گریٹ پیپل ٹو فلائی ود کو سہارے کی ضرورت

پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائینزکی 1954 سے 2013 تک اتار چڑھاؤ کی کہانی بڑی کربناک ہے ، اسمیں سستی کاہلی، کرپشن ، لوٹ مار ، اپنوں کو نوازنے، قومی ادارے کے بجائے ذاتی ادارہ سمجھنے،انصاف کے قتل عام اور میرٹ کی دھجیاں اڑانے کے ادوار غضبنا ک ہیں ، بے پناہ اضافی سٹاف کی بھرتیوں ،سنیئر ملازمین کی عدم دلچسپی اور جونئیر سٹاف سے بدسلوکی اور من پسندی کی داستانیں بھی شرمناک ہیں۔پی آئی اے نے 13 ہوائی جہازوں کیساتھ ایک ناقابل بیان کامیابی کے سفر کاآغاز کیا ۔1959 میں جب نور خان نے کنٹرول سنبھالا تو بوئنگ707 سے ترقی و کامیابی کے نئے دور کا آغاز ہو گیا اور ایشاء کے پہلے جٹ ائیر کرافٹ حاصل کرنے کا اعزاز پالیا۔ پھر اس سر زمین پاک کو ایسی نظر لگی کہ مٹی بھی بنجر ہو گئی ، قومی خزانے خالی اورباہر کے بینک منافع بخش بن گئے، تقریباََ 30 خاندان امیرسے امیر اور ملک دیوالیہ ہوتا چلا گیا ، پھر یہ خاندان آپس میں لڑنے لگے ، ایک دوسرے پہ الزام کی بارش ہونے لگی اور عوام کی منشا ء کو ایک طرف رکھ کر بڑے بڑے میاں منشا ء ، ملک ریاض،نواز شریف اور زرداری جیسے بزنس برج کھڑے کردیے گئے اور اسی طرح اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کالے دھندے والے بھی اپنی فیملی میں شامل کر لیے اور پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ کشکول ہماراسہار ا بن گیا ،قرضہ جات کی ادائیگکیوں کے لیے کشکول اٹھا یا اور امریکہ واشنگٹن ڈی سی میں گھٹنے ٹیکنے لگے اور پھر غلط قومی پالیسیوں کی وجہ سے سی آئی اے ، را اور موساد نے دہشت گردی کشکول میں بھی ہمیں مالا مال کردیا اور تمام تر کشکولی جنگوں کوآج پاکستان بحسن و خوبی نمٹ رہا ہے۔
 
1999 میں نواز شریف ملک کے وزیراعظم تھے اور انہوں نے شاہد خاقان عباسی کو پی آئی اے کا چیئرمین منتخب کیا جنہوں نے " امرکی کیتھے پیسفک" سے5 بوئنگ300-747 طیاروں کی لیز میں اہم کردار ادا کیا اور پھر ٓامریت نے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی ۔ رہی سہی کسر 2000 میں اوپن سکائی پالسی نے نکال دی ۔ بہرحال 2002 سے 04 تک پی آئی اے اچھا چلا جب جنرل مشرف نے 9 بوئنگ جہاز 777 اور 6 عدد ائیر بس 630 جہاز لیے ۔ پھر ایک زبردست ڈاؤن فال آیا جب ہماری ائیربس پر یورپی پابندیاں لگ گئیں اور تقریباََتیرہ سو کروڑ کا نقصان ہوا۔2007 کے عام انتخابات جیتنے کے بعد آصف زرداری نے اپنے من پسند افسر کیپٹن اعجاز ہارون کو پی آئی اے کا ایم ڈی لگایا تو پی آئی اے کے نقصانا ت تاریخ کے بدترین دور میں داخل ہو گئے اور 2008 میں پی آئی اے کو تین ہزار نو سو بہتر کروڑ کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔آج ترکش ائیر لائن کا 300 جہازوں کا فلیٹ ہے ہر جہاز کے ساتھ 81 ملازمین ہیں اور منافع 11 بلین یو ایس ڈی ڈالر ز ہے۔ امارات ائیر لائن کا فلیٹ 212 جہازوں پر مشتمل ہے جسمیں ہر جہاز کے ساتھ 220 ملازمین ہیں اور منافع 5.5 بلین یو ایس ڈالرز ہیں۔ ہمارے پاس 34 جہاز جبکہ 25 جہاز سروس کے لائق، کب سے بیکار پڑے ہیں۔ 34 انٹرنیشنل روٹس اور 70 ڈومیسٹک روٹس ہیں اور روزانہ تقریباََ 90 پروازیں اڑتیں ہیں۔ ہمارے پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد 19,500 ہے جب ترکی ائیرلائن کی 18,850 ہے ، ہم نے اپنے ہر جہاز کے لیے 870 لوگوں کا عملہ رکھا ہو ا ہے۔اگر میاں نواز شریف نجکاری کی آواز نہ اٹھاتے تو شاید نوازشریف صاحب کی حکومت خود ہی ملازمین کی تعداد مزید عارضی بھرتیاں کر دیتی اور پھر پی پی پی آکر انہیں " سیف ہیند" دیتے ہوئے مستقل کر دیتی۔ یہ المیہ رہا ہے کہ مسلم لیگی آخروٹ دماغ ہمیشہ آ کر ملازمین کو عا رضی بھرتی کرتے رہے ہیں اورپی پی پی کے بددماغ حضرات انہیں مستقل کرتے آئے ہیں۔ نتیجتاََ پی آئی اے کی2013 کی سہ ماہی رپورٹ کیمطابق ائیر لائن پر اس وقت 192 بلین روپے واجب الاداء قرضے ہیں۔

پی آئی اے تنازعہ تو بہت پرانا ہے ، ماہ فروری تو حکومت، جوائنٹ ایکشن کمیٹی، مسافروں ، لیڈروں او عوام الناس کے لیے قہر بن کر ٹوٹا اور میڈیا کے بریکنگ نیوز بنانے کی چاندی لگ گئی۔خوش اسلوبی سے ماورا مسلم لیگ ن کے صبر کا پیمانہ ہمیشہ ہی مختصر دورانیہ کا ہوتا ہے اس لیے اس بار بھی دوقیمتی لوگ ضائع ہو گئے۔ اور اب تک تقریباََسینکڑوں پروازین منسوخ اور اربوں کا نقصان ہو چکا ہے ۔ حکومت ایک تو یہ کر سکتی تھی کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی بات مان لیتی اور 1 سال کا وقت دے دیتی اور پھر بھی اگر انتظامی معاملات ٹھیک نہ ہوتے تو پھر نجکاری کرتی ۔دوسرا آپشن یہ تھا کہ جہاں دو سال تک انتطار کیا وہاں دو چار ہفتے انتظار کرتی اور مختلف سینئر سیاستدانوں، سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور اپوزیشن رہنماؤں سے مشاورت کے بعد کچھ فیصلہ کرتی تو شاید قتل و غارت گری بھی نہ ہوتی اور کروڑوں اربوں کا نقصان بھی نہ ہوتا ۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی اس تحریک سے جہاں اپوزیشن کو بات کرنے اور اپنا الو سیدھا کرنے کا موقع ملا وہاں مسائل بگاڑ ہونے کے شکار کیساتھ ساتھ عالمی سطح پر جگ ہنسائی ہوئی۔ عجیب بات ہے کہ ہم عالمی دنیا میں یہ تو سنتے ہیں کہ ملازمین کا کم تنخواہوں پر احتجاج ہو رہا ہے لیکن پاکستان میں پی آئی اے ، ایف بی آر، واپڈا، پاکستان اسٹیل مل اور اوجی ڈی سی ایل جیسے منافع بخش اداروں میں ملازمین بے پناہ، تنخواہیں بے حساب، اللے تللے بے تحاشا اور شاہی سہولیات ناقابل فہم ہیں۔ پی آئی اے کی نجکاری کی شاید ہی کوئی پاکستانی مخالفت کرے ، سب کو پتہ ہے کہ دنیا بھر کے منافع بخش ادارے نجکاری ہونے کی وجہ سے دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہے ہیں۔ قضیہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا اداروں سمیت کوئی بھی دوسرا ادارہ ہو اگر 100 فیصد میرٹ پر کام کریگا تو پھر نجکاری کی ضرورت ہی کیوں پڑے گی !تصفیہ طلب حل یہ ہے کہ اس طرح کے تمام منافع خور اداروں کو نجکاری کے دائرہ میں لایا جائے اور اس سے پہلے تمام پولیٹکل پارٹیوں بشمول عوامی نمائندوں کاایک ہنگامی اجلاس بلایا جائے جسمیں اہم فیصلے کیے جائیں ،لیکن اگر مختلف سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیے بغیر نجکاری کی گئی تو پھر کوئی بھی دوسری پارٹی اپنے دورِ اقتدار میں اس نجکاری کو چیلنج کریگی ا ور پھر ہچکولے کھاتی پی آئی اے یا کسی دوسرے ادارے کی کشتی ڈوب جائیگی ۔نجکاری کے مراحل ، میعاد ، حصص، کمپنی ، بقیہ شئیرز، نجکاری کے وقت کے منافع و نقصانات وغیرہ کو وضع کردہ پالیسی کے مطابق ڈاکیومنٹ کرنا ، ٹرمز آف ریفرنسز اور پراسیجرز کا ہونا بہت ضروری ہے۔

ٹوئٹر پر" جمشیدصاحب نے ٹویٹ کیا ہے کہ ہم اس شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کر سکتے ہیں اگر ہمارے اداروں کے چلانے والے صرف 10 فیصد ایمانتدار ہو جائیں"ازرم انصاری صاحب ٹویٹ کرتے ہیں کہ پی آئی وہ طاقت ہے پاکستان کے تمام شعبہ جات کو سہارا دے سکتی ہے لیکن بد قسمتی سے آج پی آئی اے میں " منافع" کے بجائے " خسارہ اور قرضہ جات" کا بوجھ ہیـ" ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر حکومت اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مابین جاری مذاکرات کا کوئی حل نکلتا ہے تو حکومت کی کیا حکمت عملی ہو گی ! اور مذاکرات بے نتیجہ رہنے کیصورت میں حکومت کس پلان کے بارے میں سنجیدگی کیساتھ کوشاں ہے؟ خدا را ! اس میں جلد بازی نہ کی جائے بلکہ ہر دونوں صورتوں میں اس زرخیر ادارے کو بنجر ہونے سے بچانے کے لئے مندجہ ذیل نکات پر ضرور غور فرمائیں: :اگر حکومت اگلے پلان کی تیاری میں مصروف ہے تو اگلا پلان کیا ہے؟ اسکی آئینی و قانونی حیثیت کیا ہے؟جمہوری و پارلیمانی ایوان میں اس پلان کی کوئی شکل بن کر مسودہ کی شکل میں پیش کی جائے اور منظوری ہو جائے۔ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن کو منافع بخش بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام تر سیاسی بھرتیوں، نالائق اور نکمے سٹاف کو ہٹایا جائے۔تمام ائیر کرافٹس کو فوراََ سروس کرا کے آپریشن بنایا جائے۔پی آئے اے میں بھاری تنخواہوں والی مینجمنٹ کے تمام غیر ضروری سہولیات مثلاََ میڈیکل، پنشن اور فارن ٹریولنگ بند کیا جائے۔فیول کی بچت کے لیے قابل انتظامی عملہ لگایا جائے۔ تاکہ ہماری پیاری قومی ائیر لائن " گریٹ پیپل ٹو فلائی ود" ایک مرتبہ پھر ہمارے ماتھے کی شان بنے۔
Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 99399 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.