شائستہ سیاست اور وفاداری کی لازوال داستان !!!

ایوب خان کے اقتدار کا آفتاب نصف النہار پر تھا،سند ھ کے ایک دور افتادہ گاؤں ’’ہالہ‘‘ میں چند سیاستدان جمع ہوئے جنہوں نے ملک کی سیاسی صورتحال کا بغور جائزہ لیا اور سب نے ملک کے اندر موجود بظاہر سکون کے پس پردہ سراٹھاتے طوفان کو بھانپ لیا اور ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کی ضرورت وقت کا اہم تقاضا قرار دیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا۔سیاستدانوں کے اس اجتماع میں ذوالفقار علی بھٹو، ڈاکٹر مبشر حسن، جے اے رحیم خورشید حسن میر، شیخ محمد رشید مرحوم میاں محمود علی قصوری میاں خورشید مھمود قصوری کے والد نامدار سمیت بہت سی شخصیات شریک ہوئیں جو بعد میں ملک کی نامور شخصیات میں شمار ہونے لگیں، ان سب کے میزبان سندھ کی معروف روحانی درگاہ سرور نوح کے گدی نشین مخدوم آف ہالہ پیر محمد زمان طالب المولی تھے،مخدوم محمد زمان طالب المولی سندھ کے معروف دانشور ،شاعر تھے انکی شاعری اور مضامین سندھ کے قومی اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں، مخدوم محمد زمان طالب المولی سندھ کے ممتاز روحانی بزرگ حضرت غوث الحق مخدوم سرور نوح کے 17 ویں سجادہ نشین تھے سندھ کے لوگ دین شناسی اور سکون قلب کے لیے ان کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا کرتے تھے، مخدوم طالب المولی کے گھر جس پاکستان پیپلز پارٹی نے جنم لیا اسکے سنیئر وائس چیئرمین منتخب ہوئے اور آخری سانس تک پارٹی سے نہ صرف وابستہ رہے بلکہ پارٹی کے وائس چیئرمین کے عہدے پر برقرار بھی رہے، اور متعدد بار ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد حکومت میں بھی اہم عہدوں پر رہے، ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد ملک میں جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خاتمے کے لیے انہوں نے ایم آر ڈی کی تحریک سمیت دیگر پلیٹ فارم پر ااواز بلند کی اور اہم کردار ادا کیا، مکدوم طالب المولی 28 سے زائد کتب تحریر کیں اور ھکومت پاکستان نے انکی تعلیمی اور سماجی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہین تمغہ پاکستان ، شاہ لطیف بھٹائی ایوارڈ اور ہلال امتیاز عطا کیا…… مخدوم محمدامین الدین فہیم انہوں محمد زمان طالب المولی کے فرزند اکبر تھے اور حضرت غوث الحق سرور نوح کی درگاہ کے18ویں سجادہ نشین مقرر ہوئے تھے، باپ بھی سندھ کے غیر متنازعہ راہنما تھے تو بیٹا بھی مرت دم تک غیر متنازہ رہے، بات پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کے وفادار رہے تو مخدوم امین فہیم نے بھی ساری عمر پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان سے وفاداری نبھائی، اگر میں یوں کہو تو زیادہ بہتر ہوگا کہ مخدوم آف ہالہ نے پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان سے وفاداری کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔مخدوم طالب المولی بھی آکری سانسوں تک پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کے وفادار رہے اور انکے فرزند اکبر مخدوم امین فہیم نے بھی اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پیپلز پارٹی اور بھتو خاندان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا، حالانکہ انہیں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی جانب سے بڑے بڑے اہم عہدوں کی پیش کشیں کی گئیں جن میں وزارت عظمی سے کم کوئی پیش کش نہ تھی۔ لیکن مخدوم طالب المولی اور مخدوم امین فہیم نے ان حکومتی پیش کشوں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا اور پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان سے بیوفائی کرنے اور آمروں کے ہاتھوں پر بیعت ہونے سے انکار کردیا۔مرحوم غلام مصطفی جتوئی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو مخاطب ایکبار کہا تھا کہ ’’ بے شک وزارت عظمی کا عہدہ بے اختیار ہی کیوں نہ ہو مگر یہ بہت پرکشش اور جاذب نظر ہوتا ہے‘‘تاریخ میں جب بھی ہالہ کے مخدوم خاندان کا تذکرہ ہوگا تو مورخ لکھے گا کہ مخدوم محمزمان طالب المولی اور مخدوم محمدامین الدین فہیم سمیت مخدوم خاندان کے تمام افراد نے بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کے ساتھ وفاداری اور قربانیوں کا ایک نیا باب تحریر کیا ہے جو سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے، ہالہ کے اس خاندان نے ون یونٹ کے خاتمے ، آمریت سے ملک وملت سے نجات دلانے اورجمہوریت بحالی و استحکام کے لیے لازوال قربانیاں دیں ہیں۔جمہوریت اور بھٹو کاندان سے ان کی کمٹمنٹ کو ضیائی آمریت کے تمام ہتھکنڈے اور آمر جنرل پرویز مشرف کی تمام دلفریب آفرز ان کے پایہ استقلال مین لغرزش پیدا نہ کرسکیں۔

ہالہ کے اس امخدوم خاندان کو جہاں پیپلز پارٹی کی بنیاد اپنے گھر میں رکھنے کا اعزاز حاصل ہے وہاں اسے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ آصف علی زرداری کی صدارت میں جس پیپلز پارٹی نے اقتدار کے پانچ سال پورے کیے وہ ذوالفقار علی بھٹو والی پیپلز پارٹی نہیں تھی بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین تھی اور اس بات سے بھی بہت کم لوگ آگاہ ہیں کہ اس پیپلز پارٹی کے سربراہ مخدوم محمد امین الدین فہیم تھے لیکن پارٹی کے سربراہ ہونے کے باوجود انہوں نے محض وزارت تجارت کا قلمدان قبول کیا وہ بھی دوسروں کیطرح بڑا عہدہ لینے کی ضد کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ملک و قوم اور پیپلز پارٹی کے بہترین مفاد میں یوسف رضا گیلانی اور بعد ازاں راجہ پرویز اشرف کے وزیر اعظم بننے پر مہر تصدیق ثبت کی اور مخدوم خاندان کے بڑے پن کا مظاہرہ کیا جیسا کہ آج جنرل پرویز مشرف سے لیکر نواز شریف تک سب مخدوم امین فہیم کی وفات کو ملک و ملت کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دے رہے ہیں یہ بیانات محض خانہ پری کے لیے نہیں ہیں حقیقتتا میں ایسا ہے کیونکہ امین فہیم محض حضرت سرور نوح کے سجادہ نشین اور خالی سیاستدان ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک ’’با آصول اور کمٹمنٹ‘‘ والے سچے اور کھرے انسان تھے،پاکستان اور جمہوریت کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ پاکستان اور بھٹو خاندان بھی ایک دوسرے سے جرے ہوئے ہیں دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مخدوم خاندان نے پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کے لیے وزارت عظمی اور دیگر عہدوں کی پیش کشوں کو ضوتی کی تحوکر مار کر ٹھکرا یا-

زرداری دور مین ایک سازش کے تحت ان کے اکاونٹ میں کسی نے چار کروڑ روپے کی خطیر رقم جمع کروا دی اور میڈیا میں شور برپا ہوگیا تو مخدوم امین فہیم نے فوری طور پر چار کروڑ روپے واپس کروا دئیے شائد اسی سازش کا دکھ اور غم مخدوم صاحب کی بیماری کا موجب بنا اور وہ بلڈ کینسر کی موزی مرض سے لڑتے لرتے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ، امین فہیم کی موت ملک و قوم جمہوریت اور ان کے لاکھوں مریدین کے لیے بڑا نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔

ملک کا ایک اور قیقمتی سرمایہ جناب نوابزادہ جمیل الیدن عالی بھی رخصت ہوگئے ،عالی مرحوم کی بھی ملک و قو و ملت کے لیے گراں قدر خدمات ہیں ،وہ بلند پایہ ادیب ،شاعر اور اعلی اوصاف کے حامل سیاستدان بھی تھے 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑوایا مگر کامیاب نہ ہونے دیا گیا، بعد میں ایم کیو ایم نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں سینٹر منتخب کروایا اﷲ مرحوم کے درجات بلند کرے اور انہیں اپنے قرب کاص میں جگہ عنایت فرمائے -
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144084 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.