"وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا"کی تفسیر قسط دوم

باہمی بغض ‘ حسد اور عصبیت کی وجہ سے اختلاف کی ممانعت :
اس آیت میں تفرقہ کی ممانعت کا دوسرا محمل یہ ہے کہ مسلمان دنیاوی امور ‘ اغراض باطلہ ‘ بغض ‘ حسد اور عصبیت کی وجہ سے ایک دوسرے سے اختلاف نہ رکھیں اور تفرقہ میں نہ بٹ جائیں ‘ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ جب بھی مسلمان تفرقہ کا شکار ہوئے عنان حکومت ان کے ہاتھ سے جاتی رہی اور یا تو وہ صفحہ ہستی سے مٹادیئے گئے یا غیر قوموں کے محکوم اور غلام بن گئے ‘ اندلس میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی لیکن آپس کی تفرقہ کی وجہ سے عیسائیوں نے پوراسپین پر قبضہ کرلیا اور مسلمانوں کے لیے صرف تین راستے رکھے اندلس سے نکل جاؤ ‘ عیسائی ہو جاؤ یا پھر مرنے کے لیے تیار رہو حتی کہ ایک وقت ایسا آیا کہ پورے اسپین میں ایک بھی مسلمان نہ رہا ‘ بغداد میں اسی تفرقہ بازی اور شیعہ سنی اختلاف کی وجہ سے مسلمان کمزور ہو گئے اور ہلاکو کے ہاتھوں مسلمانوں کی ذلت کی ایک اور تاریخ لکھی گئی ‘ ہندوستان میں مسلمانوں نے کئی صدیوں تک حکومت کی لیکن جب مسلمانوں طوائف الملوکی کا شکار ہو گئے اور شراب اور موسیقی میں ڈوب گئے تو انگریزوں کی غلامی ان کا مقدرر بن گئی ‘ مشرقی پاکستان میں جب مسلمان اردو اور بنگلہ کے اختلاف کا شکار ہوئے تو مشرقی پاکستان ختم ہو گیا اور اب کراچی میں مہاجر اور غیر مہاجر کا اختلاف زور پر ہے اللہ جانے یہ قوم اس اختلاف سے نکل آتی ہے یا اپنی تباہ کاریوں کی ایک اور تاریخ رقم کرتی ہے ‘ بہرحال اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس قسم کے اختلاف سے روکا اور منع کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
(آیت) ’’ ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم ‘‘۔ (الانفال : ٤٦ )
ترجمہ : اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ‘ ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمانوں کا ایک دوسرے پر رحم کرنا ‘ ایک دوسرے سے دوستی رکھنا اور ایک دوسرے پر نرمی کرنا تم دیکھو گے کہ اس کی مثال ایک جسم کی طرح ہے ‘ جب جسم کے ایک عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم درد اور تکلیف سے بے قرار رہتا ہے اور جاگتا رہتا ہے ۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن ‘ مومن کے لیے ایک دیوار کی طرح ہے جس کے بعض اجزاء بعض کو مضبوط کرتے ہیں ‘ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی انگلیاں انگلیوں میں ڈالیں ۔
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منی میں فرمایا یہ کون سا دن ہے ؟ صحابہ نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں ‘ آپ نے فرمایا یہ یوم حرام ہے ‘ آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا شہر ہے ؟ صحابہ نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ شہر حرام ہے ‘ کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا مہینہ ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں ‘ آپ نے فرمایا یہ ماہ حرام ہے آپ نے فرمایا اللہ نے تم پر تمہارے خون ‘ تمہارے مال اور تمہاری عزتیں اس طرح حرام کر دیں ہیں جس طرح اس دن کی اس مہینہ میں اس شہر میں حرمت ہے ۔
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ‘ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ‘ ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو ‘ اور اللہ کے بندے بھائی بن جاؤ ‘ اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑ دے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا فسق ہے (گناہ کبیرہ) اور اس کا قتل کرنا کفر ہے ۔
حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو فسق کی تہمت لگائے نہ کفر کی ۔ ورنہ اگر وہ شخص اس کا مستحق نہ ہوا تو وہ (فسق یا کفر) کہنے والے کی طرف لوٹ آئے گا ۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ٨٩٣۔ ٨٨٩ ‘ ملتقطا ، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)
امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابو بکرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ بغاوت کرنے والے اور قطع رحم کرنے والے کو اخروی سزا کے باوجود جس قدر جلد دنیا میں سزا دیتا ہے کسی اور کو سزا نہیں دیتا ۔ (سنن ابوداؤد ج ٢ ص ‘ ٣١٦ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حسدکرنے سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔ (سنن ابوداؤد ج ٢ ص ‘ ٣١٦ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر پیر اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ‘اور ان دونوں دنوں میں ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جس نے شرک نہ کیا ہو مگر ان دو شخصوں کی مغفرت نہیں کی جاتی جو آپس میں عداوت رکھتے ہوں ‘ ان کے متعلق کہا جاتا ہے ان کو مہلت دو حتی کہ یہ آپس میں صلح کرلیں ۔ (سنن ابوداؤد ج ٢ ص ‘ ٣١٧ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)
حضرت ابودرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا میں تم کو اس عبادت کی خبر نہ دوں جس کا نماز زوزہ اور صدقہ سے زیادہ اجر ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں ! یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا دو لڑے ہوئے شخصوں میں صلح کرانا ۔ (سنن ابوداؤد ج ٢ ص ‘ ٣١٧ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ کسی مسلمان کے لیے تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے ترک تعلق رکھنا جائز نہیں ہے ‘ اور جس نے تین دن سے زیادہ ترک تعلق رکھا اور مرگیا تو وہ دوزخ میں جائیگا (سنن ابوداؤد ج ٢ ص ‘ ٣١٧ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر چڑھ کر بہ آواز بلند ندا کی : اے لوگو ! جوزبان سے اسلام لائے ہو اور تمہارے دلوں تک ایمان نہیں پہنچا ‘ مسلمانوں کو ایذاء نہ دو ‘ ان کو عار نہ دلاؤ ‘ ان کے عیوب نہ تلاش کرو ‘ کیونکہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیوب تلاش کرے گا ‘ اللہ اس کے عیوب کو ظاہر کر دے گا ‘ اور جس کے عیوب کو اللہ ظاہر کر دے گا اس کو رسوا کر دے گا ‘ خواہ وہ کجاوے کے اندر چھپا ہو ‘ حضرت ابن عمر (رض) نے ایک دن کعبہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو کس قدر عظیم ہے اور تیری حرمت کس قدر عظیم ہے اور اللہ کے نزدیک مومن کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے ۔ (جامع ترمذی ص ‘ ٢٩٧ مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)
امام ابن ماجہ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اندھی حمایت کے جھنڈے تلے لڑا وہ کسی عصبیت کی دعوت دیتا تھا یا عصبیت کی آگ بھڑکاتا تھا وہ جاہلیت کی موت مرا ۔ (سنن ابن ماجہ ص ٢٨٧ مطبوعہ کراچی)
فسیلہ کہتی ہیں کہ میرے والد بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کیا کسی شخص کا اپنی قوم سے محبت رکھنا عصبیت ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں ! لیکن عصبیت یہ ہے کہ کوئی شخص ظلم کے باوجود اپنی قوم کی مدد کرے ۔
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ۔ جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم کے ساتھ رہو ۔ (سنن ابن ماجہ ص ٢٨٣ ‘ مطبوعہ کراچی)
امام مالک بن انس اصبحی متوفی ١٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا آج وہ لوگ کہاں ہیں جو میری ذات کی وجہ سے آپس میں محبت کرتے تھے ؟ میں انہیں آج اپنے سائے میں رکھوں گا جس دن میرے سوا اور کسی کا سایہ نہیں ہے ۔
حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو لوگ میری وجہ سے باہم محبت رکھتے ہیں ‘ جو میری وجہ سے ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں کہ ان کے لیے میری محبت واجب ہو گئی ۔ (موطا امام مالک ص ٧٣٣ ‘ مطبوعہ مطبع مجتبائی پاکستان لاہور)
فرعی اور اجتہادی مسائل میں اختلاف کی گنجائش :
ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اصول دین اور عقائد میں اختلاف جائز نہیں ہے اور نہ حسد اور بغض کی وجہ سے باہم اختلاف کرنا جائز ہے ‘ البتہ مسائل فرعیہ میں ایک دوسرے سے اختلاف کرنا جائز ہے اور اس کی اصل یہ حدیث ہے :
امام بخاری روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ غزوہ احزاب سے لوٹے تو آپ نے فرمایا : بنو قریظہ ہی میں پہنچ کر نماز پڑھنا ‘ راستہ میں نماز کا وقت آگیا بعض صحابہ نے کہا جب تم ہم بنوقریظہ نہ پہنچ جائیں نماز نہیں پڑھیں گے اور بعض صحابہ نے کہا : نہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ مراد نہیں تھی ‘ ہم نماز پڑھیں گے ‘ بعد میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے ان میں سے کسی فریق کو ملامت نہیں کی ۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ١٢٩ )
بعض مسائل میں صحابہ کرام اختلاف رہا ہے ‘ حضرت عمر (رض) اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) جنبی کے لیے تیمم کے جواز کے قائل نہیں تھے اور حضرت عمار بن یاسر اور حضرت ابو موسیٰ اشعری اور دیگر صحابہ کرام اس کے جواز کے قائل تھے ‘ احرام باندھنے سے پہلے غسل کرکے خوشبو لگانے کو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) ناجائز کہتے تھے اور حضرت عائشہ (رض) اس کو جائز کہتی تھیں ‘ حضرت عمر فرماتے تھے کہ میت پر نوحہ کرنے والوں کا گناہ ہے اس میں میت کو عذاب کیوں ہوگا ؟ حضرت عمر (رض) اور حضرت عثمان (رض) حج تمتع کو ناجائز کہتے تھے اور باقی صحابہ کرام ۔ اس کو جائز کہتے تھے‘ ان تمام مذکورہ اختلافات صحابہ کی مثالیں صحیح بخاری اور دیگر حدیث کی کتابوں میں ہیں ۔
نیز حافظ سیوطی نے یہ حدیث ذکر کی ہے کہ میری امت کا اختلاف رحمت ہے ۔ (الجامع الصغیر ج ١ ص ٤٨ ‘ مطبوعہ بیروت) اس حدیث کو نصر المقدسی نے الحجۃ میں اور امام بیہقی نے الرسالۃ الاشعریۃ میں بغیر سند کے ذکر کیا ہے اور حلمی قاضی حسین اور امام الحرمین وغیرہ نے بھی اس کو وارد کیا ہے اور شاید کہ حفاظ کی بعض کتب میں اس کی تخریج ہے جو ہم کو نہیں ملی ۔
بعض چیزیں ایک امام کے نزدیک حرام ہیں اور دوسرے امام کے نزدیک حلال ہیں اس سے امت کے لیے عمل میں وسعت پیدا ہوگئی مثلا امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک خنزیر کے سوا تمام سمندری جانور حلال ہیں (امام شافعی کے بعض اقوال کے مطابق سمندری خنزیر بھی حلال ہے ‘ امام مالک نے بعض اقوال میں سمندری خنزیر کے متعلق توقف کیا ہے ‘ اور امام احمد کے نزدیک جو جانور صرف پانی میں زندہ رہتے ہوں وہ سب حلال ہیں ‘ انہوں نے سمندر خنزیر کا استثناء نہیں کیا ۔ ) اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک مچھلی کے سوا تمام سمندری جانور حرام ہیں ‘ اتفاق سے ساحلی علاقوں اور جزائر (مثلا انڈونیشیا ‘ ملائشیا اور مراکش وغیرہ) میں رہنے والے امام شافعی اور امام مالک کے پیروکار ہیں اور ان کے مذہب کے مطابق ان کے پیروکاروں کے لیے سمندری جانوروں سے غذا حاصل کرنا آسان ہو گیا ‘ اور امام ابو حنیفہ کے اکثر مقلدین خشکی کے علاقوں (مثلا برصغیر ‘ ترکی ‘ وسط ایشاء کی نوآزاد ریاستیں) میں رہنے والے ہیں لہذا ان کے لیے سمندری جانوروں کے حرام ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ فرعی مسائل میں اختلاف امت کے لیے رحمت اور وسعت کا باعث ہے اور یہ ممنوع نہیں ہے ۔ اسی طرح بعض احادیث میں ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھے ‘ بعض میں ہے آپ نے ناف کے نیچے ہاتھ باندھے ‘ بعض احادیث میں ہے آپ نے صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کیا اور بعض میں ہے آپ نے رکوع سے پہلے اور رکوع کے بھی بھی رفع یدین کیا ‘ اسی طرح آپ نے نماز میں آہستہ آمین بھی کہی ہے اور بلند آواز سے بھی ‘ اور ائمہ اربعہ میں سے ہر امام نے آپ کی کسی نہ کسی حدیث پر عمل کیا ہے اور اگر یہ اختلاف نہ ہوتا اور یہ سب ایک ہی طریقہ سے نماز پڑھتے تو آپ کے کئے ہوئے باقی اعمال متروک ہو جاتے ‘ اس اختلاف ائمہ کے سبب آپ کا کوئی عمل متروک نہیں ہوا اور آپ کا ہر عمل کسی نہ کسی امام کا مذہب بن کر قیامت تک کے مسلمانوں کی عبادات میں محفوظ ہو گیا تو اس اختلاف کی اس سے بڑھ کر اور کیا رحمت ہوگی !
Syed Imaad
About the Author: Syed Imaad Read More Articles by Syed Imaad: 144 Articles with 318258 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.