بلا عنوان

جب ہم کہتے کہ بھئی امریکہ بحیثیت ریاست حملہ آور ہوا ہے، اس کے صدر نے یہ فیصلہ کیا ہے تو موصوف فرمانے لگے کہ بھئی آپ لوگ اللہ سے دعا کریں کہ بش بھی ایمان لے آئے۔ وہ درگزر، صبراور ہدایت سے آگے نہیں بڑھتے تھے۔ اور پھر ایک دن۔۔۔۔۔۔۔۔ جب انہیں پتا چلا کہ ان کا نام بھی رپورٹ میں آیا ہے تو ساری ہدایت کی دعائیں، سار ے درگرز کے معاملات اور صبر کی تلقین ایک طرف رہ گئی اور موصوف سر عام ماں بہن کی گالیاں بکتے تھے۔

کبھی کبھی دل چاہتا ہے ک آپ لوگوں کو اپنی زندگی کے تجربات میں شریک کیا جائے۔ آج صبر و تحمل، برداشت اور عدم برداشت کے حوالے سے کچھ تجربات آ پ لوگوں کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔دیکھا یہ گیا ہے کہ جو لوگ دوسروں کو روادری، صبر اور برداشت کا درس دیتے ہیں ، جب ان کے اپنے اوپر کوئی افتاد پڑے یا افتاد نہ بھی پڑے محض کوئی فرد اختلافِ رائے ہی کرلے تو ساری رواداری، صبر و تحمل اور برداشت کا درس ختم ہوجاتا ہے اور اندر سے ایک دوسرا چہرہ برآمد ہوتا ہے۔

میرے حلقہ احباب میں ایک صاحب ہیں ایک مخصوص مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، اور اس کی تبلیغ بھی کرتے ہیں۔ آج سے کم و بیش 14سال پہلے جب امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا، اس وقت میڈیا پر یہی ایک معاملہ ہوتا تھا اور عوام بھی اسی پر بات کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ہماری بھی جب ملاقات ہوتی تھی تو گھو م پھر کر اسی موضوع پر بات آجاتی تھی۔میرا موقف یہ تھا اور ہے کہ اگر غیر مسلم فوج کسی مسلمان ملک پر حملہ آور ہوجائے تو پھر اس ملک کے مسلمانوں پر تو جہا د فرض ہوجاتا ہے، اس لیے جو مسلمان افغانستان میں امریکہ افواج سے بر سرِ پیکار ہیں ، ان کا عمل بالکل درست ہے ۔ جب کہ ان کا موقف یہ تھا کہ ہمیں صبر اور درگرز سے کام لینا چاہیے اور ہدایت کی دعا مانگنی چاہیے۔ جب ہم کہتے کہ بھئی امریکہ بحیثیت ریاست حملہ آور ہوا ہے، اس کے صدر نے یہ فیصلہ کیا ہے تو موصوف فرمانے لگے کہ بھئی آپ لوگ اللہ سے دعا کریں کہ بش بھی ایمان لے آئے۔ ا ن کو کئی باریہ سمجھانے کی کوشش کی کہ بھائی ہدایت کی دعا بھی ضرور کی جانی چاہیے لیکن پہلے ظالم کو ظلم سے روکیں، ، لیکن وہ درگزر، صبراور ہدایت سے آگے نہیں بڑھتے تھے۔

اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ محلے میں ایک جھگڑا ہوا، اس جھگڑے کا یک فریق ان کا دوست تھا، جھگڑے کے دوران یہ بیچ بچاؤ کی کوششیں کررہے تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ ان کے دوست نے ایک اور ساتھی کے ساتھ مل کے فریق مخالف کی ٹھیک ٹھاک پھینٹی لگائی۔ فریق مخالف کے گھر والوں نے کہا کہ ہم لڑائی جھگڑے کے بجائے قانونی کارروائی کریں گے، اور انہوں نے پولیس میں رپورٹ کردی، اس رپورٹ میں موصوف کا نام بھی بطور فریق شامل کردیا گیا۔اب آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ جب انہیں پتا چلا کہ میرا نام بھی لڑائی کرنے اور پھینٹی لگانے والوں میں آیا ہے تو کیا انہوں نے کسی کے لیے ہدایت کی دعا کی؟ کیا انہوں نے صبر کا اور رپورٹ میں نام دینے والوں کو معاف کردیا؟ کیا انہوں نے درگزر کا معاملہ کیا؟

جی نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جب انہیں پتا چلا کہ ان کا نام بھی رپورٹ میں آیا ہے تو ساری ہدایت کی دعائیں، سار ے درگرز کے معاملات اور صبر کی تلقین ایک طرف رہ گئی اور موصوف سر عام ماں بہن کی گالیاں بکتے تھے، جب بھی ملتے اور اس موضوع پر بات ہوتی تو ان کے منہ سے سوائے گالیوں اور بد دعاؤں کے کچھ برآمد نہ ہوتا۔اس واقعے سے یہ سبق ملا کہ دوسروں کو صبر ، برداشت اور رواداری کی تلقین کرنا آسان ہے ، خود اس پر عمل کرنا انتہائی مشکل ہے۔

یہی حال ہمارے سیکولر، لبرل طبقے کا بھی ہے۔ دوسروں کو دہشت گرد، عدم بردداشت کا حامل ، انتہا پسند اور شدت پسند کہتے نہیں تھکتے۔ نجی محافل، میڈیا، ذرائع ابلاغ غرض جہاں موقع ملے وہاں معاشرے میں پھیلی ہوئی عدم برداشت اور انتہا پسندی کا رونا روتے ہیں لیکن خود اپنے بارے میں کسی کی تنقید ، کسی کی مخالفانہ کو سننے کے رودار نہیں ہیں۔ منطق ، عقل اور دلیل کی بات کرتے ہیں، لیکن جب اپنے اوپر آئے تو ساری منطق ، ساری دلیلیں چھوڑ کر طعنوں اور کوسنوں اور الزام تراشی پر اتر آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دو رنگی اور منافقت سے بچائے ۔

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1450271 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More