شفیع صاحب کی سچی کہانی

"سب بزرگوں کا خیال رکھیں"

بزرگ کہاں جائیں

 شفیع صاحب نامی ایک خاندانی شخص 50ء کی دہائی میں اپنی عملی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے لاہور سے کراچی چلے گئے۔وہ دور خط و کتابت کا تھا ۔لہذا وہ وہاں سے خط میں جو بھی لکھتے یہاں خاندان والے مطمئین ہو جاتے کہ سب ٹھیک ہے اور خط کے جواب میں خاندانی حالات بھی بیان کر دیتے۔ اُنکی شادی ناکام ہو چکی تھی لہذا وہ وہاں اکیلے زندگی گزار رہے تھے اور اِدھر اُن کے بہن بھائیوں کی اولاد اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مختلف ملازمتوں پر اپنی ذمہ داریاں نبھا نا شروع ہو چکی تھی۔ شفیع صاحب جب عمر کے اُس حصے میں پہنچے جہاں اکیلا پن اور آمدن کی کمی آڑے آہی گئی تو اُنھوں نے یہ سوچ کر کہ لاہور میں میرے بھانجے بھتیجے میرا خیال کریں گے 71ء کی دہائی میں واپس اپنے شہر آگئے۔اُنکے پاس رہنے کیلئے اپنا گھر تو تھا نہیں لہذا سوال یہ تھا کہ وہ خاندان میں کس کے پاس رہیں گے یا کون اُنکو اپنے پاس رکھے گا؟

بہرحال شفیع صاحب نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی ایک بھانجے بھتیجے کی طرف مسلسل پڑاؤ ڈالنے کی بجائے چند دن کسی کے پاس اور اگلے چند دن کسی دوسرے کے پاس رہنا شروع کر دیا۔ سادہ زندگی ،اخلاق اورجوڑ کا دور تھا۔ لہذا سردیوں میں جہاں جگہ ملی رضائی اوڑھ کو سو لیا اور گرمیوں میں جب سب چھت پر سوتے تو وہ بھی فالتو چارپائی تلاش کر کے اُنکے قریب ہی نیند پوری کر لیتے۔ تمام کمرے و باتھ روم وہی استعمال کرتے جو سب کررہے ہوتے۔ جو بھی گھر میں پکایا جاتا وہ ہی اُن کا من پسند ہوتا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خواہش والا معاملہ ناممکن ہے ۔دو شوق تھے ایک کے ۔ٹو سگریٹ پینا اور ایک رات کو سوتے ہوئے چائے کا کپ ۔بھانجے بھتیجے ہی اُنکو کچھ رقم دے چھوڑتے تھے جس سے وہ اپنے سگریٹ پانی اور کپڑوں کے اخراجات پورے کر لیتے۔

شفیع صاحب کا فائدہ سب کو نظر آرہا تھا اور وہ یہ کہ جب سب کاموں پر چلے جاتے تو وہ گھر کے بزرگوں کے پاس بیٹھ کر اُنکا دل بہلاتے،اگر چھوٹے بچے گھر میں ہیں تو اُنکا خیال بھی رکھتے اور اُنکے ساتھ لُوڈو یا کیرم بورڈ کے کھیل بھی کھیلتے۔ کو ئی بیمار ہوتا تو خدمت کیلئے ہسپتال کی ذمہ داری نبھا آتے۔اس دوران ایک دو دفعہ کراچی کا چکر بھی لگا آئے۔اسطرح چاچا شفیع یا ماما شفیع کبھی کبھی کچھ اُونچی نیچی سُن کر اپنا وقت گزار رہے تھے کہ سنہ81ء کے وسط میں اُنکو گلے میں تکلیف محسوس ہوئی تو میو ہسپتال لاہور میں چیک اَپ و ٹیسٹوں کے بعد معلوم پڑا کہ اُنکو گلے کا کینسر ہو گیاہے۔

ڈاکٹرز نے چند دنوں بعد سانس کی تکلیف کی وجہ سے گلے کے درمیان میں سانس کی نالی کے پاس سوراخ کر کے ایک"سیٹی" نُما آلہ لگا دیا۔اُس سے اُنکی آواز بند ہوگئی لیکن زندگی کا سلسلہ کچھ مدت کیلئے اُمید پر قائم ہو گیا۔اب کبھی وہ ہسپتال رہتے اور کبھی گھر پر بچوں کے ساتھ کیرم بورڈ کھیلتے۔اگر جیت جاتے تو خوشی میں آواز کی بجائے " سیٹی"میں سے " سُر سُر" کی آواز آتی اور پھر دسمبر81ء کی ایک صبح میو ہسپتال سے فون آیا کہ محترم شفیع صاحب الصبح وفات پا گئے ہیں۔اُس ہی شام اُداسیوں کے سائے میں اُنھیں عزت کے ساتھ سُپردِ خاک کر دیا گیا۔خدمت کر بھی گئے اور خدمت کروا بھی گئے۔اہم یہ رہا کہ جو ماحول اُنھیں میسر آیا وہ ایک گھر کا نہیں تھا بلکہ اُن سب گھروں کا تھا جہاں وہ زندگی گزار گئے اور اُس دور میں ایسے کئی مرد و خواتین "انکل و آپا" کے القاب سے خاندانی محبتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔

حال کی حقیقی صورتِ حال
یہ ایک گھر ہے اور اسطرح ہی کے اور بہت سے گھر ہیں۔ ایک کمرہ منسلک باتھ روم میاں بیوی کا ہے اور ساتھ والا کمرہ و باتھ روم بچوں کا۔ساتھ میں ایک گیسٹ روم بھی ہے۔لیکن کم ہی استعمال ہوتا ہے۔ باہر گیرج میں نئے ماڈل کی 2 موٹر کاریں کھڑی ہیں۔ رات کو کھانے کے بعد بچے بھی کچھ دیر کیلئے والدین کے کمرے میں ہی آجاتے ہیں ۔پلنگ کے ایک طرف میاں صاحب لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور ساتھ میں آئی فون پر باتیں شروع کر دیتے ہیں ۔ بیٹا آئی پیڈ کا شوقین ہے اور بیٹی آئی پوڈ پر گیمز کھیلتی ہے۔سامنے 40انچ کی ایل سی ڈی چل رہی ہوتی ہے اور اے سی کی ٹھنڈک کی وجہ سے باہر کی گرمی کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ (تمام جدید الیکٹرونکس ایک کمرے میں موجود ہیں۔اب ذرا آگے غور فرمایئے)۔

بیگم صاحبہ بھی سب کو مصروف دیکھ کر اپنا لیپ ٹاپ و آئی فون استعمال کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ دونوں میاں بیوی اپنے اپنے فون پر جس سے بھی گفتگو کر رہے ہوتے ہیں اُس میں اہم ذکر یہ ہوتا ہے کہ ملک کے حالات بہت خراب ہیں ، مہنگائی بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔آمدن کی سمجھ نہیں آرہی کہ خرچے کیسے پورے کریں۔فلاں رشتے دار کے حالات اچھے نہیں ہیں اور رہائش کا مسئلہ بھی ہے۔بڑی پریشانی ہے کہ وہ کہاں رہے۔والدین اپنے گھر میں اکیلے ہیں۔سب اتنے مصروف ہیں کہ اتوار کو بھی اُنکو ملنے چلے جائیں تو ہفتے بھر کی تھکان کی وجہ سے وہاں سے بھی جلد واپس آجاتے ہیں۔

بزرگ کہاں جائیں
یہ کیسا زمانہِ حال ہے؟ بزرگ گھر میں ساتھ رہ نہیں رہے ہیں اور اگر رہ رہے ہیں تو اُنکے پاس خیال رکھنے والے یا گفتگو کرنے والے کوئی شفیع صاحب نہیں۔ کیونکہ اب وہ دور نہیں کہ کسی کا کمرہ و باتھ روم عام استعمال کیا جائے۔ گرمیوں میں چھت پر سونے کا دور نہیں رہا ہے اور اپنے اے ۔سی والے کمرے میں اُنکے لیئے جگہ نہیں ۔ بچے تعلیمی اداروں کی کُتب کے وزن تلے دبے ہوئے ہیں۔ باقی وقت کمپیوٹر و موبائل ۔ کسی کے ساتھ لُوڈو یا کیرم بورڈ کھیلنے کی گنجائش نہیں۔ ان حالات میں گھر میں موجود بزرگ والدین ،دادا ،دادی،نانا،نانی کہاں جائیں؟ ساتھ میں شفیع صاحب جیسے موجودہ دور کے محترم حضرات و خواتین (انکل و آپا) کونسے ایسے بھانجے بھتیجے تلاش کریں جو اُنکی اہمیت کو سمجھ سکیں اور وہ بھی اپنی زندگی کے آخری دن اپنوں کے ساتھ گزار سکیں۔ لہذا آج بھی ہمیں یہ ہی ذمہداری محسوس کرنی چاہیئے کہ "سب بزرگوں کا خیال رکھیں" ۔
 
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 307673 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More