کچن گارڈننگ ؟

 نہ جانے یہ منصوبہ کس زرخیز ذہن کی پیدا وار تھی، مگر نہ اس سے کوئی زرخیزی سامنے آئی اور نہ ہی پیدا وار حاصل ہو سکی، ہا ں البتہ اس کے لئے حکومتی کارندوں نے نہایت ہی محنت اور جوش وخروش کا مظاہر ہ کیا۔ چار برس قبل وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ’’کچن گارڈننگ‘‘ کا حکم جاری کیا تھا، کہا گیا تھا کہ لوگ گھروں میں سبزیاں اگائیں، بات صرف گھروں تک ہی محدود نہیں تھی، بلکہ اس کے لئے بھر پور منصوبہ بندی کی گئی تھی، سبزی اگانے کے طریقے بتائے گئے تھے، سلسلہ سکولوں کالجوں تک پھیلایا گیا تھا، کالونیوں کے گرین بیلٹ پر بھی سبزی اگانے کا مشورہ تھا، گھروں کی مخصوص چھتوں پر بھی سبزی اگائی جانی تھی، پرانے بڑے سائز کے ٹائر کو کاٹ کر اس میں مٹی ڈال کر اسے بھی ایک چھوٹی سی کیاری بنانے کی بات تھی، یہ کام گھریلو سطح پر کرنے کا حکم تھا۔ اس سرکاری حکم نامے کے پیچھے یقینا غریب وامیر کی بہبود ہی پیش نظر ہوگی، کہ سب کو گھر میں تیار شدہ ، خالص پانی سے پلی بڑھی اور اپنے سامنے تیار ہونے والی سبزی میسر ہوگی، سب سے بڑی بات یہ کہ اس پر خرچ حد سے کم ہوگا۔

حکومت نے صرف حکم ہی جاری نہیں کیا، بلکہ محکمہ زراعت کے ذریعے سبزیاں اگانے کے لئے بھر پور رہنمائی کا بندوبست بھی کیا گیا، پورا محکمہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق عوام الناس کو آگاہ کرنے کے لئے میدان میں نکل آیا تھا، افسران بیانات جاری کر رہے تھے، سیمینار منعقد ہور ہے تھے، اخبارات میں اشتہارات چل رہے تھے، پمفلٹ بنائے جارہے تھے۔ کوئی دن نہ گزرتا تھا کہ محکمہ زراعت کے ضلعی افسر کچن گارڈننگ کے فوائد قوم کو نہ بتا رہے ہوں۔ ایسے لگتا تھا کہ پورا محکمہ تمام دیگر کام چھوڑ کر (جو کہ زیادہ تر کاروایؤں پر ہی منحصر ہیں) چھوڑ کر صرف کچن گارڈننگ کی ترویج کے لئے اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں۔ ظاہر ہے سرکاری ملازمین کا فرض بھی یہی ہے کہ جو حکم حاکموں کی طرف سے ملے اسے حرف آخر تصور کرتے ہوئے عمل کروانے کے لئے نکل کھڑے ہوں، عوام تک رسائی اور ان کی آگاہی کے لئے ایسا ڈھول پیٹیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ حکومت نے ایک تو اچھا کیا کہ اپنے محکمہ مذکور کو کوئی کام بتا دیا، کسی کام پر لگا دیا، مگر افسوس کہ عوام نے محکمہ زراعت کے افسران واہلکاران کی کوئی بات سن کر نہ دی، یہ بھی نہ سوچا کہ اس مشورے کے پیچھے پنجا ب کے متحرک ترین وزیراعلیٰ کا حکم ہے، عوام نے کسی مشورے پر کان نہ دھرے، کسی نے سبزی نہ اگائی۔

محکمہ زراعت نے اگرچہ اپنی پوری توانائیاں کچن گارڈننگ پر صرف کردی تھیں، ایسا کرنے کے لئے محکمہ نے عوام کو بیج کی فراہمی کا پروگرام بھی بنایا تھا، جس کے لئے ایوب ریسرچ سینٹر فیصل آباد سے گرمیوں اور سردیوں کی سبزیوں کے نئے اور جدید بیج بھی عوام کو فراہم کئے جانے تھے، اس غرض کے لئے پنجاب بھر میں پانچ لاکھ اکیس ہزار ’سِیڈ کِٹس‘ بھی تیار کرکے تقسیم کی گئیں، ایک کِٹ پچاس روپے کی تھی، مگر یہاں ایک مرتبہ پھر افسوس کی ضرورت ہے کہ اِن سیڈ کٹس کے اجراء کے باوجود لوگوں کو غیر تصدیق شدہ اور غیر معیاری بیج دیئے گئے، جن کی وجہ سے پیداوار مناسب نہ ہوسکی، اور حکومت کے مقرر کردہ اہداف پورے نہ ہوسکے۔ رفتہ رفتہ یہ کام بند کردیا گیا، اول اول یہ بھی طے پایا تھاکہ ان طریقوں سے اگائی جانے والی سبزیاں اگر ضرورت سے زیادہ ہونگی تو انہیں محکمہ زراعت ہی خریدے گا، مگر نوبت یہاں تک نہ آسکی، کیونکہ سبزیوں کے فروخت کرنے کا موقع تب آتا اگر سبزیاں اگی ہوتیں، اس مہم میں چونکہ عوام نے دلچسپی ہی نہیں لی، اور اپنے ہی فائدے کے ایک سرکاری حکم کو نظر انداز کردیا، اب حکومت کا فرض یہ تو نہیں تھا کہ وہ لوگوں کے گھروں میں جاکر سبزیاں کاشت کرے، اس کی دیکھ بھال کرے اور پیداوار کو خریدنے کا وعدہ بھی نبھائے۔ حکومت کی اس غیر ضروری مہم پر اکیس کروڑ روپے سے زائد کا خرچ اٹھا، اور وہ ضائع ہوگیا۔ یہ ایسی مہم تھی، جو کسی حد تک عوام کی ضرورت ہونے کے باوجود عوام میں شرف قبولیت حاصل نہ کرسکی، سرکاری افسران وکارکنان چونکہ مجبور اور پابند ہیں اس لئے انہوں نے اپنا فرض نبھایا۔ حکومتیں اس قسم کی مہمات وقتاً فوقتاً چلاتی رہتی ہیں، جس محکمہ کا ان سے تعلق ہوتا ہے، انہیں نیا کام مل جاتا ہے، افسران وغیرہ اس قسم کے تِلوں سے کچھ تیل بھی کشید کرلیتے ہیں ، کروڑوں اجاڑ کر مہم اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427074 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.