کارٹونز ایک اہم ثقافتی یلغار

آپ میرے بچے کاٹیوشن ٹائم تبدیل کردیں، یہ اس وقت ٹیوشن نہیں آسکتا۔ وہ خاتون اس وقت ٹیوٹر سے جھگڑرہی تھیں۔
لیکن اس وقت یہ بچہ کیوں نہیں آسکتا؟ ٹیوٹرنے بے چارگی سے پوچھا۔
میں نے آپ کو کہہ دیاہے کہ یہ اس وقت ٹیوشن نہیں آسکتا اور آپ کو وجہ بھی بتادی ہے۔۔۔۔۔۔
دیکھیں آپ نے جو و جہ بتائی ہے وہ معقول نہیں ہے۔ اب اتنی چھوٹی سی بات پر میں ٹیوشن ٹائم کیسے تبدیل کرسکتاہوں۔۔۔۔۔۔
یہ آپ کے نزدیک چھوٹی بات ہوگی مگر بچے کے نزدیک نہیں۔ بہرحال اگر آپ ٹیوشن ٹائم تبدیل کرسکتے ہیں توبتائیں 'ورنہ ہم اپنے بچے کوکہیں اورپڑھالیں گے۔۔۔۔۔۔
مجبوراً ٹیوٹر کویہ کہناپڑاکہ ٹھیک ہے ' آپ اپنے بچے کولے جائیں۔اس کے ساتھ ہی وہ خاتون اپنے بچے کے ہمراہ تشریف لے گئیں۔

میں خاموشی سے کھڑا اس صورتحال کا مشاہدہ کررہاتھا۔ اس خاتون کے جانے کے بعد میں نے اس بھائی سے پوچھا کہ معاملہ کیاہے؟ اگران کازیادہ مسئلہ ہے تو آپ ان کاٹیوشن ٹائم تبدیل کردیں۔ میری یہ بات سن کر وہ بھائی پہلے توخاموش رہا پھر گویا ہوا: بھائی ان کامسئلہ یہ ہے کہ اس وقت بچے نے ٹی وی پر کارٹون دیکھنے ہوتے ہیں۔ میں سمجھاشاید یہ مذاق کررہاہے لیکن جب اس نے سنجیدگی کے ساتھ یہی بات دہرائی تومجھے یقین ہوگیا کہ یہی مسئلہ ہے لیکن دماغ ابھی تک اس بات کوتسلیم کرنے پرآمادہ نہ تھا۔ میں نے مزیدتسلی کے لیے اس بھائی سے پوچھا کہ ایسے کون سے کارٹون ہیں جن کی خاطربچے کے والدین بھی اس کا ٹیوشن ٹائم تبدیل کرنے پرمجبورہیں۔

میرے استفسار پرمجھے پتہ چلا کہ یہ انڈین کارٹونز ہیں اوربچہ اس لیے ٹیوشن نہیں آسکتاکیونکہ اس وقت ان کارٹونز کی نئی قسط دکھائی جاتی ہے۔

یہ تمام باتیں سن کر دماغ سائیں سائیں کررہاتھا۔ میں سوچ رہاتھاکہ ایسی کیا بات ہے ان کارٹونز میں،جن کی خاطر بچے کے والدین اس حدتک جانے پرتیارہیں ۔مزیدکچھ تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ ان انڈین کارٹون میں مرکزی کردار ایک بچے کا ہے۔ اس بچے کو دیومالائی طاقتوں کاحامل دکھایاگیاہے اور یہ بچہ پوری طرح ہندورنگ میں رنگاہواہے۔ مزیدخطرناک بات یہ کہ جو بچے یہ کارٹون دیکھتے ہیں کہ وہ اسی کردار کونقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوراس کارٹون کواپنا ہیروخیال کرتے ہیں۔

یہیں پربس نہیں بلکہ پاکستان میں کیبل پرا س وقت چلتے چینلز میں ایسے کارٹونز کی بھرمارہے جن میں مسلمان بچوں کے لیے سامان ہلاکت موجودہے۔ ان چینلز پر چلنے والے کرداروں کی نقالی کرنا مسلم امہ کے ان نونہالوں کاوطیرہ بن چکاہے۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
وہ دونوں بچے جنگ پرجاناچاہتے تھے لیکن جنگ کا سپہ سالار ان کی کم عمری کی وجہ سے انہیں اجازت دینے میں متامل تھا لیکن یہ دونوں بچے اس بات پرمصر تھے کہ ہم نے جنگ میں جانا ہے اور اللہ کے دشمنوں کامقابلہ کرناہے۔ بالآخر قرار یہ پایاکہ بڑے بچے کوبھجوادیاجائے اور چھوٹے بچے کو روک لیا جائے لیکن چھوٹا بچہ اس بات پرمصر تھا کہ وہ اپنے بڑے بھائی سے زیادہ طاقتور ہے۔ سپہ سالار نے دونوں کی کشتی کروانے کافیصلہ کیا تو چھوٹے بھائی نے پہلے ہی بڑے بھائی سے کہہ دیاکہ آپ نے تو جنگ پرچلے ہی جاناہے۔اس لیے مجھ سے کشتی ہارجائیں تاکہ مجھے بھی کفارکے خلاف اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع مل سکے۔ بڑا بھائی جان بوجھ کرکشتی ہارجاتاہے۔ اس طرح یہ دونوں بھائی جنگ میں شریک ہوگئے۔چشم فلک نے دیکھاکہ یہ دونوں لڑکے جو ابھی نوجوان کہلانے کے حقدار بھی نہیں تھے، انہوں نے کفرکے سب سے بڑے سردارکو قتل کردیا۔ یہ دونوں بچے تاریخ میں معوذاور معاذw کے نام سے مشہور ہوئے اور اسلام اورکفرکی پہلی فیصلہ کن جنگ میں ان دونوں بچوں نے ابوجہل کوقتل کیا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

مندرجہ بالا دونوں واقعات میں بلاکاتضادہے کیونکہ مسلمان بچوں کے لیے آئیڈیل ہندو نہیں بلکہ یہ مجاہد صحابہy ہیں کہ ان کے نقش قدم پرہمارے بچے چلتے اور ان کے دل میں بھی کفر کے خلاف کچھ کرگزرنے کاجذبہ ہوتا۔
مگرافسوس!آج ایک مسلمان گھر کابچہ اپناہیرو ایک ہندوکردار کو سمجھے تو ہم توقع کرسکتے ہیں کہ کل کفر اور اسلام کی جنگ میں وہ کہاں کھڑا ہوگا؟ معوذاورمعاذ wکے نقش قدم پرچلتے ہوئے مجاہدین کی صف میں یا غیرمسلم کرداروں کی نقالی کرتے ہوئے جنگ سے دور۔۔۔۔۔۔؟؟جذبہ جہاد سے لبریز یادنیاوی آسائشوں میں گم۔۔۔۔۔۔؟کفرکے خلاف دل میں نفرت لیے ہوئے یا۔۔۔۔۔۔؟

یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ہمارے گھروں میں عموماً بچوں کوکارٹون کے ذریعے بہلایاجاتاہے کہ اگربچے تنگ کررہے ہوں توان کوکارٹون لگاکردے دئےے جاتے ہیں۔ مگر یہ نہیں سوچا جاتا کہ سکرین پرناچنے والے ان کرداروں کاان معصوم ذہنوں پر کیا اثر ہوگا۔یہ معصوم بچے جن کے ذہن سلیٹ کی مانند ہیں۔ان کے ذہنوں میں اسلامی غیرت وحمیت اورجذبہ جہاد کی جگہ کیاتصورات اور خیالات جنم لیں گے؟یہ بچہ اسلام کے دفاع کے لیے کیا خدمات سرانجام دے سکے گا؟

ایک بڑا سوال جوعموماً کیاجاتاہے کہ اگربچوں کوکارٹون دیکھنے کونہ دیں توکیاکریں ۔بچے تنگ بہت کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی توسوچئے آج یہ صرف آپ کوتنگ کریں گے لیکن اگریہ انہی غیر مسلم کرداروں کو دیکھتے رہیں توکل پوری امت مسلمہ کے لیے تنگی کا باعث بنیں گے۔ جب مسلم بیٹیوں کی عزتیں پامال ہوں گی تو یہ اس وقت دنیاکی رنگینی میں گم ہوگا اور جب اسلام کی عزت پہ ڈاکا ڈالا جائے گا تواس وقت یہ اپنے کسی ''ہیرو'' کی مثل بننے میں کوشاں ہوگا لیکن کیاایک مسلم نوجوان اوربچے کامستقبل یہی ہوناچاہیے؟

جہاں تک یہ سوال ہے کہ اگربچے کارٹون نہ دیکھیں تو پھر کیاکریں تواس معاملے میں بھی بہت ساری تجاویز موجود ہیں بشرطیکہ آپ مخلص ہوں ۔سب سے کارآمدطریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے قریب جتنے بھی بچے موجودہیں ان کے درمیان بزم ادب کروائیں۔بچوں سے چھوٹی چھوٹی چیزیں سنیں۔ کوئی تلاوت' نعت یا ترانہ۔اگرکوئی بچہ کوئی اچھی بات کرسکتاہے تواس کوبھی موقع دیں۔ پھران بچوں میں سے نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کو انعامات دیں۔ انعامات خواہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں لیکن یہ بچوں کے لیے بہت بڑے ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ہفتہ میں ایک دن مختص کریں کہ اس دن بزم ادب ہوگا۔تمام بچے تیاری کریں۔

پھراسی طرح ہربزم ادب میں آپ خود کسی صحابی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کاواقعہ سنائیں یاکسی اوردلچسپ اسلامی واقع کا احوال بیان کریں۔ کوشش کریں کہ ہمارے جنگی ہیروزمثلاً صلاح الدین ایوبی،محمودغزنوی،نورالدین زنگیaوغیرہ کے واقعات ذرا دلچسپ اندازمیں کہانی کی طرح سنائیں۔ پھرسلسلہ یہیں تک محدود نہ رکھیں بلکہ بچوں میں کوئز پروگرام کروائیں اور اسلام سے متعلق سوالات پوچھیں۔ اسی طرح بچوں کومقابلہ بازی میں مختلف دعائیں یادکروائیں۔ ان کے درمیان مختلف گیمز کروائیں۔ یہ یقینی طورپر ایسی سرگرمیاں ہیں کہ آپ کے بچے کارٹونز کوبھول جائیں گے اور اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے۔
اسی دوران آپ بچوں کو نماز کی ترغیب دلائیں۔پوری نمازیں پڑھنے والے یاتکبیراولیٰ سے ساری نمازیں پڑھنے والے کو انعام سے نوازیں ۔الغرض کوشش کرے انسان توکیانہیں ہوسکتا۔

گزارش یہی ہے کہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے مستقبل کوبچائیں اور انہیں اسلام کے سانچے میں ڈھالیں اور ان کے آئیڈیل معوذ اور معاذ ہونے چاہئیں نہ کہ کوئی بھی ہندو کردار۔۔۔۔۔۔!!
Hanzla Ammad
About the Author: Hanzla Ammad Read More Articles by Hanzla Ammad: 24 Articles with 19666 views Doing M-Phil from Punjab University
A Student of Islamic Studies
.. View More