ہنسی علاجِ غم؟

 ہنسنا یا قہقہہ لگانا ہر کسی کے بس کا روگ بھی نہیں ہوتا، بعض لوگ بڑے معقول لطیفے پر بھی مسکرانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں، وہ خود اس قدر بخیل نہیں ہوتے، بلکہ ان کے چہرے اور مزاج کی بناوٹ ہی کچھ اس قسم کی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی بات پر ہنس کر نہیں دیتے۔ بعض صاحبان ایسے ہوتے ہیں جو معمولی باتوں پر بھی کھلکھلا کر ہنستے ہیں، اور ان کی ہنسی کے ’آفٹر شاکس بھی جاری رہتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو اپنی ہی بات پر نہایت زور دار طریقے سے نہ صرف خود ہنستے ہیں، بلکہ ساتھ والے فریق سے بھی ان کا اصولی تقاضا یہی ہوتا ہے کہ وہ بھی ہنسے، یہ نہایت مشکل ڈیوٹی ہے، جسے نبھانا آسان کام نہیں، اور ایسے لوگوں کے ساتھ ہم نوائی بھی بہت مشکل ہوتی ہے۔ اور بعض صاحبان ایسے بھی پائے جاتے ہیں، جنہوں نے ہنسی کو کبھی اپنے قریب بھی نہیں آنے دیا۔بعض قہقہوں میں بسا اوقات بڑی فرعونیت وغیرہ کے آثار بھی دکھائی دیتے ہیں، ایسی ہنسی اکثر فلموں میں ہی استعمال ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے اپنے معاشرے میں دکھ زیادہ ہیں اور خوشیاں کم، تاہم اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے انفرادی طور پر زیادہ تر لوگ مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے ہاں دہشت گردی، مہنگائی، بدامنی، بے روز گاری ،بیماریاں اور اسی قسم کے دیگر مسائل ہیں جن کی وجہ سے قہقہوں کا زمانہ نہیں رہا، اُن میں کچھ کمزوری آگئی ہے، اب قہقہے ہنسی میں بدل گئے ہیں، ہنسی مسکراہٹ کا روپ دھار چکی ہے اور مسکرانے والے چہرے سنجیدہ ہوچکے ہیں اور جو سنجیدہ تھے وہ غمی چہرے پر سجائے پھر رہے ہیں، یہ تمام تبدیلیاں حالات کی بنیاد پر ہیں، حالات بہتر ہونے کی صورت میں یہ تمام معاملات اس کے برعکس بھی ہوسکتے ہیں۔

ہنسی کو غم کا علاج بتایا جاتا ہے، دراصل غم ایک ایسا مرض ہے، جو ادویات سے درست ہونے والا محسوس نہیں ہوتا، چونکہ یہ تصورات کی بیماری ہے اس لئے اس کا علاج بھی تصوراتی طریقے سے ہی ممکن ہے۔ یار لوگ کسی بھی غمگین کے پاس جاتے ہیں، اسے دلاسہ دیتے اور غم کو مار بھگانے کا مشورہ دیتے ہیں، مگر غم کی حقیقت تو وہی جانتا ہے جس نے غم پال رکھا ہے، یا جسے غم نے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ غم کو ختم یا کم کرنے کے لئے اس کمی کو پورا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے غم نے ڈیرے ڈالے ہوتے ہیں، مثلاً اگر کسی بیماری کی وجہ سے کوئی فرد غمگین ہے تو جب تک بیماری اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اس وقت تک غم بھی اس سے چمٹا رہے گا، اور جب بیماری جاتی رہے گی تو غم اپنے آپ اپنا راستہ لے گا۔ اسی طرح اگر کسی کو معاشی مسائل کا سامنا ہے اور غربت وغیرہ نے اس کو گھیر لیا ہے تو دلاسوں سے اس کا غم غلط نہیں ہوسکتا۔ ہم لوگوں نے یہ بھی تصور کررکھا ہے کہ تلخیوں اور پریشانیوں کے باوجود انسان کو نہ صرف خوش رہنا چاہیے، بلکہ ممکن ہوسکے تو ہنسنے اور قہقہے وغیرہ لگانے کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ غمگین انسان سے ہنسی بھی روٹھ جاتی ہے اور مسکراہٹ تک اس کی طرف رخ نہیں کرتی۔

غم کے مارے لوگوں کو ہنسانے کا بندوبست کرنے والے لوگ بہت ہی کم ہیں، ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی اپنی اندرونی حالت بھی ناقابل بیان ہوتی ہے۔ کوئی غمزدہ مریض ڈاکٹر کے پاس گیا اور اپنے غم کے علاج کی درخواست کی، ڈاکٹر نے حالات جاننے کے بعد مشورہ دیا کہ اپنے شہر میں فلاں تھیٹر میں ایک بہت پائے کا مزاحیہ فنکار کام کر رہا ہے، تھیٹر دیکھنے سے آپ کا غم غلط ہوسکتا ہے۔ مریض نے نہایت افسردگی اور رازداری سے ڈاکٹر کو بتایا کہ جناب! وہ فنکار میں ہی ہوں۔ ان کی اندرونی کہانی کا معاملہ مختلف ہے، تاہم یہ لوگ عام لوگوں کے لئے غنیمت ہیں۔ مزاح کی حس بہت زوال پذیر ہے، ہم لوگ دوسروں کا مذاق اڑانے کو ہی مزاح قرار دیتے ہیں، اگر کسی کی دل آزاری کرکے مزاح پیدا کیا جائے تو یہ سودا مناسب نہیں۔ ہنسانے والے کا کام ہے کہ وہ خود کو تو نشانہ بنا لے مگر کسی دوسرے کو تضحیک کا نشانا ناپسندیدہ عمل ہے۔ ہم پاکستانی بہت سے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، ہمارے لئے ہنسنا اور قہقہے لگانا نہایت ضروری ہے، مگر کیا کیجئے کہ حالات ہمارے بس میں نہیں۔ ہم کمزور لوگ اپنے دل پر یہ جبر بھی نہیں کرسکتے کہ اپنی بے بسیوں پر ہی ہنس لیں۔ اب تو اپنی قوم کی مجموعی طور پر یہ حالت ہوچکی ہے ، بقول غالب ’’ پہلے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی ․․ مگر اب کسی بات پر نہیں آتی‘‘۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427755 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.