سائنس کی دنیا اور ذہین ترین ممالک

اگر ہم دنیا کے بڑے مسائل سلجھانا چاہتے ہیں جیسے کہ موسمیاتی تبدیلیوں یا کھانے پینے کی اشیاﺀ کی حفاظت سے لے کر جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام وغیرہ تو ہمیں اس کے لیے بڑے پیمانے پر سائنسدانوں کی ضرورت ہوگی- ایک بین الاقوامی ادارے OECD نے دنیا کے 40 ترقی یافتہ ممالک کی STEM مضامین کی تعلیم کے حوالے سے درجہ بندی کی ہے جو کہ سائنسدانوں کی بنیاد قرار دیے جاتے ہیں- اس رینکنگ کی بنیاد (STEM) کی ڈگریوں کے حصول پر ہے٬ STEM بنیادی طور پر چار مضامین کا مجموعہ ہے جس میں سائنس٬ ٹیکنالوجی٬ انجنئیرنگ اور میتھ ( حساب ) شامل ہیں - اس سروے میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کونسے ممالک کے سب سے زیادہ طلبا (STEM) کے مطابق ڈگری رکھتے ہیں- دنیا کے 40 ترقی یافتہ ممالک کے سروے کے نتیجے میں سرفہرست آنے والے ان دس ممالک کے نام مندرجہ ذیل ہیں جو سائنس کی ڈگریوں میں سب سے آگے ہیں-
 

image
پرتگال کے 25 فیصد طلبا STEM کی ڈگریوں میں گریجویشن کیے ہوئے ہیں- اس ملک کے 72 فیصد افراد ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں اور دنیا کے ان 40 ممالک کے تعلیمی اداروں سے وابستہ ہیں جو اس سروے شامل ہیں -
 
image
آسٹریا کے بھی 25 فیصد طلبا STEM کے مضامین میں ڈگری رکھتے ہیں جبکہ یہ دنیا کا دوسرا ایسا سب سے زیادہ پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے افراد کا ملک ہے جن کی عمر ملازمت یا خدمات سرانجام دینے کے قابل ہے- آسٹریا کے ہر 1000 افراد میں سے 6.7 خواتین جبکہ 9.1 مرد ڈاکٹریٹ کا اعزاز رکھتے ہیں-
 
image
میکسیکو کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے 25 فیصد طلبا نے STEM سے متعلقہ مضامین میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے- سال 2002 میں صرف 24 فیصد طلبا یہ ڈگری رکھتے تھے تاہم جب میکسیکو کی حکومت نے تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری کرنے عائد ٹیکس پر چھوٹ دی تو سال 2012 میں یہ تعداد 25 فیصد تک جا پہنچی-
 
image
اسٹونیا کے 26 فیصد طلبا STEM گریجویٹس ہیں- اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ڈگری رکھنے والی زیادہ تر طالبات ہیں- اور یہ دنیا کے ان سرفہرست ممالک میں سے ایک ہے جہاں STEM کی ڈگریوں کی حامل خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے-
 
image
یونان نے 2013 میں اپنے جی ڈی پی کا صرف 0.08 فیصد حصہ تحقیق پر خرچ کیا جو کہ ترقی یافتہ ممالک میں سب سے کم بتایا جاتا ہے- شاید یہی وجہ ہے کہ STEM کی ڈگریوں کے حامل طلبا کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے- سال 2002 میں اس ملک کے 28 فیصد طلبا STEM کی ڈگریوں میں گریجویٹ تھے تاہم سال 2012 میں یہ صرف 26 فیصد رہ گئی-
 
image
فرانس کے 27 فیصد طلبا STEM کے مضامین سے میں کسی ایک مضمون کی ڈگری ضرور رکھتے ہیں- تاہم اس ملک کے زیادہ تر تحقیق دان کسی گورنمنٹ ادارے یا یونیورسٹی کے بجائے صنعتی اداروں میں ملازمت کرتے ہیں-
 
image
فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے 28 فیصد طلبا نے STEM کے مضامین میں گریجویشن کر رکھی ہے اور اس ملک کی زیادہ تر تحقیق دوسروں شعبوں کے بجائے میڈیکل کے حوالے سے شائع ہوئی ہیں-
 
image
سوئیڈن کے 28 فیصد افراد STEM گریجویٹ ہیں اور یہ ملک کمپیوٹر کے پیشہ ورانہ سب سے زیادہ استعمال کے معاملے میں ناروے تھوڑا ہی پیچھے ہے جس میں اپلیکشن کی تخلیق کے لیے کی جانے والی پروگرامنگ بھی شامل ہے- سوئیڈن کے تین چوتھائی ملازمین اپنی ملازمت کے دوران کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں-
 
image
جرمنی کے 31 فیصد طلبا STEM کے مضامین میں گریجویٹ ہیں اور یہ تعداد سالانہ 10 ہزار طلبا کی بنتی ہے- اس اعتبار سے جرمنی بڑی آبادی والے ممالک امریکہ اور چین سے تھوڑا ہی پیچھے ہے-
 
image
جنوبی کوریا دنیا کا سب سے زیادہ STEM ڈگری ہولڈر رکھنے والا ملک ہے اور یہاں کے 32 فیصد طلبا STEM گریجویٹ ہیں- تاہم 2002 میں یہ تعداد 39 فیصد تھی جس میں بعد میں کمی واقع ہوگئی لیکن اس کے باوجود اس فہرست میں اس کی پہلی پوزیشن برقرار ہے-
 
YOU MAY ALSO LIKE:

If we are to solve the biggest problems of our time — from climate change and food security to nuclear non-proliferation — we're going to need more scientists. That's partly why the Organization for Economic Cooperation and Development (OECD) tracks new college degrees in 40 of the world's most advanced countries. Now the group has released its 2015 Science, Technology and Industry Scoreboard report, which includes data up to 2012.