فسادات کا ڈرامہ

’’بغل میں چھری اورمنہ میں رام رام'' کے مصداق ایک طرف نریندرمودی بھارت کوسب سے بڑی سیکولرجمہوریت قرار دینے کیلئے ساری دنیامیں ڈھول پیٹ رہے ہیں اورتودوسری طرف مودی کے ایماءپر۲۰دسمبر۲۰۱۵ء کوانتہاپسندتنظیم پروشوا ہندو پریشد(پی ایچ پی )نے بھارتی سپریم کورٹ کے احکام کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بابری مسجد کی جگہ رام مندربنانے کیلئے۲۰ٹن سنگ مرمرایودھیاپہنچاکراپنے ہزاروں کارکنوں کووہاں آنے کی کھلی دعوت بھی دی ہے جس کے سبب مقامی مسلمانوں میں شدید غم وغصے کی لہردوڑگئی ہے۔ انہوں نے صورتحال کومسلم کش فسادات کے نئے سلسلے کاپیش خیمہ قراردیاہے۔اس ضمن میں ضلع فیض آبادکے ایس ایس پی موہیت گپتاکامیڈیاسے بات کرتے ہوئے کہناتھاکہ پولیس سمیت اسپیشل ملٹری دستوں کوکسی بھی ناخوشگوارصورتحال سے نمٹنے کیلئے الرٹ کیاجاچکا ہے تاہم وہ اس سوال کاکوئی جواب نہ دے سکاکہ جب سپریم کورٹ اوراترپردیش کے پرنسپل سیکرٹری دیواشیش پانڈے یہ ہدائت دے چکے ہیں کہ رام مندرکا سلسلہ بندکیاجائے تویہ پتھرکیوں لائے جارہے ہیں اور پولیس نے انہیں لانے کی اجازت کیسے دی؟

بھارتی جریدے دکن کرونیکل کے مطابق ایودھیاکی انتظامیہ نے اس وقت کوئی ایکشن لینے سے گریز کرنے کااشارہ دیاجب تک کوئی ''فساد''رونمانہیں ہوجاتا ۔ فیض آبادکے ایک اعلیٰ پولیس آفیسر کامؤقف ہے کہ جب تک ایودھیامیں امن ہے،تب تک کوئی کاروائی نہیں کریں گے۔امن وامان خراب ہونے کی صورت ہی میں پولیس اورانتظامیہ حرکت میں آئے گی۔رام مندرکی تعمیرکی خبروں پر مشتعل، وارانسی سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان کھڈی کاریگر کاکہناہے کہ جب سپریم کورٹ رام مندرکی تعمیرروکنے کاحکم دے چکی ہے توپولیس خاموش تماشائی کیوں بنی ہوئی ہے اورسینکڑوں مین دورسے لائے جانے والے پتھرپولیس کوکیوں نظرنہیں آرہے؟؟ادھررام مندرکی تعمیرکیلئے ایودھیاآنے والے مہنت نرتیا گوپال داس نے انڈین ایکسپریس سے گفتگومیں انکشاف کیاہے کہ رام مندربنانے کاوقت آچکاہے کیونکہ نریندرمودی کی جانب سے رام مندرکی تعمیر کے واضح سگنل کے بعدرام مندر کمیٹی نے راجستھان سے سنگ مر مراوردیگرتعمیراتی سامان منگوانے کاکام تیزکردیاہے۔
دوسری طرف وشواہندوپریشدکے ریاستی فوکل پرسن،شردشرمانے تصدیق کی ہے کہ رام مندربنانے کیلئے انہیں مودی سرکارکی جانب سے فری ہینڈدے دیا گیا ہے ۔بھارتی جریدے دینک جاگرن نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھاہے کہ پردیش پولیس نے مسلمانوں کوایودھیامیں شہیدہونے والی بابری مسجدکی دوبارہ تعمیر کی اجازت نہیں دی جبکہ رام مندرکی تعمیرکوروکانہیں جارہا۔ بھارتی صحافی جے پرکاش نرائن نے ایودھیاسے بتایاہے کہ وشواہندوپریشد،رام مندرکی تعمیر کیلئے قائم کردہ عالمی فنڈریزنگ مہم میں ایک ارب چارسو کروڑ روپے اور چارہزارکلوسوناجمع کرچکی ہے۔اس حوالے سے انتہاپسندتنظیم ''اکھل بھارتیہ ہندومہاسبھا'' کے مقامی رہنماؤں کابھی کہناہے کہ وی ایچ پی نے عالمی چندہ مہم میں امریکا،یورپ اور آسٹریلیاسمیت دنیابھرسے رام مندرکی تعمیر کیلئے فنڈز جمع کیے ہیں۔ رام مندرکے ڈھانچے کی تعمیرپر چار کروڑروپے خرچ ہوں گے ،تعمیرکے بعداس پرکی جانےتزئین وآرائش پرنصف ارب کا تخمینہ لگایاگیا ہے ۔عمارت میں سونے کی ایک ہزاراینٹیں بھی لگائی جائیں گی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ہندومہاسبھاکے قومی ترجمان دیویندرا پانڈے نے رام مندرکے فنڈکھاجانے کے حوالے سے وی ایچ پی رہنماؤں کے خلاف آرایس ایس کے سپریم کمانڈرموہن بھاگوت،بھارتیہ جنتاپارٹی کے قومی صدرامیت شاہ اوروزیراعظم نریندرمودی کوخطوط ارسال کردیئے ہیں۔ ایودھیا میں موجودہندومہاسبھاکے دیگررہنماؤں نے بتایاہے کہ دیویندرا پانڈے نے سب سے پہلا خط وشواہندوپریشدکے قومی سرپرست اوربابری مسجدشہیدکیس کے مرکزی ملزم اشوک سنگھل کولکھا تھا لیکن انہوں نے اس خط پرکوئی کاروائی نہیں کی بلکہ الٹادعویٰ کردیاکہ صرف ۸کروڑروپے فنڈمیں جمع ہوئے جو مختلف اوقات میں خرچ ہوچکے ہیں۔

یادرہے کہ۲۶جنوری۲۰۱۲ءکوبھارت کی شمالی ریاست اترپردیش کے اسمبلی انتخابات کیلئے اپنے منشور میں ہندوقوم پرست بی جے پی نے ایودھیامیں متنازعہ رام مندرکی تعمیرکی راہ ہموار کرنے اوراقلیتوں کیلئے ساڑھے چار فیصدکوٹہ ختم کرنے کا وعدہ کیاتھاجبکہ انتخابی منشور میں رام مندرکی تعمیر کا وعدہ شامل کئے جانے کی توقع نہیں تھی کیونکہ پارٹی کے صدرنتن گڈکری اس سے پہلے کہہ چکے تھے کہ اس تنازع کواترپردیش میں انتخابی موضوع نہیں بنایاجائے گالیکن ریاست کے دارالحکومت لکھن میں بی جے پی کی ریاستی یونٹ کے صدرسوریہ پرتاپ شاہی نے انتخابی منشورجاری کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے وعدے پرقائم ہے اوراسے ہرحال میں پوراکیاجائے گا۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی نے اترپردیش کے انتخابات کے لیے مدھیہ پردیش کی سابق وزیراعلیٰ اومابھارتی کواپناامیدواربناکرمیدان میں اتارکرکھلاپیغام دے دیاکہ پارٹی اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے پرواپس لوٹ آئی ہے اوربالآخررام مندرکی تعمیرکے نام پرانتہاء پسندہندوؤں کے ووٹ سے انتخابات میں فتح حاصل کی۔ ۶دسمبر۱۹۹۲ءکو جب ہندومذہبی انتہا پسندوں نے بابری مسجدکومسمارکیاتھا،اس وقت بی جے پی کے سینئر لیڈر ایڈوانی اوراومابھارتی اجودھیا میں مسجد کے قریب سٹیج پرموجودتھے۔ اوما بھارتی ماضی میں کئی مرتبہ یہ کہہ چکی ہیں کہ۶دسمبر کواجودھیا میں جوہواتھااس پرانہیں کوئی افسوس نہیں ہے۔

ٹھیک ایک سال بعد۷فروری۲۰۱۳ءکوایک مرتبہ پھرسخت گیرہندوتنظیم آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کمبھ میلے الہ آبادمیں جہاں تقریباًدولاکھ سادھوشریک تھے ،میں اپنی ایک ذیلی ہندوتنظیم وشو ہندوپریشیدکی قرارداد کی حمائت کرتے ہوئے کہاکہ آخرہمیں رام مندر کیلئے گڑگڑانا کیوں پڑتا ہے؟ یہ توبھارت کی شناخت کودوبارہ قائم کرنے کیلئےہے جوبابری مسجدکی جگہ ہی تعمیرکیاجائے گا۔ انہوں نے یہ دہمکی بھی دی کہ اگریودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کیلئےقانون وضع نہ کیاگیا تووہ اس کے خلاف ملک گیر احتجاجی مہم شروع کریں گے۔

اس سے ایک دن قبل بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے بھی۶فروری کو کمبھ میں وشو ہندوپریشید کے کیمپ کادورہ کرتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کیلئےپارٹی کے عہد کودہراتے ہوئے کہاتھاکہ مندر کے لیے کام کرنا ہماری گہری خواہش ہے، میں آپ کی دعاؤں کاطلب گار ہوں کہ اس کام کومکمل کرنے کی ہمیں طاقت ملے جبکہ رام جنم بھومی بابری مسجد کے تنازع پرالہٰ آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ برس یہ فیصلہ سنایاتھاکہ متنازعہ اراضی کوتین حصوں میں تقسیم کرکے تینوں فریقوں کو دے دیاجائے لیکن بعد ازاں ہائی کورٹ کے فیصلے کوسپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیاتھاجہاں سپریم کورٹ نے مرکزی تفتیشی بیورو سی بی آئی پراس بات کے لیے سخت نکتہ چینی کی تھی کہ آخر اس نے بابری مسجد کے انہدام والے کیس میں بی جے پی کے رہنماایڈوانی کے خلاف سازش کے مقدمہ میں ہائی کورٹ کے فیصلے کوچیلنج کیوں نہیں کیا ۔الہٰ آباد کے ہائی کورٹ نے مسجد کے انہدام میں ایڈوانی کوسازش کرنے کے الزام سے بری کردیاتھا لیکن اس فیصلے کے خلاف سی بی آئی نے اب تک اپیل نہیں کیا۔۶دسمبر۱۹۹۲ء کو ہزاروں ہندو ؤں نے بابری مسجدکو مسمارکردیا تھا۔ جب یہ واقعہ پیش آیاتوایڈوانی سمیت بی جے پی کے کئی رہنماوہاں موجودانتہا پسندوں کواشتعال دلانے کیلئے موجودتھے۔

راشٹریہ سویم سنگھ بھارتی جنتاپارٹی کی نظریاتی تنظیم ہے جواس کیلئےزمینی سطح پرکام کرتی ہے اوروقتاًفوقتاً اسے مشورہ بھی دیتی رہتی ہے۔دراصل آر ایس ایس نے ایک سازش کے تحت یہ پلان ترتیب دیاتھا کہ بی جے پی ایک بار پھرپوری طرح سے ہندوتوا کے ایجنڈے کواپنالے اورانتخابات سے پہلے اس کا اعلان کرے کیونکہ وی ایچ پی پہلے ہی اسی کے پیش نظروزارتِ عظمیٰ کے عہدے کیلئےنریندرمودی کی حمایت کااعلان کرچکی تھی۔آرایس ایس اوروی ایچ پی کاخیال تھاکہ اگر بی جے پی کو دوبارہ اقتدار میں آناہے تواسے ہندوتوا کی پالیسی دوبارہ اپنانی ہوگی ورنہ اسے اتنی سیٹیں نہیں مل سکتیں جس سے وہ اقتدارپرآسکے۔

سیاسی ماہرین کے بقول اترپردیش میں ایک سال بعداسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور ایسے میں رام مندر کے مسئلے کوایک بارپھراجاگرکرنے کے پیچھے یہی سیاسی مقاصد ہیں جس کیلئے ایک نئے مسلم کش فسادات کی تیاری کی جا رہی ہے؟اگربی جے پی بہارکے انتخابات میں ناکامی کے بعدکسی بھی انتہاء پر جانے کافیصلہ کرچکی ہے تواسے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اس مرتبہ گجرات جیسے مسلم کش فسادات کاڈرامہ دہرانے کی صورت میں بھارت کانقشہ تبدیل ہونے کے زیادہ امکانات ہیں-
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349293 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.