متحدہ کی جیت ۔۔۔آخر مہاجر چاہتے کیا ہیں!

کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں متحدہ قومی موومنٹ کی کامیابی پر کچھ کہنے کہلانے کی ضرورت تو نہیں لیکن پاکستان کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت کچھ قوتوں کو حیران و پریشاں دیکھے جانے پر سوچا کہ اُن کی تشنگی دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں زمینی حقائق سے آگاہ کیا جائے ۔ ۔قارئین سوال یہ ہے کہ سندھ میں شہری علاقوں میں آباد اردو بولنے والا طبقہ جنھیں عام اصطلاح میں مہاجر بھی کہا جاتا ہے آخر کیوں اُس جماعت کو ووٹ ڈالنے پر مجبور ہوا جس پر عرصہ تیس سال سے جرائم و کرائم جیسے الزامات لگتے آرہے ہیں۔ ایک ایسی قوم جن کے آباؤ اجداد نے بھارتی بنیوں کی غلامی سے آزادی حاصل کی اور اپنے گھر بار دولت جائیدادیں زمینیں چھوڑ کر اپنی ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عصمتوں کی قربانیاں دے کر ملکِ خدا داد حاصل کیا آج اُن کی اولادیں کیونکر بھارتی ایجنٹوں ملک کے غداروں ٹارگیٹ کلروں بھتہ خوروں قبضہ مافیاؤں کو ووٹ دے کر اپنی نمائندگی کا حق دے رہی ہے کبھی اِس بارے لمحے بھر کے لئے کسی نے سوچا ۔۔؟یقینا نہیں کیونکہ اگر سوچا ہوتا تومخالفین آج یہ دن نہ دیکھتے۔ قارئین کسی بھی چیز کے بارے میں صحیح و درست فیصلہ کرنا اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب آپ اُس کی حقیقت اور حیثیت سے بخوبی واقف ہوں لہذا ضروری ہے کہ کسی بھی محاز پر کامیابی حاصل کرنے کے لئے زمینی حقائق کو سامنے رکھاجائے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ بات بخوبی سمجھی جاسکتی ہے کہ پچھلے تیس سالوں سے پاکستان کی سیاست میں مختلف سیاسی جماعتوں کا عروج و زوال لسانیت کے مکروفریب پر مبنی نعروں سے جڑا رہا ہے جس کی بدولت پاکستان میں موجود دیگرقوموں میں احساسِ محرومی نے جنم لیااور بحیثیت ایک قوم کاتصور گمشدگی کی ایسی علامت بنا کہ ہر ایک لسانی تفریقوں میں بٹتا نظر آیا جس کی تمام تر ذمہ داری اُن سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے اقتدار کی حوس کی خاطر اشرافیہ کے ہاتھوں اپنا ضمیر بیچ کر اُن کے ہاتھ مضبوط کئے ۔ اشرافیہ میں بیٹھے راجِ برطانیہ کے وہ جانشین جو سامراجی دور میں اپنی آزادی و خودمختاری کے عویض جاگیریں اپنے نام کرواچکے تھے اور کسی طور ریاست میں قائم اپنے تسلط کا خاتمہ نہیں چاہتے تھے۔دوسری طرف ریاست کے وہ غریب عوام جو ایک طویل جدوجہد کے بعد خود کو انگریزوں کے تسلط سے چھڑانے میں توکامیاب ہوگئے لیکن ریاست میں موجود اُن باقیات سے اپنی جان نہ چھڑاسکے جو سامراج کی کوکھ سے جنم لیکر پورے ملک میں مسلط ہوچکے تھے ۔اشرافیہ کی جانب سے اِس تسلط کوبرقرار رکھنے کے لئے انتہائی ضروری تھا کہ ایک قوم کے تصور کا خاتمہ کیاجائے اور تفریق کی بنیاد پر قوموں کے درمیان نفرت کے ایسے بیج بوئے جائیں جس کی زہر فشانی نسلوں پر محیط ہو ۔ جس طرح سامراج نے اپنے تسلط کو قائم رکھنے کیلئے ضمیر فروشوں کا سہارہ لیا تھا اس کی باقیات نے بھی اپنی اجارہ داری کو قائم رکھنے کیلئے نام نہاد دسیاستدانوں کا سہارہ لیکر بے چاری غریب و مظلوم عوام کو آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی غلامی کی کبھی نہ ٹوٹنے والی زنجیروں میں جکڑے رکھا۔ہر ممکن کوشش کے باوجود تکمیلِ پاکستان سے لیکرآج تک غریب و مظلوم عوام اشرافیہ کے تسلط اور ضمیر فروش سیاستدانوں کے ہاتھوں یرغمال بنی رہی ہے ۔ جب جب کوئی باضمیر انسان اِن مظلوموں کی داد رسی کرنے کھڑا ہوا اور مظلوموں کی پکا ر پر لبیک کہا اشرافیہ اور ضمیر فروشوں کی جانب سے اُسے اُسی طرح مغلوب کیا جانے لگا جس طرح سامراجی دور میں اُس وقت کے ضمیر فروشوں نے قائدِاعظمؒ کو کافرِ اعظم برطانوی ایجنٹ قرار دے کراپنے مقصد سے ہٹنے اور مغلوب کرنے کی ناکام کوشش کی تھی جس طرح سرسید احمد خان کی کردار کشی کرتے ہوئے لادینی سرٹیفکٹ سے نوازہ گیااور مولانا شوکت علی کو پابندِ سلاسل کیا گیا تھایاجس طرح عظیم مفکر علامہ اقبالؒ کو تکفیری کلمات سے نوازکر اُن کے فکری انقلاب کو عوام سے دور رکھنے کی ناکام کوشش کی گئی تاکہ قومی وحدت اور نطریے کے تشخص کو مسمار کیا جاسکے اختلافات کی دلدل میں دھکیل کر راجِ برطانیہ کے مفادات کو دوام بخشا جاسکے۔ لیکن باشعور عوام نے نہ اُس وقت ضمیر فروشوں کی باتوں پر کان دھرے اور نہ آج لاکھ کوششوں کے باوجود اِس امر کو ممکن بنایا جاسکا۔ کراچی کی عوام نے اپنے شعور اور قومی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مخالفین کے اعصابوں پرایسے ایٹمی دھماکے کئے جس کے تابکاری اثرات نے ابھی تک مخالفین کے ذہنوں کو ماؤف کئے رکھا ہے۔ جب ملک کی ہر سیاسی جماعت انتخابی مہم کے دوران اپنا منشور بتانے کے بجائے مثبت اقدامات اُٹھانے کے بجائے مظلوموں کی دادرسی کرنے کے بجائے اُن کی حق تلفی و محرومیوں پر آواز اُٹھانے کے بجائے اُن کی تیس سال سے نمائندگی کرنے والوں پر کیچڑ اُچھالنے لگے اُس جماعت کے منشور پر لعن طعن کرنے لگے جوکہ صرف و صرف اردو بولنے والوں اور دیگرمظلوم قوموں کے حقوق پر مبنی ہے تو پھر ملک کی کونسی باشعور عوام ٹھہری جو اُنھیں ووٹ دیکر کامیاب کرے۔کبھی کسی جماعت نے اردو بولنے والوں کی تیس سال سے نمائندگی کرنے والی جماعت کے ساتھ اُس کے مشکل وقت میں کاندھے سے کاندھا ملاکر اردو بولنے والوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی۔۔؟ متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ کسی ایک جماعت نے بھی پارلیمان سے لیکر ایوانِ بالا تک کسی سطح پر بھی اردو بولنے والوں کے حقوق کی جنگ لڑی ۔۔؟قارئین مجھے تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ کسی اور جماعت نے مہاجر حقوق کی بات کی ہواقتدار میں حصے داری کی بات کی ہو بلکہ اگرکسی سطح پر اردو بولنے والوں کو اختیارات ملنے کی امید روشن بھی ہوئی تو اُن سے وہ مدھم روشنی بھی چھین لی گئی۔ آج بھی حکمران سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت بحالتِ مجبوری بلدیاتی انتخابات کرانے پر راضی ہوئے جبکہ اِس میں بھی حق تلفی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے منتخب نمائندوں کو اختیارات سے محروم رکھا گیا۔یاد رکھیئے مہاجر سندھ دھرتی کو اپنی ماں سمجھتے ہیں اِس کی پوجا کرتے ہیں مہاجر نہ سندھ کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں نہ وطن کو وہ تو بس اپنے اکثریتی علاقوں میں بااختیار ہوکر جینا چاہتے ہیں دیگرقوموں کی طرح اقتدار میں اپنا حصہ چاہتے ہیں تاکہ اپنی آنے والی نئی نسلوں کو بہتر مستقبل دے سکیں۔
علی راج
About the Author: علی راج Read More Articles by علی راج: 128 Articles with 107170 views کالم نگار/بلاگر.. View More