کیا اور بھی کچھ درکار ہے؟

پیسہ ضرورت ہے مگر مقصد حیات کسی صورت بھی نہیں ہو سکتا ہے ۔کیا اس فانی دنیا اور نا پائیدا ر زندگی میں پیسہ کو منزل مقصود سمجھنا اور اپنی سوچ کے محور کو پیسہ تک ہی محدود رکھنا بے وقوفی نہیں ہے ؟ سوچ اور عمل کا آپس میں بہت گہرا اثر ہوتاہے یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جن کی سوچ جب پیسہ بن جاتی ہے تو اپنی اس سوچ کا اثر ان پر اتنازیادہ ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد صرف پیسہ ہی رہ جاتا ہے اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پہلے ٹھیک اور غلط میں فرق ختم ہوجاتا ہے پھرجائز اور نا جائز میں فرق کرنے والی وہ دیوار جو مذہب اور معاشرت کی باہمی آمیزش سے بنتی ہے ،گر جاتی ہے ۔پیسہ جوڑنا رگوں میں اتنا سرایت کر جاتا ہے کہ اپنے اس عمل پر دلائل حوالوں کے ساتھ دینا کوئی مشکل نہیں ہوتا ہے ۔ان لوگوں پر ترس آتا ہے جن کامقصد حیات پیسہ ،جن کی خواہش پیسہ اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس ختم ہونے والی ناپائیدار زندگی میں پیسہ ہی واحد سہارہ ہے ۔سوچ آزاد جب کہ عمل سوچ کا تابع ہو تا ہے مگر جب پیسہ کی ہوس رگوں میں سرایت کر جائے توپھر سوچ، عمل کی تابع ہو جاتی ہے پھر روزانہ آنکھوں سے دیکھنے والے اور کانوں سے سننے والے عبرت ناک واقعات ، سوچ اور عمل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں ۔

اسی حوالے سے ہفتہ پہلے اخبار کی ایک چھوٹی سی خبرپڑھنے کا اتفاق ہوا ۔بظاہر تو یہ ایک چھوٹی سی خبر ہے مگر اس چھوٹی سی خبر میں عبرت پکڑنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔ اس خبر کے مطابق مشرقی سربیا کے ایک دور دراز پہاڑی علاقے کی ۸۶ سالہ خاتون مریجا ذلیٹک نے اپنے خاوند کی وفات کے بعدملنے والے دس لاکھ ڈالراپنے علاقے کے غریبوں میں بانٹ دئیے جب اس ضمن میں اس عورت سے پوچھا گیا تو یہ بولی کہ میرے پاس دو وقت کا کھانا بھی ہے مناسب کپڑے بھی ہیں اور ایندھن کے لیے لکڑی بھی ہے ۔اس خاتون نے مزید کہا کہ بہت جلد میں ایسی جگہ جانے والی ہوں جہاں مجھے ان پیسوں کی ضرورت نہیں ہے اس لیے میں نے یہ رقم لوگوں میں بانٹ دی کیوں کہ انھیں اس رقم کی زیادہ ضرورت ہے ۔

سربیا کی اس عورت کی بات میں حکمت بھی ہے اور دانائی بھی مگر ان لوگوں کے لیے جو سمجھتے ہوں ۔ حکمت و دانائی یقیناایک مسلمان کی گم شدہ چیز ہے اسے حاصل کرنے کی نصیحت ہر مسلمان کو فرمائی گئی ہے ۔اب اگر حکمت و دانائی کی بات حاصل نہ کی جائے تو نصیحت پر عمل نہیں کیا جائے گا اور جو نصیحت پر عمل نہیں کرتا ہے وہ یقینانقصان ہی اٹھاتا ہے ۔سربیا کی اس خاتون کی مذکورہ بالا بات میں کتنا دکھ ہے کتنا درد ہے اس کا اندازہ تو سربیا کی یہ خاتون ہی بہتر کر سکتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ انسان کی ضرورت نہایت مختصر ہے مگر جب ضرورت کو مقصد بنا لیا جائے گا تو پھر یہ مقصد لامحدودیت کے افق کو چھوئے گا۔یہ ممکن ہے کہ ہمارا سربیا کی اس خاتون سے مذہبی تعلق نہ ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ ایک انسان کی ضرورت نہایت مختصر ہے وہ روپے جوڑنے یا مقصد حیات کو پیسہ بنائے بغیر بھی حاصل ہو سکتی ہیں۔مختصر مقصد حیات کو پس پشت ڈال کر جب اندھا دھند ضرورت کو مقصد بنا لیا جائے گا تو پھر حد سے تجاوز تباہی کا باعث بنے گی اپنے لیے تو بھی اور معاشرے کے لیے بھی ۔

جن لوگوں نے مقصد حیات کو پیسہ نہیں بنایا نہ وہ کرپشن کے زمرے میں پھنستے ہیں نہ ہی احساس سے عاری ہوتے ہیں مگر جو مقصد حیات کو پیسہ بنا کر اسی کے لیے تگ و دو کرتے ہیں ذلت و پستی ان کا مقدر بن جاتی ہے اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا کے لیے بھی جہاں کی زندگی مستقل اور انصاف سے مبنی ہے ۔ دنیا جس کے لیے یہ ہر جائز و ناجائز کو پس پشت ڈال کر سنوارنے کے درپے تھے یہی تنگ پڑجاتی ہے ۔اس سے بڑا دھوکا اور کیا ہو گا کہ وہ دنیا جس کے لیے تن من دھن کی بازی لگا کر ہر جائز و ناجائز کو پس پشت ڈال کر حاصل کرنے کی کوشش کی وہ ہی تنگ ہو جاتی ہے ۔عبر ت کے لیے روزانہ سیکڑوں واقعات ملتے ہیں مگر پھر بھی عبرت کم ہی پکڑتے ہیں ۔ یہ انسان کی کم فہمی اور کم عقلی ہی تو ہے ۔یقینا انسان خسارے میں ہے یقینا۔

دو وقت کی سادہ روٹی کھانے کے بجائے جب دستر خوان کو انواع و اقسام کے کھانوں سے بھرنے کی خواہش، سادہ لباس کے بجائے جب مہنگے لباس کی خواہش ، عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کی خواہش ، پیسہ پانی کی طرح بہانے کی خواہش ، اولاد کے لیے مہنگے سکولز کی خواہش ، مہنگے علاج و معالجے کی خواہش جب رگ و خون میں سرایت کر جائے گی تو پھر ناجائز مجبوری بن جائے گی، معاشرے میں تفریق پیدا ہوگی اور انصاف کا فقدان ہو گا ۔ کیا دنیا کے لیے خواہش کرنے والوں کو کبھی راحت ملی ؟ دنیا کے لیے تگ و دو کرنے والے اور ہر نا جائز کو جائز سمجھنے والے کبھی راحت حاصل نہیں کر پاتے کبھی قانون کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں تو کبھی زندگی ان کے ساتھ وفا نہیں کرتی اوردھوکا وہ زندگی کر جاتی ہے جس کے لیے سب کچھ پس پشت ڈالا ،معاشرہ بھی بگاڑ کا باعث بنا اور معاشرے کے لیے بگاڑ کا باعث بھی بنے اور پھر حاصل وصول کچھ نہیں ہوا۔

عبرت کے جاہ بجاہ بے شمار نمونے ہمیں سوالوں کے انبار میں پھنساتے ہیں مگر عبرت تو وہی پکڑتے ہیں جو سوچتے سمجھتے ہیں جو اپنے آپ کو ترازوں میں تولتے ہیں ۔کیا کروڑوں کی کرپشن کرنے والا ڈاکٹر عاصم سکون میں ہے ؟کیا اسے علاج معالجے کے لیے اچھا ڈاکٹر مل رہا ہے ؟اپنے وکیلوں سے کہلوا کہلوا کر وہ ڈاکٹر مانگ رہا ہے مگر اس کو ڈاکٹر نہ اس کا پیسہ دلو ا رہا ہے نہ بھاری فیسوں پر حاصل کیا گیا وکیل ۔کہاں گیا وہ کنالوں پر بنا بنگلہ اور کہاں گئی وہ اربوں روپے مالیت کی گاڑیاں ؟اب تو یہ حال ہے کہ نہ گاڑی ہے نہ بنگلہ ہے نہ کارپٹڈ کمرے اور نہ ان بنگلوں میں تعینات نوکرچاکر بھی نہیں۔پولیس کا حصار ہے عدالتوں کے بنچ ہیں اور بکتر بند گاڑیاں ہیں اور ایک ذلت ،ناکامی، افسوس اور مایوسی۔

ضرورت کو جب مقصد حیات بنایا جائے گا تو پھر عبرت بنا جائے گا نہ کہ عبرت پکڑی جائے گی ۔عبرت پکڑنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے تو کیا یہ کافی نہیں ہے یا اور بھی کچھ درکار ہے ؟
 
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 78011 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.