روسی ہئیت پسندی(Russian Formalism ) : ایک مطالعہ

 Russain Formalisam emerged in Russia in 1910 and remained active for only twenty years.Russian Formalists laid emphasison the functional role important literary devices.They advocated a ,scientific, method for studying poetic language.The Russian formalists described general characteristics of literary languageand tried to analyze the specific devices within the text used in the language.They introduced the term defamiliarization which became a key concept for Russian formalism.Russian Formalists wanted that literature should be studied on scientific bases through objective analysisof the motives,devices,techniques and other important functions that comprise the literary work .
روسی ہئیت پسندی کی متنوع تحریک نوجوانوں کے دل کی امنگ اور جذبات و احساسات کی ترنگ خیال کی جاتی ہے ۔اس میں جن نوجوان تخلیق کاروں نے سنگ سنگ چلنے اور پرورش لوح و قلم کرتے وقت نئے افکار کی جستجو کا فیصلہ کیا ان میں سے بیش تر کی عمریں بیس برس کے قریب تھیں۔ اُٹھتی جوانی میں فکر و خیال کی نئی مشعل فروزاں کرنے کی تمنا دل میں لیے ان نوجوانوں نے فرسودہ اور پامال راہوں سے گریزاں رہ کر نئی راہوں کی جستجو کو اپنا شعار بنایا ۔جدت ،تنوع اور تازگی کی جستجو ان کامطمح نظر تھااس لیے وہ مہیب سناٹوں ،اداس سکوت ،جان لیوا تاریکیوں اور ہراساں شب و روز کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی کے متمنی تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ لکیر کا فقیر بننے کی قدیم فرسودہ روش کو ترک کر کے تخلیقِ ادب کے لیے ایسا لائحۂ عمل مرتب کیا جائے جو اوہام کی تشکیک ، شہرت کے بھوکے اصنام کی ستائش کی عقوبت اور فرسودہ اسالیب کی قدامت کی نحوست کی پیدا کردہ ظلمت سے نجات دلاسکے اور اس نئے زاویۂ نگاہ سے ندرت ،تنوع اور قوسِ قزح کے مانند ایسے دل کش اور حسین رنگ سامنے آ ئیں جو طلوعِ صبح بہاراں کے نقیب ثابت ہوں۔ ادبی تنقید کے اس دبستان نے سال 1910 میں سابق سویت یو نین میں اس وقت نموپائی جب جنگی جنون میں مبتلا طالع آزما اور مہم جُو عناصرنے زندگی کی تما م رُتیں بے ثمر کر دی تھیں۔ کبرونخوت اورحرص و ہوس کی چیرہ دستیوں کے باعث دنیا شدید سیاسی عدم استحکام کا شکار تھی۔پہلی عالمی جنگ کے شعلے جواٹھائیس جولائی4 191کو بھڑکے پُوری دنیا کے امن و سلامتی کو خاکستر کرنے کے بعد گیارہ نومبر 1918کو بُجھ گئے۔اس تباہ کُن جنگ کے دوران انسانیت کو جن مصائب و آلا م کا سامنا کرنا پڑا اس نے حساس تخلیق کاروں کی روح کو زخم زخم اوردل کو کرچی کرچی کر دیا ۔ مصیبت زدہ لوگ انتہائی مایوسی کے عالم میں زندگی گزاررہے تھے ۔یہ خوف ناک جنگ جہاں ہلاکت خیزیوں،ویرانیوں،بربادیوں،قحط،بیماریوں اور مفلسی کا سبب بن گئی تھی وہاں اس کے باعث ایسے مسموم حالات پیدا ہو گئے جن کے نتیجے میں عالمی افق پرہوس،افراتفری اور خود غرضی کاعفریت منڈلانے لگا۔اس جنگ کے بعدسماجی اور معاشرتی زندگی کے ہر شعبے میں لرزہ خیز اور اعصاب شکن صورت حال سامنے آئی۔اس طویل اورخون ریز جنگ کے نتیجے میں معاشرتی زندگی میں خوف،دہشت،عصبیت اور لذتِ ایذاجیسے عوارض پیدا ہو گئے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں یہ غیر محتاط عمومی تاثر پایا جاتاہے کہ اس کا عصبیت اور جذبات سے کوئی تعلق نہیں لیکن جنگی جنون نے سائنس کو بھی خوف ناک تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ ہوس جاہ و منصب کے خبط میں مبتلا طالع آزما اور مہم جُو عناصر نے سائنس دانوں کو بھی تباہ کن سامان حرب اور جوہری اسلحہ کی تیاری پر مامور کر دیا ۔ متعصب سائنس دان مخالف اقوام کے نہتے عوام پر کوہِ ستم توڑنے کی خاطر اپنے اپنے ملک کے اسلحہ خانوں کو بھرنے میں لگ گئے اس کے نتیجے میں سائنس کے غیر متعصب ہونے کا تاثر زائل ہو گیا۔دکھی انسانیت جو رہینِ ستم ہائے روزگار تھی سائنس کی تباہ کاریوں کا شکار ہو گئی۔ اس ہو لناک جنگ نے لوگوں کے مزاج میں بیزاری ،مایوسی اور چڑچڑا پن پیدا کر دیا تھا۔فکر و خیال کی تہی دامنی کا یہ حال تھا کہ متشکک مزاجی نے انھیں اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔تہذیب و تمدن اور شائستگی و اخلاق کے دعوے کرنے والی اقوام کی محاذ ِ جنگ پر سفاکی اور رعونت، حساس اور درد مند تخلیق کاروں کو خون کے آ نسورلاتی تھی۔جنگ میں جا رحیت کے مرتکب ممالک کے جنگی جرائم عالمی تاریخ کا سیاہ باب ہیں ۔ان درندوں نے انسانیت کو پتھر کے زمانے کے ماحول میں دھکیلنے کی جومذموم کوشش کی وہ ہر دور میں قابل نفرت سمجھی جائے گی۔روسی ہئیت پسندوں نے کوشش کی کہ ادب پاروں سے جمالیاتی تاثیر کشید کر کے اس سے جنگ کے زخموں کے اندمال کا مرہم اور سمے کے سم کا تریاق تلاش کیا جائے۔

انسانی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ آلام ِ روزگار کے مہیب بگولوں کے سامنے یہ شمع کے مانند ٹمٹماتی رہتی ہے اور بالآخر اس کی روشنی ماند پڑنے لگتی ہے اور یہ ہمیشہ کے لیے گُل ہو جاتی ہے ۔فرد کی زندگی کی نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی تابانیوں کی سب کہانیوں کو ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد ڈھانپ لیتی ہے جس کے بعد رفتہ رفتہ سب حقائق خیال و خواب بن کر نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔گردش ایام کے باعث ماضی کے واقعات پر پڑ جانے والی گرد کو تاریخ صاف کرتی ہے اور گزشتہ زمانے کے لوگوں کے خیالات سے روشناس کراتی ہے ۔اس کے اعجاز سے زمانۂ حال کے ادبیات کے قارئین کو جب ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کا موقع ملتا ہے تووہ تحقیق و تجسس اور حیرت کے جذبات سے سرشار ہو کر اس کا جائزہ لیتے ہیں۔اسی تجسس کو تاریخی شعور سے تعبیر کیا جاتا ہے جو خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار اور صیقل کر کے دلوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کرتا ہے اور فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا مؤثر وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔روسی ہئیت پسندوں نے ادب اور فنون لطیفہ کے ارتقا کی تفہیم اور احتسابِ ذات کے لیے تاریخی شعور کی بیداری پر زور دیا۔روسی ہئیت پسندوں نے ادب پارے کو زبان کی ایسی خاص صورت سے تعبیر کیا جو روزمرہ استعمال کی زبان کی مسخ شدہ شکل سے انحراف کر کے قاری کو جہانِ تازہ کی سیر کرائے جہاں خلوص و مروّت ،ایثار و دردمندی اور پیمانِ وفا کے سب استعارے اسے مسحور کر دیں۔ایک زیرک تخلیق کار اپنے ذہن و ذکاوت اور ذوقِ سلیم کو بروئے کار لا کرزبان کی جدت اور تنوع کے مظہر ایسے نئے اور نادر خدو خال وضع کرتا ہے جوقاری کو پرانے تصورات کو بدل کر نئے حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے پر مائل کرتے ہیں۔روسی ہئیت پسندوں کا خیال تھا کہ خوش کلام ادیب جب بولتا ہے تو اس کے منھ سے پھول جھڑتے ہیں ۔اس طرح ادبی زبان تکلم کی وہ دل کش اور حسین صورت سامنے لاتی ہے جو اپنی صوتی ساخت کے اعجازسے زبان کو ارفع معیار تک پہنچا دیتی ہے ۔ ذات کی تکمیل ایک کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے جس کے لیے فرد کی ملت ،جماعت ،سماج اور معاشرے سے وابستگی ناگزیر ہے ۔یہ فرد کی معاشرتی زندگی ہی ہے جس میں وہ اچھائی اور بُرائی میں امتیاز کے لائقِ صد رشک و تحسین قرینے سیکھتا ہے ۔یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ اخلاقی نمواور بالیدگی کے لیے معاشرتی زندگی ایک معدن کی حیثیت رکھتی ہے جہاں سے حسن اخلاق کے لعل و جواہر حاصل کر کے زندگی کو ثروت مند بنایا جا سکتا ہے ۔روسی ہئیت پسندوں نے تخلیق کار کو حسنِ اخلاق سے کام لیتے ہوئے ذاتی محنت اور لگن سے ایسے ادب کی تخلیق پر مائل کرنے کی کوشش کی جو نہ صرف روحِ عصر سے مطابقت رکھتاہو بل کہ اپنی اثر آفرینی کے اعجاز سے آفاقی نوعیت کاحامل ہو اور اس سے معاشرے اور سماج کو خوشیوں کاگہوارہ بنایا جا سکے۔

روسی ہئیت پسندی نے سال 1930تک سویت یونین میں تنقیدی سفر جاری رکھا ۔ اس کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ افق ادب پر اٹھنے والا فکر و خیا ل کا یہ طوفان تھم گیا اور رفتہ رفتہ یہ سب مد و جزر ایام گزشتہ کی تاریخ کا حصہ بن گیا اور ماضی کی کئی ادبی تحریکوں کی طرح یہ تحریک بھی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔جب روسی ہئیت پسندی کو خود اس کی اپنی جنم بھومی میں قدغنوں کا سامنا کرنا پڑا تو اس جان کنی کے عالم میں بھی اس کے گرویدہ ادیبوں نے اس سے جو عہدِ وفا استوار کیا تھا اسی کو علاج گردشِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے اس کی ترویج و اشاعت پر توجہ مرکوز رکھی۔روسی ہئیت پسندوں نے مواد اور ہئیت کے بارے میں اپنی منفرد سوچ کو پروان چڑھانے کی سعی جاری رکھی۔ان کا خیال تھا کہ ادبی فعالیت کی تفہیم کے لیے ادب پارے کی ہئیت اور مواد کا بہ نظر غائر جائزہ لینا از بس ضروری ہے ۔روسی ہئیت پسندوں نے ادبی تنقید میں پہلی بار ہئیت اور مواد کا داخلی انسلاک کرکے اپنے انفرادیت کا لوہا منوایا۔روسی ہئیت پسندوں نے اس بات پر زوردیا کہ ادب پاروں کے معانی کی ترسیل کا رازہئیت میں پوشیدہ ہے ۔ادب پارے کی ہئیت کا جائزہ اصل عبارت کے معانی کی تفہیم میں کلیدی اہمیت کاحامل ہے ۔ہئیت کا جائزہ لیے بغیر معانی کے گنج گراں مایہ تک رسائی ممکن ہی نہیں۔ تخلیق فن کے مراحل سے گزرتے ہوئے تخلیق کار جب اپنی تخلیق زیبِ قرطاس کرتا ہے تو اصل عبارت کی ہئیت کا تجزیاتی مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ نہ صرف مواد کا مخزن ہے بل کہ اس کے وسیلے سے قاری ان تمام وسائل اور آلات کے بارے میں بھی آ گہی حاصل کر سکتاہے جنھیں اصل عبارت میں رو بہ عمل لاتے ہوئے تخلیق کار نے ید بیضا کا معجزہ دکھایاہے۔ اس طرح روسی ہئیت پسندوں نے اپنے اس موقف کی وضاحت کی کہ یہ ہئیت ہی ہے جو اصل عبارت کے تصور کی تفہیم کی استعداد سے متمتع کرنے کا سب سے مؤثر اور اہم ترین وسیلہ ہے ۔سال 1914 سے لے کر سال 1930تک سویت یونین(سابقہ) سے تعلق رکھنے والے جن رجحان ساز ادیبوں نے فکر و خیال کی اس شمع کو فروزاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا ان میں سے کچھ اہم ادیبوں کے نام حسب ذیل ہیں:
1۔وکٹر شکلو وسکی( Viktor Shklovsky B:24-01-1893 D: 06-12-1984)
2۔یوری تائینیانو(Yuri Tynianov B:18-10-1894 D:20-12-1948 )
3۔والڈیمرپروپ(Vladimir Propp B:17-04-1895 D:22-08-1970 )
4۔بور س ایکن بام (Boris Eikenbaum B:16-10-1886 D:02-11-1959)
5۔رومن جیکب سن(Roman Jakabson B:11-10-1896 D:18-07-1982)
6۔بورس تو ماشکوسکی(Boris Tomashevsky B:29-11-1890 D:24-08-1970)
7۔گریگوری گکووسکی(Grigory Gukovsky B:01-05-1902 D: 02-04-1950)
8۔جان مکار وسکی(Jan Mukarovsky,B:11-11-1891,D:08-02-1975 )
روسی ہئیت پسندی کی تشریح و تجزیاتی مطالعہ میں میخائل باختن(Mikhail Bakhtin B:17-11-1895,D:07-03-1975) نے گہری دلچسپی لی اور نہایت مدلل انداز میں اس کے قواعد و ضوابط پر روشنی ڈالی۔ اس کے مداح یوری لوٹ مین(Yuri Lotman B:28-02-1922,D28-10-1993) نے روسی ہئیت پسندی کے بارے میں حقیقی اندازفکر پروان چڑھانے کے سلسلے میں فعال کردار ادا کیا۔

روسی ہئیت پسند ی کے علم برداروں نے ایک تخلیقی ادب پارے کے متن کے بجائے اس کی ہئیت کو زیادہ اہمیت کاحامل گردانتے ہوئے صرف ہئیت پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔ ادبی تنقید میں انھوں نے ہئیت کے تجزیاتی مطالعہ ہی کو اپنا مطمح نظر ٹھہرایا۔ان کا خیال تھا کہ متن سے دامن بچا کر ہئیت کی غواصی کرنے سے مفاہیم کے گہر ہائے آب دار تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ تخلیقی فعالیت اور اس کے پس پردہ کار فرما عوامل کے بارے میں حقیقی شعور وآگہی کو پروان چڑھانے میں کامیابی صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے جب ہئیت کے مطالعہ میں انہماک کا مظاہر کیا جائے۔ روسی ہئیت پسندی نے اس جانب متوجہ کیا کہ ایک زیرک نقاد جب ادبی تخلیقات کی ہئیت کی تنقید و تجزیہ کو شعار بناتا ہے تو متن کی تخلیق اور اس کے پس پردہ کار فرما لا شعور ی محرکات کی گرہ کشائی سہل ہو جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ہئیت پر اپنی توجہ مرکوز کر دی اور ہئیت کے تجزیے کے وسیلے سے تخلیق فن کے اسرار و رموز سمجھنے کی مقدور بھر کوشش کی۔وہ ا س نتیجے پر پہنچے کہ ادب پارے مجموعی اعتبار سے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں جب کہ ہئیت کو اولین اور کلیدی مقام حاصل ہے ۔جہانِ فن میں ہئیت کو جام ِجہاں نما کی حیثیت حاصل ہے جس کے مطالعہ سے معجزۂ فن کے بارے میں متعدد گتھیوں کو سُلجھایاجا سکتا ہے۔روسی ہئیت پسندوں کی یہ دلی تمنا تھی کہ زبان کو نئی تاب و تواں اور نیا آ ہنگ عطا کیا جائے ۔وہ ادبی زبان کو روزمرہ استعمال کی بیزار کُن یکسانیت ،بے مزہ روایتی اسالیب اور مضمحل انداز سے نجات دلانا چاہتے تھے۔متن کے گرویدہ زبان کے نادان دوستوں نے کڑے معائر اور سخت قواعد و ضوابط کے باعث زبان کو چیستان بنا دیا تھا ۔ ادبی زبان جن کڑے معائر ،بے جاقدغنوں اور جکڑ بندیوں کے بوجھ کے نیچے سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے ان سے زبان کو آزاد کرانے کے لیے روسی ہئیت پسندوں نے حریتِ فکر و عمل کی راہ اپنائی۔ان کی ہئیت پسندی دراصل ان کی جدت اور تنوع کی مظہر تھی۔اکثر لوگوں کاخیال ہے کہ جہاں تک جدید اسلو بیات اور تجزیاتی مطالعہ کا تعلق ہے اس کے سوتے روسی ہئیت پسندی ہی سے پھوٹتے ہیں۔
تخلیقِ ادب میں فکر و خیال کو محیطِ بے کراں کی حیثیت حاصل ہے جب کہ نئی سوچ کو محض ذرا سی آب جُو خیال کیا جاتا ہے ۔ بادی النظر میں یہ بات واضح ہے کہ تصورات و تخیلات کے ندی نالوں اور دریاؤں کا مدو جزر سمندر کے سامنے ہیچ ہے۔ روسی ہئیت پسندی نے جب اپنے فکر ی سفر کا آغاز کیا تو ابتدا ہی سے اسے شدید تنقید کا سامنا کرناپڑا ۔روسی ہئیت پسندی نے جب متن کے بجائے ہئیت کے ترفع پر اصرارکیا تو ادبی حلقوں نے اسے قبول کر نے میں اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کیا ۔ روسی ہئیت پسندوں نے سبک نکتہ چینیوں کی کبھی پروا نہ کی اور اپنی دُھن میں مگن اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے ہئیت کی متن پر بالادستی کو ثابت کرنے میں مصروف رہے۔انھوں نے اپنے دلائل میں اس موقف پر اصرار کیا کہ تخلیقِ ادب کے لمحوں میں ایک مستعد اور فعال تخلیق کاراپنے مافی الضمیرکے اظہار کے لیے جو پیرایۂ اظہار منتخب کرتا ہے وہ اس کی شخصیت کی طرح جداگانہ انداز کا حامل ہوتا ہے۔وہ اپنے اسلوب میں جن الفاظ کوشامل کرتا ہے وہ منفرد نوعیت رکھتے ہیں۔یہ الفاظ ہی ہیں جو گنجینۂ معانی کا طلسم بن کر اظہار وابلاغ،تکلم کے سلسلہ ہائے دوردرازاور دِل و نگاہ کے جُملہ استعاروں کے امین بن کر دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیں ۔ایسی زبان اپنی خاص فعالیت کی وجہ سے نئے رنگ اور منفرد آ ہنگ لیے سامنے آ تی ہے ۔اس خیال کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے روسی ہئیت پسندوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فروغ ادب کے ساتھ قلبی وابستگی رکھنے ولا ایک سنجیدہ اور مخلص تخلیق کاراپنے ما فی الضمیرکے اظہار اور اپنے خیالات کے ابلاغ کے لیے جو زبان استعمال کرتا ہے وہ بہ ہر حال اس زبان سے جداگانہ نوعیت کی ہوتی ہے جو روزمرہ زندگی کے معمولات میں مستعمل ہے ۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عملی زندگی میں بنیے ،بقال اپنی تجوری بھرنے،محنت کش اپنا پیٹ پالنے اور گڈریے مویشیوں کو چراگاہوں میں ہانکنے کے لیے جو بات چیت کرتے ہیں اس کا انداز سطحی سا ہوتا ہے ۔ ان کاخیال تھا کہ روزمرہ زندگی میں مستعمل زبان محض عام نوعیت کی معلومات کی ترسیل کے لیے استعمال میں لائی جاتی ہے ۔ا س کے بر عکس ادبی زبان کا دائرہ کار بے حد وسیع ہوتا ہے اور یہ ادبی زبان ہی ہے جو دل کی بات لبوں تک لانے،قلب و جگر کے افسانے نگاہوں کی زباں سے بیان کرنے اور اسے صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کا جداگانہ انداز ہے ۔ خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر پرورش لو ح و قلم کو شعار بنانے والے ،قلم و قرطاس سے عہدِ وفا استوار کرنے والے اور اپنی قلبی واردات کو رقم کرنے والے ذوق سلیم سے متمتع تخلیق کار کے الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجے کی بات ہی نرالی ہوتی ہے ۔اس کا اول الذکر لہجے سے موازنہ کرنا کور مغزی اور بے بصری کی دلیل ہے۔وہ روزمرہ زندگی کی عام بول چال کی زبان کو غبارِ راہ سمجھتے تھے جب کہ ان کا خیال تھا کہ تخلیقی فعالیت کے دوران اپنائے جانے والے اسلوب کی زبان اس قدر بلند آ ہنگ ہوتی ہے کہ وہ وسعتِ افلاک میں گھنگھور گھٹا کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر نسیم سحر کے شانہ بہ شانہ بلندیوں کی جانب سر گرمِ سفر رہتی ہے اور ستار ے بھی اس کی گرد راہ کے مانند ہیں ۔ ادبی فعالیت کی تکمیل کے لیے ادبی اور لسانی گرامر کی احتیاج سے کون واقف نہیں۔تخلیق کار تخلیق فن کے لمحوں میں خیال و خواب ،احوال و اقوال،کہانی یا آفاتِ نا گہانی کی اس انداز میں لفظی مرقع نگاری کر تا ہے کہ اس کے دبنگ لہجے سے زبان کو نئی تاب و تواں نصیب ہوتی ہے اور اس میں ہر قسم کے مضامین کے اظہار و ابلاغ کی استعدادپوری قوت ،شدت اور جوبن کے ساتھ ظہور میں آتی ہے ۔ حسین الفاظ او ر متنوع ا سالیب سے مزین اور ادبی گرامر سے نکھر کرادبی زبان معجزۂ فن سے ایسے تخلیقی فن پارے پیش کرتی ہے جو قارئین کو اپنی جاذبیت اور مسحور کُن دل کشی سے اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔اس طرح ذوق سلیم سے متمتع قارئین ہر قسم کی پا بندیوں اور نا روا حدود و قیود سے نجات حاصل کر کے آزادانہ طور پرادب پارے کا استحسان کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ کلیشے کی بھرمار سے پامال، گِھسی پٹی اور عام زبان سے انحراف کر کے ادبیت سے لبریز زبان کے استعمال سے وہ مروّج زبان کو اس قدر ثروت مند بنا نے کے خوہاں تھے جو عصری آ گہی کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہو۔ ان کی مجوزہ زبان جہاں عزم جواں کی نقیب ہے وہاں یہ ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی کی تڑپ بھی اپنے اندر لیے ہوئے ہے ۔وہ محض تفحص الفاظ اور رنگِ بیاں کے نئے مناظر سے آ شنا نہیں ہوتے بل کہ سارے جہاں کے اسرار و رموزکا ایک منفرد روپ اپنی نگاہوں کے سامنے جلوہ گر دیکھ کرحیرت سے ان کی آ نکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جاتی ہیں۔روسی ہئیت پسندی کے علم برداروں نے زبان کے حوالے سے نحو ،ساخت اور منظر کشی کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا ۔ادب اور غیر ادب کے درمیان جو حدِ فاصل ہے اس کی جانب انھوں نے متوجہ کیا اور ذوق سلیم کو مہمیز کرنے کی مقدور بھر سعی کی ۔ان کے اسلوب کااہم پہلو یہ ہے کہ انھوں نے زبان و بیان کی ندرت سے عام باتوں کو بھی خاص انداز عطا کر دیا ۔روزمرہ کے معمولات میں معروف اور مانوس باتوں کو بھی انھوں نے نا مانوس اور اجنبی بنا کر اس طرح پیش کیا کہ قاری چونک اٹھے۔اجنبیانے (Defamiliarization)کی یہ اختراع روسی ہئیت پسند وکٹر شلووسکی(Victor Shlovsky) نے سال 1917میں متعارف کرائی۔ اس کا خیال تھا کہ کواکب جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے اصل میں نہیں ہوتے۔ان کے ظاہری روپ کے پردے میں نہاں ان کا اصل روپ دکھانا ضروری ہے ۔ جس طرح ہاتھی کے دانت دکھانے کے اورہوتے ہیں جب کہ کھانے کے لیے اور دانت ہوتے ہیں اسی طرح ادب پارے کی ظاہری اور مانوس کیفیت کے بجائے اس کی باطنی کیفیت پر نگاہ ڈالنا ضروری ہے ۔ ادب پارے میں اتنی جان ہونی چاہیے کہ وہ ہر قسم کی بیساکھیوں سے بے نیاز رہتے ہوئے اپنے وجود کا اثبات کر سکے۔ وقت کے یہ رنگین اور حسین ستم دیکھ کر چشم زار رونا معمول بن جاتا ہے جب پرانے آشنا چہرے پلک جھپکتے میں اجنبی بن جاتے ہیں۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ سب رشتے ناتے سراب بن کر اپنی پہچان کھو دیتے ہیں۔دکھوں کی بھر مار میں بے وفائیوں کی مار کھاتے کھاتے انسان مارِآستین سے مات کھا جاتا ہے ۔ان حالات میں سمے کے سم کا ثمرجب رگِ جاں میں اُتر جاتاہے تو نہ تو کوئی امید بر آتی ہے اور نہ ہی بچ نکلنے کی کوئی صورت دکھائی دیتی ہے ۔ جب زمین دِل کے مانند دھڑکنے لگے ،خیابانِ ہستی سے طائران ِ خوش نوا کوچ کر جائیں اور ہر طرف زاغ و زغن اور کرگس وبُوم منڈلانے لگیں، بُور لدے چھتنار اورسرو و صنوبر ایندھن کے لیے کٹ جائیں اوران کی جگہ پوہلی ،حنظل ،تھوہر اور زقوم اُگائے جائیں تو ماحول کی اس اجنبیت کو شامتِ اعمال کے باعوث رونما ہونے والے کسی نا گہانی حادثے کا انتبا ہ سمجھنا چاہیے ۔

پامال راہوں پر چلنے سے گریزاں اور کورانہ تقلید کی مہلک روش سے نجات حاصل کر کے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی تمنا اپنے دِل میں لیے روسی ہئیت پسندوں نے اقتضائے وقت کے مطابق الفاظ میں نُدرت ،تنوع،تازگی،جدت ،جاذبیت اور دل کشی کی نمو پر توجہ دی ۔یہ تواناتخلیقی عمل ایسی حسین صد رنگی کا مظہر ہو کہ ایک پُھول کا مضمون بھی سو رنگ سے باندھ کر قاری کو چشم تصور سے نئی دنیا کی تابانیاں دکھا سکے ۔ روسی ہئیت پسندوں نے ادب کے عام تصور کی تشریح کو بہت اہمیت دی۔اس مکتبۂ فکر نے یک زمانی (Synchrony)اور کثیر زمانی (Diachrony) عوامل کے بارے میں صراحت کی۔تخلیق فن کے لمحوں میں ادبیت اور ادبی فعالیت کو جو کلیدی حیثیت حاصل ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔سوسئیر (Saussure)نے جن لسانی عوامل کی جانب متوجہ کیا ان کا عمیق مطالعہ کرنے کے لیے زبان کے کثیر زمانے کے حامل (Synchronic)نظام کی احتیاج ہے ۔تنقید اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے جب سوسئیر اورروسی ہئیت پسندوں کے افکار کاجائزہ لیتے ہیں تو اس بارے میں غیر امید افزا صورت دکھائی دیتی ہے ۔وہ سوچنے لگتے ہیں کہ اس وقت کون سے الجھن کو سلجھایا جائے۔ تاریخ کے مسلسل عمل کے نتیجے میں زبان جس معاشرتی ارتقا اور تغیر پذیر معاشرتی کیفیات کے مراحل سے گزری ہے ،ان کے بارے میں کسی سوال کا جواب نہیں ملتا۔اس کے باوجود یہ تاثر عام ہے کہ روسی ہئیت پسندوں نے جس درد مندی ،خلوص اورپُر سوز نگاہ سے فکشن کی شعریات پر توجہ دی اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔لسانیات اور فکشن کے موضوع پر ان کے اسلوب میں جو تازگی ،ندرت ،شگفتگی،تنوع اور اچھوتا پن دیکھنے میں آیا وہ ادبی حلقوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔یہاں تک کہ یورپ نے بھی روسی ہئیت پسندوں کے خیالات سے استفادہ کیا۔گزشتہ صدی کے وسط میں روسی ہئیت پسندوں کی تصانیف کے انگریزی زبان میں تراجم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔یورپ کے ممتاز دانش وروں نے روسی ہئیت پسندی کے موضوع پر اپنے مضامین لکھ کر اس کے بارے حقائق کی گرہ کشائی کی۔ان میں وکٹر ارلیچ(Victor Erlich)،لی ٹی لیمن(Lee.T.Lemon)اور میریسن جے ریس(Marison J.Rreis) کے نام قابل ذکرہیں۔وکٹر ارلیچ نے روسی ہئیت پسندی کے موضوع پر اپنے تراجم کی کتاب سا ل1965میں پیش کی۔یہ کتاب(Russian Formalism,History -Doctorine)جو چار وقیع مقالات پر مشتمل ہے اور اس میں مترجم کا عالمانہ مقدمہ بھی شامل ہے قارئین میں بہت مقبول ہوئی۔اس کے بعد سال 1971میں شائع ہونے والی لڈسلاو مٹجیکا (Ladislav Matejka)اور کرسٹینا پمروز (Krystyna Pomorska) کی کتاب (Readings In Russian Poetics:Formalist and Structuralist Views) کا وسیع پیمانے پر خیر مقدم کیا گیا۔یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ روسی ہئیت پسندوں کے افکار کی باز گشت پوری دنیا میں سنائی دینے لگی۔
اپنی تخلیقی فعالیت میں ادبیت(Literariness)کوروسی ہئیت پسندوں نے سدا مرکز نگاہ بنایا۔ان کا خیال تھا کہ یہ ادبیت ہی ہے جسے تخلیقِ ادب کا جوہر قرار دیا جاسکتا ہے ۔ان کے اسلوب سے یہ تاثر ملتاہے کہ وہ تخلیقی موا دکو اجتماعی کیفیات کامظہراور اسلوب کو انفرادی نوعیت کا حامل سمجھتے تھے۔روسی ہئیت پسندوں نے رومانویت کے سرابوں میں بھٹکنے کے بجائے ادب کا مطالعہ سائنٹفک تجربات کی اساس پر کرنے کی راہ دکھائی۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی کے دور میں ان کا یہ انداز فکر اقتضائے وقت کے عین مطابق سمجھا گیا اور اس کی بھر پور پزیرائی ہوئی۔زندگی کے نشیب و فراز،ارتعاشات اور تجربات و مشاہدات ایک حساس تخلیق کار کے ذہن پر جو نقوش مرتب کرتے ہیں وہ انھیں من و عن صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دیتا ہے ۔ انسانی ہمدردی اور جذبۂ انسانیت نوازی سے سرشار ادیب لفظ کی حرمت اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو ہمیشہ پیش نظر رکھتا ہے اور حق گوئی و بے باکی کو شعار بناتا ہے ۔ تخلیقی عمل میں پائی جانے والی ادبیت قاری کے ذوقِ سلیم اور اخلاقیات کی نمو میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ ان کا خیال تھاکہ اب یہ ادب کے سنجیدہ قاری کی ذمہ داری ہے کہ وہ تخلیق کار کے فکری میلانات اور جذبات و احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔روسی ہئیت پسندوں نے پلاٹ اور کہانی میں پائی جانے والی حدِ فاصل کی طر ف متوجہ کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی کہ پلاٹ ہر اعتبار سے ادبی نوعیت و اہمیت رکھتا ہے ۔جہاں تک کہانی کا تعلق ہے ،اسے خام مواد کا ایک منتشرانبارسمجھنا چاہیے جسے تخلیق کار کی صناعی کی احتیاج ہوتی ہے۔ تخلیق کاراس خام مواد کو ایک مرصع ساز کی طرح استعمال میں لاتاہے۔تخلیق کار اپنی فنی مہارت سے اس مواد کی ترتیب و تزئین میں انہماک کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اسے منفرد رنگ میں پیش کرتا ہے ۔پلاٹ محض کہانی کے واقعات پر مشتمل نہیں ہوتا بل کہ یہ ان متعد د وسائل کا بھی احاطہ کرتا ہے جنھیں استعما ل کر کے تخلیق کار یہ کہانی تخلیق کرتاہے ۔
روسی ہئیت پسندی نے متن کی تخلیق کو متعددادبی وسائل اور منفرد تعاملات کاثمر قراردیا۔ان کاخیال تھا کہ ادب پارے کو کسی فردِ واحد کے تجربات ،مشاہدات،بیرونی دنیا کے مظاہر اور معاشرتی زندگی کے میلانات یا ذاتی زندگی کے احوال کا باب نہیں سمجھنا چاہیے۔انھوں نے پہلی بارپلاٹ اور کہانی کے مابین پائی جانے والی حدِ فاصل کی جانب بھی متوجہ کیا۔ پلاٹ کا تعلق ان امور سے ہے کہ فرد کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو کس انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ان تمام واقعات کو تسبیح ِ روز و شب کی ڈوری میں تاریخ کے تسلسل کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیسے پرویا جاتا ہے اسے کہانی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ سماجی اور معاشرتی زندگی میں دستیاب ادبی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک تخلیق کار اپنی تخلیقی فعالیتوں کے اعجاز سے روزمرہ زندگی کی عام کہانیوں سے پلاٹ کو اساس فرہم کرتا ہے ۔ روسی ہئیت پسندوں کی ادبی سر گرمیوں کو جوزف سٹالن( Joseph Stalin B:18-12-1878 ,D:05-03-1953) کے آمرانہ عہد حکومت(03-04-1922 To 16-10-1952) میں فسطائی جبر کے ساتھ دبا دیا گیا ۔روسی ہئیت پسندی کی تحریک سے وابستہ ادیب غیر روایتی ماہرین لسانیات اور ادبی مورخ تھے۔انھوں نے جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا اور حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپناتے ہوئے روشنی کا سفر جاری رکھا۔ادبی نظریات کی مثل بھی سیل رواں کی سی ہے، جس طرح ندی نالے راہ نہیں پاتے تو ان میں طغیانی اور چڑھاؤ میں اضافہ ہوجاتاہے ۔ اس طرح اظہار و ابلاغ اور روشنیوں کی راہ میں جو دیوار بنتا ہے ،اس کا جانا ٹھہر جاتا ہے ۔ 1930 میں روسی ہیت پسندی کو زیرِ عتاب ٹھہرایا گیا تو اس مکتبۂ فکر کے حامیوں نے دوسرے علاقوں میں اس کی ترویج واشاعت کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ہوائے جوروستم میں بھی انھوں نے رخِ وفا اور آس کا دیپ بجھنے نہ دیا۔ روسی ہئیت پسندی سے وابستہ کچھ پُر عزم تخلیق کار چیکوسلواکیا میں انجمن خیال سجاکر تخلیقی فعالیت میں مصروف رہے ۔ اکثر نقادوں کی رائے ہے کہ روسی ہئیت پسندوں نے مستقل مزاجی کو بالعموم شعار بنانے میں تامل کیا اور ان کے اسلوب سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کے انداز فکر میں یکسانیت اور ہم آہنگی کا فقدان رہا ۔خاص طور پر ادبی تھیوری ،تاریخ اور اس کے مسلسل عمل اور طریقِ کار کے مسائل پر ان میں اتفاق رائے کی کمی دیکھی جا سکتی ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ وہ انھیں اپنے تئیں مکتبِ فکر یا دبستان ادب کہنے میں تامل رہا۔سال 1930 کے بعد روسی ہئیت پسندوں نے ادبی تاریخ،فکشن کے تجزیاتی مطالعہ،سوانح نگاری،فلم اور ڈراما،تعلیم اور تعلم اور ادب پاروں کے متن کی توضیح کے شعبوں میں اپنی ادبی سر گرمیاں جاری رکھیں لیکن جلد ہی سیل زماں کے تھپیڑے موجِ خیال کے ان بگولوں کو اُڑا لے گئے اور روسی ہئیت پسندی کی یادیں تاریخ کے طوماروں میں دب گئیں۔ روسی ہئیت پسندوں کے درج ذیل دو نمائندہ مکاتب فکر موجود تھے۔روسی ہئیت پسندی کے یہ دونوں مکاتب فکر اپنے اپنے زاویۂ نگاہ کے مطابق سر گرم ِعمل رہے۔
1 ۔ماسکو لنگوسٹک سرکل(Moscow Linguistic Circle)
2۔پراگ سکول (Prague School)

ماسکو لنگوسٹک سرکل نے سال 1915تا سال 1924کے عرصے میں اپنے بانی فلپ فیڈروچ فرنٹوناؤ ( Flip Fedorovich Fortunatov) کی قیادت میں اپنی سر گرمیاں جار ی رکھیں۔اس یگانۂ روزگار فاضل نے تنقید، صوتیات ،لسانیات اور ساختیات میں خوب داد تحقیق دی۔ہند یورپین،بالٹک اور سیلوک زبانوں پراس کا تحقیقی کام ہمیشہ یادرکھا جائے گا۔لسانیات میں عہد بہ عہد رونما ہونے والے ہم وقتی اور کثیر الوقتی امتیازات اور اس کے زیر اثر واقعا ت کے تغیرات کے بارے میں اس کے تصورا ت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔

پراگ سکول نے سال1926 تا سال 1939 اپنے بانی وائلم میتھیوسز(,B:03-08-1882,D:04-012-1945 Vilem Mathesius) کی قیادت میں روشنی کا سفر جاری رکھا۔اس سکول سے وابستہ ممتاز نقادوں نے لسانی مباحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔روسی ہیئت پسندوں کے خیالات سے امریکی ادبیات پر دُور رس اثرات مرتب ہوئے ۔ سویت یونین میں پابندی کے بعدروسی ہئیت پسندی کے علم بردار جن ممتاز ادیبوں نے امریکہ کا رخ کیا ان میں دو نام بہت اہم ہیں۔
رومن جیک سن ( Roman Jakson )
رین ویلک( Rene Wellek ,B:22-08-1903,D:11-11-1995 )

رومن جیکب سن نے زبان کے ساختیاتی تجزیہ کے موضوع پر اپنے فکر انگیز اور خیال پرور مضامین سے اسلوبیاتی تجزیہ و تحلیل کو بلند آ ہنگ اور نیا رنگ عطا کیا۔اس کے جرأت مندانہ اور منفرد خیالات کی وجہ سے اس کا شمار بیسویں صدی کے انتہائی مؤثر ماہرین لسانیات میں ہوتا ہے ۔ زبان کے تجزیاتی مطالعہ کے دوران اس نے زبان کے چھے وظائف کی جانب متوجہ کیا ۔اس کا خیال تھا کہ زبان کی حوالہ جاتی ،شاعرانہ،جذبات و احساسات ،آہنگ ،رسمی اور تحدید کے سلسلے میں کار کر دگی قابل توجہ ہے ۔امریکہ میں رومن جیکب سن کے خیالات میں گہری دلچسپی لی گئی۔امریکہ میں جدید اسلوبیات اور بیانیہ کے مباحث میں اس کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جہاں تک امریکی ہئیت پسندی کا تعلق ہے وہ بنیادی طور پر نئی تنقید کے ساتھ وابستہ ہے ۔ روسی ہئیت پسندوں کی آمد کے بعد امریکہ میں جو فکری مد و جزررو نما ہوااس سے جمود کا خاتمہ ہوا اور خوب سے خوب تر کی جستجو کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوگیا جس نے ادبی حلقوں کو مسحور کردیا۔ امریکی ادبیات پر روسی ہئیت پسندی کے دور رس اثرات مرتب ہوئے ۔ امریکی ہئیت پسندی اور روسی ہئیت پسندی میں پائی جانے والی گہری مماثلت ان کی مظہر ہے ۔ امریکی ہئیت پسندی کی آزادانہ حیثیت میں نمو سے یہ تاثر قوی ہوجاتا ہے کہ اس انداز فکر کو مہمیز کر نے میں روسی ہئیت پسندی کا بالواسطہ اثر شامل ہے۔ سائنسی انداز فکر کی حامل زبان اور ادبی زبان میں پائے جانے والے فرق کو روسی ہئیت پسندوں نے واضح کرنے کی کوشش کی ۔ان کا خیال تھا کہ سائنسی انداز فکر کی امین زبان کا جھکاؤ ہر موضوع کی جانب بالکل سائنسی انداز میں ہوتا ہے ۔ اس کا اسلوب اٹل اور مسلمہ صداقتوں کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔اس زبان میں سائنس اور ریاضی کے مانند نشانات اور علامات کی موجودگی سے یہ تاثرقوی ہو جاتا ہے کہ اس میں ایک ٹھوس اور بے لچک اندازہے ۔اس زبان کے اپنے قاعدے ،ضابطے اور منطق ہے جس سے انحراف ممکن نہیں۔ ممتاز نقادرین ویلک (Rene Wellek)نے اپنے ایک مضمون میں سائنٹفک زبان اور ادبی زبان کا امتیاز کرتے ہوئے لکھا ہے :
"Compared to scientific language,literary language will appear in some ways deficient.It abounds in ambiguities ,it is,like every other historical language,full of homonyms,arbitrary or irrational categories such as grammatical gender; it is permeated with historical accidents,memories,and associations." (1)

یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس زمانے میں معاشرتی اور سماجی زندگی میں رونما ہونے والے انقلاب اور روسی ہئیت پسندوں کے خیالات کا آپس میں کیا تعلق ہے ۔بعض غیر محتاط مطالعات کے باعث روسی ہئیت پسندی کے بارے میں یہ تاثر سامنے آتا ہے کہ روسی ہئیت پسندی کے حامی خارزار سیاست سے دور رہنا چاہتے تھے ۔وہ جنگ کی ہلاکت خیزیوں سے اس قدر لرزاں تھے کہ حکومت و سیاست کی بساط سے انھیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔وہ اپنی دھن مین مگن تخلیق ادب کی دنیا میں مست تھے اور جاہ و منصب اور ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز تھے ۔انھوں نے روسی ہئیت پسندی کے سائے میں سکون محسوس کیا ۔اس کے بارے میں روس کے رجحان ساز ادیب اور نقاد وکٹر ارلیچ (Victor Erlich,B:22-11-1914,D:29-11-2007)نے لکھا ہے :
"The question of ,Formalism versus Revolution,is not so simple as it may seem on the surface.The charge of escapism,mercilessly abused by heavy-handed bureacurats of ,social,criticism, ought to be handled with great care.If we define this term as withdrawl from active involvement in contemporary political battles , the label could scarcely be applied to such formalist theoreticians as O.Brik or L.Jakubinskij. (2)

روسی ہئیت پسندی کے ارتقا پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اس نے انتہائی نامساعدحالات میں بھی حریت فکر کاعلم بلند رکھا۔دوالگ الگ دبستانوں کے باوجود ہئیت کے موضوع پر ان کے خیالات میں بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی تھی۔وکٹرارلیچ نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں تھا جسے تمنائے سروری نہ ہو۔ہوس نے نوع انساں کو جس فکر ی انتشار میں مبتلا کر دیا ہے اس سے دامن بچانا بہت مشکل ہے ۔ دنیا جانتی ہے کہ او سپ برک(Osip Brik B:16-01-1888,D:22-02-1945) اور ایل۔جکبن سکج (Lev Petrovic Jakubinskij,B:1892,D:1945)کی استثنائی مثالیں موجود ہیں جنھوں نے ہواکارخ دیکھ کر مصلحت اندیشی کو شعار بنایا۔اس کے باوجود ان کی کوئی احتیاط کارگر نہ ہوئی اور ہوائے جورو ستم کے مہیب بگولوں نے ان کی شمعِ زیست گُل کر دی۔اسی کا نام تو تقدیر ہے جو ہر لمحہ ہر گام دیکھتے ہی دیکھتے انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑادیتی ہے اور دنیادیکھتی کی دیکھتی رہ جاتی ہے ۔جنگ وجدال کے اس زمانے میں حالات حددرجہ غیر امید افزا تھے۔معاشرتی زندگی میں جان لیوا حادثات اور مصائب و آلام کے غیر مختتم سلسلے نے زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کو جنگ کے شعلوں نے بھسم کر دیا۔ان غیر یقینی حالات میں معاشرتی اور سماجی زندگی کے معمولات درہم برہم ہو گئے اور شقاوت آمیز نا انصافیوں نے معاشرتی زندگی کا پُورانظام تہس نہس کر دیا۔ جنگوں کی تباہیاں جب مقدر کی سیاہیاں بن گئیں توبے یقینی کی اس لرزہ خیز کیفیت کے باعث تہذیب و تمدن کا شیرازہ بکھر نے کا اندیشہ بڑھنے لگا۔ تہذیب و تمدن کی زبوں حالی کاسب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ معاشرت و ثقافت کی تمام رعنائیاں ماند پڑنے لگیں اور قحط الرجال نوشتۂ تقدیر کی صورت میں سامنے آیا ۔روسی ہئیت پسندوں کا خیال تھا کہ زمانہ ٔ امن میں تو انسانیت کے وقار عزت نفس اور خود داری کے بھرم کو ملحوظ رکھنے کی مساعی کسی حد تک جاری رہتی ہیں اور زندگی کی تاب و تواں بھی بر قرار رہتی ہے ۔اس کے بر عکس زمانۂ جنگ میں آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والی مظلوم انسانیت کی توہین،تذلیل،تضحیک ،بے توقیری اور قتلِ عام کے سانحات اس قدر فراواں ہو جاتے ہیں کہ سانس گِن گِن کر زندگی کے دن پورے کرنے والی مظلوم اور بے بس و لاچار انسانیت زندہ در گو ر ہوجاتی ہے ۔ عالمی جنگ نے زندگی کی تمام رُتوں کو بے ثمر کر دیا۔جنگ کے بعدآفت رسیدہ ممالک کے خزاں رسیدہ موسم میں اخلاقیات کے سب اثمار و اشجار سُوکھ گئے ۔ روسی ہئیت پسندوں نے ادبی تنقید کو جس وسعت سے آ شنا کیا اس کی بنا پر اکثر ناقدین انھیں جدید ادبی تنقید کے بنیاد گزاروں میں شامل کرتے ہیں۔ جن روسی ہئیت پسندوں نے ان تمام حالات سے گہرے اثرات قبول کیے ان میں رومن جیکب سن کا نام نمایاں مقام رکھتا ہے ۔جو ناتھن کیولر(Jonathan Culler)نے رومن جیکب سن کے تجزیاتی اسلوب کے بارے میں لکھا ہے :
" "Jakobson,thinking in distributional terms,takesposition to be thecrucial factor:since,on purpose laid,directly precedes,to make,he relates it to,heaven,which directly precedes,that leads,.But the reader would make this connection only if he approached the poem without paying any attention to logical and thematic relations.position does play a role ,but not in the way that jajobson implies;it is subordinatedto thematic considerations.The reader can notice that the phrase,on purpose laid; ;which appears between,bait,and ,to make,has no constituent correspondingto itin the final line of the sonnet.The logical parallelism has been violated,and this has considerable significance:the vituperative and accusory tone of ,on purpose laid, has vanished by the time we reach the couplet." (3)

روسی ہئیت پسندوں کا خیال تھا کہ لسانیات کا مطالعہ قاری کو متن کے جملوں کی تفہیم اور ان کی تہہ میں نہاں گہر ہائے آب دار تک رسائی کی مطلوبہ استعدا داور بصیرت سے متمتع کرنے سے قاصر ہے ۔اس کے بجائے لسانیات اپنی محدود کار کردگی کی بنا پرکسی حد تک اس عقدے کو وا کرنے کی سعی کرتی ہے کہ بولنے والا اور اس کے منھ سے نکلنے والے جملے کس طرح گنجینۂ معانی کا طلسم بن گئے ہیں۔یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ اگر لسانیات سے یہ مقاصدوابستہ کر لیے جائیں کہ وہ معانی کے تعین میں بھی اپنا کردار ادا کرے تو اس کے نتیجے میں اظہار و ابلاغ کا تمام منظر نامہ ہی دھندلا جائے گا۔اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ والی کیفیت پیدا ہو جائے گی جس کے نتیجے میں ایسا گورکھ دھندا سامنے آئے گا کہ نہ صرف زبان بل کہ بولنے ولا اور سننے والا بھی احساسِ زیاں کے باعث ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ اس الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانا سائے کے تعاقب اور سرابوں میں سر گرداں ہونے کے مترادف ہے اور یہ صورت حال کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہو گی۔اپنے ایک اہم تنقیدی مضمون ’’Linguistics and Poetics‘‘ جو ممتاز محقق اور نقاد ڈیوڈ لاج(David Lodge) کی مرتب کردہ کتاب ’’ماڈرن کرٹسزم اینڈ تھیوری ‘‘ (Modern Criticism And Theory)میں شامل ہے میں رومن جیکب سن نے لکھا ہے :
" Language must be investigated in all the variety of its functions .Before discussing the poetic function we must define its place among the other functions of language.An outline of these functions demands a concise survey of the constitutive factors in any speech event,in any act of verbal communication. (4)

اس نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے قارئینِ ادب کو اس جانب متوجہ کیا کہ جب بھی کوئی خطاب کرنے والا کسی خطاب سننے والے کے نام کوئی پیغام ارسال کرتاہے تو اسے قابلِ عمل اور فعال بنانے کے لیے ایسے حوالہ جاتی سیاق و سباق کی احتیاج ہوتی ہے جوخطاب سننے والے کے فہم کی گرفت میں آسکے۔اسے ایک اشارہ سمجھناچاہیے جو زبانی نوعیت کا ہو یا اسے زبانی نوعیت کا حامل بنادیاگیاہو ۔یہ بات طے ہے کہ خطاب کے ذریعے پیغام بھیجنے والے کے لیے اس کی ترسیل اوراس طرح بھیجے گئے پیغام کو وصول کرنے والے کے لیے اس کی تفہیم صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ اس عام نوعیت کے اورسمجھنے میں سہل نشان یا کوڈ سے مکمل طور پر یا جزوی طور پر آگاہ ہوں ۔اس کوڈ کے ذریعے پیغام کی ترسیل اور وصولی کے عمل کو محفوظ اور معتبر بنایا جا سکتا ہے ۔کوڈ لگانا اور کوڈ کھولنااسی نشان کامرہونِ منت ہے ۔سب سے آخر میں رابطہ کا مرحلہ آتا ہے جس کے طبعی اور نفسیاتی پہلو قابل توجہ ہیں جن کی وجہ سے خطاب کرنے والا اور خطاب سننے والااُس استعداد سے متمتع ہوتے ہیں جس کی بدولت وہ آپس میں معتبر ربط رکھنے میں انہماک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ان تمام امور کی وضاحت کے لیے رومن جیکب سن نے جو شکل اختراع کی وہ یہاں پیش کی جاتی ہے :
سیاق و سباق اور تناظر
خطاب کرنے والا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیغام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خطاب سننے والا
رابطہ
کوڈ
مندرجہ بالا چھے عوامل یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اظہار و ابلاغ کے سلسلے میں زبان جو اہم کردار ادا کرتی ہے وہ ان عوامل کا ثمر ہے ۔عملی زندگی میں تکلم کا سلسلہ بہت احتیاط طلب سمجھا جاتا ہے ۔زبان جب کوئی واضح پیغام ارسال کرتی ہے تو اس مقصدکے لیے کچھ بنیادی عوامل کی فعالیت کا آ ہنگ اس میں شامل ہونا ضروری ہے ۔روسی ہئیت پسندی کے زیر اثر اس نے جو ادبی تھیوری پیش کی وہ اس کی جدت طبع ،منفرد سوچ اور فکری تنوع کی مظہر ہے ۔اگرچہ اس ادبی تھیوری میں ترجمانی کے عناصر بھی جلو گر ہیں لیکن شعری زبان پر اس کی توجہ قابل قدر ہے ۔شعری زبان کو عام لب و لہجے کی حامل جداگانہ انداز کی مظہر زبان بنانے کے متعلق اس کی سوچ حیرن کن ہے ۔روسی ہئیت پسندی کے یہ رجحانات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فرانسیسی ساختیات کے میلانات میں دکھائی دینے لگے ۔رومن جیکب سن نے پیغام رسانی کے لیے مستعمل زبان کے بارے میں اپنے زاویۂ نگاہ کی وضاحت کرتے ہوئے یہ شکل پیش کی :
حوالہ جاتی
عملی شاعرانہ جذباتی
رسمی
مافوق لسانی

زبان کے شعریاتی فرائض کے سلسلے میں روسی ہئیت پسندوں نے منفرد انداز فکر اپنا یا۔ان کا خیال تھا کہ شعریات اور لسانیات کی گرامر کے مطالعہ سے ایسا ڈھانچہ مرتب ہو تا ہے جس کی تشریح و توضیح کی احتیاج ہوتی ہے۔اس موضوع پر رومن جیکب سن نے اپنی تنقیدی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے فکر ِ نو کی بھر پور ترجمانی کی ۔مطالعۂ ا دب کو ایک اہم موضوع سمجھتے ہوئے اس نے اس کی جانب پورے انہماک کی ضرورت پر زور دیا۔اس نے ادبی گرامر کی متنوع اشکال سے اس امر کی وضاحت کی کہ اظہار ایک محنت طلب کام ہے اس کے پس پردہ جو عوامل کار فرما ہوتے ہیں ان پر توجہ دینا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔رومن جیکب سن کی علمی و ادبی خدمات کو وسیع پیمانے پر پزیرائی ملی۔اس زیرک نقاد نے اپنی فہم و فراست ،تخلیقی فعالیت اور تنقیدی بصیرت کوبروئے کار لاتے ہوئے مطالعۂ ادب کو نئے آفاق سے آ شنا کیا۔اس کی دلی تمنا تھی کہ جدیدلسانیات کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی مساعی ثمر بار ہوں۔اپنے معاصرین کے ساتھ مِل کر اس نے جدید لسانیات کے تحقیق و تجزیے اور تنقید کے مقاصد کو رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔اس سلسلے میں اس نے ادبی گرامر کی تشریح اور تفہیم کی خاطر کئی اشکال کے ذریعے اس امر کی جانب متوجہ کیا کہ قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے والے جذبات و احساسا ت سے لبریز کلمات کے پسِ پردہ جو عوامل کار فرما ہیں ان سے آ گہی ضروری ہے ۔تخلیق ادب کے لاشعوری محرکات کے معجز نما اثر سے ایک تخلیق کار ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے اور اس کے دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی بات قاری کے دل میں اُتر کر اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے ۔

ادب میں غیر معروفیت ، اجنبیانہ اور انوکھے پن کے بارے میں روسی ہیت پسندوں نے منفرد انداز فکر اپنایا ۔ ہر روز کے معمولات ، مسلسل تعارف اور پیہم دید وا دید سے دل کشی اور تجس عنقا ہو جاتا ہے ۔ اس طرح ہر چیز کو معمولات زندگی کا تسلسل سمجھا جاتا ہے ۔ ادب میں ندرت ، جدت ، تنوع اور تازگی صرف اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے جب کوئی انوکھی ، چونکا دینے والی اور حیران کن بات سامنے آئے ۔روسی ہیت پسندوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ پہلے سے موجود اشیا میں بھی انوکھا پن تلاش کیا جاسکتا ہے۔ انسانی زندگی کے تجربات و مشاہدات صرف اسی صورت میں پُر لطف اور پر کشش ثابت ہو سکتے ہیں جب انھیں منفرد اور اچھوتے انداز میں بیان کیا جائے۔ عالمی ادبیات میں جنس کے موضوع پر کئی مانوس افعال کو غیر مانوس الفاظ کے فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے سے فحاشی کا تدارک کرنے میں مدد ملی ۔اردو ادب میں ابن انشا نے اپنی گل افشانی ء گفتار سے جو سماں باندھا ہے اس میں مزاحیہ صورت واقعہ کو سامنے لاتے وقت اجنبیانے کے عمل کو بہ طور حربہ استعمال کرنے کا گما ن ہوتا ہے ۔ ابن انشا کی ظریفانہ تحریر کا آغاز ہی قاری کو چونکا دیتا ہے ۔ عام طور پر کہانی لکھنے والا اس جملے سے آغاز کرتا ہے۔ ’’ایک دفعہ کا ذکرہے ۔‘‘مگر ابن انشا نے ثابت کر دیا کہ عکس و آ ہنگ کے بغیرفن کا تصورہی عبث ہے ۔کسی بھی چیز کی انعکاسی کیفیت اس کے معروف اور انوکھے روپ کو ہمارے سامنے لا کر ہمیں حیر ت زدہ کر دیتی ہے ۔ابن انشا نے تقلید کی روش سے بچتے ہوئے ایک نامانوس اور اجنبی انداز سے کہانی یوں شرع کی ’’دوسری دفعہ کا ذکر ہے ۔‘‘یہی منفرد اسلوب زندگی کی نا ہمواریوں کے ہمدردانہ شعور کا آئینہ دارہے جس کا نہایت فن کارانہ انداز میں اظہار کیا گیا ہے ۔

اجنبیانے (Enstrangement)کا عمل بہت احتیاط کا متقاضی ہے۔ اس کے دوران پہلے سے موجود نشانات کے نا موافق یا متضاد نشانات کاانتخاب مناسب نہیں۔اس طرح قاری کے لیے تفہیم میں دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔اجنبیانے کے عمل کے پسِ پردہ جوسوچ کار فرما رہی اس کے دو پہلو نمایاں ہیں۔ایک تو یہ کہ قاری کے ذہن میں موضوع کے بارے میں تجسس(Curiosity) پیدا کیا جائے۔دوسرا پہلو یہ تھا کہ قاری دورانِ مطالعہ تذبذب (Suspense)کا شکار ہوجائے اور یہ سوچنے لگے کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا اور یوں ہوتاتو کیا نتائج سامنے آتے۔روسی ہئیت پسندوں نے ان اہداف تک رسائی کے لیے اجنبیانے کے عمل کا سہارا لیا۔ وکٹر شکلووسکی نے اجنبیانے کے بارے میں اپنے مضمون ’’Art As Device ‘‘ میں لکھا ہے :
,,To this device of enstrangement belong also constructions such as ,,Pestel and the mortar,,or ,,the devil and the infernal regions,, (5)
ڈیوڈ لاڈج (David Lodge) نے اجنبیانے کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :
"Habitualization devours works,clothes,furniture,one,s wife,and the fear of war......And art exists that one may recover the sensation of life,it exists to make one feel things,to make stony stony.The purpose of art is to impart the sensation of things as they are perceived and not as they are known" (6)
اجنبیانا(Defamiliarization/Enstrangement) روسی ہئیت پسندی کے اسلوب کا امتیازی پہلوقرار دیا جاتا ہے ۔اس کے بارے میں لی ٹی لیمن نے لکھا ہے :
"According to Shklovsky,the chief technique for promoting such perception is ,,Defamiliarization,,.It is not so much device as a result obtainable by any number of devices. A novel point of view,as Shklovsky points out,can make reader perceive by making the familiar seem strange." (7)

ادبی گرامر کے منفرد اور پیچیدہ موضوع پر اپنی بحث و تمحیص کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے اشہبِ قلم کی جو لانیا ں دکھاتے ہوئے رومن جیکب سن نہایت پُر جوش انداز میں اپنے موقف کے حق میں دلائل دیتا چلا جاتا ہے ۔اپنے زورِ بیان میں وہ اس قدر محو ہو جاتا ہے کہ پُر زور استدلال کے جوش میں وہ اپنے تجزیاتی مطالعات کی تمسیخ کر جاتا ہے ۔اس کا یہ کہنا کہ لسانیات نے شعریات کے مختلف نمونوں کے لیے خود کار دریافت کا مظہر ایک قابل عمل طریق کار فراہم کیا ہے ۔ یہاں تک پہنچنے کے بعدحیرت ہے کہ وہ اس بات کا احساس پیدا کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے کہ ادبی شعریات کی جن متنوع ساختوں کا اس نے بر ملا ذکر کیا ہے وہ سب کیسے لسانی ساختوں کی مخفی تکثیریت سے نمو پانے کے بعد منصۂ شہود پر آئیں۔اس موقع پر ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس بارے میں کیا کہاجائے اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے کہ اس موضوع پر کیا لکھا جائے ۔قاری حیرت و استعجاب کے عالم میں پکار اٹھتا ہے کہ اب ان گتھیوں کو کیسے سلجھایا جائے؟

اکثر کہاجاتا ہے کہ نالہ ،فریاد ،آہ اور زاری کے لیے کسی لَے یا نَے کی پا بندی لازم نہیں۔مگر روسی ہئیت پسندوں نے انھیں بھی پابندِ نَے کرنے کی کوشش کی اور انھیں ایک خاص آ ہنگ کا تابع قرار دیا۔آزاد اور پابند موٹف(Free And Bound Motifs)کے بارے میں روسی ہئیت پسندوں کے خیالات گہری معنویت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔اپنی نوعیت کے اعتبار سے موٹف کا تعلق فکروخیال کی ایک تحریک(Motivation) سے جس کے زیرِ اثر تخلیقی عمل ہمیشہ رواں دواں رہتا ہے ۔موٹف(Motif) پلاٹ کی سب سے چھوٹی اکائی ہے جسے کسی فعل کے واحد اشارے پر محمول سمجھنا چاہیے۔جب کوئی خاص موٹف کسی متن میں بار بارسے آئے تو اسے لیٹ موٹف (Leitmotif) کہا جاتا ہے ۔جہاں تک پابند موٹف (Bound Motif)کا تعلق ہے کہانی کو اس کی احتیاج ہوتی ہے ۔اس کے برعکس آزاد موٹف(Free Motif)کہانی کے لیے نا گزیر نہیں۔ادبی نقطۂ نظر سے اس کا جمالیاتی سوز و سرورکہانی کوزرنگار بنا دیتا ہے ۔آزاد موٹف کے سلسلے میں ترک وانتخاب تخلیق کار کا صوابدیدی اختیار ہے ،اسے کہانی کا جزو لا ینفک نہیں سمجھناچاہیے ۔روسی ہئیت پسندوں نے آزاد اور پا بند موٹف کے حوالے سے اظہار وابلاغ کے جن متنوع مباحث کا آغاز کیاوہ ادب میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے۔انھوں نے داستان ،افسانے ،کہانی یا کسی ادبی تخلیق کے اس انتہائی چھوٹے بیانیہ عنصر کو موٹف سے تعبیر کیا جس کی مزیدتخفیف خارج ازامکان ہے۔ پلاٹ کاانتہائی مختصر بیانیہ جسے وہ موٹف سے تعبیر کرتے تھے جب مجتمع صورت میں منصہ شہود پر آتا ہے تو کہانی آگے بڑھتی ہے ۔انھوں نے اس بات کی بھی صراحت کر دی کہ جہاں تک موٹف کی درجہ بندی کا تعلق ہے موٹف کو منطقی (Logical) کے بجائے موضوعاتی(Thematic)حیثیت حاصل ہے۔موٹف (Motif)کے بارے میں میکس لوارز (Max Louwerse) کے خیالات قابلِ توجہ ہیں ۔اس نے موٹف کے بارے میں تماش وسکی (Tomashevsky)کے حوالے سے لکھا ہے :
( 8) "The smallest,irreducible thematic element Tomashevsky calls motif."

روسی ہئیت پسندی کے آخری دور میں حاوی محرک(The Dominant)کے تصور نے قارئینِ ادب کو جہانِ تازہ کی عطر بیزیوں سے مسحور ہونے کی راہ دکھائی۔ حاوی محرک تخلیقی فعالیت کا ایک ایسا جزو ہے جس پر تخلیقی عمل کے دوران توجہ مرکوز رہتی ہے ۔جب زمانہ ،حیات اور کائنات ایک ہیں تو قدیم وجدید کے سب قصے کیا حیثیت رکھتے ہیں؟تیزی سے بدلتے ہوئے حالات افراد کی سوچ پر دُور رس اثرات مرتب کرتے ہیں۔عالمی ادب کے ارتقا کامطالعہ کرنے سے یہ حقیقت روزِروشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ادبی تحریکوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں فکری بالیدگی اور نئے تصورات کی نمو میں اہم کردار ادا کیا۔رومانویت نے سال1798تا سال1900 کے عرصے میں وادی ٔ خیال میں مستانہ وارگُھومنے ، حسن و رومان کے دل کش نظاروں سے حظ اٹھانے اور فطرت کی رنگینوں اوررعنائیوں سے فیض یاب ہونے کی راہ دکھائی۔اس کے بعد جدیدیت نے سال 1900تا سال 1945 کے برسوں میں فکر و نظر کو مہمیز کیااور جب جدیدیت کی تابانیاں کسی حد تک ماند پڑنے لگیں تو مابعد جدیدیت نے سال 1945تا سال2001خوب رنگ جمایا اور اب تک ٹمٹما رہی ہے۔اسی طرح گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں ساختیات ، اس کے ردِ عمل میں پسِ ساختیات اورردِ تشکیل کی غالب حیثیت کسی سے مخفی نہیں۔اسلوب میں حاوی محرک کی ہمہ گیر تاثیر اور تسخیر قلوب کا جادوسرچڑھ کر بولتا ہے۔حاوی محرک اپنی نوعیت کے اعتبار سے اسلوب میں تخلیقی عمل کے نباض ایسے حاکم کے روپ میں جلوہ گر ہوتا ہے جسے نہ صرف مفاہیم کے تعین کے تمام اختیارات حاصل ہیں بل کہ باقی ماندہ اجزا کے تغیر و تبدل میں بھی وہ کلید ی کردار اداکرتا ہے۔

بعض ناقدین کی رائے ہے کہ جب روسی ہئیت پسندوں کو خود ان کے اپنے وطن میں کٹھن حالات کا سامنا تھا اور وہ نہایت بے سروسامانی کے عالم میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ سٹالن کے عہد میں روسی ہئیت پسندوں کو بدعتی قرار دیا گیا۔ اس وقت میخائل باختن نے(Mikhail Bakhtin,B:17-11-1895,D:07-03-1975)یہ کوشش کی کہ ر وسی ہئیت پسندی اور ما رکسزم کے مابین ربط کی کوئی راہ تلاش کی جائے ۔بادی النظر میں اس کے پسِ پردہ یہ سوچ کار فرما دکھائی دیتی ہے کہ مقتدر حلقوں کی نظر میں معتوب ٹھہرنے والی روسی ہئیت پسندی کے لیے کوئی نرم گوشہ پیدا ہو سکے۔ اس بات کی صداقت اس لیے محل ِ نظر ہے کہ میخائل با ختن خود بھی حکم ران طبقے کا معتوب تھا اوراس کی شخصیت خاصی متنازعہ بن گئی تھی ۔اس نے کسی مصلحت کی پروا کیے بغیرفسطائی جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا جس کی بنا پر اس کی پی ایچ۔ڈی کی ڈگری روک لی گئی۔اسے سٹالن کے دور میں اندرونی جلا وطنی کی اذیت وعقوبت برداشت کرنا پڑی جب وہ قزاقستان میں بھیج دیا گیا۔ جبر کے خلاف اس کی مزاحمت نے اسے نیک نامی عطا کی ۔اپنے خیالات کی ترویج کے ا ہم مقصد کے لیے باختن سرکل (Bakhtin Circle)کا قیام عمل میں لایا گیا ۔اس سر کل میں جو ادیب شامل تھے ان کے نام درج ذیل ہیں :
میٹوی اسوچ کاگانMatvei Isaevich Kagan (1889-1937))
پاول نکولاوچ میڈو (1891-1938) Pavel Nikolaevich Medvedev)
لیو ویسل وچ پمپیانسکیLev Vasilievich Pumpianskii (1891-1940))
ایون ایونوچ سولر ٹنسکیIvan Ivanovich Sollertinskii (1902-1944))
ولینٹن نکلوچ ولشنوو Valentin Nikolaevich Voloshinov (1895-1936))

اگرچہ میخائل باختن نے اپنی انجمن خیال الگ سجا رکھی تھی لیکن روسی ہئیت پسند بالخصوص رومن جیکب سن اسے اپنی صف میں شامل سمجھتاتھا۔میخائل باختن کے مارکسیت کے حامی ادیبوں سے گہرے تعلقات کسی سے پوشیدہ نہ تھے ۔ زمانہ طالب علمی ہی سے وہ روسی ہئیت پسندی کو تنقیدی نگا ہ سے دیکھتاتھا۔اس نے سال 1928میں روسی ہیئت پسندی کے بارے میں اپنے ایک اہم مضمون میں اس کے نظریات پر کئی سوال اُٹھائے ۔مضمون ’’The Formal Method In Literary Scholarship ‘‘ اس کی وسعت نظر کا مظہر ہے ۔ میخائل باختن نے لفظ اور اُس کے کثیر صوتی پہلو کے بارے میں اپنے خیالات سے لسانیات میں تہلکہ مچا دیا۔ اس نے ادبی ڈسکورس کے موضوع پر بھی اپنے متنوع اور منفرد اسلوب سے ادبی حلقوں کو متاثر کیا ۔جب روسی ہئیت پسندوں نے تلخ سماجی حقائق سے چشم پوشی کو شعار بنایا تو میخائل باختن نے اس پر گرفت کی ۔ میخائل باختن نے جن موضوعات میں گہری دلچسپی لی ان میں اخلاقیات (Ethics)اور جمالیات(Aesthetics)ہیں۔اس نے اخلاقیات اور جمالیات کے باہمی ربط کواپنی تحقیق کاموضوع بنایا۔ ثقافت کے سماجی پہلو پر میخائل باختن نے سیر حاصل بحث کی ۔اس نے مروج ادبی تھیوری کے موضوع پراپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کیا۔میخائل باختن کا شمار بیسویں صدی کے انتہائی مؤثر نقادوں میں ہوتا ہے۔سوشل سائنسز کے اس روسی ماہر کاشمار عالمی شہرت کے حامل دانشوروں میں ہوتا ہے ۔میخائل باختن کاخیال تھاکہ تخلیقی فعالیت میں زبان کااستعمال جب مکالماتی صورت میں ہوتا ہے تو اس کی دل کشی پتھروں کو بھی موم کر دیتی ہے اس لیے زبان کا استعمال ہر صورت میں مکا لماتی صورت ہی میں مستحسن ہے ۔ اس طرح مکالماتی عمل کے بعد ردِ عمل جب سامنے آتا ہے تو حقائق کی گرہ کشائی سہل ہو جاتی ہے۔ مکالمات کی ادائیگی کے دوران لہجے اور زبان کا زیرو بم جملوں کے مفہوم کو واضح کرتا چلاجاتا ہے ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تکلم کے ہر سلسلے کے سوتے گزشتہ جُملوں کی ادائیگی کے انداز سے پُھوٹتے ہیں اور ان کی تشکیل مستقبل کی توقعات کے مطابق ہوتی ہے ۔اس کے دُور رس اثرات محض ادبی مطالعات تک محدود نہیں رہتے بل کہ ان کادائرۂ کار سرحدِ ادراک سے بھی آگے نکل جاتا ہے ۔ میخائل باختن نے لسانیاتی عمل کے بارے میں اپنا جو موقف پیش کیا اس میں ناول اور طربیہ کوادبیات میں سطحی کے بجائے مرکزی حیثیت کا حامل قرار دیا گیا۔میخائل باختن کی پر کشش ادبی تھوری نے انسانیت نوازی کے روایتی انداز اورقدامت پسند مارکسیت سے الگ راہ تلاش کی۔ اس میں ردِ تشکیلی نقطۂ نظر کی جھلک اس کی منفرد سوچ کی آئینہ دار ہے۔ میخائل باختن کی زندگی میں اور اس کی وفات کے بعد اس کے نظریات پر تحقیق و تنقید کا سلسلہ جاری ہے ۔اس کے خیالات کا پر توساختیات اور پسِ ساختیات میں نمایاں ہے ۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک سائنس دان اپنے ذہن و ذکاوت کو بروئے کارلا کرنت نئی ایجادات سے زندگی کو متنوع اور دل کش بنا دیتا ہے ۔اس کی ایجادات کی وجہ سے زندگی کے حالات کی کایا پلٹ جاتی ہے اور معاشرتی زندگی میں ایک انقلاب رونماہوتا ہے ۔ایک تخلیق کاراپنی بصیرت اور روحانیت کے امتزاج سے وہ معجزۂ فن دکھاتا ہے کہ دیکھنے والے پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔تخلیق فن کے لمحوں میں اپنی تمام بصیرتوں اور فعالیتوں کورو بہ عمل لاتے ہوئے تخلیق کار ید بیضا کا جو معجزہ دکھاتے ہیں وہ سائنس دان کے تجربات اور ایجادات سے کہیں بڑھ کر کٹھن اور محیر العقول ہوتے ہیں۔زیرک تخلیق کار کی تخلیق کا ایک ایک لفظ پارس کی حیثیت رکھتا ہے جو انسان کے فکر و خیال کو ستاروں سے بھی آگے بلند پروازی پر مائل کرتا ہے اور ذہن و شعور کو فہم و ادراک کی سد ا بہار صلاحیت سے مزین کر کے تاریخی شعو ر سے ثروت مند بناتا ہے ۔یہ ذہنی شعورنسل در نسل فکر ی بیداری اور ارتقا میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔ایک تحریک جب اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے توپھر اس کا احیا ممکن ہی نہیں اور اس کی تقلید سعیٔ لا حاصل ہے تا ہم اس تحریک کا مطالعہ عہد بہ عہد فکری ارتقا کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ۔روسی ہئیت پسندی اب ماضی کا حصہ بن چکی ہے لیکن ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی ایوان ِ ادب میں جِدت فکر کے علم برداروں کی صدا کی باز گشت سن کر نمودِ سحر کے امکانا ت کے بارے میں کہا جا سکتا ہے :
جب بند آنکھیں کُھلیں گی نئے زمانوں میں
پُرانے دوست ملیں گے نئے مکانوں میں
مآخذ
1.Rene Wellek:Theory Of Literature ,Harcourt ,Brace and company ,New York,1949 ,Page 12
2.Victor Erlich :Russian Formalism ,History -Doctorine,Mouton Publishers New York ,1980 Page,79
3.Jonathan Culler:Structuralist Poetics,Routledge,London,1975, Page ,85
4.Roman Jakobson:"Linguistics and Poetics "article in Modern Criticism and
theory ,Edited by David Lodge ,Pearson Singapore ,2003,Page,33.
5.Viktor Shklovsky: Theory Of Prose,Translated by Benjmin Sher,Dalkey Press ,U.S.A,1990.Page 12
6.David Lodge:The Art Of Fiction,Viking Penguin,New York,1992, Page 53
7.Lee T.Lemon:Russian Formalist Criticism,University Of Nebrask,London ,1965, Page,5
8.Max Louwerse:Thematics,Interdisciplinary Studies, University of Munich,2002,Page 3.

Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana
About the Author: Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana Read More Articles by Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana: 80 Articles with 235360 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.