ویلنٹائین ڈے۔

بہت سے ایسے دن بہت کوششوں سے اس ملک کے لوگوں کو سکھلائے جا رہے ہیں جسے لوگ اپنانے کو تیار ہی نہیں ہیں لیکن کچھ ایسے عناصر جو غیر ممالک کے تہواروں کو ہمارے کلچر کا تہوار بنانے کے لئے کمر بستہ ہیں کہ کسی طرح ہماری ثقافت سے ہم آہنگ ہو جائے۔ لیکن کیا ہمارے لوگوں کو اس کی اصل حقیقت سے آگاہی ہے یا بس اسکول کے بچوں کوجو معلومات بھی نہیں رکھتے وہ اس اس دن کے حوالے سے لڑکیوں کو ویلنٹائین کے کارڈ پیش کر کے یہ شعور اجاگر کرنا کہ وہ اس عمر سے ہی محبت کی طرف مائل ہو جائیں اور اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر لیں۔ حالانکہ یہ ایک عیسائی پادری کا آخری خط ہے جو اس نے اپنی سولی سے قبل لکھا اور اسمیں اس نے تمھارا ویلنٹائن لکھا۔ اس خط کا چرچا ہوا اور اس خط کے ان الفاظ کو محبت کی علامت کے طور پر استعمال کیا جانے لگا یہ سلسلہ کافی عرصہ یورپی ممالک میں چلتا رہا اور پھر امریکہ میں بھی کافی مقبول ہوا جبکہ برطانیہ ہم پر حکومت کرتا رہا لیکن اپنی حکمرانی کے دوران اسے اس خطہ میں ویلنٹائین ڈے کو متعارف کرانے کا خیال کیوں نہیں آیا لیکن اب ہمارا میڈیا اسے تمام دنیا میں ایک مشترکہ تہوار بنانے پر کمر بستہ ہے۔ خود برطانیہ میں اسے اٹھارویں صدی میں رومانوی دنیا کے لوگوں میں عاشق اور معشوق ایک دوسرے کو تحائف دے کر اپنی محبت کا یقین دلانے کی روایت پڑی۔

جبکہ پادری ویلنٹائن کو بعض روایات کے مطابق ۱۹۷ء میں بعض کے مطابق ۴۹۶ء میں سزا دے کا اسکی زندگی کا خاتمہ کیا لیکن مرنے سے پہلے اپنی محبوبہ کو خط لکھا جس کے مطابق یہ دن منایا جانے لگاؤ تاریخ دانوں نے تاریخ کو نئے سرے سے ۱۹۶۹ء میں اس کو ایک زبردست عاشق کے طور پیش کر کے اس کی محبت کو خراج تحسین پیش کر کے اس کی پھانسی کے دن ۱۴ فروری کو ویلنٹائن کا دن قرار دے کر منانے کافیصلہ کیا اور یے روایت ان ممالک میں پڑی لیکن اس میں اتنا زور و شور نہیں تھا لیکن اب دنیا بھر کا میڈیا اس کی تشہیر میں سرگرداں ہے اور اسے خراج تحسین پیش کر کے ہمارے جیسے ممالک میں اس روایت کو فروغ دینے کے لئے زبردست جدو جہد میں لگا ہے۔ اور ہمارا میڈیا اپنی آمدنی بڑھانے کو ظنکھوں پر پٹی باندھے بھگا چلا جا رہا ہے اسے ملک سے زیادہ اپنی آمدنی اور اشتہاروں کی فکر ہے وہ تمام تفکرات سے آزاد معاشرہ پر ان اثرات سے بالکل ظنکھیں بند کئے بیٹھا ہے۔

ہمارے معاشرہ میں اس کلچر کو فروغ دینا کہ لڑکی اور لڑکے آپس میں ایک دوسرے کو تحفے دیں اور کھلے عام اس کی تشہیر کریں جو ہماری روایت سے مطابقت نہیں رکھتا ہاں اس معاشرہ میں آزاد خیال لوگ اس تشہیر کا حصہ ضرور بن جاتے ہیں اور ہمارے معاشرہ میں اس طرح کے دنوں کو فروغ دے کر غیر ملک ایجنڈے کو کامیاب کرتے ہیں۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے بسنت میلہ کا زبردست چرچا ہوا اور پورے ملک میں اس میلے کے انعقاد کے اقدامات کرنے کے لئے بڑے جتن کئے گئے اوربڑے بڑے ہوٹلوں میں باضابطہتقریب اور پتنگیں اڑانے کے اقدامات کئے جاتے تھے۔ لیکن شاید اب زور دوسری طرف ہوگیا اس شد و مد سے بسنت میلے اب نہیں ہوتے۔

یہ بالکل اسی طرح ہے کہ یہ دن اس شخص کی پھانسی کی یاد میں ہندو مناتے تھے جسے حضو ر ﷺ کی شان میں گستاخی پر سزائے موت دی گئی تھی اور ہندو نے اس روایت کو فروغ دیا کے اس دن اسکی یاد میں میلوں کا انعقاد کیا جس میں پتنگیں بھی اڑائی جاتی تھیں اس میلے کو اتنا بڑھاوا دیا گیا کہ پورا معاشرہ بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے مقابل بازی کا رجہاں فروغ پا گیا اب انہیں یہ بات بھی معلوم نہیں کہ اسے کیو منایا جاتا ہے۔ تو یہ تہوار اس طرح فروغ پاتے اور کہاں سے کہاں معاشرہ کو پہنچا دیتے ہیں۔

اب یہ فادرز ڈے مدرز ڈے کیا ہے یہ یورپی معاشرہ کا حصہ ہیں جہاں بچوں کو اس بات پر راغب کرنے کے لئے ان تہواروں کو معاشرہ کا حصہ بنایا کہ کسی نوجوان اپنے ماں باپ سے کسی حوالے سے تعلق جوڑیں۔ کیونکہ بالغ ہوتے ہی وہ اپنی دنیا سے ماں باپ کو خارج کر کے اپنی مرضی سے زندگی گزارتے ہیں جہاں کسی بھی قسم کی رکاوٹ نہیں ہوتی وہ اس دنیا میں ایسے گم ہوتے ہیں کہ اپنے ماں باپ سے ملے مہینوں اور سالوں کا وقفہ ہو جاتا ہے انہیں راغب کرنے اس قسم کے تہوار کا سہارہ للیا جاتا ہے۔جو ماں باپ کو اس دن کے حوالے سے یاد کر لیتے ہیں یا فون کر کے ان کو وش کرتے ہیں۔ اب اس کلچر کو اس ملک میں فروغ دے کر ہمارے معاشرہ میں اسی طرح کا بگاڑ پیدا کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ہمارے نوجوان نسل کو ان تمام حقایق سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے اپنے کلقر اپنی روایات سے جڑے رہے ہی میں بھلائی ہے۔ اب دیکھیں کہہمارا معاشرہ کس سمت سفر کر رہا ہے میڈیا میں لوگ کس طرح سے معاشرہ میں نئی نئی جددتیں پیدا کرنے کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ ایک طرح سے نوجوان نسل کو اپنی روایات سے نفرت کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔ کسی بھی معاشرہ کو تباہ کرنا ہو تو نوجوان نسل کو اپنی روایت سے نفرت دلا کر دوسرے کلچر کو فروغ دو تاکہ غیر ملکی ایجنڈہ پر کام کرنا آسان ہو جائے۔

ہمیں چاہئیے کہ ایسی تمام کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دیں اور اپنی نسل کو اس کس فریب سے دور رکھیں۔ یہ تمام لکھاریوں کی زمہ داری ہے کہ معاشرہ کو آگاہ رکھیں۔ اب اگر کسی کو وہ کلچر پسند ہو تو ان ممالک میں جا کر خود کو ان ہی میں ڈھال کر وہیں رچ بس جائیں اس معاشرہ کو ٹھیک کرنے کا غیر ملکی ایجنڈا یہاں فورغ نہ دیں۔ ویسے بھی میڈیا اپنے چینلوں پر جو خبریں اور اشتہار چلا رہا ہے وہ ہی اس معاشرہ کو بگاڑنے میں کلیدی کردار کا باعث بن رہے ہیں۔ کہ بے چارے انور مسود صاحب کو بھی کہنا پڑا کہ ،، چل رہے تھے اشتہار اچھے بھلے، ڈراما آن ٹپکا خامخاہ ،،
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 74946 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More