ہماری ماں ہمارا جہاں

 معاذ جانباز

’’آپ کی والدہ کو ڈبل نمونیہ کی شکایت ہے۔ آپ کا مریض فوری طور پر آئی سی یو میں داخل ہونا چاہئے‘‘۔ میڈیکل سپیشلسٹ کے یہ الفاظ میری سماعتوں سے ٹکرائے تو میں نے ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں فیصلہ کرتے ہوئے کہا ’’جی بہت اچھا آپ والدہ صاحبہ کو ابھی ایڈمٹ کریں‘‘ اور ڈاکٹر بیماری کی ہسٹری اور ادویات لکھنے میں مصروف ہو گیا۔ 7 جنوری 2016ء کی رات ساڑھے آٹھ بجے کے قریب والدہ محترمہ کو آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا اور 11 جنوری کی رات 2 بجے کے قریب وہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ اس دوران انہیں وینٹی لیٹر پر بھی لے جایا گیا۔ ملک کے نامور ڈاکٹرز کے بورڈ نے ان کی جان بچانے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن وہ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی کی منازل طے کرنے کیلئے تیار تھیں۔ آج جب میں ان کے شب و روز پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے وہ ہجوم سے کنی کتراتے نظر آتی ہیں ہاں البتہ اپنی اولاد کے لیے وہ مشترکہ خاندانی نظام کے تمام مسائل کو نہ صرف خندہ پیشانی سے قبول کرتی ہیں بلکہ اپنے حصے سے زائد کام بغیر کسی صلے یا ستائش کے کرتی ہیں۔ انہوں نے خود میٹرک تک تعلیم حاصل کر رکھی تھی اس لیے وہ ہم سات بہن بھائیوں کی تعلیم کے معاملے میں ازحد حساس واقع ہوئی تھیں۔ برادر اکبر شعیب خرم جو آج کل چیف ٹریفک آفیسر راولپنڈی ہیں ان کی ابتدائی تعلیم میں والدہ محترمہ نے یوں حصہ ڈالا کہ کبھی آٹا گوندھتے ہوئے اور کبھی ہنڈیا میں چمچ چلاتے ہوئے ان کا سبق سن رہی ہیں یا پڑھا رہی ہیں۔ ستمبر 2002ء میں جب مرحوم والد نے مجھے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کروانے کا فیصلہ کیا تو بہت خوش نظر آ رہی تھیں اور پھولے نہیں سما رہی تھیں۔ اس موقع پر خاندان کے دیگر افراد نے انہیں یہاں تک کہا کہ آپ کا جو بیٹا ذرا سا بڑا ہوتا ہے آپ اسے پڑھنے کے لیے دوسرے شہر بھیج دیتی ہیں‘ پہلے ان کے والد نے ساری عمر باہر گزار دی اور اب باری باری انہیں بھیج رہی ہیں۔ مجھے یاد ہے اس موقع پر بھی ان کی تعلیم دوستی نے ہی ایسے افراد کے سوالات کے جواب دیئے تھے۔ وہ پاکستان کی بانی جماعت اور مشاہیر تحریک پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ اسی طرح وہ کرکٹ میچ میں پاکستان کی جیت کی دعائیں کرتی رہتی تھیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ پاکستان کی جیت سے ہم بہن بھائی خوش ہوتے ہیں اس لیے وہ اپنی اولاد کو خوش دیکھنے کے لیے کرکٹ کو نہ سمجھتے ہوئے بھی میچ دیکھ رہی ہوتیں اور ساتھ ساتھ ہم سے پوچھ بھی رہی ہوتیں۔انہوں نے چار نسلوں کی خدمت کی۔ اس دوران ان کی وفا شعاری اور سلیقہ شعاری میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی۔وہ ہرحیثیت میں باوفا،باصفااورسراپاصبروشکر تھیں۔انہوں نے بیوی اورماں کی حیثیت کے ساتھ ساتھ زندگی بھر ہررشتہ خوب نبھایا۔ اپنے مرحوم ساس‘ سسر‘ دیور‘ جیٹھ‘ اپنی اولاد اور ان کی اولاد سب کے کام کر کے وہ انتہائی خوشی محسوس کرتیں۔ انہوں نے کبھی کام کی زیادتی یا گھر میں آنے والے مہمانوں کی وجہ سے کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہ کیا بلکہ ہمیں وہ کہا کرتی تھیں کہ جب مہمان زیادہ ہو جاتے ہیں میں اپنے ورد‘ وظیفے میں بھی اضافہ کر دیتی ہوں تاکہ تم لوگوں کا رزق بڑھ جائے۔ وہ ہم بھائیوں کو کہا کرتی تھیں کہ جیسے تم لوگ پڑھ لکھ گئے اسی طرح کوئی بھی تعلیم کے لیے تم سے پیسے طلب کرے تو اسے ضرور دینا اسے انکار نہیں کرنا۔

ان کی سادہ لوحی اور سادگی کی سینکڑوں مثالیں ہیں جو خاندان بھر میں سنائی جاتی ہیں۔ وہ زندگی بھر لفظ فرمائش سے جیسے ناآشنا ہی رہیں۔ انہوں نے کبھی کسی سے مطالبہ نہیں کیا نہ اپنے والدین سے نہ اپنے شوہر سے نہ اپنی اولاد سے…… انہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں اپنی ہستی سے بڑھ کر طاقت لگائی ا وراپنے حقوق کی بات آنے پر وہ کہیں چھپ جاتیں۔ اگر ہم میں سے کسی نے کسی ضرورت کے متعلق پوچھا تو وہ راضی‘ مطمئن اور آسودہ حال نظر آئیں‘ شکوہ‘ شکایت‘ گلہ‘ رونا دھونا‘ طعنہ‘ چغلی یہ وہ الفاظ ہیں جن سے وہ سخت نفرت کرتیں تھیں۔ انہیں اپنا حق لینا آیا اور نہ جتانا آیا۔ اگر کبھی دل پر جبر کر کے وہ اپنے حق لینے کے لیے آمادہ ہوئیں بھی تو جلد ہی اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیا جیسے اپنی ذات کی کوئی بات کر کے کسی گناہ کے ارتکاب کا اندیشہ ہو۔ ہماری چھوٹی بہن کو اکثر کہتی تھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے جن نعمتوں سے ہمیں نواز رکھا ہے ان کا حساب ہونا ہے اس لیے میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرتی رہتی ہوں۔

جس دن ان کو اسپتال میں داخل کروایا گیا اس روز بھی کسی سہارے کے بغیر سیڑھیاں اتر کر گاڑی تک گئیں۔انہیں سہارا لینا پسند ہی نہیں تھا۔ انہوں نے زندگی بھردوسروں کا سہارا بننا سیکھا اور ہمیں اپنے عمل سے بتلایا۔ وہ جتنی زیادہ کم گو تھیں اتنی ہی زیادہ عبادت گزار‘ پابند صوم و صلوۃ اور تہجد گزار تھیں۔ مجھے ایک دفعہ بتایا کہ انہوں نے 13 سال کی عمر میں رمضان المبارک کے روزے رکھنے شروع کیے تھے اور گزشتہ 3 سال سے شدید گرمی کے روزوں کی وجہ سے میرے بھائی عثمان اور وقاص انہیں روزہ نہ رکھنے کو کہتے تو وہ کہتی پتہ نہیں اگلے سال مجھے روزے رکھنے نصیب ہو ں یا نہ ہوں۔ اسلئے میں ضرور روزے مکمل کروں گی۔

اب میں سوچتا ہوں وہ جانے سے پہلے یہ تو بتا جاتیں کہ عثمان کے ناراض ہونے پر اسے معاذ منائے گا یا فریحہ؟ وقاص کا بیگ کاشرہ تیار کرے گی یا وقاص خود ہی یہ ذمہ داری اٹھا لے؟ حماد کس کو روز فون کرے؟ شعیب بھائی کے آنے سے پہلے گھر کی صفائی کس طرح ہوگی ؟ علی اور حسن آلو والے پراٹھے کی فرمائش کس سے کریں؟ یوشع‘ موسیٰ اور خضر لاہور امی کس کو بلایا کریں گے؟ اب میں سوچتا ہوں ۔
ماں …… باوفاباصفا ماں معاذ جانباز
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.