درجہ چہارم اور اقتدار محل!

 درجہ چہارم؛
رحیم یار خان میں درجہ چہارم کے ملازمین نے احتجاجی ریلی نکالی، ان کا مطالبہ تھا کہ سکیل کی اپ گریڈیشن کی جائے، مہنگائی کی شرح کے مطابق تنخواہ میں اضافہ کیا جائے، اور ضروریات زندگی کے مطابق الاؤنس دیئے جائیں، تاکہ وہ معاشی پریشانیوں سے نکل کر اپنے بچوں کی تعلیم جاری رکھ سکیں اور ان کے دیگر مسائل حل کرسکیں۔ ریلی کے اختتام پر شرکا نے اپنی قمیضیں اتار کر کان پکڑ لئے (واضح رہے کہ کان مرغا بن کر نہیں بلکہ کھڑے کھڑے ہی پکڑے)۔ شرکاء سڑک پر لیٹ بھی گئے، اور انہوں نے حکومت کے خلاف اور اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی بھی کی۔

درجہ چہارم کے ملازمین نے مطالبہ تو تنخواہ بڑھانے اور اپنے سکیل کی اپ گریڈیشن کا کیا ہے، مگر زمینی حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ دفاتر میں انسانوں والا رویہ نہیں رکھا جاتا، زیادہ تر افسراِ ن لوگوں کو مٹی کے بنے ہوئے پُتلے تصور کرتے ہیں، وہ گھنٹی بجاتے، ان کو احکامات جاری کرتے اور ضرورت پڑے تو سخت سست بھی کہتے ہیں۔ ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتے، بسا اوقات یہ تبصرہ بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں،کہ یہ لوگ ہیں ہی اس قابل۔ افسروں میں بہت ہی کم ایسے ہونگے جو اپنے ان سرکاری خدمتگاروں میں سے کسی کو حقیقی طور پر جانتے ہوں، انسانیت کے حوالے سے انہیں خبر ہو کہ ان کی خدمت میں ہر وقت موجود رہنے والے کے گھریلو حالات کیا ہیں، ان کے بچوں کی تعلیم کس حال میں ہے، ان کا گزر اوقات کیسے ہوتا ہے، ان کے مسائل کیا ہیں؟ یہ تمام باتیں شاید افسروں کے معلوم کرنے کی نہیں، کہ وہ خود بھی ’’سَر کٹے‘‘ ہوتے ہیں، اور ان کے خدمتگار بھی گونگے ہوتے ہیں، جو حکم مل گیا عمل کرنا مجبوری ہے۔ یہ لوگ اپنے افسروں کو بہت ہی عقیدت سے دیکھتے اور ان کا حکم کارِ ثواب جان کر مانتے ہیں۔ افسر بدلتے رہتے ہیں، اور یہ سب کے ساتھ مخلص ہو کر کام کرتے ہیں۔ جہاں تک ان کے احتجاج کا تعلق ہے، تو دوسروں کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی ہمت پکڑی ہے، اگرچہ خبر جنوبی پنجاب کے آخری ضلع کی ہے، مگر معلوم ہوتا ہے کہ ’’کلاس فور ایسوسی ایشن‘‘ پنجاب بھر میں موجود ہوگی۔ اگر انہوں نے کان پکڑے ہیں تو یہ بھی کوئی نئی بات نہیں، یہ ہر وقت افسر صاحب کے سامنے کان پکڑے رکھتے ہیں، جھاڑیں کھاتے اور بے عزتی کرواتے رہتے ہیں، اگر افسروں کے سامنے ان کی اہمیت ہے تو صرف اتنی کہ وہ ان کے زر خرید ملازم ہیں، ان کی کوئی خواہش نہیں، کوئی ضرورت نہیں۔ درجہ چہارم والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ تیسرے درجے سے بھی نیچے ہیں، انہیں کسی مطالبے کا کوئی حق نہیں۔ حق تو انہیں ہے جو حکمران ہیں، جو افسر ہیں، جو بیوروکریسی کہلواتے ہیں اور جو مقتدر ہیں، مراعات ان کے لئے ہیں، سہولتیں ان کے لئے ہیں، الاؤنس ان کے لئے ہیں، اختیارات ان کے پاس ہے، سب کچھ ان کا ہے اور ان کے لئے ہے۔ یہ لوگ کان پکڑیں اور جھاڑیں کھائیں۔

لرزنا اقتدار کے محل کا؛
قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں مزدوروں کے ساتھ سڑکوں پر آگئیں، تو اقتدار کے محل لرز جائیں گے۔ وہ پی آئی اے کے احتجاجی ملازمین سے خطاب کر رہے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار تھی تو اس دور میں بھی پی آئی کے ملازمین کو اسی طرح لاٹھی چارج سے تشدد کانشانہ بنایا گیا تھا، (تاہم اس وقت کسی مشکوک شخص نے فائرنگ کرکے ملازمین کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا تھا) اس وقت بھی یقینا مسلم لیگ ن وغیرہ نے اس تشدد کے خلاف احتجاج کیا ہوگا۔ یہ اپنے ہاں عام روایت ہے کہ ہر حکومت کے ایک جیسے ہی عمل اور اقدامات ہوتے ہیں اور ہر اپوزیشن بھی ایک جیسا مائنڈ سیٹ رکھتی ہے۔ باریاں بدل جاتی ہیں، مگر اقدامات اور بیانات نہیں بدلتے۔ چلیں خیر یہ تو حکومت اور اپوزیشن کی مجبوری ہے کہ اس نے اپنا اپنا کام کرنا ہے، اب حکومت نے اپنا کام کردیا ہے، اب اپوزیشن کا فرض ہے کہ وہ اپنا کام کرے، یعنی مزدوروں کے ساتھ مل کر سڑکوں پر نکل آئے تاکہ اقتدار کے محل لرز جائیں، عوام بھی یہ نظارہ دیکھ سکے۔ اگر اپوزیشن مزدوروں کے ساتھ سڑکوں پر نہیں آتی، اور ایوان ہائے اقتدار نہیں لرزتے تو یہی جانا جائے گا کہ حکومت اوراپوزیشن اندر سے ایک ہی ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427164 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.