عہد۔۔۔۔۔۔ عہدِ نبوی ؐکے

کفار سے معاہدات کا اسلوب سکھلاتے۔۔۔۔۔۔ اسوئہ حسنہ کے منفرد پہلو کا جائزہ
معاہدہ لفظ'' عہد'' سے ہے ۔ معنوی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا قول یا پیمان جو کوئی سے دو یا اس سے زائد فریقین کے درمیان طے پاجائے اور فریقین اس پر عمل کرنے کے پابند ہوں۔

دورِ جدید میں حلیف یا حریف قوموں کے معاہدات کو بہت زیادہ اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ بجاطور پر یہ معاہدات بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن ان معاہدات میں اپنے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنا لازم ہے نہ کہ ان معاہدات کے ذریعے دوسرے فریق کو فائدہ پہنچایا جائے اور اپنا نقصان کیا جائے۔

ماضی قریب و حالیہ ایام میں مسلمانوں کے دیگر اقوام کے ساتھ کئے جانے والے معاہدات یہی صورت پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ گویا یہ معاہدات صرف انہی غیر مسلم اقوام یا ممالک کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر کئے گئے ہیں۔ جبکہ مسلم اقوام یا ممالک ان معاہدات میں بجائے فریق کے محکوم اقوام کا سا رویہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

اسلام ہرگز غیر مسلم اقوام سے معاہدات کرنے سے منع نہیں کرتا لیکن ان معاہدات کا اسلوب کیا ہونا چاہیے' اس کے لئے ہمیں اسوئہ حسنہ سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ حضرت محمد ؐکی زندگی ہمارے لئے اسوئہ حسنہ ہے۔یہ ہمیں صرف دینی معاملات و عبادات کے لئے ہی رہنمائی فراہم نہیں کرتی بلکہ ہر قسم کے دنیاوی معاملات میں بھی ہمیں مکمل رہنمائی اسوئہ رسولؐ سے ہی ملتی ہے۔

ہجرت کے بعد نبیؐ جب مدینہ پہنچے تو اس وقت مدینہ میں اوس و خزرج کے قبائل کے علاوہ ایک طاقتورقوم بھی موجود تھی جوکہ اہل یہود کے نام سے جانی جاتی تھی۔ یہود اپنے علمی و مادی رسائل کے اعتبار سے اوس و خزرج کے قبائل سے کہیں آگے تھے۔ نبیؐکو مدینہ میں ان یہودیوں سے دیگر غیر مسلموں کی نسبت زیادہ خطرات لاحق تھے۔ ان حالات میں نبی اکرمؐنے ان یہودیوں اور مدینہ کی دیگر غیر مسلم اقوام کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کا ہرگز مطلب یہ نہ تھا کہ یہود کو طاقتور تسلیم کرتے ہوئے ان سے امان طلب کی گئی یا محض ان کے مفادات کو تقویت پہنچائی گئی بلکہ اگر معاہدے کی دفعات پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ اس معاہدے کے ذریعے مسلمانوں نے مدینہ اور اس کے گرد ونواح میں ایک حکومت قائم کرلی تھی۔مسلمان مدینہ میں نئے ہونے کے باوجود اہل یہود کے ماتحت نہ تھے بلکہ بعض معاملات میں یہود اور دیگر قبائل مسلمانوں اور نبیؐکے ماتحت تھے۔ جیسا کہ اس معاہدے کی دفعہ کہ:
اس معاہدہ کے فریقوں میں کوئی نئی بات یا جھگڑا پیدا ہوجائے جس میں فساد کا اندیشہ ہوتو اس کا فیصلہ اللہ عزوجل اور محمد رسول اللہؐکریں گے۔ (سیرت ابن ہشام)

یعنی اس معاہدے کی صورت میں نبی کریمؐ مدینہ اور اس کے گردونواح کے حاکم بن گئے تھے۔

اس معاہدے کے ذریعے مسلمانوں کو حاصل ہونے والے بہت سے فوائد میں سے ایک بڑا فائدہ یہ بھی تھا کہ مسلمانوں نے اس معاہدے کی صورت میں اپنے سب سے بڑے دشمن قریش مکہ سے بھی حفاظت کا بندوبست کرلیا تھا۔ اس بات کی وضاحت معاہدے کی اس شق سے ہوتی ہے۔

قریش اور اس کے مددگاروں کو پناہ نہیں دی جائے گی۔

الغرض یہ معاہدہ ہر صورت میں مسلمانوں کے مفادات کو جلا بخشتا نظر آتا ہے۔ یہ اس معاہدے کاہی کا نتیجہ تھا کہ مسلمان ایک ریاست کے طور پر ابھرے اور ایک ایک کرکے تمام دشمنوں پر حاوی ہو گئے۔

دوسرا معاہدہ جو نبیؐ نے کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ کیا وہ صلح حدیبیہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس سے قبل بھی بہت سے قبائل کے ساتھ گفت و شنید چلتی رہی اور معاملات طے پاتے رہے لیکن کوئی بڑا معاہدہ نہ ہوپایا۔

معاہدہ حدیبیہ یا صلح حدیبیہ کا پس منظر یہ تھا کہ نبیؐ اپنے رفقاء کے ہمراہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں مختلف قبائل نے لڑائی کی کوشش کی لیکن آپؐانہیں نظرانداز کرکے گزرگئے۔ اِدھر قریش مکہ نے یہ طے کیا کہ مسلمانوں کو مکہ داخل نہ ہونے دیا جائے اور شرارتوں پر آمادہ ہوگئے۔ اس صورت حال میں نبیؐ نے حضرت عثمانؓ کو سفیر بناکر مکہ والوں کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ قریش مکہ سے معاملات طے کرسکیں کہ ہم صرف عمرہ کرنے آئے ہیں اور جنگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ حضرت عثمانؓجب مکہ گئے تو مسلمانوں میں یہ افواء پھیل گئی کہ حضرت عثمانؓ کو شہید کردیا گیا ہے۔ اس موقع پر مسلمانوں نے نبیؐکے ہاتھ پر بیعت کی کہ حضرت عثمان ؓکے قتل کا بدلہ لیں گے۔

اِدھر جب قریش نے حالات کی نزاکت کو محسوس کیا تو سہیل بن عمروکو اپنا سفیر مقرر کرکے بھیجا تاکہ وہ مسلمانوں سے صلح کے معاملات طے کرے۔

سہیل بن عمرو نے جو معاہدہ کیا اس کی اہم دفعات مندرجہ ذیل ہیں۔
١۔رسول اکرمؐ اس سال مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس جائےں گے۔ اگلے سال مسلمان مکہ آئیں گے اور تین روز قیام کریں گے۔ ان کے ساتھ صرف سوار کا ہتھیار ہوگا۔ تلواریں میان میں ہوں گی اور ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے گا۔
٢۔ دس سال تک فریقین جنگ بندی رکھیں گے۔ اس عرصے میں لوگ مامون رہیں گے۔ کوئی کسی پر ہتھیار نہیں اٹھائے گا۔
٣۔ جو محمدؐکے عہد و پیمان میں داخل ہونا چاہے گا وہ داخل ہوسکے گا اور جو قریش کے عہد و پیمان میں داخل ہونا چاہے گا ہوسکے گا۔ جو قبیلہ جس فریق میں شامل ہوگا اس فریق کا ایک جزو سمجھا جائے گا 'لہٰذا ایسے کسی قبیلے پر زیادتی ہوئی تووہ اس فریق پر زیادتی تصور ہوگی۔
٤۔ قریش کا جو آدمی اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر یعنی بھاگ کر محمدؐکے پاس جائے گا تو محمدؐاسے واپس کر دیں گے۔ لیکن محمدؐکے ساتھیوں میں سے جو شخص پناہ کی غرض سے قریش کے پاس جائے گا قریش اسے واپس نہ کریں گے۔

حضرت علیؓ نے یہ معاہدہ لکھا اور اس معاہدے کے لکھنے پر بھی سہیل بن عمروکے جو اعتراضات تھے وہ نبیؐ نے صحابہ کی ناپسندیدگی کے باوجود خود دور کردئے۔

اس معاہدہ کو اس وقت کے مسلمانوں نے اپنے لئے شکست محسوس کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس معاہدہ کو فتح مبین قرار دیا۔

بظاہر یہ معاہدہ قریش کی جیت کی ہی صورتحال پیش کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب معاہدہ لکھا گیا تو بجز حضرت ابوبکر صدیقؓ تمام صحابہ کرام شدید غمگین تھے اور اپنے غم کا اظہار کررہے تھے ۔ حدیبیہ کے معاہدے میں جو فتوحات پوشیدہ تھیں وہ وقتی طور پر مسلمانوں کے لئے باعث استعجاب رہیں لیکن وقت نے یہ ثابت کردیا کہ صلح حدیبیہ واقعی مسلمانوں کی ایک عظیم فتح تھی۔

معاہدے کی پہلی دفعہ جو بظاہر قریش کے حق میں نظر آتی ہے درحقیقت یہ بھی مسلمانوں کے مفاد میں تھی۔ قریش کے لئے یہ محض وقتی فائدہ تھا کہ مسلمان مکہ میں ایک سال تک داخل نہ ہوسکیں گے جبکہ مسلمانوں کے لئے یہ ایک کامیابی تھی کہ ایک سال بعد انہیں حرم میں اور مکہ میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔

معاہدے کی دوسری دفعہ بھی مسلمانوں کے لئے درحقیقت ایک تسلی بخش خبر تھی۔ اگر چہ گزشتہ جنگوں میں مسلمانوں نے اہل قریش کو واضح شکست دی تھی لیکن اس کے باوجود ان جنگوں کی وجہ سے نبیؐ دیگر عرب قوموں کو دین اسلام کی دعوت دینے پر اپنی پوری توجہ صرف نہ کرپائے تھے۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب قریش کی جانب سے جنگ کا خطرہ ٹل گیا تو آپؐنے اطمینان سے بادشاہوں کو بھی خطوط لکھے اور دیگر عرب قبائل کو بھی اسلام کی دعوت پیش کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی فوج کی تعداد جو کبھی تین ہزار سے تجاوز نہ کرپائی تھی وہ فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار تک جاپہنچی۔

معاہدے کی تیسری دفعہ قریش کے لئے ایک بڑی شکست کا مظہر تھی۔ اس سے قبل قریش مکہ صرف اپنے آپ کو عرب کا سردار اور طاقتور قوم سمجھتے تھے لیکن اس دفعہ نے یہ ثابت کیا کہ قریش اب ذہنی طور پر مسلمانوں کو ایک قوت تسلیم کرچکے ہیں اور اب انہیں صرف اپنی بقاء کی فکر ہے۔ باقی پورا عرب کس کے ساتھ ملتا ہے اس بات کی انہیں چنداں فکر نہ تھی۔ لہٰذا مسلمانوں کی یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔

اس معاہدے کی چوتھی دفعہ جس نے مسلمانوں کو بہت زیادہ غمگین کردیا تھا وہ بھی درحقیقت مسلمانوں کے مفاد میں تھی کیونکہ اس میں مسلمانوں کے مقابلے میں قریش کو بہت کم رعایت تھی کیونکہ یہ بات واضح تھی کہ جو شخص مسلمان ہے وہ تو مسلمان ہی رہے گا اور نبی ؐکے لشکر کو چھوڑ کر نہ جائے گا۔ اگر بالفرض محال کوئی شخص چھوڑ کر بھی جائے گا تو صرف اس صورتحال میں کہ وہ مرتد ہوجائے گا ۔ مسلمانوں کے لئے زیادہ بہتر ہے کہ جو شخص مرتد ہوگا وہ ان سے الگ ہی رہے کیونکہ مسلمانوں کو ایسے افراد کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ اس کے بارے میں رسول اللہ ؐنے فرمایا تھا:
اِنّہُ مَنْ ذَھَبَ مِنَّا اِلَیْھِمْ فَاَبْعَدَہُ اللّٰہ o
''جو ہمیں چھوڑ کر ان مشرکین کی طرف بھاگا اسے اللہ نے دور کردیا''(صحیح مسلم' باب صلح الحدیبیہ)
دوسری صورت کہ قریش کا اگر کوئی شخص مدینہ آجائے گا تو اسے واپس کرنا ہوگا تو اس صورت میں ان مسلمان ہونے والوں کے لئے لازمی نہ تھا کہ وہ مدینہ میں ہی آئیں۔ اللہ کی زمین بہت وسیع تھی ۔ ابوجند ل بن سہیلؓ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

کچھ ہی عرصہ کے بعد قریش نے تنگ آکر نبیؐ کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دے کر کہا کہ آپؐان صحابہ کرام کو واپس بلوالیں۔ یوں صلح حدیبیہ مکمل طور پر مسلمانوں کے حق میں ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ یہ فتح مبین ہے برحق ثابت ہوگیا۔

صلح حدیبیہ کے بعد بہت سے معاہدات ہوئے ۔ ان معاہدات کی نوعیت جنگ بندی کے عہد وپیمان کی سی تھی اور ان معاہدات میں مسلمانوں نے بطور برتر قوم حصہ لیا۔ یہ معاہدات زیادہ تر امان ناموں پر مشتمل تھے۔جو عرب کے مختلف قبائل کے ساتھ کئے گئے۔

کفار مکہ کے ساتھ حدیبیہ کے معاہدہ کے بعد نبیؐ نے جو ایک بڑا معاہدہ کیا وہ اہل نجران اور مسلمانوں کے مابین تھا۔ اس معاہدے سے قبل نجران کا وفد نبیؐ کے پاس تشریف لایا اور اہم معاملات پر گفتگو فرمائی۔

عیسائیوں کا یہ وفد اس وقت واپس چلا گیا اور مسلمان نہ ہوا۔ اگرچہ یہ عیسائی مسلمان نہ ہوئے لیکن اس کے باوجود یہ مسلمانوں کے ساتھ اچھے انداز میں رہے۔ اہل یہود کی طرح انہوں نے کوئی سازشیں اور شرارتیں نہ کیں۔

جب ایران کی حکومت کسریٰ پر ویز بن اردشیر کے ہاتھ میں منتقل ہوئی تو اس وقت عرب کے مسلمانوں کی جنگی قوت مضبوط ہوچکی تھی۔

اس دور میں نجران کے عیسائیوں نے اپنے بڑے پادری السید الفسانی کے ذریعے محمدؐکی خدمت میں تحائف کے ساتھ خراج عقید ت پیش کیا اور اپنی وفاداری کے ثبوت میں کہلوابھیجا کہ ہم آپ کی نصرت کے لئے آپ کی طرف سے جنگ کرنے کو بھی تیار ہیں۔

حضرت محمدؐنے یہ تحائف قبول فرمائے اور ان کے ساتھ ایک معاہدہ تحریر فرمایا جس کے ذریعے اہل نجران کو جان کی امان دی گئی۔ حضرت عمرؓنے بھی اپنے دور میں اس عہد کی تجدید فرمائی۔

مندرجہ بالا تمام معاہدات میں ماسوائے اہل نجران کے ساتھ معاہدہ کے مسلمان ایک کمزور قوم کے طور پر جانے جاتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود نبیؐ نے جب معاہدات کئے تو اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا کہ ان معاہدات کی وجہ سے مسلمانوں اور اسلام کے مفادات پر کوئی زد نہ پڑے۔

نبیؐ کے ان معاہدات میں ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ اگر کبھی کسی فریق نے معاہدہ توڑا یا توڑنے کی کوشش کی تو اسے سنگین نتائج سے دوچار ہونا پڑا۔

اس کی پہلی مثال اہل یہود ہیں۔ یوں تو اہل یہود کی شرارتیں بڑے عرصے سے جاری تھیں لیکن غزوہ خندق کے بعد ان کی شرارتیں عروج پر پہنچ گئیں۔ انہوں نے اس نازک ترین صورتحال میںمعاہدہ شکنی کی۔ سب سے پہلے بنو قینقاع کی طرف سے عہد شکنی کی گئی۔

نبیؐ نے ان کا محاصرہ کیا اور ان کے تمام مرد گرفتار کرلئے لیکن یہاں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے نبیؐکو مجبور کیا کہ ان کو معاف کردیں۔ چنانچہ نبیؐنے ان کو معاف کردیا لیکن ان کودیس نکالا دے دیا۔ اس کے بعد یہ شام کی طرف چلے گئے۔

اہل یہود اس سزا کے بعد کچھ عرصہ تک تو آرام سے بیٹھے رہے اور ان کے حوصلے مجتمع نہ ہوسکے۔ لیکن غزوہ احد کے وقت قبیلہ بنو نضیر نے پھر عہد شکنی کی اور مسلمانوں سے جنگ کرنے پر اتر آئے۔ اس موقع پر نبیؐ نے ان کا محاصرہ کیا اور اس محاصرے کے بعد بنونضیر کے یہودیوں نے شکست تسلیم کی اور انہیں بھی سزا کے طور پر مدینہ سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔

یہود کے دو قبیلوں کو سزا مل جانے کے باوجوداہل یہود کی عہد شکنیاں تھیں کہ بڑھتی ہی جارہی تھی لیکن اس کے باوجود نبی اکرمؐنے ان پر صبر ہی کیا تھا اور اگر فوج کشی کی بھی تو قتل و غارت نہیں کی تھی بلکہ یہود کو امان دے دی گئی تھی۔

نبی اکرمؐ جب غزوئہ خندق سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بعد بنوقریظہ کے قلعوں کا رخ کیا اور ان کا محاصرہ کرلیا۔ اس موقع پر ان یہود کو بدعہدی کی سخت سزادی گئی اور ان کے تمام مرد قتل کردئےے گئے جبکہ عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا گیا۔ الغرض ان معاہدات کی بدعہدی کرنے والوں کو بدترین سزا دی گئی۔

فتح مکہ جوکہ اسلام اور مسلمانوں کی عظیم ترین فتح ہے یہ بھی صلح حدیبیہ کی ایک شق سے انحراف اور اس معاہدے کی بدعہدی کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئی۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ معاہدہ صلح حدیبیہ میں ایک شق یہ تھی کہ جوکوئی محمد ؐکے عہد و پیمان میں داخل ہونا چاہے ہوسکتا ہے اور جوکوئی قریش کے عہد و پیمان میں داخل ہونا چاہے ' داخل ہوسکتا ہے اور جو قبیلہ جس فریق میں شامل ہوگا اس فریق کا ایک حصہ سمجھا جائے گا۔

اس دفعہ کے تحت بنوخزاعہ رسول اکرمؐ کے ساتھ شامل ہوگئے جبکہ بنوبکر قریش کے عہد و پیمان میں شامل ہوگئے۔ بنوبکر نے بدعہدی کی اور شعبان٨ہجری میں بنوخزاعہ پر حملہ کردیا۔ یہ حملہ رات کی تاریکی میں ہوا اور بنوخزاعہ کے بہت سے افراد کی ہلاکت پر منتج ہوا۔ اس حملے میں قریش نے بھی بنوبکر کی مدد کی ۔ یوں قریش کی جانب سے بھی بدعہدی کی گئی۔ قریش کی یہی بدعہدی فتح مکہ پر منتج ہوئی۔ الغرض نبیؐ کے نزدیک یہ معاہدہ اس قدر اہم تھا کہ ایک غیرمسلم حلیف قبیلے کی خاطر اتنی بڑی جنگ چھیڑ دی۔بنوخزاعہ کی مدد کے لئے نبیؐنے مکہ پر فوج کشی کی ۔ اس فوج کشی کے نتیجے میں ہی کفار مکہ سرنگوں ہوئے اور مکہ کی زمین نبیؐکے حوالے کردی گئی۔

حضرت محمدؐکی سیرت کے دیگر پہلوؤں پر تو بڑی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی جاتی ہے لیکن سیرت رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا معاہدات کاپہلو جو آج کے دور میں نہایت اہم ہے' اس کا ذکر شاذ و ناز ہی نظر آتا ہے۔ آج کے دور میں معاہدات کرنے والے عموماً فریقین کی بجائے حاکم و محکوم کا سا منظر پیش کرتے ہیں۔ اگر بات کی جائے مسلم ممالک اور بالخصوص پاکستان کی تو صورتحال زیادہ سنگین نظر آتی ہے۔

موجودہ حالات میں پاکستان بھارت کے ساتھ معاہدات کرنے کے چکر میں ہے اور اسے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی کوشش کررہا ہے۔ ان حالات میں اگر نبیؐکی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ نبیؐنے بھی معاہدات کئے ہیں لیکن اس صورت میں کہ مفادات پر کوئی آنچ نہ آنے دی ۔ لیکن آج پاکستان اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارت کے ساتھ معاہدات میں مصروف ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ ان حالات میں سیرت نبی ؐکو سامنے رکھتے ہوئے مسلم و غیر مسلم ممالک سے تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ اسلام غیر مسلموں سے معاہدات کرنے سے روکتا نہیں ہے لیکن اس کا طریقہ کار وضع کرتا ہے اور نبیؐ نے اپنے اسوئہ حسنہ کی صورت میں ہمیں اس کا باقاعدہ طریقہ سمجھایا ہے۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو سیرت نبویؐ کو سامنے رکھتے ہوئے معاہدات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Hanzla Ammad
About the Author: Hanzla Ammad Read More Articles by Hanzla Ammad: 24 Articles with 19690 views Doing M-Phil from Punjab University
A Student of Islamic Studies
.. View More