اندھے قانون کی اندھی پولیس (آخری قسط)

 یہ خاک نشیں چونکہ پولیس کے کسی سودے کے خریدار نہیں ۔۔۔۔۔اس لئے شاید آ نکھیں مکمل طور پر اندھی اور کان بہرے نہیں ہوئے ابھی تک ۔۔۔۔۔ ورنہ تو اندھے بہروں کی اس بستی میں انسانیت کی بد ترین تضحیک اور تذلیل پرجہاں باقی سب چپ ہوں۔۔۔۔۔۔وہاں آنکھیں بند کر کے اور کان لپیٹ کر جینا کچھ مشکل نہیں ۔۔۔۔۔۔لیکن ہماری یہ جان ۔۔۔ اوریہ قلم ۔۔۔۔سب اﷲ کی امانت ہے اس لئے سچ بات لکھتے ہوئے کوئی خوف ہے نہ کسی قسم کا احساس ندامت جسکا نتیجہ یہ کہ آنکھوں کی بینائی تھوڑی بہت باقی ہے ۔۔۔۔۔ اور یہ آنکھیں ابھی ظلم و زیادتی ،نا انصافی اور ڈرامے بازی کی کارکردگی میں فرق دیکھنے کے قابل ہیں ،دل مردہ نہیں ہوا اسلئے بے گناہ مارے جانے والوں کی کلیجے پیٹتی ماؤں کے درد کو محسوس کر رہا ہے ۔۔۔ قلم میں عمر بھر ظلم ڈھانے والے اورجعلی کہانیاں گھڑ گھڑ کے جھوٹے پرچے دینے والے کسی محرر کی طرح رشوت کی سیاہی نہیں اس لئے شکستگی کے آثار نہیں۔ اگر ہم لکھنے والے ہیں سماجی نا انصافیوں اور برائیوں کے خلاف ہمیں ضرور لکھنا چاہئے اورلکھنے کے لئے اس سے بڑا سچ شاید کوئی نہیں ۔۔۔۔ اورمیں پوری دیانتداری وذمہ داری سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
’’ آج جس معاشرے میں ہم سانسیں لے رہے ہیں یہاں پولیس کا فرسودہ گھسا پٹا اور جبر کا نظام سماجی برائیوں اور خرابیوں کی جڑ ہے اور پولیس مخالفین کی تذلیل کروانے ،انہیں رگڑا دینے اور یہاں تک کہ کسی کی جان لے لینے کا سب سے بڑا ’’قانونی ذریعہ ‘‘ہے۔۔۔۔ کبھی کبھی تو میں ان فرضی داستانوں کو پڑھ کر حیران رہ جاتا ہوں جو ایف آئی آر زمیں لکھی ہوتی ہیں ان میں سے اکثرو بیشتر بالکل ایک جیسی ہوتی ہیں اور ان کا سکرپٹ اتنا کمزورہوتا ہے کہ بعض اوقات توایف آئی آر کو پڑھتے ہی بے اختیا رہنسی نکل جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ آخر اتنے قابل اور لائق فائق اعلیٰ افسران کو ان پر کیسے یقین آجاتا ہے ۔۔۔ ؟ لیکن سب چل رہا ہے ۔۔۔ تھانے مک مکا کرانے کے سب سے بڑے مراکز بنے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ مصالحتی کمیٹیوں کے نام پر جو کچھ ماضی میں ہوا وہ ڈھکا چھپا نہیں بلاشبہ انصاف فراہم کرنے کے نام پر وہ ایک ایسی مشق تھی جس نے پولیس کو اور بھی زیادہ طاقتور اور باختیار بنایا، گھریلو معاملات اور کاروباری لین دین سب تھانے کے سپرد ہو گیا۔۔۔۔نتیجہ یہ کہ لین دین کے بہت سے معاملات اب طے ہی پولیس کے ذریعے ہو تے ہیں،ایک جھوٹی ایف آئی آر درج کریں ۔۔۔اور معاملہ پار۔۔۔۔، غور کریں کہ سیاسی مداخلت اور اوپر سے دباؤ کا جعلی رونا رونے والی پولیس اس وقت کس قدر اختیارا ت کی مالک ہے۔۔۔ یہ شان و شوکت ۔۔۔جاہ و جلال ۔۔۔۔۔ پر تعیش طرز زندگی ۔۔۔۔۔لا محدود مراعات ۔۔۔ ۔۔۔۔ جدیدآسائشیں ۔۔ ۔ اور آخر میں پرفارمنس یہ کہ انصاف کی راہ کا سب سے بڑا پتھر پولیس ہے ، عام طور پر جو شہری لٹ جاتا ہے یا جس کی چوری ہوتی ہے اسے پولیس سے کسی قسم کی امید یں وابستہ نہیں ہوتیں اور نہ ہی اسے رکھنی بھی چاہئے لیکن کسی افسر کی انفرادی کاوش سے ایسا کوئی اکا دکا کیس حل ہو جائے تو پولیس ایسے میڈیا اکٹھا کر کے بیٹھ جاتی ہے گویا یہ اس کا فرض نہیں ملک و قوم پر بہت بڑا احسان ہو۔۔۔۔۔ان کا رروائیوں میں سے آدھی تو ویسے ہی ’’فارغ ڈاٹ کام‘‘ ہوتی ہیں،پولیس کی جعلی کا روائیوں اور مجرمانہ طرز عمل ہی کی وجہ ہے کہ بعض معاملات میں قبر کشائیوں کے تکلیف دہ عمل کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ تھانوں تفتیش کا عمل اسقدر بھونڈے انداز میں مکمل کیا جاتا ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے ، وہاں تفتیشی افسر ایک نکا سا اے ایس آئی آپ کو ایک مکمل ’’ابلیسی ‘‘روپ میں ملے گا آپ بے شک جتنے مرضی ثبوت دکھا دیں ۔۔جتنی مرضی گواہیاں بھگتا دیں ۔۔۔اگر اس نے دوسری پارٹی سے مال کھا لیاہے تو آپ کی اس کے آگے ایک نہیں چل سکتی۔۔۔آپ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ یہ رعایت ہو سکتی ہے کہ اگر آپ بھی اسے مال لگائیں تو تفتیشی کی آپ پر گھن گرج کچھ کم ہو جائے گی اور آپ کی بے عزتی کی شرح میں بھی کمی واقع ہو جائے گی لیکن اس کے باوجود اس کی مرضی پہ منحصر ہے کہ وہ تفتیش میں کیا لکھتا ہے اور کس کا ساتھ دیتا ہے۔

ابھی کل پرسوں ہی تھانہ ستراہ کی پولیس نے بھی اپنے پیٹی بھائیوں کا سر پیشہ وارارنہ مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے فخر سے مزید بلند کر دیا ہے جب مبینہ طور پر چوری کے ایک ملزم کے والد کو گرفتار کر کے سخت سردی میں اس پر اپنے ’’فن ‘‘ کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں بوڑھی روح اس شدید تکلیف کو برداشت نہ کرتے ہوئے پرواز کر گئی ،یہ تو ان کا حال ہے کہ ابھی یہ تک معلوم نہیں کہ اسکا بیٹا بھی چور تھا کہ نہیں باپ کو تشدد کر کے مار ڈالا، ۔۔۔۔۔یہاں ملزم اور مجرم میں کوئی فرق نہیں ۔۔۔خود ملزم ہاتھ نہیں آتا تو کوئی بات نہیں تو اسکا باپ یا بھائی ہی سہی ۔۔۔۔ رشوت کے پیسے پورے کرنے کی غرض سے بس چیرنے پھاڑنے کو ایک انسان چاہئے جسکی فریاد ، چیخیں اور آہیں تسکین کا ساماں کر سکیں ۔۔۔۔۔ شایدان چیخوں کا مزاسول لائن تھانے میں ’’ منی بدنام ہوئی ‘‘ پر ہونے والے رقص سے بھی زیادہ آتاہو گا ۔اخبارا ت ہیں کہ دلخراش واقعات سے بھرے پڑے ہیں ، ایک خبر کراچی سے بھی ہے جہاں ویسے بھی انسانی لہو شاید سب سے سستا ہے ۔۔۔۔ خبر کے مطابق کراچی پو لیس نے دو بیٹے ’’ راہزن ‘‘ بنا کرپھڑکا دیئے مگر اب اطلاعات آ رہی ہیں کہ وہ بھی بے گناہ تھے انکے پاس موٹر سائیکل کے کاغذات وغیرہ بھی موجود تھے ۔۔ یہ افسوسناک کہانیاں ہمارے چاروں چاروں طرف بکھری پڑی ہیں۔۔۔ اب یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم ان پر نظر ڈالیں یا آنکھیں بند کر کے پولیس تشدد زدہ کسی لاش کے پاس سے منہ پر رومال رکھ کر گزر جائیں۔ ویسے مجھے تو ہمیشہ تھانے کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک عجیب سی ’’بدبو‘‘ محسوس ہوتی ہے اور وہاں سے گزرتے ہوئے ناک بند کر لینے کو جی چاہتا ہے کیا آپکو بھی کبھی ایسا محسوس ہوا ہے۔۔۔۔۔؟ سوچتا ہوں پاکستان ایک قانون دان نے بنایا تھامگر افسوس یہاں قانون کی حکمرانی پر آج بھی بہت بڑا سوالیہ نشان لگاہوا ہے ، ملک میں قانون کی صورت میں عدالتیں موجود مگر انصاف ناپید ہے ،جیلوں میں سڑنے والے کتنے ہی بے گناہ ہیں جن کی عمریں پولیس کی گھٹیا تفتیشوں کی نذرہو گئیں اور عمر بھر کے لئے زندان ہی ان کا نصیب ٹھہرا ہے ، یہاں قانون لوگوں کو انصاف نہیں دیتا یہاں تک کہ لوگ ’’ڈون‘‘ بن جاتے ہیں اور خود مخالفین سے انتقام لیتے ہیں ،پولیس اور جیلیں جرائم کو کم نہیں کرتیں ان میں اضافہ ہی کرتی ہیں۔ ظلم کی یہ داستانیں نہ جانے کبھی ختم ہوں گی یا نہیں ۔۔۔ ۔ذمہ داران اپنی ذمے داری کوسمجھیں گے یا نہیں۔۔۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن دل میں ا نسانیت کا ہلکا سا بھی درد رکھنے والوں کے لئے انسانی حقوق کی یہ کھلی خلاف ورزیاں ناقابل برداشت ہونی چاہئیں ، جیتے جاگتے بے گناہ انسان اس تشدد ،تذلیل، گالی گلوچ اور ناروا سلوک کے قطعی مستحق نہیں جو پولیس کی جانب سے ان کے ساتھ روا رکھا جا رہاہے۔گوجرانوالہ کے اخبارات اور دنیا بھر میں دیکھی جانے والی ویب سائیٹس کے مدیران جنہوں نے میری تمام تحریریں جوں کی توں شائع کیں اور ان تمام دوستوں کا شکریہ جنہوں نے فون کالز اور ایس ایم ایس کے ذریعے میری اس ادنیٰ سی کاوش کو پذیرائی بخشی ’’اندھے قانون کی اندھی پولیس ‘‘ کا سلسلہ یہیں ختم کر رہا ہوں اس دعا کہ ساتھ کہ میرے ملک میں چلنے والی ظلم وزیادتی اور جبر کی آندھیاں تھم جائیں اور پولیس کے رحم و کرم پر جینے والے یہاں کے عوام کو اعلیٰ درجے کے شہری نہ سہی مگر کم ازکم انسان تو تسلیم کر لیا جائے ۔(ختم شدہ)
Faisal Farooq
About the Author: Faisal Farooq Read More Articles by Faisal Farooq: 107 Articles with 66847 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.