تو کیا ہوا ! میں ایک معزز شہری ہوں

آج میری بیٹی کی سالگرہ ہے آفس سے نکلتے ہی میں نے ایک بیکری کا رخ تاکہ کیک لیکر ہی گھر جاؤں مشہور بیکری ہے گاڑیوں کی لمبی قطار پہلے ہی سے موجود تھی میں نے بھی اپنی گاڑی لائن میں لگادی سڑک تنگ ہوگئی راستہ رک گیا ٹریفک آہستہ آہستہ گزر رہاہے بلکہ جام ہونا شروع ہو گیا ہے کوئی بات نہیں اب میں کیا کروں کیک تو لینا ہی ہے اگر لوگوں کو تھوڑی سے تکلیف ہورہی ہے تو کیا ہوا ۔آخر میری باری آہی گئی کیک کو خوبصورت طریقے سے پیک کروایا ٹائم ہو گیا ہے گھر پر بیگم اور بچے انتظار کررہے ہونگے میں نے گاڑی کی رفتاری تیز کردی مگر ابھی آدھا راستہ بھی طے نہیں ہواتھا کہ ٹریفک جام میں پھنس گیا مجھے بہت غصہ آرہا ہے ہر کیسی کوجلدی ہے آگے نکلنا مشکل ہو گیا ہے سخت بھوک لگی ہے دوپہر کو کچھ نہیں کھا سکا تھا قریب ہی ایک ریڑھی والا نظرآگیا اس سے چپس خرید ے مزے مزے سے کھاتا رہا اور ٹریفک کا رش کم ہونے کا انتظار کرتا رہا کافی دیر لگ گئی چپس ختم ہوگئے چپس کے خالی پیکٹ باہر پھنک دئیے ،اب نئی گاڑی کوئی کوڑا کچرا رکھنے کے لئے تھوڑی ہے خدا خدا کرکے راستہ کھلا میں نے گاڑی کو ایکسلیٹر دیا اور گاڑی آڑانی شروع کردی روڈ صاف ہے مگر اف ! یہ سنگل سب سے زیادہ وقت خراب کرتے ہیں پھر بیگم کا پھولا ہو چہرہ اور غصیلی نظریں زہن میں آگیں اور گاڑی سنگل توڑکر آگے نکل گئی کون ہری لائٹ جلنے کا انتظار کرے گھر پہنچا تو خوب دھوم ڈھڑکا ہو ریا تھا تیز میوزک اہل محلہ کی سمع خراشیاں کر رہا تھا مگر میں خوش تھا سب کو معلوم تو ہو آج ہمارے بچے کی سالگرہ ہے اگر محلے والوں کو شور سے تکلیف ہے تو یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے بھلا خوشی کیوں نہ مائیں خوشیاں روز روز تو نہیں آتیں لوگ جلتے ہیں تو جلا کریں گھر روشنیوں سے جگمگ جگمگ کر رہا ہے فکر کی کوئی بات نہیں ہم رات کو پول میں کنڈہ ڈال دیتے ہیں فری کی بجلی ہے اور کیوں نہ ہم فری کی بجلی استعمال کریں بجلی والے دن رات لوڈ شیڈنگ کرتے ہیں مگر بل میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے یہ بجلی والے اتنے ظالم ہیں کہ نہ تو کیسی کی آمدنی دیکھتے ہیں نہ اہل خانہ کی تعداد ہر تھوڑے دن بعد اپنے ریٹ بڑھا دیتے ہیں ہم کیا کریں ہم تو معزز شہری ہیں لوگ ہمیں قانون کی خلاف ورزی کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔بجلی پر مجھے یاد آیا کہ آج جب میں آفس گیا تو مجھے خود اٹھ کر بلب روشن کرنے پڑے پنکھے چلانے پڑے میں جس ادارے میں اعلی عہدے پر فائز ہوں وہاں آفس ٹائم سے ایک دو گھنٹے پہلے ہی تمام بلب روشن کردئیے جاتے ہیں چار عدد پنکھے پوری رفتار سے چلادئیے جاتے ہیں اگر اے۔سی لگا ہو تو وہ بھی چلا دیا جاتا ہے چونکہ سرکاری دفتر ہے لہذا آفسر حضرات حسب اوقات اپنی مرضی سے دو گھنٹہ دیر سے دفتر آئیں یا چارگھنٹے بعد یا بریک کے بعد آئیں کوئی فرق نہیں پڑتا بجلی کا حساب کون لیتاہے تو پھر میرے ساتھ یہ نارواسلوک کیوں میں نے چپراسی کو بلاکر خوب ڈانٹ پلائی کہ ائندہ ایسی حرکت نہیں کرنا آخر میں بھی ایک آفسر اورمعزز شہری ہوں-

میں آفس کے وقت ختم ہونے کے بعد تک کام کرتا ہوں کیونکہ ضروری اور ارجنٹ کام آ فس ٹائم کے بعد ہی ہو تے ہیں کیونکہ اس وقت بہت سے قائد اعظم ہمارے دل کے قریب آتے رہتے ہیں( یعنی ہماری جیب میں) اس وقت جو ڈیلنگ ہوتی ہے اسی پر ہماری خوشگوار زندگی کا دارومدار ہے ورنہ اس مہنگائی ہیں سوکھی تنخواہ پر کہاں گزارہ ہوتا ہے-

سالگرہ کی تقریب میں بہت سے تحفے تحائف آئے ہیں مہمانوں کے جانے کے بعد ہم سب نے مل کر انھیں کھولا بہت خوشی ہوئی میں نے بچوں سے کہا مجھے سخت نیند آرہی ہے صبح اسکول بھی جانا ہے آپ سب ڈبے کا غذ باہر پھنکیں اور سونے کی تیاری کریں۔ اسکول کا نام لیتے ہی میری بیٹی میرے پاس آئی اور روتی ہوئی آواز میں کہنے لگی ابو آج میری مس نے مجھے بہت ڈانٹا ہے وجہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں کلاس کی دیوار پر قلم سے ہیپی برتھہ ڈے لکھ ری تھی اور مس نے کہا کہ اپکے ناخن بھی گندے ہیں یہ سن کر میرا خون کھول گیا وہ کون ہوتی ہے میری بچی کو ڈاٹنے والی ہم فیس دیتے ہیں مفت تھوڑی پڑھارہے ہیں میں نے بچی کو تسلی دی بیٹا فکر نہ کرو صبح جاکر اپکی مس کی خبر لیتا ہوں کیا سمجھتی ہے کیسے اس نے تمیں ڈانٹااسے معلوم نہیں تم ایک اعلی افسر کی بیٹی ہوں میں ایک معزز شہری ہوں۔
Amna Khatoon
About the Author: Amna Khatoon Read More Articles by Amna Khatoon: 17 Articles with 36207 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.