پیلے اسکول

پڑوسی ملک کے مشہور و معروف غزل گائیک جگجیت سنگھ مر حوم اور مایہ ناز گلوکارہ لتا منگیشکر جی کا غزل البمــ" سجدہ"سننے کا شرف حاصل ہوا ۔یوں تو پورا البم سننے کے قابل ہے لیکن پورے البم میں سے ایک شعر نے مجھکو بہت متاثر کیا پھر اسی شعر نے مجھے مضمون لکھنے پر مجبور بھی کیا ،وہ شعر کچھ یوں ہے۔
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لئے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو

آج کے اس دور میں یہ شعر حقیقت کا روپ دھارتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کے طبقاتی کردار کو،اقتدار کی مسند پر بیٹھے تعلیم کا تاج اپنے سر پر سجائے وزیروں کو، اور اُن والدین کو جو شعوری یا غیر شعوری طور پہ تعلیم کو نوکری کے حصول کا ذریعہ جیسی محدود سوچ اپنے بچوں میں پروان چڑھاتے ہیں ،یہ شعر ․گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اس طبقاتی تعلیمی نظام نے مجھ کو تو روٹی کے حصول کے صرف چار حرف تک محدود کر دیا ہے ۔ڈگریوں کی ریس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ توکہلا رہے ہیں، لیکن انسان چھوٹے ہوتے جارہے ہیں۔

بھٹو کی قومیانے کی پالیسی تک پاکستان کے سرکاری اسکول کے طالبعلموں میں نوکری کے حصول کی بجائے علم حاصل کرنے کی امنگ تھی۔علم جس کے بارے میں حضور اکرمﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے کہ ’’علم حاصل کرو خواہ تمھیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘ دنیا کے ہر ملک میں تعلیم بنیادی حق کے طور پر تسلیم شدہ ہے۔آئین پاکستان نے آرٹیکل 25(A) میں تعلیم کوحق کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ دستور میں واضح لکھا گیا ہے کہ ’’ ریاست پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کیلئے مذکورہ طریقہ کار پر جیسا کہ تعلیم کا حق۔قانون کے ذریعہ مقرر کیا جائے مفت اور لازمی تعلیم مہیا کی جائے گی‘‘ لیکن اسکے باوجود حالات کی ستم ظریفی دیکھیئے کیسے غیر محسوس طریقے سے تعلیم کو بیوپا ریوں نے تجارت میں تبدیل کردیا گیا ۔

سرکاری اسکول (جس کو بعد میں "پیلا اسکول ـ"کے نام سے پکارا جانے لگاتھا )میں طالبعلموں اور انکے والدین و اسا تذہ کا مقصدسرکاری اسکول کی سہولت و فری تعلیم کا بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے اچھی تعلیم حاصل کر کے با شعور انسان بننا تھا۔ "ہڈیاں ہماری کھال آپکی" یہ ضرب المثل اسوقت کے زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کراتے ہوئے علاقے کے مشہور و معروف ،تجربہ کار،با صلاحیت استادوں کے سامنے دُھرایا کرتے تھے اسکا مقصد قطعاً یہ نہیں ہوتا تھا کہ اُسوقت کے والدین یا اساتذہ ظالم ہوا کرتے تھے بلکہ اس ضرب المثل کا مقصداساتذہ کو یہ حق دینا ہوتا تھا کہ وہ بچہ اب انکی ذمہ داری ہے ،جواپنی استادی کو عبادت سمجھتے ہوئے بھر پور صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر بچوں کو انسان بناتے تھے، اور پھر انہی پیلے اسکولوں نے با شعور،قانون پسند،اعلیٰ تعلیم یافتہ انسانوں کو جنم دیا۔ آج کی یا گزشتہ کل کی حکومتوں اور اپوزیشن کی کابینہ کے زیادہ تر اکابرین ، بیورو کریسی کی غالب اکثریت ،حال کے تمام دانشوروں،ادیبوں،شاعروں،سائینس دانوں،اعلیٰ ڈاکٹروں ،تعلیمی ماہروں،جج صاحبان غرض یہ کہ فی زمانہ ماسوائے چند گنے چنے افراد کے جن کی ابتدائی تعلیم ملک سے باہر ہوئی ہو سب انہیں پیلے اسکولوں کی پیداوار ہیں۔

سرکاری اسکولوں کا نام پیلا اسکول کیوں اور کب پڑا یہ ہمیں معلوم تو نہیں ہے لیکن اسکی منطق جو ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان اسکولوں کو "پیلا اسکول " اس سرمایہ دارانہ ذہنیت نے قرار دیا جو معاشرے میں طبقاتی نظام کو قائم رکھنا چاہتے تھے ۔بھٹو کی قومیانے کی پالیسی نے جس طرح کی غلامانہ نظام کی تیار کردہ بیورو کریسی کے سپرد کیا انہوں نے چند سال میں ہی تمام سرکاری اداروں کا بھرکس نکال دیا بد قسمتی سے اس میں تعلیم بھی شامل ہے ۔پھر ضیا الحق کی بھٹو سے دشمنی میں قومیائے گئے اداروں کو ان سرمایہ داروں کو خوش کرنے اور اپنی حمایت حاصل کرنے کیلئے واپس کیا گیا جو قومیانے کی پالیسی کی وجہ سے پہلے ہی بھٹو کے سخت خلاف تھے۔ اس سے تعلیم کی حد تک پروفیشنل ازم کے نام پر کمرشل ازم نافذ ہوگیا۔ ریاست تعلیم کی فراہمی کے بنیادی ایجنڈے کو پورا نہیں کر پائی تو اس نے تعلیم کو مادر پدر آزادی دے دی ۔ گلی گلی میں نجی تعلیمی ادارے کھلنے لگے جن کی کامیابی ان کی اپنی کارکردگی سے زیادہ سرکاری اسکولوں کے منتظمین کی ناکامی میں پنہاں رہی ۔انگلش میڈیم میں پڑھانے اور مستقبل میں اچھے روزگار کیلئے پڑھنے والے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں کی طرف مائل کرنے کیلئے ضروری تھا کہ سرکاری اسکولوں کو مذاق بنا دیا جائے اور پھر سرکاری اسکولوں کا نام اسکے در و دیوار پر کئے گئے پیلے رنگ سے پکارا جانے لگا اورسرکاری اسکولوں سے فارغ التحصیل طلباء کیلئے ’’ اچھا تو یہ پیلے اسکول سے پڑھا ہے" جیسے طنز رائج کیے جائیں تواس طرح یہ اسکولز اپنی قدر کھو دیں۔ویسے تو اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شروع ہی سے اپنے بچوں کو پیلے اسکول سے دور رکھا لیکن اس بات کو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اسوقت جو نجی اسکول قائم تھے اس میں زیادہ تر افراد کا تعلق اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تعلیم کی فلاح و بہبودکا جذبہ رکھنے والوں سے تھا۔ اسمیں معروف سماجی کارکن بھی اپنا حصہ ڈالتے ہوئے نظر آتے تھے ۔ بد قسمتی اور کرپشن کی دیو ی نے تعلیم کے دروازے پردستک دینا شروع کیا جب جنرل ضیاء نے قومیائے گئے اداروں کو واپس نجی شعبے میں دینا شروع کیا ،شعبہ ہائے زندگی سمیت تمام سرکاری ادارے کرپٹ ہونا شروع ہوگئے کرپشن نے جہاں سرکاری اداروں کو اپنا مسکن بنایا وہیں تعلیم کا شعبہ بھی اس تیز دھاری تلوار کی زد میں آیا ۔ سرکاری اسکولوں پر پیلا رنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد سرکاری اسکول کی بجائے "پیلے اسکول ـ"کے نام سے پکارا جانے لگا ،پیلا اسکول کے نام سے پکارنے کے نفسیاتی اثرات سب سے زیادہ والدین پر پڑے وہ سمجھنے لگے کہ پیلے اسکول جیسے اچھوتوں کے لئے ہیں ۔ افغان جنگ نے معاشرے میں پیسوں کے حصول کی ریس لگا دی ۔ منشیات ،دبئی کمائی، اور کرپشن کے ذریعے پیسہ بنانے کا عمل شروع ہوا جس نے عزت کی واحد قدر کا معیار دولت بن گئی ، اس ریس میں تیزی سے پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ نجی اسکولوں کا قیام بھی تھا۔

پیلے اسکول کے نام پر سرکاری اسکولوں کی بے قدری کا دباؤ معاشرے پر اتنا پڑا کہ ذرا سا افورڈ کرنے والا فرد اپنے بچوں کو پیلے اسکول سے اٹھا کر نجی اسکولوں میں تعلیم دلواناباعث عزت سمجھنے لگا۔ رفتہ رفتہ پیلے اسکولوں کو اچھوتوں کا سمبل بنا دیاگیا۔ دولت کمانے کیلئے تمام قانونی،اخلاقی ،سماجی ،مذہبی اقدار کی پامالی میں سرکاری اسکولوں کا جنازہ تو سرکار نے ہی نکال دیا مگرنجی اسکولوں کے قیام کا مقصد بھی پیسہ کمانا بن گیا ۔ لہذا معیار کا فرق آیا نجی اسکولوں کے گلیمر نے تعلیم کے معیار کو بھی تقسیم کیا اب تعلیم مکمل طورپہ طبقات کے شکنجے میں پھنس چکی تھی۔کپڑوں کے برانڈز کی طرح تعلیمی برانڈز بھی تعلیم کا معیار بن گئے۔انگریزی کتابیں،مہنگی فیسیں،باہر کے پبلشرز کا نصاب کے ساتھ بڑے خوبصورت گیٹ کے عقب میں اپنی اپنی ریاستوں کے شہزادے اور شہزادیاں اپنے برق رفتار اُڑن کھٹولے پر سواراُترتے ہیں انکے خادم اور کنیزیں انکے کاندھے پہ خوبصورت اُجلے بیگز لٹکاتے ہیں اور منرل واٹر کی بوتلیں انکے ہاتھوں میں تھماتے ہیں او ر مودب انداز سے سر خم تسلیم کرتے ہیں پھر یہ شہزادے اور شہزادیاں بڑے سے تدریسی محل میں داخل ہو کر اپنا تدریسی عمل شروع کرتے ہیں انکو تعلیم سے آراستہ کرنے والا استاد یا استانی انکا زر خرید غلام نظر آ رہے ہوتے ہے استادخود اُنسے خائف ہوتے ہیں ، تو وہ کیا تعلیم سے آراستہ کر سکتے ہونگے۔ جتنے بڑے اور مہنگے تعلیمی ادارے کا طالب علم اتنی ہی مہنگی اسکی ٹیوشن۔ تدریسی عمل سے فارغ ہو کر یہ شہزادے وشہزادیاں اعلیٰ عہدوں پر مامور ہوتے ہیں یا پھر اپنی جائیداد کو دوگنا کر رہے ہوتے ہیں۔دوسری جانب انگلش میڈیم اسکول کا جھانسا دیکر ،معمولی تعلیم یافتہ خواتین کو ٹیچرز کا لبادہ اوڑھاکر، دیواروں پر کارٹونوں کے کردار وں کے پینٹ کرا کر ، نازک اور کمزور سے بچوں کے کاندھوں پر کتابوں کا بوجھ لاد کر،جون و جولائی کی چھٹیوں کی فیسیں زبردستی وصول کر کے ،ہر سال فیسوں میں اضافہ کر کے یہ ظاہر کررہے ہوتے ہیں کہ وہ بچوں کے مستقبل کی بنیاد کو مضبوط کر رہے ہیں بر عکس اس کے وہ مجبور والدین کو بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں ۔پھر یہ بچے تدریسی عمل سے فارغ ہوکر ڈگریاں لیکر نوکریوں کے تلاش میں در بدر پھر رہے ہوتے ہیں۔

پیلے اسکول جنکا وجود کبھی انسان بنانے کی فیکٹری سمجھا جاتا تھا ایک ہی معیار تعلیم کو فروغ دے رہا تھا ،آج اسکی عمارت کو دیکھ کر لگتا ہے کبھی یہاں عمارت ہوا کرتی تھی باہرسے دیکھنے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اندر موجود بچے کسی گناہِ کبیرہ کی سزا بھگت رہے ہیں اندر موجود بچے کسی اچھوت قوم کے بچے ہیں جنکا تعلیم حاصل کرنا معاشرے کے لئے اتناضروری نہیں ۔ان اسکولوں میں ائیر کنڈیشنز تو نہیں لیکن اتنی سہولت ضرورہے کہ اپنی پوری قوت لگاتے ہوئے پنکھے بھی "لب پہ آتی ہے دعا بن کہ تمنا میری"سنا رہے ہوتے ہیں،استاد درس دیتے ہوئے گلا پھاڑ کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ "ناخنوں کو کاٹا کرویہ صحت کے لئے مضر ہے"میلے اور بدبودار یونیفارم پہن کر مت آیا کروـ"لیکن استاد دیواروں کے اُکھڑے پلاسٹر،کھڑکیوں اور دروازوں پہ لگے جالوں اور باہر سے آتی ہوئی گرم ہوا اور گوبر یاکچرے کی بو کا کیا کرے؟یہ تلخ حقائق ہیں کہ اب جو اساتذہ کی بھرتی کی جارہی ہے وہ صرف سفارش اور سیاسی بنیاد پر کی جارہی ہے اور یہ ہی کرپشن کی داغ بیل ہے گھوسٹ استادوں کی لمبی فہرست،ان پڑھ اساتذہ کی بھرتی ، غیر تسلی بخش نصاب،ناقص امتحانی نظام ،نقل کا رحجان یہ سب عناصر مل کر وا لدین کی مایوسی اور اور بچوں کی آوارہ گردی کا سبب بن رہے ہیں۔
پیلا اسکول کانام پکارنا ہی سرکاری اسکولوں کے لئے زہر قاتل بنا۔لیکن پیلے اسکول کے بارے میں لکھتے ہوئے میں میرا دل جتنا مایوس ہے ۔ وہیں پنجاب کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے دل کو راحت ملتی ہے کہ چلو ایک صوبے میں پیلے اسکولوں کی قدرو منزلت ابھی باقی ہے پنجاب میں سیکنڈری بورڈ میں ٹاپ کرنے والے زیادہ تر طالبعلم و طالبات کا تعلق پیلے اسکولوں سے ہوتا ہے۔18ویں ترمیم کے بعد تعلیم بھی صوبائی معاملہ طے ہوا تو ہر صوبے کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ تعلیم کو ترجیح بنا کر عوام کو کچھ دے سکتا لیکن پنجاب کے علاوہ کسی کی ترجیح نظر نہیں آتی خاص طور پر سرکاری اسکولوں کی درستگی پر سندھ ، بلوچستان اور پختونخواہ میں کوئی توجہ نہیں دی گئی جسکی وجہ سے وہاں کی تعلیم مزید ابتر ہوتی چلی گئی۔ سندھ میں حکمرانی کا تاج اپنے سر پہ سجانے والے 18ویں ترمیم کو اپنا کریڈٹ سمجھتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں صوبائی خود مختاری سندھ اور بلوچستان کو زمانہ جہالت کی جانب دھکیل رہی ہے اور سندھ کے کرتا دھرتا تعلیم کے فروغ کے نام پر سرمایہ کاروں کو پروفیشلز اسکول وکالج کھولنے کے اجازت نامے فراہم کرنے میں مصروف ہیں وہ بانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ" تعلیم کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے"

یو نیسکو کی رپورٹ کے مطابق نائجیریا کے بعد پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔پاکستان میں شرح خواندگی 52فیصد(جس پر شک کیا جاتا ہے)ہے کیونکہ یہاں خواندہ اُسے کہا جاتا ہے جو صرف اپنا نام انگریزی میں لکھ اور پڑھ سکے ۔رواں دور میں سوائے آبادی کے بڑھنے کے ہر چیز میں کمی کا رونا رویا جا رہا ہے لیکن شرح خواندگی میں جوکمی واقع ہو رہی ہے اُس کا دُکھڑا کوئی نہیں سنا رہا ہے کیونکہ اس کا رونا رونے سے بیرونی فنڈنگ جو تعلیم کے مد میں کی جا رہی ہے رُک سکتی ہے ۔اعداد و شمار کے مطابق 27ملین بچے ایسے ہیں جنکی عمر اسکول جانے کی ہے لیکن وہ اسکول نہیں جاتے بلوچستان میں 78فیصد،خیبر پختون خواہ میں 65فیصد،سندھ میں 61فیصد اور پنجاب میں 48فیصدبچے اسکول جانے سے گریزاں ہیں۔پاکستان میں پرائمری اسکولوں کی تعداد 1لاکھ63ہزار ہیں جن میں طالبات کے لئے 40ہزار اسکول ہیں ان میں 15ہزار پنجاب میں،13ہزار سندھ میں،8ہزار خیبر پختون خواہ میں جبکہ بلوچستان میں صرف 4ہزار طالبات کے لئے اسکول ہیں جو کہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔درج بالا اعداد و شمار میں المیہ یہ ہے کہ ایک جانب پیلے اسکولوں کی تعدادپاکستان میں انتہائی کم ہیں اور دوسری جانب زیادہ تر پیلے اسکول غیر فعال ہیں پسماندہ علاقوں میں پیلے اسکول صرف کاغذوں میں موجود ہیں اور بہت سے پیلے اسکول جاگیرداروں،وڈیروں کی ملکیت میں شامل ہو چکی ہیں۔

دنیا بھر سے تعلیم کے لیے امدادآرہی ہے ۔ لیکن ہم اسے بھی کرپشن کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اسی لیے اب کئی ڈونرز تعلیمی فنڈز پر ایسے چیک لگا رہے ہیں جنہیں سرکاری اہلکار پورا نہیں کرتے جس کے باعث امدادی رقوم خرچ ہی نہیں ہوپاتی اور ڈونرز مجبور ہو کر غیر سرکاری تنظیموں کے توسط سے تعلیم دینے کا فریضہ پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کسی طرح بھی آئینی تقاضہ پورا نہیں ہو پاتا۔

تعلیم کو مفت اور ایک ہی معیار تعلیم کو برقرار رکھنے کا اور تعلیم کو لازمی قرار دینے کا واحد ذریعہ سرکاری اسکول ہی بن سکتے ہیں جب سرکار تعلیم کو ترجیح بنا کر انقلابی فیصلے کرے اور سرکاری اسکولوں کی قدر و منزلت اور اسکا مقام واپس دلوایا جائے ورنہ پاکستان میں زمانہ جہا لت کا دور واپس آنے سے کوئی نہیں روک سکتاا ور منتظمین،اساتذہ،نصاب، غرض تعلیم کی فراہمی میں کوئی کوتاہی ناقابل معافی ہونا چاہیے۔تعلیم کے خلاف کوئی بھی سازش جرم قرار دینا ہوگا۔والدین بچوں کو روٹی کے چار حروف کے محدود سوچ سے آگے کی سوچ کو پروان چڑھائیں ۔
Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 91038 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More