کیا مہاتما گاندھی نے پاکستان کی خاطر گولی کھائی تھی؟

30 جنوری - گاندھی جی کی برسی ہے
صاحبو ‘ احوال اس ہفتے کا یہ ہے کہ اپنے پیر و مرشد جناب ہشت پہلو صاحب نے کچھ ایسے انکشافات کیے ہیں کہ ہم سب کے منہ مگر مچھ کی طرح کھلے کے کھلے ہی رہ گئے ہیں -
العجب ! العجب !

در اصل چند دنوں پہلے کی بات ہے کہ انہوں نے ایک محفل میں سوال کیا کہ دوستو بتاؤ تو سہی قاتل کیسا ہوتا ہے - یارو سب کو علم ہے کہ ہر بچہ مختلف ان دیکھی ہستیوں کے بارے میں اپنا ایک تصوراتی خا کہ بنا لیتا ہے - سو ہم سب نے اپنا الگ الگ راگ الاپا - ہم نے کہا کہ ہمارے ذہن میں جو تصور آتا تھا وہ اس طرح تھا کہ قاتل کی موٹی موٹی، پھیلی ہوئی، لال رنگ کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ جن سے وحشت ٹپک رہی ہوتی ہے - دوسرے صاحب نے کہا کہ حضرت ان کی باتیں چھوڑئیے یہ تو ایسا ہی سوچتے رہتے ہیں - قاتل کا تصور کرتے ہی خیال میں آتا ہے کہ وہ ان پڑھ جاہل ہو گا - اگر ، شلوار قمیض پہنی ہو گی تو ملگجی سی - ایک پائینچا اوپر ایک پائینچا نیچے، پیروں میں مٹی سے اٹی ہوئی چپل پہنے ہوئے ہو گا - اور اگر پتلون قمیض پہنے ہوئے ہو گا تو عجب بے ڈھنگی اور میلی کچیلی جیسے مہینوں سے اتاری نہ گئی ہو -

تب میاں ہشت پہلو نے کہا بس بس میاں ، دیکھ لی تم سب کی سوچ کی اپروچ اور سمجھداری کی دھاری۔ سنو ایک قاتل ایسا بھی گزرا ہے جو دانشوروں کے زمرے میں آتا تھا اور دو اخبارات کا ایڈیٹر بھی رہ چکا تھا۔

تو صاحب یہ وہ بات تھی جس کے سننے کے بعد ہمارا منہ کھلے کا کھلا ہی رہ گیا تھا - دوسرے صاحب انگشت بدنداں رہ گئے تھے اور ایک تیسرے صاحب چائے کی پیالی ہونٹوں کی جانب لے جا رہے تھے ان کا ہاتھ تو وہیں کا وہیں ساکن ہو گیا -
“نہیں ! “ سب کے منہ سے اچانک بے ساختگی میں یکبارگی نکلا -
“ہاں “ بھائی ہشت پہلو نے سنجیدگی سے کہا - “ گاندھی جی کا قتل اسی ماہ جنوری میں ہوا تھا اور قاتل ایسا نہیں تھا جیسا کہ آپ لوگوں کے تصور میں تھا بلکہ وہ تھا جو میں بیان کر رہا ہوں، اچھا یہ تو بتاؤ یہ قتل کیوں تھا ؟ “

لگتا تھا کہ میاں ہشت پہلو ہم سب کے دعوے(کہ معلومات عامہ پر ہمیں پورا عبور ہے) کو آج غارت اور اکارت کی قبر میں دفن کر کے دم لیں گے۔ سو ہم سب نے شرمندوں کی سی صورت بنا لی اور قالین پر بنے بیل بوٹوں کو دیکھنے لگے۔ میاں ہشت پہلو نے مزید اضافہ کیا۔ پاکستان کی موجودہ نئی نسل کو تو چھوڑیں پرانی نسل کو بھی آج تک نہیں پتا کہ گاندھی جی نے آج سے اڑسٹھ برس پہلے 30 جنوری 1948ء کو پاکستان کی خاطر گولی کھائی تھی اور اپنی جان دی تھی، ہم سب جو محفل میں بیٹھے تھے اٹھ کھڑے ہوئے - یہ تسلیم کہ بھائی ہشت پہلو معلومات کی پوٹ ہیں۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے، اس بات پر بھی سر جھکا لیتے ہیں کہ تاریخ کے مختلف گوشوں کی تہہ تک ان کے ذہن کی رسائی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی ہر بات بے چوں و چراں تسلیم کرلی جائے غلط ہے - میاں ہشت پہلو نے ہمیں زبردستی بٹھایا اور بولے “صاحبان و مہربان تاریخ بڑی ظالم اور سنگ دل شے ہے - اس کا مطالعہ بعض مرتبہ یقین کامل پر ایسے گھاؤ لگاتا ہے کہ آدمی مدتوں زخموں کی جلن محسوس کر کے بے چین ہوتا رہتا ہے - لیکن ‘ ایک صحیح فرد ہونے کے ناطے سب کا فرض بنتا ہے کہ انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور وسعت قلبی سے کام لیں - اسی میں اقوام کی، ممالک کی اور دنیا کی بھلائی ہے اور اسی میں امن کا راز پنہاں ہے - یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم سب بت بن چکے ہیں، بے جان بت - صرف ہشت پہلو صاحب کی آواز ہی سنائی دے رہی تھی، کبھی دور سے، میدانوں، عمارتوں سے بھی زیادہ دور سے اور کبھی قریب سے جیسے چائے کے کپ کی اڑتی ہوئی بل کھاتی ہوئی بھاپ سے - شاید تاریخ کے چھپے ہوئے گوشے بے نقاب ہوتے ہوں تو ایسی ہی کیفیت ہوتی ہو - بھائی ہشت پہلو بولے جا رہے تھے - برصغیر کی تقسیم کا منصوبہ قبول کرنے والی کئی ہستیاں اس تقسیم کے سخت مخالف تھیں، اس میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی اور کانگریس بھی - لیکن یہ امر بھی اپنی جگہ قابل غور ہے کہ جب تقسیم ہند کا منصوبہ منظور ہو گیا اور اس پر عمل درآمد بھی ہو گیا تو کئی اچھے ذہن کے حامل افراد ان خطوط پر سوچنے لگے کہ جو ہوا سو ہوا، اب دنیا کے ترازومیں پاک و ہند کے اوپر اٹھے ہوئے ہلکے پکڑے کو کیسے برابری کی سطح پر لا کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ سرحد کی دونوں جانب نفرت کے الاؤ بجھ جانے چاہئیں اور ترقی کی شمع لے کر دنیا کے آگے بڑھتے ہوئے اقوام کی فہرست میں نام ڈلوانے کی جدو جہد کرنی چاہیے - اسی جذبے کے تحت مولانا ابوالکلام آزاد نے خان عبدالغفار خان کو پاکستان بننے کے بعد مشورہ دیا تھا کہ اب تم مسلم لیگ میں شامل ہو جاؤ -

جنوری 1948ء میں جب بھارت نے پاکستان کے حصے کے 55 کروڑ روپے (اور جمیل الدین عالی مرحوم کے مطابق 90 کروڑ روپے) روک لیے تو گاندھی جی پورے جی جان سے بھارت سرکار کے اس فیصلے کی مخالفت کے لیے کھڑے ہوئے۔ انہوں نے بھوک ہڑتال پر جانے کا اعلان کیا - بھارت سرکار میں ہلچل مچ گئی - وہ ان کی طاقت سے بخوبی آگاہ تھی - چنانچہ بھارت نے فوراً پیسے کی ادائیگی کا اعلان کر دیا اور اسی روز بھارت کے ایک کٹر ہندو نے مہاتما گاندھی کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا - اس ہندو کا نام نتھورام گاڈ سے تھا - یہ ایک مراٹھی اخبار ’’اگرنی‘‘ کا ایڈیٹر و مالک تھا۔ بعد میں اس نے اخبار کا نام ’’ ہندو راسٹرا‘‘ رکھ دیا تھا۔ نتھو رام گاڈ سے کی سوچ یہ تھی کہ بقول اس کے پاکستان میں ہندوؤں کا قتل عام کیا جا رہا تھا۔ پاکستان کشمیر میں جنگ کر کے کشمیر چھیننے کے درپے ہے ایسے میں پاکستان کو یہ پیسے دینا پاکستان کی کشمیر جنگ میں مدد کرنے کے مترادف ہے - چنانچہ 30 جنوری1948ء کو جب سورج اپنی تمازت کھو کر غروب ہونے کی تیاری کر رہا تھا - نتھو رام گاڈ سے نے گاندھی جی کو ریوالور سے گولی مار کر ان کی زندگی کا سورج غروب کر دیا - بھارت میں مسلمانوں کے اندر خوف کی لہر دوڑ گئی وہ سمجھنے لگے کہ گاندھی کے قتل کو بہانہ بنا کر مسلمانوں کے خلاف تشدد کی وارداتیں، لوٹ مار کی جائے گی لیکن جب پتا چلا کہ قاتل ہندو ہے تو بھارتی مسلمانوں کی جان میں جان آئی - پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں اس وقت تک ہائی کورٹ کی عمارت کے سامنے گاندھی کا بت ایستادہ تھا - اسے اس وقت تک نہیں ہٹایا گیا، البتہ اس نئی مملکت کے باشندے اخبارات کے ذریعے اسے ہٹانے کا مطالبہ کر رہے تھے - ، اس روز ایسے لگا کہ مجسمہ سوال کر رہا ہو اب کیا ارادے ہیں اور کسی نے لا کر گیندے کے پھولوں کی مالا پہنا دی -

عدالت میں قاتل نتھورام گاڈ سے بیان دینے کھڑا ہوا تو متواتر پانچ گھنٹے کھڑا ہو کر بولتا رہا۔ یہ بیان 90 صفحات پر مشتمل ٹائپ شدہ تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ مہاتما گاندھی نام نہاد اصولوں کو پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے - آج کل کے دور میں اصولوں کا اچھا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اصل بات یہ ہے کہ آیا زندگی میں ان اصولوں پر کچھ عمل بھی ہو سکتا ہے یا نہیں - گاندھی جی جب ہندوؤں کا قتل ہو رہا تھا تو کچھ نہیں بولے لیکن جب ہندو شرنارتھیوں (مہاجروں) نے مسلمانوں کی مساجد پر بھارت میں قبضہ کر لیا تو ان قابضین سے مساجد خالی کرانے کے لیے بیان بازی اور جدو جہد شروع کر دی - گاڈ سے نے کہا میں نے گاندھی جی کو مارا کوئی بے جا کام نہیں کیا - ہندو دھرم کی تاریخ کا مطالعہ کرو - راما نے راون کو مار دیا تاکہ سیتا کو آزاد کرے، کرشنا کا سنا کو مارڈالا تاکہ مکاری و فریب کا خاتمہ ہو اور میں نے گاندھی کو ختم کر دیا، غلط نہیں کیا - اے ہندوؤ! اگر تم مہاتما گاندھی کے اتنے ہی شیدائی ہو تو اپنی بے عزتی یاد رکھنا، مہاتما گاندھی کی چتا کی راکھ تمام دنیا کے دریاؤں میں بہائی گئی لیکن پاکستان نے اپنے ملک میں اس کی اجازت نہیں دی - یہ بے عزتی ہے، اس بےعزتی کا بدلہ لینا، سندھو دریا پر قبضہ کرنا اور میری راکھ اس دریا میں بہانا - میں نے گاندھی کو گولی ماری اس کے لیے شرمندہ نہیں ہوں - میری یہ گولی اس فرد کے لیے ہے جو ہندوؤں کی تباہی کا باعث بن رہا تھا - اس دیش بھارت کو پاکستان سے محفوظ رکھنا تھا تو گاندھی جی کا مارا جانا ضروری تھا -

نتھو رام گاڈسے کو گاندھی کے قتل کے الزام میں 15 نومبر1949ء کو پھانسی کی سزا دی گئی - سوال یہ ہے کہ نتھورام گاڈسے کو دانشور کہنا صحیح ہے یا وہ ایک مذہبی جنونی تھا ؟
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 331155 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More