ذکر میلاد نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام اور شیخ نقشبندیت حضرت شاہ احمد سعید مجددی کے نظریات

ذکرِ سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کی محفل سجانا، آمد آمد کا تذکرہ، اتباعِ نبو ی کا درس، سیرت کے احوال بیان کرنا، تعظیم محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کا نقش جمانا؛ یہ میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا مقصدہے تا کہ زندگیوں میں انقلاب رُونما ہو اور ظاہر و باطن کی تطہیر کا ساماں مہیا ہو۔ اسلاف واکابر کا یہی معمول و طریقہ رہا ہے۔ امام ربانی مجدد الف ثانی نے مسلک سلف کی بھر پور ترجمانی کی اور توحیدو رسالت کی حفاظت فرمائی۔ ان کی روش کو ان کے اخلاف و اولاد امجاد نے بھی اپنایا اور خدمتِ دین انجام دی۔انھیں میں ایک نمایاں نام حضرت شاہ احمد سعید مجددی کا ہے جن کانسب پانچویں پشت میں حضرت مجدد الف ثانی سے جا ملتا ہے۔

تعارف:شیخ نقشبندیت حضرت مولانا شاہ احمد سعید مجددی؛مجدد الف ثانی کے علمی و روحانی و فکری وارث تھے۔ مجاہد آزادی تھے۔ یکم ربیع الاول۱۲۱۷ھ/۳۱؍جولائی ۱۸۰۲ء کو رام پور[مصطفی آباد] میں پیدا ہوئے اور ۲؍ربیع الاول ۱۲۷۷ھ/۱۸؍ستمبر ۱۸۶۰ء کو[بہ عمر۵۹برس] مدینہ منورہ میں انتقال کیا۔ جوارِحضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میں دفن ہوئے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں جن علما نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا ان میں اس فتویٰ کے محرک اول آپ ہی تھے۔ اس تحریک کے باعث بہت سے علما کو بلادِ اسلامیہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی ۔ ان میں حضرت شاہ احمد سعیدمجددی بھی شامل ہیں۔[مقدمہ، مقاماتِ مظہری،لاہور ۱۹۸۳ء،ص۱۶۶]

آپ سے متعلق سرسید احمد خاں علی گڑھی لکھتے ہیں :’’علم حدیث وفقہ تفسیر بدرجۂ کمال حاصل تھا،دن رات مشغلۂ تدریس جاری رہتاتھا،مسائل دینی آپ کے فیض سے حل ہوتے تھے اور فتویٰ شرع شریف آپ کی مہر سے مسعجل کیے جاتے تھے۔‘‘[مقالاتِ سرسید،مرتبہ مولوی اسماعیل پانی پتی، لاہور۱۹۶۵ء،ص۲۲۶]

عبدالحی حسنی ندوی لکھتے ہیں :’’وحصلت لہ الاجازۃ من الشیخ عبدالعزیز المذکور الصحاح الست والحصن الحصین ودلائل الخیرات والقول الجمیل وغیرھا۔‘‘ [نزھۃ الخواطر،ج۷، حیدرآباد دکن۱۹۵۹ء،ص۴۱]

آپ کو شاہ عبدالعزیز سے صحاح ستہ، حصن حصین، دلائل الخیرات، القول الجمیل وغیرہا کی اجازت وسند حاصل تھی-بوقت ہجرتِ حجاز خانقاہ ِنقشبندیہ دہلی کی تولیت حضرت حاجی دوست محمد قندھاری نقشبندی کے سپرد کی۔آپ نے درجن بھر کے قریب کتابیں تصنیف کیں، فتاویٰ تحریر فرمائے۔شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے دستر خوانِ علم کے خوشہ چیں تھے۔ علامہ فضل حق خیرآبادی وعلامہ فضل رسول بدایونی سے بھی اکتسابِ علم کیا۔رسول گرامی صلی اﷲ علیہ وسلم کے میلادسے متعلق تین کتابیں لکھیں:
[۱] سعید البیان فی مولدسیدالانس والجان[اردو مطبوعہ]
[۲]الذکر الشریف فی اثبات المولد المنیف[فارسی]
[۳]اثبات المولدوالقیام[عربی مطبوعہ][مکتبہ ایشیق استنبول ترکی و مکتبہ سراجیہ موسیٰ زئی نے[۱۹۷۹ء میں] عربی میں مع مقدمہ از محمد اقبال مجددی شائع کیا؛ مؤخرالذکر نے قلمی نسخے کا عکس چھاپا۔ مرکزی مجلس رضا لاہور نے ۱۹۸۰ء اپریل و اکتوبر میں اردو ترجمہ کے دو ایڈیشن شائع کیے۔]

میلاد پاک سے متعلق نظریات:
[۱]میلاد مصطفی [صلی اﷲ علیہ وسلم] کے دلائل پوچھنے والے اے عالمو! یاد رکھو! میلاد شریف کی محفل میں آپ کے کمالِ شان پر دلالت کرنے والی آیات، صحیح احادیثِ ولادت باسعادت، معراج شریف، معجزات اور وفات کے واقعات کا بیان کرنا ہمیشہ سے بزرگانِ دین کا طریقہ رہا ہے…………اگر تم مسلمان ہو اور محبوبِ رب العالمین سیدالانبیاء والمرسلین صلی اﷲ علیہ وسلم کے احوال سننے کا شوق ہے تو ہمارے پاس آؤ اور [ہم سے احوالِ مصطفی] سنو تمہیں پتا چلے کہ ہمارا دعویٰ حقیقت پر مبنی ہے، محفلِ میلاد در اصل وعظ و نصیحت ہے اس کے لیے جو کان لگائے اور متوجہ ہو، اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے:نصیحت کرو بے شک نصیحت مومنین کے لیے مفید ہے۔[اثبات المولدوالقیام،شاہ احمد سعید مجددی، مترجم مولانا محمد رشید نقشبندی، لاہور ۱۹۸۰ء،ص۲۱]
[۲]جو اﷲ اور اس کے رسول [صلی اﷲ علیہ وسلم] کے ذکر سے روکے وہ شیطانی لشکر سے ہے جس کو اﷲ تعالیٰ کے ذکر سے نفرت ہے کیوں کہ مومنِ صادق تو ذکرِ محبوب کا مشتاق ہوتا ہے اور ذکرِ محبوب سے لذت پاتا ہے…… [مرجع سابق،ص۲۲۔۲۳]

[۳]جس دن اﷲ تعالیٰ کی خاص نعمت کا نزول ہو یا کسی مصیبت سے نجات ہو؛ نہ صرف اسی دن بلکہ ہر سال اس تاریخ کو اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کے مختلف طریقے ہیں، عبادت، قیام، سجود، صدقہ اور تلاوت وغیرہ اور یوم میلاد شریف وہ دن ہے جس دن اﷲ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت عظمیٰ اور رحمت عطا ہوئی۔ لہٰذا ’’قصۂ موسیٰ کے ساتھ مطابقت کے لیے ہر سال یومِ میلاد کا اہتمام کرنا چاہیے۔‘‘

اور کہا ہمارے شیخ ؛شیخ الاسلام علامہ جلال الدین سیوطی نے کہ حافظ ابوالفضل کی دلیل کے علاوہ بھی میرے پاس ایک دلیل ہے اور وہ یہ کہ امام بیہقی نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا عقیقہ اعلانِ نبوت کے بعد خود کیا حالاں کہ آپ کے دادا عبدالمطلب آپ کی ولادت کے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کر چکے تھے اور عقیقہ بار بار نہیں ہوتا ایک ہی دفعہ ہوتا ہے، معلوم ہوا کہ ایسا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ادائے شکر کے طور پر کیا تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃللعالمین بنایا اور ہمیں آپ کی امت ہونے کا شرف بخشا، جس طرح آپ خود اپنی ذات پر درود و سلام بھیجا کرتے تھے ہمیں چاہیے کہ ہم آپ کے میلاد کی خوشی میں جلسہ کریں، کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات اور خوشی کے جو طریقے ہیں، کے ذریعے شکر بجا لائیں۔

شرح سنن ابن ماجہ میں اس یوم کی تصریح بھی ہے اور امام جلال الدین نے فرمایا کہ میلادِ مصطفی علیہ الصلوٰۃ والسلام معظم و مکرم ہے، آپ کا یوم ولادت مقدس و بزرگ اور یومِ عظیم ہے۔ آپ کا وجود عشاق کے لیے ذریعۂ نجات ہے؛ جس نے نجات کے لیے ولادتِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی خوشی کا اہتمام کیا؛ اس کی اقتدا کرنے والے پر بھی رحمت و برکت کا نزول ہوگا۔[مرجع سابق،ص۲۳۔۲۴]

[۴]سیدالاولین والآخرین کی تشریف آوری اﷲ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے، ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی اس نعمتِ عظمیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عبادت اور نیکی کی جائے۔[مرجع سابق،ص۲۴]

[۵]ذرا غور کرو! ربیع الاول میں پیر کے دن کون تشریف لایا؟ کیا تمہیں معلوم نہیں؟ پیر والے دن روزہ رکھنا صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یومِ ولادت کی وجہ سے عظیم فضیلت رکھتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جب ربیع الاول کی تشریف آوری ہو اول سے آخر تک انتہائی تعظیم و تکریم کا مظاہرہ کیا جائے۔ اور یہ آپ کی سنّت ہے کیوں کہ آپ اس دن نیکی اور خیرات زیادہ کیا کرتے تھے جس دن کوئی فضیلت والا واقعہ پیش آتا۔شیخ احمد بن خطیب قسطلانی مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں: اﷲ تعالیٰ نے جمعہ میں ایک ایسی گھڑی کہ ہر دعا اس میں قبول ہوتی ہے صرف اس لیے رکھی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جمعہ کو پیدا ہوئے اور پیر جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یومِ ولادت ہے، کی کیا شان ہوگی؟[مرجع سابق،ص۲۵]

[۶]اے سائل! تو نے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ کے متعلق کہا ہے کہ ’’آپ محفلِ میلاد سے منع فرماتے تھے۔‘‘ تیرا یہ قول قطعاً غلط ہے۔ ہمارے امام اور قبلہ نے گانے کی مجلس میں حاضر ہونے سے منع کیا ہے، اگرچہ اس مجلس میں قرآن کی تلاوت اور نعتیہ قصائد پڑھے جائیں، حضرت امام ربانی نے قرآن و حدیث کے پڑھنے سے منع نہیں فرمایا جیسا کہ حضرت امام ربانی کی مراد سے بے خبر لوگوں نے گمان کیا ہے، اس قسم کی بات حضرت امام ربانی پر بہت بڑا بہتان ہے۔

…………حضرت مجدد رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ مکتوبات کی تیسری جلد میں فرماتے ہیں: ’’اچھے آواز سے صرف قرآن مجید اور نعت و منقبت کے قصائد پڑھنے میں کیا حرج ہے؟ منع تو یہ ہے کہ قرآن مجید کے حروف کو تبدیل و تحریف کیا جائے اور مقاماتِ نغمہ کا التزام کرنا اور الحان کے طریق سے آواز کو پھیرنا اور اس کے مناسب تالیاں بجانا جو کہ شعر میں بھی ناجائز ہیں، اگر ایسے طریقہ سے مولود پڑھیں کہ قرآنی کلمات میں تحریف واقع نہ ہو اور قصائد پڑھنے میں شرائطِ مذکورہ متحقق نہ ہوں اور اس کو بھی صحیح غرض سے تجویز کریں تو پھر- کون سی رکاوٹ ہے۔‘‘ پس معلوم ہوا کہ حضرت مجدد کی جو عبارت میلاد کے منکر بطور دلیل پیش کرتے ہیں اس عبارت سے حضرت مجدد کی مراد یہ ہے کہ: ’’قصائد ا ور نعت خوانی میں نغمہ کا التزام کرنا الحاق کے طریق سے آواز کو پھیرنا، اور اس کے مناسب تالیاں بجانا منع ہے۔‘‘ [ مرجع سابق،ص۲۷ تا۲۹]یہی بات امام احمد رضا نے ذکر کی اور مزامیر کو منع فرمایا۔
[۶]کثیر دلائلِ قیام(یعنی بوقتِ ذکرِ ولادت) سے متعلق درج کرنے کے بعد ابوذرعہ عراقی کے حوالے سے فرماتے ہیں: ’’بے شک امتِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے اہل سنت والجماعت کا اجماع و اتفاق ہے کہ قیام مستحسن ہے اور بے شک نبی صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوتی۔‘‘[مرجع سابق،ص۳۲]
[۷]عبداﷲ بن محمد المیرغنی الحنفی مفتی مکہ مکرمہ فرماتے ہیں: ’’سیدالاولین والآخرین کی ولادتِ مبارکہ کے ذکر کے وقت قیام[تعظیم میں کھڑے ہونا]کو بہت علما نے پسند کیا۔
[۸]حسین بن ابراہیم مفتی مالکیہ بمکہ فرماتے ہیں: ’’ہاں! ذکر ولادت کے وقت قیام بہت علما نے پسند کیا اوریہ قیام حسن ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعظیم واجب ہے۔واﷲ اعلم۔‘‘
[۹]محمد عمر ابن ابی بکر مفتی شافعیہ مکہ مکرمہ کا ارشاد ہے: ’’حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے ذکر کے وقت قیام واجب ہے کیوں کہ روحِ اقدس حضور معلی صلی اﷲ علیہ وسلم جلوہ فرما ہوتی ہے تو اس وقت تعظیم و قیام لازم ہوا۔ جید علماے اسلام اور اکابر نے قیام مذکور کو پسند فرمایا ہے۔‘‘
[۱۰]محمد بن یحییٰ مفتی حنابلہ مکہ مشرفہ نے بھی ذکر ولادت کے وقت قیام کے استحباب و استحسان کی تصریح فرمائی ہے۔[مرجع سابق،ص۳۳]
[۱۱]تیسری عید کے اعتراض کے جواب میں فرماتے ہیں: ’’ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف کے مہینے کی نہ صرف ایک ہی رات بلکہ سب راتوں کو عید منائیں، علماے کبار اور محدثین کی تصریحات موجود ہیں۔‘‘ [مرجع سابق،ص۳۴]

اتباع :
ہم رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع کے برابر کسی چیز کو قرار نہیں دیتے۔ اﷲ سبحانہ ہمیں اور آپ کو اپنے حبیب صلی اﷲ علیہ وسم کی اتباع کا کمال ظاہراً اور باطناً نصیب فرمائے۔ اس دعا پر آمین کہنے والے پر اﷲ رحم نازل کرے۔[تحفۂ زواریہ، ڈاکٹر غلام مصطفی خان، کراچی ۲۰۱۱ء،ص۵۲]

صلوٰۃ ہمارے سردار، نبی، شفیع اور دونوں جہانوں میں ہمارے وسیلہ احمد مجتبیٰ اور محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے ہے۔ کیوں کہ صلوٰۃ رحمتِ الٰہیہ کا نام ہے اور یہ اس ذات کی طرف راجع ہے جسے اس نے رحمۃللعالمین بنا کر بھیجا ہے، اور جو ارشاد الٰہی ہے: وما ارسلنٰک الا رحمۃللعٰلمین کے شرف سے مشرف ہے۔ لولاک لما خلقت الافلاک اور لولاک لما اظہرت الربوبیۃ اس اکرام کے دو عادل گواہ ہیں۔ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کامل رحمت کا ظہور سیدنا وامامنا ابوبکر الصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میں پایا گیا۔[مرجع سابق،ص۵۶]

حضرت شاہ احمد سعید مجددی کے پوتے مولانا شاہ محمد معصوم مجددی ابن عبدالرشید[م۱۳۴۱ھ] نے میلاد کے جواز پر ’’احسن الکلام فی اثبات المولد والقیام‘‘[تالیف ۱۳۰۵ھ]کے نام سے کتاب لکھی۔

اﷲ کریم ہمیں اسلاف کی راہ چلائے، مشائخِ نقشبندیہ کی تعلیمات پر صحیح صحیح طریقے سے عمل کی توفیق دے۔ اور اﷲ کے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذکر پاک کا احترام کرنے والا بنائے۔
٭٭٭
 
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255153 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.