نیم حکیم خطرہ جاں

محترم قارئین !انسا ن کے لئے زند گی کی تمام رونقیں اور رنگینیاں اس وقت تک اہمیت رکھتی ہیں جب تک انسان چست و توانا اور صحت مند رہتا ہے۔صحت نہ ہو نے کی صورت میں انسان بے چینی و بے کیفی کی کیفیت میں گھیرا رہتا ہے اور تمام تر آسائشیں بے معنی ہو کررہ جا تی ہیں۔ گذشتہ کالم میں خواتین کے حوالے سے لکھا اس زیر تحریر مو ضوع کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھیں کیو نکہ اس المناک پہلو کو جا نتا ہر کو ئی ہے مگر نہ جا نے وہ کو ن سے لو گ ہیں جن کی سر پر ستی کی بناء پہ ان کے ہاتھ و کاروبار بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔عطائی ڈاکٹروں کے بھیا نک کھیل کے نتیجے میں معصوم لوگوں کی زند گیوں کے کئی چراغ گل ہو چکے ہیں جن کے متعلق ہم آئے روز اخبارات و ٹی وی میں سنتے اور دیکھتے ہیں مگر اس گھنا ؤ نے کاروبار کے خاتمے کیلئے کو ئی ٹھوس بنیا دوں پہ اقدامات نہیں کئے گئے اور اس کی وجہ ‘‘پو شیدہ ہا تھ ’’ ہیں۔حالیہ دنوں کی بات ہے کہ میری ایک رشتہ دار اپنی بیٹی کو لے کر ایک ڈاکٹر کے پاس گئیں جب وہ واپس آئیں تو اتفاقاًمیری ان سے ملاقا ت ہو ئی۔ڈاکٹر کا پو چھنے پہ بہت ہی معصوم سے انداز میں یوں گویا ہو ئیں کہ ’’ ہمارے محلے میں ایک دائی ہیں ان کی ایک بیٹی سول ہسپتال میں نرس لگی ہو ئی ہیں بہت تجربہ ہو گیا ہے اسے اور اب وہ شام کے وقت اپنے گھر میں ایک کلینک چلا رہی ہیں ان کے پاس گئی تھی 800 روپے لئے ہیں اور دوا بھی دی ہے۔ ہمارے ہاں کے لو گ بجا ئے شہر کے ڈاکٹروں کے پا س جا نے کے اس کے پاس چلے جا تے ہیں اس طرح ہمارا وقت بھی بچ جا تا ہے اور آنے جا نے میں بھی آ سا نی ہو تی ہے ’’ ان کی با تیں سن کر میں حیران و پر یشان رہ گئی کہ انہی کی طرح کے سادہ لو گ کس طرح سے بے وقوف بن رہے ہیں اور یہ لو گ نہیں جا نتے کہ’’ نیم حکیم خطرہ جا ں ‘‘ہے یا پھر سن کر سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ان سے زیادہ افسوس مجھے ان نام نہاد اور لا لچی جعلی ڈاکٹر پہ ہوا جو محض اپنے تجر بے کی بنا ء پہ ڈاکٹر بن کر اپنے گھر میں کلینک چلا رہی ہیں اور سادہ لو ح لوگوں کو دونوں ہا تھوں سے لوٹ رہی ہیں،اس بات سے قطعی نظر کے ان کی ذرا سی غفلت کسی معصوم کی جان لے سکتی ہے۔ لاہور اور اس کے مضافات میں اس طرح کے عطا ئی ڈاکٹروں کا یہ سلسلہ آج کا نہیں کا فی پرانا ہے۔ یہ اکیلے ایک فرد کا کام نہیں بلکہ اس کے پیچھے بھی ایک مضبوط ہا تھ شامل ہو تا ہے۔یہ بات اتنے وثوق سے اسلئے کہہ رہی ہوں کیونکہ میرا واسطہ بھی اسی طرح کی ایک ٹیم کے ساتھ پڑا۔ہمارے محلے سے ذرا آگے ایک عطائی لیڈی ڈاکٹر نے کلینک کھولا تو اس کے زیر عتاب آنے والوں میں راقمہ بھی شامل تھی۔پہلی مر تبہ جا نے کے بعد جب انہوں نے ٹیسٹ کیلئے لیبارٹری کا پتہ بتایا تو وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہ موصوف خود سول ہسپتال میں ایک دیسی ڈاکٹر کے عہدے پہ فا ئز تھے اور ان دو نوں کے درمیان باقا عد ہ ڈیل ہو ئی تھی کہ ان کے پا س جو بھی مر یض جا ئے گا ٹیسٹ کیلئے اس کو ان کی لیبارٹری میں ہی بھیجا جا ئے گا۔وہ تو خدا کا کر نا یہ ہوا کہ ان کی دوا نے اپنا زہر یلا اثر دکھایا اور ان کو حالت کا جیسے علم ہو اپھر وہ دن اور آج کا دن وہ نظر نہیں آ ئیں۔اگر دیکھا جائے تواس معا ملے میں ہم خود بھی برابر کے قصور وار ہیں جو چند لمحوں کی بچت اور پیسوں کی خا طر خود کو ان اناڑی ڈاکٹروں کے پاس بطور تجربا تی سامان پیش کر دیتے ہیں اور کبھی بھی اس طرح کے ڈاکٹر کی تصدیق نہیں کر تے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں سمجھ تب آتی ہے جب پا نی سر سے گزر چکا ہو تا ہے۔یہ ایک مذاق نہیں حقیقت ہے کہ ہم لو گ عطا ئی ڈاکٹروں کے ہتھے چڑ ھ کر اپنی ز ند گیوں کو خود داؤ پہ لگا رہے ہیں۔عطائی ڈاکٹروں کو بھی سمجھنا ہو گا کہ ایک کمرے میں چند ہیلتھ پو سٹرز ،ایک بیڈ نما بستر ،چند کر سیا ں اور ایک میز پہ چند دوائیاں رکھ کر ہم ڈاکٹر کسی طور نہیں کہلا سکتے۔اگر اس طرح ڈاکٹر بنا جا سکتا تو اتنی بڑی بڑی کتا بیں پڑ ھنے ،اتنا وقت پریکٹیکل کی کر نے کی ، اتنی طویل محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے بھلا ؟؟بس کسی بھی سول ہسپتال میں جا ئیں نر سنگ کورس کر یں اگر نہیں تو دو ماہ کاہیلتھ کورس کر یں کچھ دن غریب لوگوں پہ تجر بات کر یں اور پھر اسی تجر بے کی بنیاد پہ آپ ایک بہتر ین ڈاکٹر کہلوا سکیں گے کیو نکہ مقصد تو محض پیسے کما نا ہی ہے مسیحا بننے کے چکر میں کون پڑتا ہے !!یہ لا لچی لو گ کب سمجھیں گے کہ چا ہے وہ لیڈی ہیلتھ ورکر ہوں چا ہے نر س ہوں ان کا کام صرف اور صرف مر یضوں کو گا ئیڈ لا ئن دینا ہے ان کو ڈاکٹر ز کی ہدایت کے مطا بق دوا دینا ،انجکشن لگا نا ہے نہ کہ خود ڈاکٹر بن کر دوائیں تجو یز کر نا ہے مگر یہاں تو کھلی چھوٹ ہے جی جو چا ہے نرس سے ڈاکٹر بن جا ئے کو ئی پو چھنے والا نہیں۔ چند پیسوں کی خا طر انسانی جا نوں کے سا تھ نہا یت ہی گھنا ؤ نا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اس سنگین مسئلے کی جا نب بھی تو جہ دیں اور گزارش یہ بھی ہے کہ لاہورکے مضافات میں قا ئم لیبا رٹریوں کی جا نچ پڑتال کی جا ئے اور اس عطائی ڈاکٹروں کے ساتھ ملوث افراد کے خلاف بھی کاروائی کی جائے اور سخت سزا دی جا ئے کیو نکہ انسانی جان کی کو ئی قیمت نہیں !!

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Sundas Qamar
About the Author: Sundas Qamar Read More Articles by Sundas Qamar: 25 Articles with 21110 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.