بانی پاکستان جناحؒ کا صوبائی نظریہ تقسیم

یکم مئی۱۹۴۷ ؁ء کے ’روز نامہ ڈان دہلی ‘میں قائد اعظم محمد علی جناح کا ایک انٹرویو شائع ہوا تھا جس کے ردعمل میں کانگریس نے انگریز حکومت پر مزید زور دینا شروع کردیا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے قیام میں مسلم لیگ کی جانب سے مکمل پاکستان کا مطالبہ نہ مانا جائے بلکہ بٹوراہ پاکستان کی صورت میں پنجاب کی جہاں تقسیم کی جائے وہیں ہندو مہاسبھا نے زور و شور سے یہ پروپیگنڈا شروع کردیا تھا کہ بنگال کو بھی تقسیم کیا جائے جبکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے موقف تھا کہ قصدا وسیع پیمانے پر ابہام پھیلا یا جارہا ہے ۔مسلم لیگ نے قیام پاکستان کیلئے جو تقسیم ِ ہندوستان کی تجویز پیش کی تھی اس کی بنیا د اس حقیقت پر رکھی گئی تھی کہ ہندوستان میں دو اقوام ہندو و مسلمان بستی ہیں، جناح نے "روز نامہ ڈان دہلی"کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ"ہم ایک قومی ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں جو ہماری مادر وطن ہو،جو مسلمانوں کی غالب آبادی پر مشتمل ہو اور جس میں پنجاب ، صوبہ سرحد ، سندھ ، بلوچستان ، بنگال اور آسام کی چھ اکائیاں شامل ہوں،اس سے ہندوؤں کوان کی قومی مملکت حاصل ہوجائے گی اور ان کا قومی ملک ہوگا جو برطانوی ہندوستان کا تین چوتھائی حصہ ہے۔"

پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے حوالے سے قائداعظم کا واضح موقف تھا کہ"بنگال اور پنجاب کی تقسیم کا سوال کھڑا کیا جارہا ہے جو نیک نیتی پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس میں بد نیتی اور شرارت پنہاں ہے اور جو نفرت اور تلخی کی پیداوار ہے۔"قائد اعظم جانتے تھے کہ ان شرارتوں کا مقصد برطانوی حکومت وائسرے کو دباؤ میں لانا اور مسلمانوں کو اعصابی طور پر کمزور کرنا تھا تاکہ ان کو کٹا پھٹا یا مسخ شدہ اور کرم خوردہ پاکستان ملے۔کرم خوردہ پاکستان کے حوالے سے قائد اعظم کو ممکنہ خدشات تھے کہ ہندوؤں کا اپنا وطن چھ بڑے صوبوں پر مشتمل ہے اس لئے حکومت برطانیہ کو اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے کہ اگرپاکستان میں شامل ہونے والے صوبوں کے ایک حصہ نے اسے اختیار کر رکھاہے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ دوسرے تمام صوبوں کو بھی اسی طرح تقسیم کرنا ہوگا جو خطرناک راستہ ہے اس سے کئی صوبے تقسیم ہوجائیں گے اور اس طرح" آج کی نسبت مستقبل میں زیادہ خطرناک صورتحال پیدا ہوجائے گی"قائد اعظم جانتے تھے کہ صوبوں کی تقسیم کا راستہ اختیار کرنے سے صوبوں کی انتظامی ، اقتصادی اور سیاسی زندگی تباہ ہوجائے گی، جنہوں نے تقریبا ایک صدی سے اس بنیاد پر ترقی کی ہے اور ان کی نشوونما اس بنیاد پر ہوئی ہے اور یہ موجودہ آئین کے تحت خود مختار صوبوں کے طور پر کام کر رہے ہیں۔قائداعظم نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ پاکستان کے مطالبہ کے بنیادی اصول کے مطابق ہندوستان بھر کے صوبوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردینے کا مطالبہ ایک زبردست غلطی ہوگا۔قائداعظم اس عمل کو حکومت برطانیہ کیلئے شدید غلطی کے مرتکب ہونا قرار دیتے تھے۔

یہاں پر ریکارڈ کی درستگی کیلئے بتانا ضروری ہے کہ قائداعظم واشگاف کہہ چکے تھے کہ "یہ ظاہر ہے کہ پاکستان کی ہندو اقلیتیں ترک سکونت کرکے اپنے قومی وطن ہندوستان جانے کی خواہش مند ہوں تو وہ وہاں جا سکتی ہیں اور بالکل اسی طرح جو مسلمان ہندوستان سے ترک وطن کرکے پاکستان میں آنا چاہیں ان کو بھی اس کی اجازت ہوگی۔"قائداعظم نے پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کیلئے متعدد بار اس عزم کو دوہرایا کہ انھیں پاکستا ن میں مکمل آزادی حاصل ہوگی ، اپنی عبادات ، رسم و رواج اورحقوق کی۔لیکن یہاں انھوں نے بڑے لطیف انداز میں ، ہندوستان کو ہندوؤں کا وطن قرار دیکر مسلمانوں کیلئے پاکستان وطن بھی قرار دیا تھا۔قائداعظم جانتے تھے کہ یقینی طور پر انتقال آبادی ہوگا اس لئے انھوں نے اس اہم مسئلے کیلئے دونوں ممالک کی آئینی مملکتوں پر فیصلہ چھوڑدیا کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کی حکومتیں تبادلہ آبادی کو موثر طریقہ سے روبہ عمل لا سکتی ہیں جہاں بھی یہ قابل عمل اور ممکن ہو۔کانگریس کی پروپیگنڈا مہم کو قائد اعظم دوستانہ طور پر حل ہونے والے راستے میں رکاؤٹیں اور مشکلات پیدا کرنا سمجھتے تھے۔کانگریس نے اس مقصد کیلئے بنگال میں مہا سبھا اور پنجاب میں سکھوں کو آگے لگا دیا تھااور اس وقت کانگریس کے اخبارات سکھوں کو اکسانے اور گمراہ کرنے میں لگے ہوئے تھے۔حالاں کی تاریخی طور پر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ پنجاب کی تقسیم سے سکھوں کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا، انھیں یہی بتا یا جاتا رہا تھاکہ ان کے اس مطالبے سے ان کی نصف سے زیادہ آبادی پاکستان میں رہ جائے گی ،لیکن سکھ اس معاملے میں کچھ سننے کو تیار نہیں تھے اور کانگریس کی ایما پر پنجاب کی تقسیم پر کمر بستہ نظر آتے تھے ، حالاں کہ پاکستان کے قیام کے فارمولے کے تحت مکمل پنجاب پاکستان کے حصے میں آنا تھا کیونکہ29اضلاع میں سوائے مغربی پنجاب کے تین صوبوں میں ہی غیرمسلم اکثریت میں تھے ، جس میں بھی سکھ اکیلے اکثریت میں نہیں تھے۔کانگریس کی سازشوں کی وجہ سے جہاں بنگال تقسیم ہوا تو دوسری جانب پنجاب بھی تقسیم ہوا ،بھارت کی نام نہاد سکیولر حکومت نے سکھوں کے ساتھ جس قسم کا رویہ اختیار کیا وہ تاریخ کا سیاہ باب بن چکا ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کیا جاچکا ہے کہ سکھوں کا فیصلہ درست نہیں تھا۔دراصل موجودہ پاکستان کے حصول کیلئے جتنی مشکلات کھڑی کیں جار ہیں تھیں یہ تمام حربوں میں سب سے نازک اور حساس نوعیت کا معاملہ تھا تاکہ قائداعظم پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہوجائیں ، لیکن قائد اعظم کے نزدیک ایک ایسے خطہ اراضی کا حصول اولیت کا درجہ رکھتا تھا جہاں مسلمان اقلیت سے باہر نکل کر اکثریت میں آجائیں اور اپنے دین اسلام کے مطابق عوامی فلاح و بہبود کے فیصلے کریں ، یہاں انھوں نے اس بات کو مدنظر رکھا کہ شیڈول کاسٹ ہندوؤں اور مسیحی و دیگر غیر مسلم کمیونٹیز نے پاکستان کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی انھیں ان کے مکمل حقوق دینے کی بھی یقینی دہانی کرائی اور قیام پاکستان سے قبل ہو یا بعدمیں ، اقلیتوں کو مذہبی و شہری آزادی کا مکمل یقین دلاتے ہوئے انھیں مذہبی آزادی دی،۔ضمنی طور پر موجودہ پاکستان میں اگر ہم صوبوں کی تقسیم کے حوالے سے متعدد سیاسی و دیگر جماعتوں کے مطالبات کا جائزہ لیں اور قائداعظم محمد علی جناح کے فرمودات سے ا ن تقابل کریں تو صورتحال چاہیے کچھ بھی ہو ، لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ اِس وقت صوبائی تقسیم کے مطالبے پاکستان کے مفاد میں ہرگز نہیں ہیں ۔پاکستان کو اس وقت جن صورتحال کا سامنا ہے اولیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس پاکستان کو مزید مشکلات کا شکار نہ کریں ۔جلسے جلوس ، دھرنے ، مظاہرے سب کچھ اپنی جگہ ایک جمہوری حق اور سیاست کا جزلانیفک ہے لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان کو درپیش مسائل سے باہر نکالنا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ مسائل کو کس طرح حل کیا جائے اور کس طرح مشکلات کا سدباب کیا جائے یہ بھی قائداعظم بتاتے ہیں۔محمد علی جناح سے اپریل ۱۹۴۳ ؁ء میں صوبہ سرحد کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے ایک پیغام کیلئے درخواست کی ۔ آپ نے جواب میں فرمایا ـ"تم نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تمہیں کوئی پیغام دوں ، میں تمہیں کیا پیغام دوں جبکہ ہمارے پاس پہلے ہی ایک عظیم پیغام موجود ہے جو ہماری راہنمائی اور بصیرت افروزی کیلئے کافی ہے ، وہ پیغام ہے خدا کی کتاب عظیم ، قرآن کریم ۔"(تقاریر ، جلد اول صفحہ ۵۱۶)۔۱۳ ِ نومبر ۱۹۳۹ ؁ء قوم کے نام عید کا پیغام نشر فرمایا ۔(اس زمانے میں ملک میں ہنگامہ اور فساد ہورہے تھے ) آپ نے قوم سے کہا ـ"جب ہمارے پاس قرآن کریم ایسی مشعل ِ ہدایت موجود ہے تو پھر اس کی روشنی میں ان اختلافات کو کیوں نہیں مٹا سکتے ؟ (تقاریر جناح ، شائع کردہ شیخ محمد اشرف ، جلداول صفحہ۱۰۸)"وہ بندھن ، وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر ، خدا کی عظیم کتاب ، قرآن مجید ہے ، مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ وحدت پیدا ہوتی جائے گی ۔۔۔ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول ﷺ،فلہذا ایک قوم ۔(تقاریر ، جلد دوم صفحہ ۵۰)۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 658803 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.