کفر کے فتوے / نازیبا طرزِ عمل(فکری مسائل کا اسلامی حل)

بعض اوقات علمی تحقیق اور دلائل کی بناء پر اُستاد اور شاگرد کے فتویٰ اور رائے میں اِختلاف ہوتا ہے۔ علماء کا حق ہے کہ وہ جو بھی فتویٰ دیتے ہیں اپنی تحقیق اور اپنے دلائل کی بناء پر دیتے ہیں اور دُوسرے علماء کو یہ حق تو پہنچتا ہے کہ وہ بھی دلائل اور تحقیق کی بناء پر اُن سے علمی اِختلاف کریں۔ مگر چھوٹوں میں سے یہ حق کسی کو نہیں پہنچتا کہ وہ اُن کے فتویٰ کو معاذ اللہ غلط یا ناجائز قرار دیں۔ اِس سے بے ادبی کے راستے کھلتے ہیں اور علم کی ترقی رک جاتی ہے۔ اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی کی تحقیقات اور فتاویٰ بلاشبہ مبنی بر حق اور مبنی بر دیانت تھے۔

اﷲ اور اُس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم اور اُمت کے اَکابر و اَصاغر علمائ، اَئمہ و مجتہدین کی تحقیقات میں فرق ہوتا ہے۔ یہ شان اﷲ اور اُس کے رسول کی ہے کہ جو اُن سے اِختلاف کرے وہ کافر ہو جاتا ہے۔ مگر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں سیدنا اِمام اعظم اِمام ابوحنیفہ سے لے کر آج تک کے اَکابر اَئمہ و مجتہدین نے اِسلام کے ہر ہر گوشے میں اپنی تحقیقات پیش کیں، اُصولی بھی فروعی بھی، ہر دو قسم کے مسائل پر فتوے دیئے اور بعض شخصیات پر بھی فتوے دیئے، مگر اُن میں سے کسی ایک نے بھی کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ کسی مسئلہ پر اُن کی تحقیق اور فتویٰ سے علمی دلائل کی بناء پر اِختلاف کرنے کا حق کسی کو نہیں۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ جو میرے فتوے سے اِختلاف کرے وہ کافر ہے یا سنی نہیں، یہ علم کا شیوہ ہی نہیں ہے۔ ایسا حکم حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں اِمام اَعظم سے لے کر آج کے دن تک کسی نے نہیں دیا۔ سب نے اپنی تحقیقات کی روشنی میں فتاویٰ دیئے اور اُن سے اِختلاف کرنے والوں نے بھی حق پر مبنی دلائل کی بناء پر اِختلاف کیا، مگر کسی نے کسی کو باطل نہیں کہا۔ سب نے دلائل کی بناء پر اِختلاف کا راستہ کھلا رکھا۔

اگر اَکابر اہلِ سنت میں سے کسی نے شیعہ، اہل حدیث یا دیوبندیوں کو کافر قرار دیا تو اُن کی اپنی تحقیق تھی اور اُنہوں نے میسر معلومات پر اِتمامِ حجت کرنے کے بعد فتویٰ دیا۔

ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم پورے طبقے کو نہیں پکڑتے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ کی ساری اُنگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ بجائے اِس کے کہ سارے کے سارے طبقے کو جس میں گیلا سوکھا ہر کوئی رگڑا جائے، چھوٹے بڑے سبھی رگڑے جائیں، بجائے طبقے کے ہم کیس ٹو کیس لیتے ہیں، فرد بہ فرد لیتے ہیں، پورے مسلک کو کافر نہیں کہتے۔ ہر شخص کے اِیمان کا معاملہ جدا جدا ہے اور کسی کا اِیمان کسی دُوسرے کے اِیمان پر منحصر نہیں قرار دیا جا سکتا۔

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں تحریراً، تقریراً یا عملاً کسی بھی طرح ذرا سی گستاخی کرنے والا، حتیٰ کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گلے کوچوں کی نسبت کو ذہن میں رکھ کر وہاں کے کتوں کی گستاخی کرنے والا شخص (خواہ وہ کسی بھی مسلک سے ہو) کافر، بے اِیمان اور مُرتد ہے۔ ہم اِس طرح لیتے ہیں۔ جو گستاخ ہے اُسے مرتد کہتے ہیں اور جو گستاخی نہ کرے اُس پر کیوں دھریں!!

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَزواجِ مطہرات، خلفائے راشدین، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر سب و شتم بکنے والا، اُنہیں کافر و منافق کہنے والا اور اُن پر بہتان طرازی کرنے والا شخص (خواہ وہ کسی بھی مسلک سے ہو) کافر و بے اِیمان ہے۔ اور اگر کوئی زبان سے ایسا نہیں کہتا تو بلاوجہ کیوں دھریں کسی پہ!!

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیتِ اطہار علیہم السلام کا گستاخ اور اُن کی شان میں زبان درازی کرنے والا شخص (خواہ وہ کسی بھی مسلک سے ہو) کافر اور بے اِیمان ہے، یزید اہلِ بیت کی اِہانت ہی کی وجہ سے کافر ہوا۔ مگر اگر کوئی ایسا نہ کہے تو ہم اُس پر کفر مسلط کیوں کریں!!

ہر ایک کا اپنا عمل اور اپنا عقیدہ ہے جو اُسے مؤمن یا کافر بناتا ہے، دُوسروں کا عقیدہ اُس کے سر پر نہیں تھوپتے۔ اِس لئے دیوبندی، اہل حدیث، شیعہ من حیث الکل کسی بھی گروہ اور مسلک کو کافر و مرتد قرار نہیں دیا جا سکتا۔

(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاہرالقادری ، سی ڈی نمبر: 445)