں امیر المؤمنین سے اس کا متمنی نہیں ہوں۔(تاریخ بغداد)

خلیفہ ابو جعفر منصور نے146؁ھ میں امام ابو حنیفہؒ کو دارالخلافت بغداد بلایا اور قاضی القضاۃ کا عہدہ پیش کیا ، امام صاحب نے دینی مصلحت کے پیش نظر عہدہ قبول کرنے سے معذرت کی،بادشاہ نے سزا کے طور پر جیل میں بند کرنے اور ہر روز دس کوڑے مارنے اور بازار میں چکر لگوانے کا حکم صادر کیا۔ دس روز تک ظلم و تشدد کا یہ سلسلہ عالم اسلام کے اس عظیم امام کے ساتھ جاری رہا۔بغداد کے علمی ماحول اور امام صاحب کی شہرت نے جیل خانے کو درس گا ہ میں تبدیل کر دیا، تعلیم کا حلقہ ہر دن گزرنے کے ساتھ بڑھتا اور منظم ہوتا رہا، امام صاحب کے مایہ ناز شاگرد امام محمد ؒنے بھی انہی دنوں میں امام صاحب سے کسب فیض کیا۔ایک سازش کے تحت آپ کو کھا نے میں زہر دیا گیا جس کے اثر سے رجب 150؁ٔٔ؁ھ جیل میں آپ خالق حقیقی سے جا ملے۔قاضی بغداد حسن بن عمارہ ؒنے آپ کو غسل دیااور نماز جنازہ پڑھائی،امت کے محسن اور عظیم تابعی و امام کا جنازہ جب جیل سے نکالا گیا توانسانوں کا جم غفیر اپنے امام کے نماز جنازہ میں شرکت کرنے جمع تھا ،پچاس ہزار سے زائد نفوس نے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سراج الامت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کو حیزران کے قبرستان میں دفن کیا۔
Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 249788 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More