افراتفری(حصہ دوم)

قارئین میں آخری دو ہفتے یونیورسٹی میں امتحانات کی باعث کوئی بھی مضمون نہیں لکھ سکا آج جب میں امتجانات سے فارغ ہوا توسوچا اب کس عنوان پر مضمون لکھوں بہت غورو فکر کے بعد افرا تفری زہن میں آ گئی افراتفری نے دنیا میں بسیرا کر رکھا ہے کیوں نہ دوبارہ اسی موضوع پر لکھا جائے میں پہلے بھی افراتفری پر لکھ چکا ہوں اور بہت اچھے کمنٹس بھی حاصل کیے۔دنیا میں بہت سی ایجادات نے زندگی کو سہل بنا دیا ہے انسان نے ایسی ایسی ایجادات کر رکھی ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے اﷲ تعالی کے جہاں میں سے زمین پر بنی نوع انسان نے بہت کوششیں کیں اور پوشیدہ علم کو حاصل کیا ایسا علم جو رب محنت کرنے پر ہی عطا کرتا ہے اور انسان نے اس علم سے اپنی زندگی کو سہل بنایا اور زندگی گزارنے کے نئے طریقے بنائے زندگی میں چہل پہل اور رونق بھری زندگی کو رنگوں سے بھرا اور رنگا نیز انسان نے فلسفہ زندگی ہی بدل ڈالا۔انسان صرف زمین تک ہی محدود نہیں بلکہ چاند اور دوسرے سیاروں پر بھی جا رہا ہے بلکہ کچھ سیاروں پر زندگی کے امکانات بھی ڈھونڈ رہا ہے یہ دنیا فانی ہے سب کو ہی ایک دن جانا ہے چاہے کچھ بھی کر لے۔میں نے کئی بار مشاہدہ کیا بلکہ بہت سے لوگوں نے مشاہدات کیے کہ انسان موجودہ ایڈوانسمنٹ اور ڈویلپمنٹ کے دور میں بھی خوش نہیں انسان کا دلی سکون سادگی میں ہے ایسی سادگی جس میں چاہے ایڈوانسمنٹ نہ ہو ڈویلپمنٹ نہ ہو زندگی پر سکون ہو پریشانیاں پیچھا چھوڑ جائیں موجودہ دور افراتفری کی لپیٹ میں ہے افراتفری نے انسان کو تیز ضرور کر دیا ہے مصروف ضرور کر دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بے چین بھی کر دیا ہے ایسی افراتفری پھیلی ہوئی ہے کہ انسان اس سے باہر نکلنا بھی چاہے تو نکل نہیں پاتا انسان اس کی لپیٹ میں آگیا ہے ایڈوانسمنٹ نے تو انسان کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے انسان صرف ظاہری تور پر خوش ہے اور رکھ رکھاؤ کے اصول پر چلتا ہے دیکھن دکھن کے چکر میں مبتلا ہے جو دیکھن دکھن کے چکر سے نکل جاؤ تو پھر کچھ بھی نہیں رہتا نہ میں رہتا ہے نہ تو۔نہ دکھ نہ سکھ۔نہ روشنی نہ اندھیرا۔کچھ بھی نہیں رہتا صرف وہ رہ جاتا ہے۔قارئین میرے نزدیک افراتفری ایک بھاگ دوڑ ہے اسٹیٹس بنانے کی بھاگ دوڑ۔خود کو بڑا کر دکھانے کی بھاگ دوڑ نیز ہر قسم کی بھاگ دوڑ۔ ہر کوئی کسی نہ کسی بھاگ دوڑ میں لگا ہوا ہے کسی کو اسلجے کی دوڑ میں جیت چاہیے کسی کو روپے کی بھاگ دوڑ میں اول آنا ہے کسی کو نام بنانے کی بھاگ دوڑ نے تھکا دیا ہے عزیزو میرے نزدیک بے چینی بے سکونی بد اعتمادی بے ایمانی اور پریشانی سب افراتفری کی پیداوار ہیں انسان نے جب جب کوئی تخلیق کی اسکے فائدے حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی اٹھائے حتہ کہ انسان نفسیات کا مریض بن گیا آج بہت سی ٹیکنالوجی کی وجہ سے بہت سی ریڈی ایشنز بھی پیدا ہوتی ہیں جن کی بدولت انسان نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں میرا اندازہ ہے کہ موجودہ دور میں بہت سے انسان نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہیں عزیزو غور فرمائیے گا انسانوں نے اپنے ڈیفینس کے لیے اسلجہ و بارود بنایا ہاں اپنے بچاؤ کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے مگر اس اسلجے کی بھاگ دوڑ نے آج انسان کو بے جا پریشان کر رکھا ہے ایک انسان کی غلطی کی سزا پوری قوم کو بھگتنی پڑ جاتی ہے میرے عزیزو ہم میں کہیں نہ کہیں کوئی غلطی موجود ہے ورنہ ہم اس افراتفری میں اتنے بھی مگن نہ ہو جا ئیں پوری دنیا میں اسلحے کی دوڑ نے دہشت پھیلا رکھی ہے کوئی بھی خطہ پر سکون نہیں امن کا پیغام دینے والے خود ہی اسلحے کی بھاگ دور میں شامل ہیں اور افرا تفری میں مگن ہیں اسکی دوڑ میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنا چاہتے ہیں اس افراتفری کی دوڑ میں انسان کو بہروپیے نظر ہی نہیں آتے ہر کوئی اپنی دوڑ میں مگن ہے کسی کو دوسرے کے بارے کوئی علم نہیں اگر علم ہے تو صرف دور سے کنڈیمن ہی کرتے ہیں

’’ایک پہاڑی کی چوٹی پر تین دیو رہتے تھے۔ ہوا ۔پانی۔اور بجلی۔پہاڑی کے نیچے ایک گاؤں آباد تھاان دیوؤں نے گاؤں والوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی کبھی پانی برستا اور پانی کا ریلا گاؤں کو بہا کر لے جاتاکبھی ہوا اس قدر تیزی سے چلتی کے فصلیں برباد ہو جاتیں اور کبھی بجلی کڑک کڑک کر گرتی اور گاؤں والوں کے مویشی مر جاتے گاؤں والے ان سے بہت تنگ تھے گاؤں کا ایک سیانا بڈھا کہنے لگا یوں تو جینا محال ہے کیوں نہ ہم ایک وفد پہاڑیوں کی چوٹی پر بھیجیں اور ان تینوں دیوؤں سے بات کریں ممکن ہے وہ ہم سے سمجھوتہ کرنے پر رضا مند ہو جائیں چناچہ وفد بھیجا گیا دیوؤں نے کہا ہم آپ کے دوست ہیں الٹا ہم تو تمہاری خدمت کرنے کو تیار ہیں دراصل مشکل یہ ہے کہ ہم کچھ کیے بغیر نہیں رہ سکتے تم ہمیں جو کام دو گے ہم کریں گے لیکن اگر تم نے ہمیں کرنے کو کام نہ دیا تو ہم تمہاری بستی کو تباہ کر دیں گے‘‘مجھے ایسے لگتا ہے جیسے ہماری نئی نسل ان تین دیوؤں جیسی ہے وہ کچھ کئے بغیر نہیں رہ سکتی اور ہم نے انہیں بے قدری اور بے کاری کے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے اس لیے وہ ایڈونچر کی تلاش میں تخریب کی جانب چل نکلے ہیں۔ تمام تر قصور ہمارا اپنا ہے بنی نوع انسان کا اپنا قصور۔ آج اتنی افراتفری پھیلی ہوئی ہے کہ انسان کو کچھ معلوم نہیں صحیح کیا درست کیا انسان بس جس کام میں لگ جاتا ہے اس میں ہی مگن رہتا ہے آج ہماری ہی تخلیق بنی نوع انسان کی اپنی تخلیق اس کے لیے نقصان دہ ہے نیز انسان نے انسان نے انسانوں کو قتل اور ختم کرنے کے لیے اسلحہ ایجاد کیا آج انسان اپنوں کو ہی قتل کر رہا ہے نہ مذہب کی پاسداری ہے نہ وطن کی نہ بھائی کی نہ بہن کی نہ بچے کی نہ بوڑھے کی جن ماؤں کے لال روز بروز کسی نہ کسی حادثہ میں قتل ہوتے ہیں ان ماؤں کو کوئی جواب دینے والا نہیں کہ کس نے کیوں اور کس وجہ سے اسکے لال کو قتل کیا میرا بچہ تو تعلیم حاصل کرنے گیا تھا افسوس کے ہم میں سے کوئی بھی ان ماؤں کے سوالوں کے جوابات نہیں دے سکتا ہم دوسرے لوگوں کو کیا کہیں جب ہمارے اپنے ہی ملوث ہوں قارئین اسی افراتفری میں انسان کو مقصد حیات ہی بھول گیا جدھر دیکھو افراتفری ہے ہر کوئی افراتفری کی گرفت میں ہے۔لکھنے کو تو بہت کچھ ہے انشاء اﷲ قسطوں میں لکھتا رہوں گالکھ کر دل دل کا بوجھ ہلکا کر لیتا ہوں اس سے بڑھ کر کچھ کرنے کی آرزو ہے۔
پل گیا بندہ اپنی زندگی دی تخلیق دا مقصد ای ہندل
جے کٹ دے کوئی افراتفری دی جڑ ای تے کی ہووے
Ch Zulqarnain Hundal
About the Author: Ch Zulqarnain Hundal Read More Articles by Ch Zulqarnain Hundal: 129 Articles with 105997 views A Young Pakistani Columnist, Blogger, Poet, And Engineer
Member Pakistan Engineering Council
C. E. O Voice Of Society
Contact Number 03424652269
.. View More